منگل، 7 نومبر، 2023

چوری کے مال کی خریدو فروخت کرنا کیسا ہے؟ سوال نمبر ٤٤١

 سوال

السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ 

مسئلہ یہ ہے کہ ایک آدمی مثلا زید عمرو سے کوئی چیز خرید رھا ھے اور عمر کو جو پیسوں پر چیز دے رہے ہیں بائع  وہ چوری کی ہے تو اب زید کے لیے عمر سے پیسوں پر وہ چیز خریدنا جائز ھے یا نہیں

سائل: سیف اللہ سندی


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی


چوری کا مال اصولی اعتبار سے اصل مالک کا ہی رہے گا چاہے وہ جتنے ہاتھوں میں چلاجائے وہ اوروں کے لئے حرام ہی رہتا ہے اور اصل مالک کے علاوہ کوئی دوسرا اس کامالک نہیں بنتا اس لیے چوری کے مال کی خرید و فروخت کرنا کسی حال میں جائز نہیں ہے،


صورت  مسئولہ میں اگر پہلے سے معلوم ہے کہ یہ مال چوری کا ہے یا قرائن سے  غالب گمان یہ ہے کہ یہ  مال چوری کا ہے تو شرعاً ایسا مال خریدنا جائز نہیں ہے اور اگر کوئی شخص چوری کے مال کی خریدو فروخت کرتا ہے تو ایسے شخص کے ساتھ کاروباری معاملات رکھنا بھی شرعا جائز نہیں یہاں تک کہ مشکوک مال کے خریدو فروخت سے بھی اجتناب بہتر ہے اگرچہ مال مشکوک ہونے کی صورت میں خریدو فروخت کی گنجائش ہے۔


السنن الکبری میں ہے

عن شرحبيل مولى الأنصار عن أبي هريرة عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال من اشترى سرقةً وهو يعلم أنها سرقة فقد أشرك في عارها وإثمها۔ (السنن الكبرى للبيهقي ۵/٥٤٨ کتاب البیوع باب كراهية مبايعة من أكثر ماله من الربا أو ثمن المحرم ط دار الكتاب العلمية)


فتاوی شامی میں ہے

(‌الحرام ينتقل) أي تنتقل حرمته وإن تداولته الأيدي وتبدلت الأملاك، ويأتي تمامه قريبا(قوله ولا للمشتري منه) فيكون بشرائه منه مسيئا؛ لأنه ملكه بكسب خبيث، وفي شرائه تقرير للخبث، ويؤمر بما كان يؤمر به البائع من رده على الحربي؛ لأن وجوب الرد على البائع إنما كان لمراعاة ملك الحربي ولأجل غدر الأمان وهذا المعنى قائم في ملك المشتري كما في ملك البائع الذي أخرجه۔ (ردالمحتار على الدر المختار كتاب البيوع باب البيع الفاسد مطلب الحرمۃ تتعدد ۷/۳۰۰)

ایضاً 

‌والحاصل ‌أنه ‌إن ‌علم أرباب الأموال وجب رده عليهم وإلا فإن علم عين الحرام لا يحل له ويتصدق به بنية صاحبه۔ (رد المحتار على الدر المختار باب البيع الفاسد مطلب فيمن ورث مالا حراما ۷/۳۰۱)


حاشیۃ الطحطاوی علی الدر المختار میں ہے:

ان علم ان العين التي يغلب علي الظن انهم اخذوها من الغير بالظلم قائمة وباعوها في الاسواق فانه لاينبغي شرائها منهم وان تداولته الأيدي۔ ( کتاب الحظر والاباحۃ فصل فی البیع ٤/١٩٢ ط دار المعرفۃ)


واللہ أعلم بالثواب والیہ المرجع والمآب 

العارض مفتی آصف بن محمد گودھروی

کوئی تبصرے نہیں: