سوال
بسم اللہ الرحمن الرحیم السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
مفتیان کرام یہ بتلادیجئے کہ جو فقیر مانگتے رہتے ہیں ان کی مدد کرنا جائز ہے یا نہیں جن حضرات کے پاس ایک دن کا کھانا بھی ہو اور ستر چھپانے کا کپڑا بھی ہو ان کو دینے کا حکم نیز یہ بھی بتلادیں اگر کسی کے پاس فلحال تو کچھ نہ ہو لیکن وہ صحیح سالم ہو اور کمانے پر قدرت ہو اس کو دینے کا کیا حکم ہے؟
میں دینا چاہتا ہوں لیکن پھر یہ سوچتا ہوں کہ کہیں ثواب کے حصول کے چکر میں گناہ ہی نہ مل جائے کیونکہ خاص طور پر وہ حضرات جو رکشہ وغیرہ میں آتے ہیں ان کے پاس تو پہلے ہی سے بہت زیادہ ہوتا ہے لیکن ان میں سے بہت سے حضرات ہاتھ ٹانگ وغیرہ سے معذور ہوتے ہیں تو کیا ہاتھ یا ٹانگ وغیرہ سے معذور ہونا مانگنے کے جواز کے لئے کافی ہے، اور ہمارا ان کو دینا صحیح ہے نیز اس طرف بھی راہنمائی فرمائیں کہ ہم جس سائل کو دے سکتے ہیں اس میں کیا کیا چیزیں دیکھنی چاہیے مفصل اور مدلل جواب ارسال فرمادیں مہربانی ہوگی
سائل: عبد السلام روڑکی ہریدوار
الجواب وباللہ التوفیق
باسمہ سبحانہ وتعالی
اسلام میں ایسے شخص کو جس کے پاس ایک دن کے صبح و شام کے کھانے کا اور ستر ڈھانکنے کے لئے کپڑے کا انتظام موجود ہے، سوال کرنے سے منع کیا گیا ہے اسی طرح جو آدمی کمانے پر قادر ہو اس کے لیے بھی سوال کرنا جائز نہیں، اور مانگنے کی عادت اور پیشہ بنالینا یہ تو بالکل بھی جائز نہیں ہے، حدیث شریف میں آتا ہے کہ جو شخص بلاضرورت مانگتا ہے، قیامت کے دن اس کا یہ مانگنا اس کے چہرے پر زخم بن کر ظاہر ہوگا ایک دوسری روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص اپنے مال کو بڑھانے کے لیے سوال کررہا ہے تو وہ جہنم کا انگارہ جمع کررہا ہے، اب اس کی مرضی چاہے زیادہ جمع کرے یا کم۔ اسی طرح حضرت سہل سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جس کے پاس ایک دن کے صبح و شام کے کھانے کا انتظام موجود ہے، پھر بھی وہ سوال کرتا ہے تو وہ جہنم کی آگ اکٹھا کررہا ہے۔
مسؤلہ صورت میں ایسے لوگ جو حقیقت میں ضرورت مند اور محتاج نہ ہوں بلکہ بھیک مانگنا ان کا پیشہ بن گیا ہو، ان کے لیے بھیک مانگنا حرام اور ان کو دینا ناجائز ہے، جیسے شہروں میں سڑکوں پر ٹریفک سگنلز کے قریب جو لوگ بھیک مانگتے ہیں اور ان کے بارے میں کوئی جانتا ہو کہ یہ فقیر نہیں، بلکہ پیشہ ور ہیں، تو ان کو بھیک نہیں دینا چاہئے اسی طرح چاہے معذور ہو یا نہ ہو ان کا پیشہ ہی بھیک مانگنا ہوتو ان کو دینا جائز نہیں ہے۔
کن حضرات کو بھیک نہیں دے سکتے۔
(١) پیشہ ور فقیروں کو دینا درست نہیں ہے یعنی جو کمانے کی طاقت ہونے کے باوجود راستوں اور بازاروں میں بھیک مانگنے کا پیشہ بنا لیا ہے ان کو کچھ بھی نہ دیا جائے اور یہ لوگ اَمَّا السَّآئِلَ فَلاَ تَنْہَرْ یعنی سوال کرنے والے کو جھڑکو مت، کے زمرے میں داخل نہیں ہوں گے ان کو نہ دینے کی صورت میں کوئی گناہ نہ ہوگا۔
(٢) اسی طرح جس آدمی کے پاس ایک دن کا کھانا ہو اور ستر ڈھانکنے کے لئے کپڑا ہو اس کا لوگوں سے مانگنا جائز نہیں ہے لہذا ان کو بھی نہ دیا جائے۔
(٣) اسی طرح ایسے افراد جو ہاتھوں اور پیروں سے معذور ہے اور انہوں نے مستقل بھیک مانگنے کا پیشہ بنالیا ہے ان کو بھی بلا ضرورت نہ دیا جائے۔
(٤) خصوصاً جن کے بارے میں علم ہو کہ یہ پیشہ ور بھکاری ہیں تو ایسے افراد کو نہ دیکر ان کی حوصلہ شکنی کرنی چاہیے البتہ اگر کسی نے بھیک دے دی تو وہ گناہ گار نہ ہوگا، لینے والا گناہ گار ہوگا، البتہ ایسے افراد کو زکات یا صدقاتِ واجبہ دینا جائز نہیں ہے۔
کن حضرات کو بھیک دے سکتے۔
(١) اگر کسی آدمی پر فاقہ ہو یا واقعی کوئی سخت ضرورت پیش آگئی ہو جس کی وجہ سے وہ انتہائی مجبوری کی بنا پر سوال کرے تو اس کے لئے مانگنے کی گنجائش ہے اور اس کو حسب استطاعت مدد کرنا چاہیئے
