سوال
حضرت مفتی صاحب مسئلہ یہ ہے کہ انسان کی منی پاک ہے یا ناپاک ہے؟ اگر کپروں پر لگ جائے تو کیا وہ ناپاک ہوجائیں گے؟ اور اس کو دھونا ضروری ہے ؟ یا بغیر دھوئے بھی نماز ہوجائے گی؟ اگر دھونا ضروری ہے تو کتنی مقدار دھوئے پورا کپڑا یا جہاں پر منی لگی ہے اس جگہ کو دھوئے؟ اور دھونے کے بعد اس کا سکھانا ضروری ہے یا دھوکر فوراً اس کپڑے کو استعمال کرسکتے ہیں؟ اور منی کے دھونے کا طریقہ کیا ہے؟
سائل: حافظ مستقیم مدھوبنی
الجواب وباللہ التوفیق
باسمہ سبحانہ وتعالی
انسان کی منی ناپاک ہے کپڑوں پر لگ جائے تو کپڑے ناپاک ہوجائیں گے اور اس کا دھونا ضروری ہوگا اگر اس کی مقدار ایک درہم سے زائد ہو تو اس میں نماز پڑھنا جائز نہیں ہے اور اگر منی ایک درہم کی مقدار سے کم ہو تو ایسے کپڑوں میں کراہت کے ساتھ نماز ادا ہوجائے گی
چونکہ منی بھی ایک نجاست ہے اور نجاست کا حکم شرعی یہ ہے کہ کپڑے کے جس حصہ میں نجاست لگ جائے وہی حصہ دھودے تو کپڑا پاک ہوجائے گا پورا کپڑا دھونا ضروری نہیں یہی حکم منی کا ہے کہ جہاں لگی ہے صرف اسی جگہ کو پاک کرنا ضروری ہے۔
امداد الاحکام میں ہے کہ احتلام ہونے پر تمام کپڑے ناپاک نہیں ہوتے بلکہ جس کپڑے پر جتنی دور تک منی کا اثرمعلوم ہو وہ کپڑا اسی قدر ناپاک ہوتا ہے، باقی سب پاک ہیں۔ (امداد الاحکام) فصل في النجاسۃ و أحکام التطھیر )
اسی طرح منی لگے کپڑوں کو اچھی طرح دھولیا جائے، اور منی کے اثرات بالکل ختم ہوجائیں اور کپڑوں پر صرف پانی کی تری باقی ہو تو کپڑے پاک شمار ہوں گے اس کو سکھانا ضروری نہیں ہے، دھونے کے بعد گیلے کپڑے بھی استعمال کرسکتے ہیں،
منی کو پاک کرنے کے دو طریقے ہیں
(۱) منی اگر گاڑھی ہو اور خشک ہوکر سوکھ جائے تو ایسی صورت میں اس کو کھرچ کر یعنی رگڑکر اس کے اثرات زائل کرنے سے بھی کپڑا پاک ہوجائے گا، اس بارے میں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی روایت کتب حدیث میں موجود ہے، اور یہ حکم غلیظ (گاڑھی) منی کے ساتھ خاص ہے اور اگر منی کسی بیماری یا کسی اور وجہ سے رقیق (پتلی) ہوگئی ہوتو دھونا ضروری ہوگا۔
(۲) اور اگر منی رقیق یعنی نرم اور پتلی ہوتو اس کو دھوکر پاک کرنا ضروری ہے اس طور پر کہ تین مرتبہ دھویا جائے اور ہرمرتبہ نچوڑا بھی جائے، یہاں تک کہ اس کا اثر (چکناہٹ وغیرہ) زائل ہوجائے۔
سنن ابی داؤد میں ہے
وأن عائشۃ قالت: کنت أفرک المني من ثوب رسول اللّٰہ فیصلی فیہ۔ (سنن أبوداود کتاب الطہارۃ، باب المنی یصیب الثوب،١/٥٣ مکتبۃ نعیمیہ دیوبند)
فتاوٰی ہندیہ میں ہے
ثوب نجس غسل في ثلاث جفان، أو في واحدة ثلاثا، وعصر في كل مرة طهر؛ لجريان العادة بالغسل. هكذا فلو لم يطهر لضاق على الناس. (الفصل الأول في تطهیر الأنجاس: ١/٤٣ ط حقانیة)
فتاوی شامی میں ہے
(ويطهر مني) أي: محله (يابس بفرك) ولايضر بقاء أثره (إن طهر رأس حشفة) كأن كان مستنجيا بماء.... (وإلا) يكن يابساً أو لا رأسها طاهراً (فيغسل) كسائر النجاسات ولو دماً عبيطاً على المشهور (بلا فرق بين منيه) ولو رقيقاً لمرض به (ومنيها) ولا بين مني آدمي وغيره كما بحثه الباقاني (ولا بين ثوب) ولو جديداً أو مبطناً.
(قوله: بفرك) هو الحك باليد حتى يتفتت بحر. (قوله: ولايضر بقاء أثره) أي: كبقائه بعد الغسل، بحر.
(قوله: بلا فرق) أي: في فركه يابساً وغسله طرياً (قوله: ومنيها) أي: المرأة كما صححه في الخانية، وهو ظاهر الرواية عندنا كما في مختارات النوازل وجزم في السراج وغيره بخلافه ورجحه في الحلية بما حاصله: إن كلامهم متظافر على أن الاكتفاء بالفرك في المني استحسان بالأثر على خلاف القياس، فلايلحق به إلا ما في معناه من كل وجه، والنص ورد في مني الرجل ومني المرأة ليس مثله لرقته وغلظ مني الرجل، والفرك إنما يؤثر زوال المفروك أو تقليله وذلك فيما له جرم، والرقيق المائع لايحصل من فركه هذا الغرض فيدخل مني المرأة إذا كان غليظاً ويخرج مني الرجل إذا كان رقيقاً لعارض اهـ
أقول: وقد يؤيد ما صححه في الخانية بما صح «عن عائشة - رضي الله عنها - كنت أحك المني من ثوب رسول الله - صلى الله عليه وسلم - وهو يصلي» ولا خفاء أنه كان من جماع؛ لأن الأنبياء لاتحتلم، فيلزم اختلاط مني المرأة به، فيدل على طهارة منيها بالفرك بالأثر لا بالإلحاق فتدبر۔ (الدر المختار وحاشية ابن عابدين کتاب الطہارت باب الانجاس ١/ ۵١٤ ۔ ۵١٦)
واللہ أعلم بالثواب والیہ المرجع والمآب
العارض مفتی آصف بن محمد گودھروی
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں