سوال
السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ
کیا کہتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں مسئلہ یہ ہے کہ عید برات کے موقعہ پر اور شادی وغیرہ کے موقعہ پر بینک سے جو کڑک نوٹ نکالے جاتے ہیں تو وہ پیسوں پر پیسے کم کرکے دیتے ہیں آیا یہ سود تو نہیں ہے؟ وہ کہتے ہیں کے ہم اپنی محنت لیتے ہیں۔ براء مھربانی اسکا جواب بھی سمجھائیں کوئی حل بھی نکال کردیں۔
العارض: سیف اللہ سندی
الجواب وباللہ التوفیق
باسمہ سبحانہ وتعالی
اصولی اعتبار سے موجودہ کرنسی کی حیثیت کو سمجھنے کے لئے اتنی بات ذہن نشین فرمالیں کہ ثمن کا تبادلہ جب ثمن سے ہو تو کمی زیادتی سود ہوگی، ثمن کی دو قسمیں ہے۔
(۱) ثمن خلقی، جیسے سونا، اور چاندی جو "حقیقی زر" ہے، کیوں کہ ان کی قوت خرید فطری ہے، اگر زر کی حیثیت سے ان کا رواج ختم بھی ہوجائے، تب بھی جنس کے اعتبار سے ان کی ذاتی مالیت برقرار رہتی ہے۔
(۲) ثمن عرفی جیسے عام کرنسی/نوٹ جو" اعتباری زر " ہے، اگر زر کی حیثیت سے ان کا رواج ختم ہوجائے تو سونے چاندی کی طرح ان کی افادیت باقی نہیں رہتی۔
لہذا آج کل نوٹوں کی حیثیت ثمن عرفی کی وجہ سے وہی ہے جو آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے زمانہ میں سونے اور چاندی کی ہوا کرتی تھی، اور سونے اور چاندی کے جو احکام ہیں وہی احکام نوٹوں کے بھی ہوں گے اور جس طرح سونا سونے کے بدلے میں چاندی چاندی کے بدلے میں کمی زیادتی سے جائز نہیں ہے اسی طرح موجودہ کرنسی بھی اگر ایک ہی ملک کی ہو تو کمی زیادتی کے ساتھ جائز نہیں ہے، کیونکہ اس کی شرعی حیثیت بدل چکی ہے۔
کرنسی نوٹوں کی شرعی حیثيت پر اسلامک فقہ اکیڈمی دہلی کا دوسرا فقہی سمینار ۸ تا ۱۱ دسمبر ۱۹۸۹ منعقد ہوا تھا. اس سمینار میں کرنسی نوٹوں کے متعلق جو تجاویز منظور ہوئی تھیں وہ درج ذیل ہیں۔
۱) کرنسی نوٹ سند وحوالہ نہیں بلکہ ثمن ہے.اور اسلامی شریعت کی نظر میں کرنسی نوٹوں کی حیثيت زر اصطلاحی و قانونی کی ہے۔
۲) عصر حاضر میں نوٹوں نے ذریعۂ تبادلہ ہونے میں مکمل طور پر زر خلقی(سونا چاندی) کی جگہ لے لی ہےاور باہمی لین دین نوٹوں کے ذریعہ انجام پاتا ہے.اسلئے کرنسی نوٹ بھی احکام میں ثمن حقیقی کے مشابہ ہے۔ (نئے مسائل اور علماء ہند کے فیصلے ۱۱۰)
مسؤلہ صورت میں جب نوٹوں کا تبادلہ کرنا ہو اور ایک ہی ملک کی کرنسی ہو، تو اس میں برابری ضروری ہے، کمی یا زیادتی سود میں شمار ہوگی، چاہے نوٹ نئے ہوں یا پرانے ہوں، لہذا کڑک نوٹ کے بدلے میں اضافی رقم لینا سود ہونے کی وجہ سے ناجائز ہے۔
اگر ایسا عقد کرنا ضروری ہو تو جواز کی صورت یہ ہوسکتی ہے کہ نئے نوٹ دینے والا شخص نئے اور کڑک نوٹ کے ساتھ کوئی اور چیز بھی ملالے مثلاً ہزار روپے کی مالیت نوٹ کے ساتھ ایک قلم ساتھ رکھ کر ایک ہی عقد میں فروخت کرے، چناں چہ ایک ہزار روپے کے عوض ایک ہزار روپے ہوجائیں گے، اور جو زائد رقم ہوگی وہ قلم کے عوض ہوجائے گی۔
ہدایہ میں ہے
الصرف هو البيع إذا كان كل واحد من عوضيه من جنس الأثمان۔۔۔قال: "فإن باع فضة بفضة أو ذهبا بذهب لا يجوز إلا مثلا بمثل وإن اختلفا في الجودة والصياغة" لقوله عليه الصلاة والسلام: "الذهب بالذهب مثلا بمثل وزنا بوزن يدا بيد والفضل ربا" الحديث وقال عليه الصلاة والسلام: "جيدها ورديئها سواء" وقد ذكرناه في البيوع۔ (الھدایۃ: ۳/۸۱ ط: دار احیاء التراث العربی)
تکملۃ فتح الملہم میں ہے
وأما الأوراق النقدیۃ وھي التي تسمی نوت ….... فالذین یعتبرونھا سندات دین، ینبغي أن لا یجوز عندھم مبادلۃ بعضھا ببعض أصلا، لاستلزام بیع الدین بالدین، ولکن قدمنا ھناک أن المختار عندنا قول من یجعلھا أثمانا، وحینئذ تجري علیھا أحکام الفلوس النافقۃ سواء بسواء وقدمنا آنفا أن مبادلۃ الفلوس بجنسھا لا یجوز بالتفاضل عند محمد رحمہ اللہ، ینبغي أن یفتی بھذا القول في ھذا الزمان سدا لباب الربا، وعلیہ فلا یجوز مبادلۃ الأوراق النقدیۃ بجنسھا متفاضلا، ویجوز إذا کانت متماثلا......وأما العملۃ الأجنبیۃ من الأوراق فھي جنس آخر، فیجوز بالتفاضل، فیجوز بیع ثلاث ربیات باکستانیۃ بریال واحد سعودي (تکملۃ فتح الملہم۔ کتاب المساقاۃ والمزارعۃ، حکم الأوراق النقدیۃ ١/ ٥٨٩ ۔ ٥٩٠)
واللہ أعلم بالثواب والیہ المرجع والمآب
العارض مفتی آصف بن محمد گودھروی
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں