سوال
السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ
حضرت اگر کسی شخص کی شادی ھو رہی ھو تو کیا اسکے اوپر نوٹ نچھاور کرنا جائز ھے شرعی اعتبار سے اسکی کیا حیثیت ھے؟ کیسا ھے؟
سائل : سیف اللہ سندی
الجواب وباللہ التوفیق
باسمہ سبحانہ وتعالی
شادی کے موقع پر کچھ بعض جگہوں میں خاص رسومات اسلامی معاشرے میں پنپ چکی ہے جو غیروں کا خاص وطیرہ رہا ہے جیسے دلہن اور دلہا کے سر پر تیل لگانا، دلہا کو ہار پہنانا اور اس پر پیسہ نچھاور کرنا یہ سب محض جاہلانہ رسمیں ہیں اور اس میں بعض اوقات دلہن کے پاس غیر محرم مردوں کا بھی آنا جانا ہوتا ہے جو اور زیادہ قبیح فعل اور بے حیائی کی بات ہے، شریعت مطہرہ میں ان رسومات کی کوئی حیثیت نہیں، اس لیے ان کا ترک لازم اور ضروری ہے اس میں تشبہ بالاغیار بھی لازم آتا ہے اس لئے کہ یہ غیروں کا طریقہ ہے اور اس سے شریعت نے من تشبہ بقوم فھو منہ کہ کر اس سے روکدیا ہے۔
لہذا جس طرح اور رسومات سے علماء کرام نے منع کیا ہے اسی طرح دولہا اور دلہن کے اوپر جو پیسے نچھاور کرنے کا معمول ہے اس سے بھی علماء نے منع فرمایاہے کہ روپے پیسے کو اللہ عزوجل نے خلق (لوگوں) کی حاجت روائی کے لئے بنایا ہے تو اسے پھینکنا نہیں چاہئے اس طرح بلا کسی ضرورت کے پیسے ضائع کرنا اسراف ہے جس کو شریعت نے سختی سے منع فرمایا ہے۔ قرآن مجید میں ہے وَكُلُواْ وَاشْرَبُواْ وَلاَ تُسْرِفُواْ إِنَّهُ لاَ يُحِبُّ الْمُسْرِفِينَO اور کھاؤ اور پیو اور حد سے زیادہ خرچ نہ کرو کہ بیشک وہ بے جا خرچ کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتا۔
اسی طرح دوسری جگہ ایسے لوگوں کو شیطان کا بھائی قرار دیا ہے قرآن میں ہے إِنَّ الْمُبَذِّرِينَ كَانُواْ إِخْوَانَ الشَّيَاطِين بیشک فضول خرچی کرنے والے شیطان کے بھائی ہیں،
اسی طرح گلیوں میں محلے سے بارات گزرنے پر پیسے پھینکے جاتے ہیں جو اکثر نیچے گرتے اور گم ہوجاتےہیں یا نالیوں میں گر جاتے ہیں، یہ پیسوں کا ضائع کرنا اور اللہ کی نعمت کی بے حرمتی کرناہے اور ناشکری ہے قرآن میں شکرگزاری کا حکم ہے اور ناشکری پر وعید وارد ہے، لَىٕنْ شَكَرْتُمْ لَاَزِیْدَنَّكُمْ وَ لَىٕنْ كَفَرْتُمْ اِنَّ عَذَابِیْ لَشَدِیْدٌ اس لئے ایسا کرنے سےمنع فرمایا گیاہے
واللہ أعلم بالثواب والیہ المرجع والمآب
العارض مفتی آصف بن محمد گودھروی
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں