منگل، 21 نومبر، 2023

میز یا ٹیبل پر کھانا رکھ کر اور کرسی پر بیٹھ کر کھانے کا شرعی حکم سوال نمبر ٤٤٢

 سوال 

السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ

مفتی صاحب ایک مسئلہ ہے کہ شادی وغیرہ کی تقریب میں اسی طرح ہوٹلوں میں میز یا ٹیبل پر کھانا رکھ کر اور کرسی پر بیٹھ کر کھانا کھانا اور کھلانا کیسا ہے؟ جائز ہے یا حرام ہے یا مکروہ ہے؟ اور بعض لوگوں سے سنا گیا ہے کہ یہ یہودیوں کا طریقہ ہے اس طرح سے کھانا درست نہیں ہے تو کیا یہ صحیح ہے؟ 

سائل: عامر احمد ایم پی


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی


میز یا کرسی پر بیٹھ کر کھانا کھانا یا کھلانا یہ آداب طعام کے خلاف ہے لہٰذا بلاعذر کرسی یا میز پر بیٹھ کر کھانے یا کھلانے سے احتیاط کرنا چاہیے لیکن خصوصیت سے اس بارے میں کوئی ممانعت وارد نہیں ہوئی البتہ یہ طریقہ نصاریٰ کا تھا اور انھیں کے ساتھ خاص تھا اور حدیث میں "إيَّاكُمْ وزي الْأَعَاجِم عجمیوں کے طریقوں سے بچو" اس حدیث کی رو سے اس طرح سے کھانے سے احتراز لازم تھا لیکن اب خاص یہ طریقہ ان کا نہ رہا اب یہ ہر جگہ شائع و ذائع ہوگیا ہے اس لئے میز یا ٹیبل پر کھانا گناہ نہیں رہا۔


البتہ سنت کے خلاف ضرور ہے لیکن یہ سنت مؤکدہ بھی نہیں ہے کہ جس کا ترک گناہ ہو البتہ مکروہ تنزیہی ضرور ہے بلا ضرورت کہ اس طرح نہ کھایا جائے بلکہ سنت کے مطابق ہی کھانا اور کھلانا چاہیئے اللہ کے رسول سے زمین پر دسترخوان بچھاکر کھانے کے متعلق روایات مروی ہے بخاری شریف میں ہے کہ حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی خوان پر کھانا نہیں کھایا اور نہ چھوٹی چھوٹی طشتریوں میں کھایا اور نہ آپ کے لئے پتلی پتلی چپاتی پکائی گئی حضرت قتادہ سے پوچھا گیا کہ وہ کس چیز پر کھانا کھاتے تھے؟ انہوں نے کہا کہ یہی چمڑے کے دسترخوان پر۔ حدیث میں لفظ خوان مستعمل ہے جس کا ایک معنی  چوکی  یا میز بھی ہوتا ہے جس پر کھانا رکھ کر کھایا جائے تاکہ کھانے میں جُھکنا نہ پڑے، ہاں اگر کوئی عذر ہو مثلاً بدن بھاری ہونے کی وجہ سے زمین پر نہ بیٹھ سکے یا کسی ایسی جگہ دعوت ہو جہاں کرسی پر بیٹھنے کے علاوہ انتظام نہ ہو تو ایسے موقع پر کرسی یا میز پر بیٹھ کر کھانے میں سنت کے خلاف نہیں ہے۔


حاشیة الترغیب والترہیب میں ہے

کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم إذا أتی بطعام وضعہ علی الأرض فہو أقرب إلی التواضع (حاشیة الترغیب والترہیب: ۳/۱۵۲)


بخاری شریف میں ہے

عن أنس رضی اللّٰہ عنہ قال: ما علمت النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم أکل علی سُکُرُّجةٍ قطُّ، ولا خُبزَ لہ مُرققٌ قطُّ، ولا أکل علی خِوانٍ قطُّ، فقیل لقتادة: فعلی ما کانوا یأکلون؟ قال: علی السفر۔ (صحیح البخاری، کتاب الأطعمة / باب الخبز المرقق والأکل علی الخوان والسفرة ۲/۸۱۱ دار الفکر بیروت)


الکوکب الدري میں ہے

والحاصل أن الأکل علیہ (أي الخوان) بحسب نفس ذاتہ لا یربو علی ترک الأولیة فأما إذا لزم فیہ التشبہ بالیہود أو النصاری -کما ہو في دیارنا- کان مکروہًا تحریمًا وأما إذا لم یکن علی دأبہم فلا یخلوا أیضًا عن تفویت منافع․ (الکوکب الدری) قال المحشي: قال المناوي: یعتاد المکتبرون من العجم الأکل علیہ لئلا تنخفض روٴوسہم، فالأکل علیہ بدعة لکنہ جائز إن خلا عن قصد التکبر․ (الکوکب الدري مع حاشیتہ ط المکتبة الیحویة) 


جمع الوسائل في شرح الشمائل میں ہے

اعلم أنہ یطلق الخوان في المتعارف علی ما لہ أرجل ویکون مرتفعًا عن الأرض، واستعمالہ لم یزل من دأب المترفین وصنیع الجبارین لئلا یفتقروا إلی خفض الرأس عند الأکل، فالأکل علیہ بدعة لکنہا جائزة․ (جمع الوسائل في شرح الشمائل ص٤٤ ط ادارة التالیفات اشرفیہ/ ملتان)


الموسوعۃ الفقھیۃ میں ہے

فالسنة عند الحنفية بالمعنى الفقهي نوعان: أ - سنة الهدى: وهي ما تكون إقامتها تكميلا للدين، وتتعلق بتركها كراهة أو إساءة، كصلاة الجماعة، والأذان، والإقامة، ونحوها، وذلك لأن النبي صلى الله عليه وسلم واظب عليها على سبيل العبادة، وتسمى أيضا السنة المؤكدة.

ب - سنن الزوائد: وهي التي لا يتعلق بتركها كراهة ولا إساءة، لأن النبي صلى الله عليه وسلم فعلها على سبيل العادة، فإقامتها حسنة، كسير النبي صلى الله عليه وسلم في لباسه وقيامه، وقعوده وأكله، ونحو ذلك۔ (الموسوعۃ الفقھیۃ الکویتیۃ ٢٥/٢٦٥ ط: دار السلاسل)


واللہ أعلم بالثواب والیہ المرجع والمآب 

العارض مفتی آصف بن محمد گودھروی

کوئی تبصرے نہیں: