اتوار، 31 دسمبر، 2023

نئے سال کی تقریبات منانا اور اس میں مٹھائیاں تقسیم کرنا کیسا ہے؟ سوال نمبر ٤٤٧

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام مندرجہ ذیل  مسئلہ کے بارے میں کہ نئے عیسوی سال کی مبارکباد دیتے ہوئے "Happy New Year" ہیپی نیوائیر کہنے کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ اور ہیپی نیو اِیئر(happy new year.)کے میسیج آنے پر اس کے جواب میں ہیپی نیو اِیئر لکھ کر بھیج سکتے ہیں؟ اسی طرح نئے عیسوی سال کی ”مبارکباد دینا اور دوست احباب کو ”مبارکبادی” کے کارڈ بھیجنا اور نئے سال کی تقریب منانا کیسا ہے؟ اور اس رات مٹھایاں تقسیم کرنا اور اس کا کھانا کیسا ہے؟ اسلام میں نئے سال کے آغاز کے وقت کیا کرنا چائیے؟ اسی طرح اس وقت کے لئے کوئی خاص دعا یا عمل ہے؟ مدلل جواب مطلوب ہے

سائل مولوی عبدالحق قاسمی


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی


 ہیپی نیو اِیئر(happy new year) منانا یہ یہود و نصارٰی کا ایجاد کردہ مفاسد پر مبنی تہوار ہے جو کسی مسلمان کے لئے منانا درست نہیں ہے بلکہ ہر مسلمان پر لازم ہے کہ ہر حال میں كتاب وسنت کو لازم پکڑے اور جو لوگ راہ حق سے بھٹک چکے ہیں انکی گمراہیوں میں پڑنے سے بچے، کیونکہ طریقۂ اسلامی دنیا وآخرت میں بندے کی کامیابی کا ضامن ہے، اسی وجہ سے اسلام نے ان تمام نقصان دہ امور سے منع فرمایا ہے جو اس کے دین و ایمان، جان و مال، اس کی عزت و آبرو اور سوچ و عقل کو نقصان پہنچائے۔

اس کے بالمقابل کفار جو کہ اسلام اور اہل اسلام کے بد ترین دشمن ہیں، وہ دین اسلام اور مسلمانوں کو مٹانے کے لیے بھر پور جدوجہد اور کوشش کر رہے ہیں اور کفار کی  جد و جہد کا ایک اہم ترین حصہ نظریاتی جنگ ہے جو وہ مسلمانوں سے مختلف محاذوں پرمختلف انداز سے  لڑرہے ہیں، جس کے ذریعے وہ ہمارے افکار، عقائد، دینی وثقافتی اقدار کو ٹارگٹ کررہے ہیں، کفر کے نظریاتی ہتھیاروں میں سے ایک ہتھیار غیر اخلاقی تہوار ہیں جو اپنی تاثیر، فساد اور نقصانات و بگاڑ کے اعتبار سے مسلمانوں کو وہ نقصان دے رہے ہیں جو کہ شاید وہ عسکری جنگ کے ذریعے بھی نہ پہنچا سکے ہوں۔

لہذا اصولی اعتبار سے اتنی بات سمجھ لیں کہ کوئی ایسی چیز جو غیروں کے تہوار یا فاسقوں کے فسق اور ان کے شعائر کے ساتھ خاص ہو اس میں کسی بھی اعتبار سے شامل ہوکر مدد کرنا گناہ کے کام میں مدد کرنا ہے جس کی قرآن میں ان الفاظ سے ممانعت آئی ہے، وَلاَ تَعَاوَنُواْ عَلَی الِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَاتَّقُواْ اللّہَ اِنَّ اللّہَ شَدِیْدُ الْعِقَاب، المائدة 

اسی طرح قرآن پاک میں دوسری جگہ فرمان باری تعالیٰ ہے وَلَا تَرْکَنُوا إِلَی الَّذِینَ ظَلَمُوا فَتَمَسَّکُمُ النَّارُ یعنی اے مسلمانو! ظالموں کی طرف (ان کے مذہبی امور یا احوال واعمال میں مشارکت و مشابہت سے) مت جھکو کبھی تم کو دوزخ کی آگ لگ جائے، ادنی سے میلان اور مشابہت سے دوزخ میں جانے کا خطرہ ہے۔

اسی طرح آپ صلی ﷲ علیہ وسلم نے دوسری قوموں کی عادات، رسم و رواج، طور طریقے اور مذہبی شعار اپنانے کو دائرہ اسلام سے نکل کر انہی کے مذہب کے دائر ے میں داخل ہونے کے مترادف قرار دیا ہے، جیسا کہ آپ علیہ السلام نے فرمایا:”من تشبہ بقوم فھو منھم” ابوداؤد) ترجمہ: جو شخص جس قوم کی مشابہت اختیار کرے وہ انہیں میں سے ہے۔

اب یہ بات بھی قابل غور ہے کہ اسلام نے غیروں کی نقالی سے کیوں منع کیاہے؟ علامہ ابن تیمیہ رحمہ ﷲ نے ”اقتضاء الصراط المستقیم” میں غیروں کی نقالی کے ممنوع ہونے کی بہت ساری وجوہات ذکر کی ہیں اور اس پر تفصیلی کلام کیا ہے، اختصاراً اس کا خلاصہ پیش خدمت ہے۔

۱۔ غیروں کی پیروی کرنے سے یا ان کی نقالی سے آدمی خود بخود صراطِ مستقیم کی پیروی سے ہٹ جاتا ہے۔

۲۔ ان کی پیروی کرنے یا ان کی نقالی سے قلبی موانست ومحبت پیدا ہو جاتی ہے جو سراسر ایمان کے منافی ہے۔

۳۔ ان کی مسلسل مشابہت کرتے رہنے سے شریعت مطہرہ سے نفرت پیدا ہونے لگتی ہے اور ایمان کمزور سے کمزور تر ہوتا چلاجاتا ہے۔

٤۔ اُن کی بُری عادات وصفات بھی اچھی لگنے لگتی ہیں اور آوارگی، بے حیائی اور جنسی بے راہ روی عام ہو جاتی ہے۔

۵۔ مسلمانوں کی اس نقالی کو دیکھ کر کفار دلی خوشی محسوس کرتے ہیں اور اپنے کفر پر مضبوط سے مضبوط تر ہوتے چلے جاتے ہیں۔

٦۔ کفار کے اعمال، عقائد، رسم و رواج اور جشن وتہوار سب کے سب برائیوں کا مجموعہ اور بھلائیوں سے یکسر خالی ہیں۔ (اقتضاء الصراط المستقیم: ص۲۱۲)

مندرجۂ بالا تفصیل سے واضح ہوگیا کہ سوال میں ذکر کردہ رسومات اُن کے دیگر مفاسدِ کثیرہ سے قطعِ نظر غیر اسلامی تہوار ورسومات ہیں، اور غیروں کے تہواروں کو اپنانے کی شریعت میں کوئی گنجائش نہیں ہے اور ان کے ایسے تہوار بھی جس کا تعلق جہالت پرمبنی خوشی سے ہے اس قسم کے تہواروں میں اگرچہ کفر تو نہیں ہے لیکن اس فعل قبیح میں ان کی تعداد کے اضافے کا سبب ہے اور حدیث (من كثر سواد قوم فہو منہم کنزالعمال ۲۲٫۹) کے مصداق ہوکر گناہ گار ہوں گے، لہذا اس فعل سے بچنا ضروری ہے

اور سال کے آغاز کے موقع پر ہیپی نیو اِیئر(happy new year) منانا اور اس کی مبارک باد دینا یہ غیروں کا طریقہ ہے جو درست نہیں ہے اسی طرح اس میں مٹھائیاں تقسیم کرنا اور کیک وغیرہ کاٹنا یہ غیروں کا شیوہ ہونے کی وجہ سے درست نہیں ہے مسلمانوں کے لئے تو ہر آنے والا نیا سال خوشی کے بجائے بے چین کردیتا ہے، کہ اس کی زندگی کے اعمال کے مواقع محدود ہوکر اب ایک اور سال کم ہوگیا اور موت سے ‌مزید قریب ہوگیا۔

جہاں تک مٹھائی کا مسئلہ ہے تو چونکہ مٹھائیاں فی نفسہ حلال ہے اگر ایسے موقع پر کسی جگہ سے آئی ہو اور اس میں کسی قسم کی حرمت والی اشیاء کی ملاوٹ نہ ہو اور نہ ہی وہ کسی کا چڑھاوا ہو بلکہ یقین ہو کہ سیدھے دکان سے خریدی ہوئی ہے تو اس کا قبول کرنا اور کھانا درست ہے لیکن موقع کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے قبول نہ کرنا اور نہ کھانا أولی ہے 

البتہ اگر کسی نے عبادت یا ضروری سمجھے بغیر مبارک باد دی اور خیر و برکت کی دعادیں اور اعمال کی طرف راغب ہونے کی ترغیب دیں تو حرج نہیں لیکن اس سے بھی تشبہ بالاغیار کے اشتباه کی بنا پر اس خاص موقع پر احتراز اولی ہے۔

اس موقع پر ہم مسلمانوں کو دو کام خصوصی طور پر کرنے چاہیئے: (۱) ماضی کا احتساب (۲) آگے کا لائحہ عمل۔ ہر آنے والا نیا سال خوشی کے بجائے ایمان والے شخص کو بے چین کردیتا ہے، کیونکہ اس کو اس بات کا احساس ہوتا ہے کہ میری عمر رفتہ رفتہ کم ہورہی ہے اور برف کی طرح پگھل رہی ہے، وہ کس بات پر خوشی منائے؟ بلکہ اس سے پہلے کہ زندگی کا سورج ہمیشہ کے لیے غروب ہوجائے، آخرت کے لیے کچھ تیاری کر نے کی تمنا اس کو بے قرار کردیتی ہے، اس کے پاس وقت کم اور کام زیادہ ہوتاہے، اس لیے مسلمانوں کےلیے نیا سال وقتی لذت یا خوشی کا موقع نہیں، بلکہ گزرتے وقت کی قدر کرتے ہوئے آنے والے لمحاتِ زندگی کے صحیح استعمال کرنے کے عزم و ارادے کا موقع ہے۔

اس موقع پر کوئی خاص دعا یا عمل تو احادیث میں نہیں ملا البتہ نئے مہینے کے رؤیت ہلال پر مندرجہ ذیل دعا کتبِ حدیث میں منقول ہے، جس کو تفاعلاً نئےسال کےداخل ہونے پر بھی پڑھلی جائے تو بہتر ہے۔

اللَّهُمَّ أَدْخِلْهُ عَلَيْنَا بِالْأَمْنِ وَالْإِيمَانِ ، وَالسَّلَامَةِ وَالْإِسْلَامِ ، وَرِضْوَانٍ مِنَ الرَّحْمَنِ ، وَجِوَارٍ مِنَ الشَّيْطَانِ۔ ترجمہ: اےاللہ اس چاند کو ہمارے اوپر امن، ایمان، سلامتی اور اسلام کے ساتھ اور رحمان کی رضامندی اور شیطان کےبچاؤ کے ساتھ داخل فرما۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سنن ابی داؤد میں ہے

عـن ابـن عـمـر، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم من تشبه بقوم فهو منهم. (سنن أبي داؤد، كتاب اللباس ، باب في لبس الشهرة ٢/۵۵٩ ، دار السلام)


شرح فقه اكبر میں ہے

ولو شبـه نـفـسـه بـاليهود، أوالنصارى: أي صورة أوسيرة على طريق المزاح، والهزل، ولو على هذا المنوال كفر الخ. (شرح فقه اكبر ، جديد اشرفي دیوبند ۲۲۸ ، قديم ٢٢٦)


مجمع الزوائد ومنبع الفوائد  میں ہے:

وعن عبد الله بن هشام قال: كان أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم  يتعلمون هذا الدعاء إذا دخلت السنة أو الشهر: "اللهم أدخله علينا بالأمن والإيمان، والسلامة والإسلام، ورضوان من الرحمن، وجوار من الشيطان. (باب مایقول اذا رأى مایعجبہ،  ۱۰/۱۳۹ مکتبۃ القدسی، القاھرہ)


بخاری شریف میں ہے

حدثنا علي بن عبد الله، حدثنا محمد بن عبد الرحمن أبو المنذر الطفاوي، عن سليمان الأعمش، قال: حدثني مجاهد، عن عبد الله بن عمر رضي الله عنهما، قال: أخذ رسول الله صلى الله عليه وسلم بمنكبي، فقال: كن في الدنيا كأنك غريب أو عابر سبيل» وكان ابن عمر، يقول: إذا أمسيت فلا تنتظر الصباح، وإذا أصبحت فلا تنتظر المساء، وخذ من صحتك لمرضك، ومن حياتك لموتك۔


فتاوی بزازیہ کی عبارت سے یہی مترشح ہوتا ہے۔

اجتمع المجوس یوم النیروز فقال مسلم: خوب سیرت نہاوند یکفر۔۔۔ وما یھدی المجوس یوم النیروز من أطعمتھم إلی الأشراف ومن کان لھم معرفة لا یحل أخذ ذلک علی وجہ الموافقة معھم وإن أخذہ لا علی ذلک الوجہ لا بأس بہ والاحتراز عنہ أسلم(الفتاوی البزازیة علی ھامش الھندیة، ٤/۳۳۳، ط: مکتبة زکریا دیوبند)


واللہ أعلم بالثواب والیہ المرجع والمآب 

العارض مفتی آصف بن محمد گودھروی

جمعہ، 8 دسمبر، 2023

کسی کا اپنی اولاد کو یہ کہنا کہ میری ساری ملکت تمہاری ہے تو وراثت میں اس کا کیا حکم ہے؟ سوال نمبر ٤٤٦

 سوال

السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام مسئلہ ذیل میں کہ ایک آدمی نے اپنی حیاتی میں اپنی اولاد کو یہ کہا ہے کہ "میری ساری جائداد تمہاری ہے" اور ان کے انتقال کے وقت سات بیٹیاں پانچ پوتے اور ایک پوتی ہے  اور میت کا ایک بھائی اور دو بہنیں بھی ہیں

اب سوال یہ ہے کہ اس آدمی کا یہ کہنا کہ "میری ساری ملکت تمہاری ہے" تو اس سے وہ مالک ہوجائے گے اسی طرح بعض ملکت ان کی وراثت میں آئی ہوئی تھی جو ابھی غیر تقسیم شدہ ہے اس کا کیا حکم ہے وہ اس جملے میں داخل ہوگی یا نہیں؟ مدلل مفصل جواب عنایت فرمائیں مہربانی ہوگی

سائل: قاری عبدالرحمن ایم پی


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی


واضح رہے کہ  زندگی میں اپنی جائیداد اپنی  اولاد کو دینا ہبہ (گفٹ) ہے اور ہبہ کے تام ہونے اور ملکیت کا فائدہ دینے کے لیے قبضہ اور تصرف کا مکمل اختیار دینا شرط ہے لہٰذا جو جائیداد اپنی اولاد کو مکمل قبضہ اور تصرف کے اختیار کے ساتھ دے دی تو وہ جائیداد اس کی ملکیت میں آجائے گی اور والدہ کے انتقال کے بعد وہ ترکہ شمار نہیں ہوگی لیکن جو جائیداد صرف زبانی طور پر ہبہ کی ہو اور مکمل قبضہ اور تصرف کا اختیار  نہ دیا ہو تو وہ بدستور ان کی ملکیت میں رہے گی اور ان کے انتقال کے بعد ان کا ترکہ شمار ہوکر وہ جائداد تمام ورثاء میں ضابطۂ شرعی کے موافق تقسیم ہوگی۔


لہٰذا جو جائیداد مکمل قبضہ اور تصرف کے اختیار کے ساتھ دے دی تو وہ جائیداد اولاد کی ملکیت میں آجائے گی اور بعد انتقال وہ جائیداد اس کا ترکہ شمار نہیں ہوگی لیکن جو جائیداد صرف زبانی طور پر یا تحریری طور پر دی ہے اور مکمل قبضہ اور تصرف کا اختیار  نہیں دیا تو وہ بدستور ان کی ملکیت میں رہے گی اور ان کے انتقال کے بعد ان کا ترکہ شمار ہوکر تمام ورثاء میں ضابطہ شرعی کے موافق تقسیم ہوگی۔


صورت مسؤلہ میں چونکہ اس بات کی وضاحت نہیں کی ہے کہ مکمل قبضہ اور تصرف کے اختیار کے ساتھ دیا ہے یا پھر مکمل قبضہ اور تصرف کے اختیار کے ساتھ نہیں دیا ہے  سوال سے تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ جس طرح ماں باپ اپنی اولاد کو اس طرح کے جملےکہدیا کرتے ہیں' یہ اسی طرح کا جملہ ہے۔


اب اس مسئلہ کی دو صورتیں ہوگی۔

"مکمل قبضہ اور تصرف کے اختیار کے ساتھ دے دیا ہے" ایسی صورت میں اولاد مالک ہوجائے گی اور بعد انتقال کے  وہ ملکت وراثت میں شمار نہیں ہوگی۔


"مکمل قبضہ اور تصرف کے اختیار کے ساتھ نہیں دیا ہے صرف زبانی کہا ہے" ایسی صورت میں اولاد مالک نہیں ہوگی اور بعد وفات کہ ساری ملکت وارثین کے درمیان ضابطۂ شرعی کے مطابق تقسیم کی جائے گی۔ 


فتاوی شامی میں ہے

وتتم) الهبة (بالقبض) الكامل (۵/٦٩٠) ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ولو وهب في صحته كل المال للولد جاز وأثم۔ (الدر المختار وحاشية ابن عابدين ۵/٦٩٦)


فتاوی عالمگیری میں ہے

ولا يتم حكم الهبة إلا مقبوضة ويستوي فيه الأجنبي والولدإذا كان بالغا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لايثبت الملك للموهوب له إلا بالقبض هو المختار، هكذا في الفصول العمادية. (الفتاوى الهندية، ٤ /٣٧۷ ٣٧۸ كتاب الهبة، الباب الثانی فیما یجوز من الھبۃ وما لا یجوز، ط: رشیدیہ)


واللہ أعلم بالثواب والیہ المرجع والمآب 

العارض مفتی آصف بن محمد گودھروی

پیر، 4 دسمبر، 2023

بریلوی علماء سے نکاح پڑھوانا کیسا ہے؟ سوال نمبر ٤٤٥

 سوال

ایسا آدمی جو یے عقیدہ رکھتا ھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نور ہیں بشر نہیں اور المدد یا غوث اعظم کے نعرے لگاتا ہے جسکو بریلوی کہا جاتا ہے ایسے آدمی سے نکاح پڑھانا جائز ہے؟

سائل: سیف اللہ سندی


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی



دین دار مسلمان یا عالمِ دین سے نکاح پڑھوانا مستحب اور بہتر ہے باقی اگر کسی غیر مسلم سے بھی نکاح پڑھوالیا اور مجلس نکاح میں دلہا اور دلہن یا دلہن کا وکیل اورگواہان موجود تھے تو ایسا نکاح منعقد ہوجائے گا اس لیے کہ نکاح خواں کی حیثیت محض معبر اور سفیر  کی ہے۔


جہاں تک بریلوی فرقے کی بات ہے تو ان کے بارے میں تو ہمارے اکابر نے کفر یا شرک کا فتویٰ بھی نہیں دیا ہے ان حضرات کے بعض عقائد کی بنا پر ان کے بدعتی اور گم راہ  ہونے کا فتویٰ دیا گیا ہے، مطلقاً ان کے کفر کا فتویٰ نہیں دیا گیا لہذا ان میں سے جو عملی بدعات میں مبتلا ہیں انہیں بدعتی کہا جائے گا، اور جو جمہور اہلِ سنت والجماعت سے جداگانہ عقائد رکھتے ہیں انہیں بدعتی ہونے کے ساتھ ساتھ گمراہ اور اہلِ ہویٰ میں سے کہا جائے گا۔


لہذا بریلوی مسلک کے کسی مولانا سے نکاح پڑھوانا اگرچہ جائز ہے اور حسب شرائط نکاح ہو بھی جائے گا لیکن کسی اہل حق مولانا یا مفتی سے نکاح پڑھوانا چاہیے کیوں کہ بریلوی مسلک والوں پر اگرچہ کفر کا فتوی نہیں ہے لیکن ان میں مختلف عملی واعتقادی گمراہیاں وبدعات پائی جاتی ہیں اور یہ لوگ نکاح کے وقت بھی بعض بدعات کا ارتکاب کرتے اور کراتے ہیں۔


فتاوی محمودیہ میں ہے

سوال [۵۲۹۵] : مولوی احمد رضا خان صاحب نے لکھا ہے کہ اگر برہمن نکاح پڑھا دے تو جائز ہے کہ نکاح نام ہے ایجاب وقبول کا کیا یہ درست ہے؟

الجواب حامداً ومصلياً 

جو شخص نکاح پڑھاتا ہے وہ شرعی قاضی نہیں لہذا اس میں قاضی کی شرائط کا پایا جانا ضروری نہیں وہ شخص محض ایجاب و قبول کی تعبیر کرتا ہے زوجین خود گواہوں کے سامنے ایجاب و قبول کرلیں تو نکاح صحیح ہو جاتا ہے۔ فقط واللہ تعالی اعلم (حرره العبد محمود غفر له، دارالعلوم دیو بند ، ۱۲/۱۹ /ھ۸۵

جواب صحیح ہے، غیر مسلم کے ایجاب و قبول نکاح کردینے سے اگر چہ حقیقۃً نکاح منعقد ہوجاتا ہے مگر ایسا کرنا سخت بے غیرتی اور سنت متوارثہ کے خلاف ہے (بندہ نظام الدین عفی عنہ دارالعلوم دیوبند)

الجواب صحیح سید مهدی حسن غفر له ۱۲/۲۲ /ھ۸۵

(فتاویٰ محمودیہ کتاب النکاح، زیرِ عنوان: برہمن سے نکاح پڑھوانا، نیز: شیعہ وغیرہ سے نکاح پڑھوانا، ١٠/ ٥٩٦-٥٩٨ ط: جامعہ فاروقیہ، کراچی)


صورت مسئولہ میں بریلوی مسلک سے تعلق رکھنے والا شخص اگر کسی دیوبندی مسلک پر عمل کرنے والے شخص کا نکاح پڑھائے تو نکاح ہوجائے گا اور تجدید کی ضرورت بھی نہیں ہوگی۔


ھدایہ میں ہے

وإذا أذنت المرأة للرجل أن يزوجها من نفسه، فعقد بحضرة شاهدين، جاز ولنا أن الوكيل في النكاح معبر وسفير۔ (الهداية، كتاب النكاح، باب في الأولياء والأكفاء، فصل في الوكالة بالنكاح ۳٤٤/۲، مكتبه رحمانیہ)


بدائع الصنائع میں ہے 

الوكيل في باب النكاح ليس بعاقد، بل هو سفير عن العاقد ومعبر عنه. (بدائع الصنائع كتاب النكاح، فصل في ركن النكاح: ۳۲۴/۳، دار الكتب العلميه بيروت)


فتاوی شامی میں ہے 

وفي النھر: تجوز مناکحة المعتزلة؛ لأنا لا نکفر أحداً من أھل القبلة وإن وقع إلزاماً في المباحث۔

قولہ: وفي النھر إلخ مأخوذ من الفتح حیث قال: وأما المعتزلة فمقتضی الوجہ حل مناکحتھم؛ لأن الحق عدم تکفیر أھل القبلة وإن وقع إلزاماً في المباحث بخلاف من خالف القواطع المعلومة بالضرورة من الدین مثل القائم بقدم العالم ونفي العلم بالجزئیات علی ما صرح بہ المحققون۔ وأقول: وکذا القول بالإیجاب بالذات ونفي الاختیار أھ۔ وقولہ: ”وإن وقع إلزاماً في المباحث“، معناہ وإن وقع التصریح بکفر المعتزلة ونحوھم عند البحث معھم في رد مذھبھم بأنہ کفر، أي: یلزم من قولھم بکذا الکفر ولا یقتضي ذلک کفرھم؛ لأن لازم المذھب لیس بمذھب، وأیضاً فإنھم ما قالوا ذلک إلا لشبھة دلیل شرعي علی زعمھم وإن أخطوٴوا فیہ ولزمھم المحذور علی أنھم لیسوا بأدنی حالاً من أھل الکتاب إلخ (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب النکاح، فصل في المحرمات، ٤/ ۱۳٤ - ۱۳۵، ط: مکتبة زکریا دیوبند)۔


واللہ أعلم بالثواب والیہ المرجع والمآب 

العارض مفتی آصف بن محمد گودھروی

پیر، 27 نومبر، 2023

کھانے پینے کے کچھ ضروری مسائل سوال نمبر ٤٤٤

 سوال

حضرت مفتی صاحب زمانے کے حساب سے کھانے کے سلسلے میں کچھ سوالات ہے جس کا حل باحوالہ مطلوب ہے براہ کرم اس کی وضاحت فرماکر مہربانی فرمائیں۔

چلتے پھرتے کھانا کیسا ہے؟ کسی لاڑی یا ٹھیکہ پر کھڑے ہیں اور بیٹھنے کی جگہ نہیں ہے تو کھڑے کھڑے کھانا کیسا ہے؟

اسی طرح جوتے پہن کر کھانا کیسا ہے؟ جیسا کہ عام طور ہوٹلوں ریسٹورنٹ میں دیکھا جاتا ہے

لقمہ ٹیبل یا میز پر یا نیچے گرجائے تو اس کا شرعی حکم کیا ہے؟

سائل حافظ مستقیم بانگلہ دیش 


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی


کھانا پینا اللہ تعالیٰ کی ایک عظیم نعمت ہے جس کی حقیقی اہمیت سے وہی لوگ آگاہ ہو سکتے ہیں جنہیں خدانخواستہ خوراک کی قلت کا سامنا  ہو ایک مسلمان کو چاہئے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ اس نعمت کا شکر ادا کرے اور کھانے پینے کے سلسلے میں کھانے کے اسلامی آداب اور طریقۂ نبوی کا خصوصی اہتمام کیا جائے۔

لہذا کھڑے کھڑے اور چلتے پھرتے کھانا پینا اور بغیر عذر کے کھڑے ہوکر کھانے کی عادت بنانا خلاف سنت اور مکروہ ہے البتہ مجبوری ہو یا بیٹھنے کی جگہ نہ ہو یا ایسی جگہ ہو جہاں عام طور پر کھانے کے لئے بیٹھنا کریہ الہیت ہو یعنی وہاں بیٹھنا طبیعت کو گوارا نہ ہو جیسے ٹھیلے کے وہاں نالی یا گندگی ہو تو کھڑے ہوکر کھانے پینے کی گنجائش ہے اور اس طرح مجبوری کی صورت میں وہ گناہ گار بھی نہیں ہوگا.

اسی طرح جوتا پہن کر کھانے کی گنجائش تو ہے لیکن بہتر نہیں ہے البتہ آج کل یہ متکبرین کا شعار بن گیا ہے اس لیے اس سے احتیاط ضروری ہے۔

کھانا کھاتے ہوئے جو لقمہ زمین پر گرجاتا ہے اس کے بارے میں احادیث میں مذکور ہے کہ اگر کوئی لقمہ کھاتے ہوئے زمین پر گر جائے تو اسے اٹھا کر اس سے ایذا  پہنچانے والی چیز کو صاف کر کے کھا لیا جائے اور شیطان کے لئے نہ چھوڑا جائے۔

لہذا گرے ہوئے لقمہ کے سلسلہ میں حکم یہ ہے کہ اس پر سے مٹی وغیرہ ہٹا کر اسے کھانا ممکن ہو تو اسے کھا لینا مستحب ہے، چاہے مٹی ہاتھ سے ہٹا لی جائے یا دھو لی جائے۔ اور اگر اس کو ہٹانا ممکن نہ ہو یا کسی ناپاک چیز پر وہ لقمہ گرگیا ہے تو اسے کھایا نہ جائے،  بلکہ کسی ایسی جگہ ڈال دیا جائے جہاں سے عام طور پر جانور وغیرہ گزرتے ہو تاکہ وہ اس کے کھانے کے کام آجائے  اس کو شیطان کے لیے نہ چھوڑا جائے جیسا کہ احادیث میں وارد ہے۔


حاشیة الترغیب والترہیب میں ہے 

کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم إذا أتی بطعام وضعہ علی الأرض فہو أقرب إلی التواضع (حاشیة الترغیب والترہیب: ۳/۱۵۲)


مشکاة شریف میں ہے 

قال النبي صلی اللہ علیہ وسلم إذا وضع الطعام فاخلعوا نعالکم فإنہ أروح لأقدامکم (مشکاة شریف ۳٤۸)


مجمع الزوائد میں ہے 

عن أنس رضی اللّٰہ عنہ قال: قال النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم إذا أکلتم الطعام فاخلعوا نعالکم فإنہ أروح لأقدامکم۔ (مجمع الزوائد، کتاب الأطعمة / باب خلع النعال عند الأکل ۵/۲۳)


شرح النووی لصحیح مسلم میں ہے 

واستحباب أكل اللقمة الساقطة بعد مسح أذى يصيبها هذا إذا لم تقع على موضع نجس فإن وقعت على موضع نجس تنجست ولابد من غسلها إن أمكن فإن تعذر أطعمها حيوانا ولايتركها للشيطان ومنها إثبات الشياطين وأنهم يأكلون وقد تقدم قريبا (كتاب الأشربة ،باب  استحباب لعق الأصابع واكل اللقمة ١٣/٢٠٤ ط:داراحياء التراث)


شرح ریاض الصالحین میں ہے 

ولكن رسول الله صلى الله عليه وسلم ‌دلنا على الخير فقال: (فليأخذها وليمط ما بها من أذى، وليأكلها، ولا يدعها للشيطان) خذها وأمط ما بها من أذى ـ من تراب أو عيدان أو غير ذلك ـ ثم كلها ولا تدعها للشيطان. والإنسان إذا فعل هذا امتثالاً لأمر النبي صلى الله عليه وسلم وتواضعاً لله عز وجل وحرماناً للشيطان من أكلها؛ حصل على هذه الفوائد الثلاثة: الامتثال لأمر النبي صلى الله عليه وسلم، والتواضع، وحرمان الشيطان من أكلها. هذه فوائد ثلاث، ومع ذلك فإن أكثر الناس إذا سقطت اللقمة على السفرة أو على سماط نظيف تركها، وهذا خلاف السنة۔

وفي هذا الحديث من الفوائد: أنه لا ينبغي للإنسان أن ياكل طعاماً فيه أذى، لأن نفسك عندك أمانة، لا تأكل شيئاً فيه أذى، من عيدان أو شوك أو ما أشبه ذلك، وعليه فإننا نذكر الذين يأكلون السمك أن يحتاطوا لأنفسهم، لأن السمك لها عظام دقيقة مثل الإبر، إذا لم يحترز الإنسان منها، فربما تخل إلى بطنه وتجرح معدته أو أمعاءه وهو لا يشعر، لهذا ينبغي للإنسان أن يراعي نفسه، وأن يكون لها أحسن راع، فصلوات الله وسلامه على نبينا محمد وعلى آله وأصحابه ومن تبعهم بإحسان إلى يوم الدين۔ (باب الأمر بالمحافظة علي السنة ٢/٣٠٠ ط:دار الوطن للنشر)


فتاوی عالمگیری میں ہے

لا بأس بالشرب قائماً، ولايشرب ماشیاً، ورخص للمسافرين، ولايشرب بنفس واحد۔ (فتاوی عالمگیری ٥/ ٣٤١)


واللہ أعلم بالثواب والیہ المرجع والمآب 

العارض مفتی آصف بن محمد گودھروی

ہفتہ، 25 نومبر، 2023

وہ حضرات جن کو بھیک دے سکتے اور وہ حضرات جن کو بھیک نہیں دے سکتے ان کی تفصیل سوال نمبر ٤٤٣

سوال 

بسم اللہ الرحمن الرحیم السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ 

مفتیان کرام یہ بتلادیجئے کہ جو فقیر مانگتے رہتے ہیں ان کی مدد کرنا جائز ہے یا نہیں جن حضرات کے پاس ایک دن کا کھانا بھی ہو اور ستر چھپانے کا کپڑا بھی ہو ان کو دینے کا حکم نیز یہ بھی بتلادیں اگر کسی کے پاس فلحال تو کچھ نہ ہو لیکن وہ صحیح سالم ہو اور کمانے پر قدرت ہو اس کو دینے کا کیا حکم ہے؟

میں دینا چاہتا ہوں لیکن پھر یہ سوچتا ہوں کہ کہیں ثواب کے حصول کے چکر میں گناہ ہی نہ مل جائے کیونکہ خاص طور پر وہ حضرات جو رکشہ وغیرہ میں آتے ہیں ان کے پاس تو پہلے ہی سے بہت زیادہ ہوتا ہے لیکن ان میں سے بہت سے حضرات ہاتھ ٹانگ وغیرہ سے معذور ہوتے ہیں تو کیا ہاتھ یا ٹانگ وغیرہ سے معذور ہونا مانگنے کے  جواز کے لئے کافی ہے، اور ہمارا ان کو دینا صحیح ہے نیز اس طرف بھی راہنمائی فرمائیں کہ ہم جس سائل کو دے سکتے ہیں اس میں کیا کیا چیزیں دیکھنی چاہیے مفصل اور مدلل جواب ارسال فرمادیں مہربانی ہوگی

سائل: عبد السلام روڑکی ہریدوار


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی


اسلام میں ایسے شخص کو جس کے پاس ایک دن کے صبح و شام کے کھانے کا  اور ستر ڈھانکنے کے لئے  کپڑے کا انتظام موجود ہے، سوال کرنے سے منع کیا گیا ہے اسی طرح جو آدمی کمانے پر قادر ہو اس کے لیے بھی سوال کرنا جائز نہیں، اور مانگنے کی عادت اور پیشہ بنالینا یہ تو بالکل بھی جائز نہیں ہے، حدیث شریف میں آتا ہے کہ جو شخص بلاضرورت مانگتا ہے، قیامت کے دن اس کا یہ مانگنا اس کے چہرے پر زخم بن کر ظاہر ہوگا ایک دوسری روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص اپنے مال کو بڑھانے کے لیے سوال کررہا ہے تو وہ جہنم کا انگارہ جمع کررہا ہے، اب اس کی مرضی چاہے زیادہ جمع کرے یا کم۔ اسی طرح حضرت سہل سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جس کے پاس ایک دن کے صبح و شام کے کھانے کا انتظام موجود ہے، پھر بھی وہ سوال کرتا ہے تو وہ جہنم کی آگ اکٹھا کررہا ہے۔

مسؤلہ صورت میں ایسے لوگ جو حقیقت میں ضرورت مند اور محتاج نہ ہوں بلکہ بھیک مانگنا ان کا پیشہ بن گیا ہو، ان کے لیے بھیک مانگنا حرام اور ان کو دینا ناجائز ہے، جیسے شہروں میں سڑکوں پر ٹریفک سگنلز کے قریب جو لوگ بھیک مانگتے ہیں اور ان کے بارے میں کوئی جانتا ہو کہ یہ فقیر نہیں، بلکہ پیشہ ور ہیں، تو ان کو بھیک نہیں دینا چاہئے اسی طرح چاہے معذور ہو یا نہ ہو ان کا پیشہ ہی بھیک مانگنا ہوتو ان کو دینا جائز نہیں ہے۔


 کن حضرات کو بھیک نہیں دے سکتے۔

(١) پیشہ ور فقیروں کو دینا درست نہیں ہے یعنی جو کمانے کی طاقت ہونے کے باوجود راستوں اور بازاروں میں بھیک مانگنے کا پیشہ بنا لیا ہے ان کو کچھ بھی نہ دیا جائے اور یہ لوگ اَمَّا السَّآئِلَ فَلاَ تَنْہَرْ یعنی سوال کرنے والے کو جھڑکو مت، کے زمرے میں داخل نہیں ہوں گے ان کو نہ دینے کی صورت میں کوئی گناہ نہ ہوگا۔


(٢) اسی طرح جس آدمی کے پاس ایک دن کا کھانا ہو اور ستر ڈھانکنے کے لئے کپڑا ہو اس کا لوگوں سے مانگنا جائز نہیں ہے لہذا ان کو بھی نہ دیا جائے۔


(٣) اسی طرح ایسے افراد جو ہاتھوں اور پیروں سے معذور ہے اور انہوں نے مستقل بھیک مانگنے کا پیشہ بنالیا ہے ان کو بھی بلا ضرورت نہ دیا جائے۔ 


(٤) خصوصاً جن کے بارے میں علم ہو کہ یہ پیشہ ور بھکاری ہیں تو ایسے افراد کو نہ دیکر ان کی حوصلہ شکنی کرنی چاہیے البتہ اگر کسی نے بھیک دے دی تو وہ گناہ گار نہ ہوگا، لینے والا گناہ گار ہوگا، البتہ ایسے افراد کو زکات یا صدقاتِ واجبہ دینا جائز نہیں ہے۔


کن حضرات کو بھیک دے سکتے۔

(١) اگر کسی آدمی پر فاقہ ہو یا واقعی کوئی سخت ضرورت پیش آگئی ہو جس کی وجہ سے وہ انتہائی مجبوری کی بنا پر سوال کرے تو اس کے لئے مانگنے کی گنجائش ہے اور اس کو حسب استطاعت مدد کرنا چاہیئے 


(٢) ہاتھ پیروں سے معذور آدمی کو بقدر ضرورت اپنی استطاعت کے مطابق مدد کرنا چاہیئے۔


(٣) مقروض آدمی جب کہ وہ اپنا قرضہ چکانے کی طاقت نہ رکھنا ہو تو اس کو بھی دینا چاہیئے


(٤) گھر سے محروم آدمی کو گھر بنانے کے لئے دینا چاہیئے


(٥) دواء و علاج کے لئے جب کہ اس کے پاس گنجائش نہ ہو تو اس کو بھی  دینا چاہیئے


(٦) ایسا آدمی جس کا خاندان بڑا ہو اور کمائی ان کے مقابلے میں پوری نہ ہوتی ہو تو اس کو بھی دینا چاہیئے۔


(٧) شادی بیاہ میں جب اس کے پاس خرچ کا انتظام نہ ہو تو شرعی حد تک امداد دینی چاہیئے۔


(٨) حصول علم میں کسی کے پاس ذرائع نہ ہو تو اس کی بھی حسب استطاعت امداد کرنی چاہیئے۔


(٩) جو آدمی اللہ کے راستے میں ظالموں کا مقابلہ کرنا چاہے یا اللہ کے راستے میں نکلنے کا عزم مصمم ہو اور اس کے پاس ذرائع نہ ہو تو اس کی بھی مدد کرنی چاہیئے۔


ان حضرات کے پیچھے خرچ کرنے سے وہ عند اللہ ماجور ہوگا اور عند اللہ درجات و ترقیات کا سبب ہوگا ان شاءاللہ


صحيح مسلم میں ہے:

حدثنا أبو كريب وواصل بن عبد الأعلى قالا: حدثنا ابن فضيل عن عمارة بن القعقاع عن أبي زرعة عن أبي هريرة قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم من سأل الناس أموالهم تكثراً فإنما يسأل جمراً فليستقل أو ليستكثر (صحيح مسلم، كتاب الزكاة، باب من تحل له المسألة، رقم الحديث: ١٠٤١)

ایضاً 

عن قبيصة بن مخارق الهلالي قال: تحملت حمالةً، فأتيت رسول الله صلى الله عليه وسلم أسأله فيها، فقال: أقم حتى تأتينا الصدقة فنأمر لك بها، قال: ثم قال: يا قبيصة! إن المسألة لا تحل إلا لأحد ثلاثة: رجل تحمل حمالةً فحلت له المسألة حتى يصيبها ثم يمسك، ورجل أصابته جائحة اجتاحت ماله فحلت له المسألة حتى يصيب قواماً من عيش ـ أو قال: سداداً من عيش ـ، ورجل أصابته فاقة حتى يقوم ثلاثة من ذوي الحجا من قومه لقدأصابت فلاناً فاقة فحلت له المسألة حتى يصيب قواماً من عيش ـ أو قال: سداداً من عيش ـ، فما سواهن من المسألة يا قبيصة سحتاً يأكلها صاحبها سحتاً". (صحيح مسلم، كتاب الزكاة، باب من تحل له المسألة، رقم الحديث، ١٠٤٤)


النهر الفائق میں ہے

ولا يسأل أي لا يحل له أن يسأل شيئا من القوت من له قوت يومه وهذا أولى من قوله في البحر أي لا يحل له أن يسأل قوت يومه لأن عدم الحل لا يتقيد به لخبر: من سأل الناس وعنده ما يغنيه فإنما يستكثر جمر جهنم قالوا يا رسول الله ومايغنيه؟ قال يغديه ويعشيه قيد بالسؤال لأن الأخذ لغيره لمن له القوت جائز وبقوت يومه لأن له أن يسأل الكسوة إذا كان عاريا كمن لا قوت له إلا إذا كان مكتسيا فلا يحل له السؤال إلا إذا كان غازيا لاشتغاله بالجهاد كذا في (غاية البيان).( ١/٤٦٩ النهر الفائق)


بذل المجہود میں ہے 

وأما في ہذا الزّمان فتشاہد کثیراً من الناس اتخذوا السوال حرفة لہم ولہم فضول أموال فحینئذ یحرم لہم السوال ویحرم علی الناس إعطاوٴہم۔ (بذل المجہود: ٣/٥٤) 


شامی میں ہے

ولا يحل أن يسأل من القوت من له قوت يومه بالفعل أو بالقوة كالصحيح المكتسب ويأثم معطيه إن علم بحاله لإعانته على المحرم ولو سأل للكسوة أو لاشتغاله عن الكسب بالجهاد أو طلب العلم جاز لو محتاجا۔

قوله ولا يحل أن يسأل إلخ قيد بالسؤال لأن الأخذ بدونه لا يحرم بحر وقيد بقوله شيئا من القوت لأن له سؤال ما هو محتاج إليه غير القوت كثوب شرنبلالية۔

وإذا كان له دار يسكنها ولا يقدر على الكسب قال ظهير الدين  لا يحل له السؤال إذا كان يكفيه ما دونها معراج ثم نقل ما يدل على الجواز وقال وهو أوسع وبه يفتى 

قوله كالصحيح المكتسب لأنه قادر بصحته واكتسابه على قوت اليوم بحر  قوله ويأثم معطيه إلخ قال الأكمل في شرح المشارق

وأما الدفع إلى مثل هذا السائل عالما بحاله فحكمه في القياس الإثم به ; لأنه إعانة على الحرام ، لكنه يجعل هبة وبالهبة للغني أو لمن لا يكون محتاجا إليه لا يكون آثما (فتاوی شامي ٣/٣٠٦ مکتب عالم الکتاب)


واللہ أعلم بالثواب والیہ المرجع والمآب 

العارض مفتی آصف بن محمد گودھروی


منگل، 21 نومبر، 2023

میز یا ٹیبل پر کھانا رکھ کر اور کرسی پر بیٹھ کر کھانے کا شرعی حکم سوال نمبر ٤٤٢

 سوال 

السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ

مفتی صاحب ایک مسئلہ ہے کہ شادی وغیرہ کی تقریب میں اسی طرح ہوٹلوں میں میز یا ٹیبل پر کھانا رکھ کر اور کرسی پر بیٹھ کر کھانا کھانا اور کھلانا کیسا ہے؟ جائز ہے یا حرام ہے یا مکروہ ہے؟ اور بعض لوگوں سے سنا گیا ہے کہ یہ یہودیوں کا طریقہ ہے اس طرح سے کھانا درست نہیں ہے تو کیا یہ صحیح ہے؟ 

سائل: عامر احمد ایم پی


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی


میز یا کرسی پر بیٹھ کر کھانا کھانا یا کھلانا یہ آداب طعام کے خلاف ہے لہٰذا بلاعذر کرسی یا میز پر بیٹھ کر کھانے یا کھلانے سے احتیاط کرنا چاہیے لیکن خصوصیت سے اس بارے میں کوئی ممانعت وارد نہیں ہوئی البتہ یہ طریقہ نصاریٰ کا تھا اور انھیں کے ساتھ خاص تھا اور حدیث میں "إيَّاكُمْ وزي الْأَعَاجِم عجمیوں کے طریقوں سے بچو" اس حدیث کی رو سے اس طرح سے کھانے سے احتراز لازم تھا لیکن اب خاص یہ طریقہ ان کا نہ رہا اب یہ ہر جگہ شائع و ذائع ہوگیا ہے اس لئے میز یا ٹیبل پر کھانا گناہ نہیں رہا۔


البتہ سنت کے خلاف ضرور ہے لیکن یہ سنت مؤکدہ بھی نہیں ہے کہ جس کا ترک گناہ ہو البتہ مکروہ تنزیہی ضرور ہے بلا ضرورت کہ اس طرح نہ کھایا جائے بلکہ سنت کے مطابق ہی کھانا اور کھلانا چاہیئے اللہ کے رسول سے زمین پر دسترخوان بچھاکر کھانے کے متعلق روایات مروی ہے بخاری شریف میں ہے کہ حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی خوان پر کھانا نہیں کھایا اور نہ چھوٹی چھوٹی طشتریوں میں کھایا اور نہ آپ کے لئے پتلی پتلی چپاتی پکائی گئی حضرت قتادہ سے پوچھا گیا کہ وہ کس چیز پر کھانا کھاتے تھے؟ انہوں نے کہا کہ یہی چمڑے کے دسترخوان پر۔ حدیث میں لفظ خوان مستعمل ہے جس کا ایک معنی  چوکی  یا میز بھی ہوتا ہے جس پر کھانا رکھ کر کھایا جائے تاکہ کھانے میں جُھکنا نہ پڑے، ہاں اگر کوئی عذر ہو مثلاً بدن بھاری ہونے کی وجہ سے زمین پر نہ بیٹھ سکے یا کسی ایسی جگہ دعوت ہو جہاں کرسی پر بیٹھنے کے علاوہ انتظام نہ ہو تو ایسے موقع پر کرسی یا میز پر بیٹھ کر کھانے میں سنت کے خلاف نہیں ہے۔


حاشیة الترغیب والترہیب میں ہے

کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم إذا أتی بطعام وضعہ علی الأرض فہو أقرب إلی التواضع (حاشیة الترغیب والترہیب: ۳/۱۵۲)


بخاری شریف میں ہے

عن أنس رضی اللّٰہ عنہ قال: ما علمت النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم أکل علی سُکُرُّجةٍ قطُّ، ولا خُبزَ لہ مُرققٌ قطُّ، ولا أکل علی خِوانٍ قطُّ، فقیل لقتادة: فعلی ما کانوا یأکلون؟ قال: علی السفر۔ (صحیح البخاری، کتاب الأطعمة / باب الخبز المرقق والأکل علی الخوان والسفرة ۲/۸۱۱ دار الفکر بیروت)


الکوکب الدري میں ہے

والحاصل أن الأکل علیہ (أي الخوان) بحسب نفس ذاتہ لا یربو علی ترک الأولیة فأما إذا لزم فیہ التشبہ بالیہود أو النصاری -کما ہو في دیارنا- کان مکروہًا تحریمًا وأما إذا لم یکن علی دأبہم فلا یخلوا أیضًا عن تفویت منافع․ (الکوکب الدری) قال المحشي: قال المناوي: یعتاد المکتبرون من العجم الأکل علیہ لئلا تنخفض روٴوسہم، فالأکل علیہ بدعة لکنہ جائز إن خلا عن قصد التکبر․ (الکوکب الدري مع حاشیتہ ط المکتبة الیحویة) 


جمع الوسائل في شرح الشمائل میں ہے

اعلم أنہ یطلق الخوان في المتعارف علی ما لہ أرجل ویکون مرتفعًا عن الأرض، واستعمالہ لم یزل من دأب المترفین وصنیع الجبارین لئلا یفتقروا إلی خفض الرأس عند الأکل، فالأکل علیہ بدعة لکنہا جائزة․ (جمع الوسائل في شرح الشمائل ص٤٤ ط ادارة التالیفات اشرفیہ/ ملتان)


الموسوعۃ الفقھیۃ میں ہے

فالسنة عند الحنفية بالمعنى الفقهي نوعان: أ - سنة الهدى: وهي ما تكون إقامتها تكميلا للدين، وتتعلق بتركها كراهة أو إساءة، كصلاة الجماعة، والأذان، والإقامة، ونحوها، وذلك لأن النبي صلى الله عليه وسلم واظب عليها على سبيل العبادة، وتسمى أيضا السنة المؤكدة.

ب - سنن الزوائد: وهي التي لا يتعلق بتركها كراهة ولا إساءة، لأن النبي صلى الله عليه وسلم فعلها على سبيل العادة، فإقامتها حسنة، كسير النبي صلى الله عليه وسلم في لباسه وقيامه، وقعوده وأكله، ونحو ذلك۔ (الموسوعۃ الفقھیۃ الکویتیۃ ٢٥/٢٦٥ ط: دار السلاسل)


واللہ أعلم بالثواب والیہ المرجع والمآب 

العارض مفتی آصف بن محمد گودھروی

منگل، 7 نومبر، 2023

چوری کے مال کی خریدو فروخت کرنا کیسا ہے؟ سوال نمبر ٤٤١

 سوال

السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ 

مسئلہ یہ ہے کہ ایک آدمی مثلا زید عمرو سے کوئی چیز خرید رھا ھے اور عمر کو جو پیسوں پر چیز دے رہے ہیں بائع  وہ چوری کی ہے تو اب زید کے لیے عمر سے پیسوں پر وہ چیز خریدنا جائز ھے یا نہیں

سائل: سیف اللہ سندی


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی


چوری کا مال اصولی اعتبار سے اصل مالک کا ہی رہے گا چاہے وہ جتنے ہاتھوں میں چلاجائے وہ اوروں کے لئے حرام ہی رہتا ہے اور اصل مالک کے علاوہ کوئی دوسرا اس کامالک نہیں بنتا اس لیے چوری کے مال کی خرید و فروخت کرنا کسی حال میں جائز نہیں ہے،


صورت  مسئولہ میں اگر پہلے سے معلوم ہے کہ یہ مال چوری کا ہے یا قرائن سے  غالب گمان یہ ہے کہ یہ  مال چوری کا ہے تو شرعاً ایسا مال خریدنا جائز نہیں ہے اور اگر کوئی شخص چوری کے مال کی خریدو فروخت کرتا ہے تو ایسے شخص کے ساتھ کاروباری معاملات رکھنا بھی شرعا جائز نہیں یہاں تک کہ مشکوک مال کے خریدو فروخت سے بھی اجتناب بہتر ہے اگرچہ مال مشکوک ہونے کی صورت میں خریدو فروخت کی گنجائش ہے۔


السنن الکبری میں ہے

عن شرحبيل مولى الأنصار عن أبي هريرة عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال من اشترى سرقةً وهو يعلم أنها سرقة فقد أشرك في عارها وإثمها۔ (السنن الكبرى للبيهقي ۵/٥٤٨ کتاب البیوع باب كراهية مبايعة من أكثر ماله من الربا أو ثمن المحرم ط دار الكتاب العلمية)


فتاوی شامی میں ہے

(‌الحرام ينتقل) أي تنتقل حرمته وإن تداولته الأيدي وتبدلت الأملاك، ويأتي تمامه قريبا(قوله ولا للمشتري منه) فيكون بشرائه منه مسيئا؛ لأنه ملكه بكسب خبيث، وفي شرائه تقرير للخبث، ويؤمر بما كان يؤمر به البائع من رده على الحربي؛ لأن وجوب الرد على البائع إنما كان لمراعاة ملك الحربي ولأجل غدر الأمان وهذا المعنى قائم في ملك المشتري كما في ملك البائع الذي أخرجه۔ (ردالمحتار على الدر المختار كتاب البيوع باب البيع الفاسد مطلب الحرمۃ تتعدد ۷/۳۰۰)

ایضاً 

‌والحاصل ‌أنه ‌إن ‌علم أرباب الأموال وجب رده عليهم وإلا فإن علم عين الحرام لا يحل له ويتصدق به بنية صاحبه۔ (رد المحتار على الدر المختار باب البيع الفاسد مطلب فيمن ورث مالا حراما ۷/۳۰۱)


حاشیۃ الطحطاوی علی الدر المختار میں ہے:

ان علم ان العين التي يغلب علي الظن انهم اخذوها من الغير بالظلم قائمة وباعوها في الاسواق فانه لاينبغي شرائها منهم وان تداولته الأيدي۔ ( کتاب الحظر والاباحۃ فصل فی البیع ٤/١٩٢ ط دار المعرفۃ)


واللہ أعلم بالثواب والیہ المرجع والمآب 

العارض مفتی آصف بن محمد گودھروی