(٢) ہاتھ پیروں سے معذور آدمی کو بقدر ضرورت اپنی استطاعت کے مطابق مدد کرنا چاہیئے۔
(٣) مقروض آدمی جب کہ وہ اپنا قرضہ چکانے کی طاقت نہ رکھنا ہو تو اس کو بھی دینا چاہیئے
(٤) گھر سے محروم آدمی کو گھر بنانے کے لئے دینا چاہیئے
(٥) دواء و علاج کے لئے جب کہ اس کے پاس گنجائش نہ ہو تو اس کو بھی دینا چاہیئے
(٦) ایسا آدمی جس کا خاندان بڑا ہو اور کمائی ان کے مقابلے میں پوری نہ ہوتی ہو تو اس کو بھی دینا چاہیئے۔
(٧) شادی بیاہ میں جب اس کے پاس خرچ کا انتظام نہ ہو تو شرعی حد تک امداد دینی چاہیئے۔
(٨) حصول علم میں کسی کے پاس ذرائع نہ ہو تو اس کی بھی حسب استطاعت امداد کرنی چاہیئے۔
(٩) جو آدمی اللہ کے راستے میں ظالموں کا مقابلہ کرنا چاہے یا اللہ کے راستے میں نکلنے کا عزم مصمم ہو اور اس کے پاس ذرائع نہ ہو تو اس کی بھی مدد کرنی چاہیئے۔
ان حضرات کے پیچھے خرچ کرنے سے وہ عند اللہ ماجور ہوگا اور عند اللہ درجات و ترقیات کا سبب ہوگا ان شاءاللہ
صحيح مسلم میں ہے:
حدثنا أبو كريب وواصل بن عبد الأعلى قالا: حدثنا ابن فضيل عن عمارة بن القعقاع عن أبي زرعة عن أبي هريرة قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم من سأل الناس أموالهم تكثراً فإنما يسأل جمراً فليستقل أو ليستكثر (صحيح مسلم، كتاب الزكاة، باب من تحل له المسألة، رقم الحديث: ١٠٤١)
ایضاً
عن قبيصة بن مخارق الهلالي قال: تحملت حمالةً، فأتيت رسول الله صلى الله عليه وسلم أسأله فيها، فقال: أقم حتى تأتينا الصدقة فنأمر لك بها، قال: ثم قال: يا قبيصة! إن المسألة لا تحل إلا لأحد ثلاثة: رجل تحمل حمالةً فحلت له المسألة حتى يصيبها ثم يمسك، ورجل أصابته جائحة اجتاحت ماله فحلت له المسألة حتى يصيب قواماً من عيش ـ أو قال: سداداً من عيش ـ، ورجل أصابته فاقة حتى يقوم ثلاثة من ذوي الحجا من قومه لقدأصابت فلاناً فاقة فحلت له المسألة حتى يصيب قواماً من عيش ـ أو قال: سداداً من عيش ـ، فما سواهن من المسألة يا قبيصة سحتاً يأكلها صاحبها سحتاً". (صحيح مسلم، كتاب الزكاة، باب من تحل له المسألة، رقم الحديث، ١٠٤٤)
النهر الفائق میں ہے
ولا يسأل أي لا يحل له أن يسأل شيئا من القوت من له قوت يومه وهذا أولى من قوله في البحر أي لا يحل له أن يسأل قوت يومه لأن عدم الحل لا يتقيد به لخبر: من سأل الناس وعنده ما يغنيه فإنما يستكثر جمر جهنم قالوا يا رسول الله ومايغنيه؟ قال يغديه ويعشيه قيد بالسؤال لأن الأخذ لغيره لمن له القوت جائز وبقوت يومه لأن له أن يسأل الكسوة إذا كان عاريا كمن لا قوت له إلا إذا كان مكتسيا فلا يحل له السؤال إلا إذا كان غازيا لاشتغاله بالجهاد كذا في (غاية البيان).( ١/٤٦٩ النهر الفائق)
بذل المجہود میں ہے
وأما في ہذا الزّمان فتشاہد کثیراً من الناس اتخذوا السوال حرفة لہم ولہم فضول أموال فحینئذ یحرم لہم السوال ویحرم علی الناس إعطاوٴہم۔ (بذل المجہود: ٣/٥٤)
شامی میں ہے
ولا يحل أن يسأل من القوت من له قوت يومه بالفعل أو بالقوة كالصحيح المكتسب ويأثم معطيه إن علم بحاله لإعانته على المحرم ولو سأل للكسوة أو لاشتغاله عن الكسب بالجهاد أو طلب العلم جاز لو محتاجا۔
قوله ولا يحل أن يسأل إلخ قيد بالسؤال لأن الأخذ بدونه لا يحرم بحر وقيد بقوله شيئا من القوت لأن له سؤال ما هو محتاج إليه غير القوت كثوب شرنبلالية۔
وإذا كان له دار يسكنها ولا يقدر على الكسب قال ظهير الدين لا يحل له السؤال إذا كان يكفيه ما دونها معراج ثم نقل ما يدل على الجواز وقال وهو أوسع وبه يفتى
قوله كالصحيح المكتسب لأنه قادر بصحته واكتسابه على قوت اليوم بحر قوله ويأثم معطيه إلخ قال الأكمل في شرح المشارق
وأما الدفع إلى مثل هذا السائل عالما بحاله فحكمه في القياس الإثم به ; لأنه إعانة على الحرام ، لكنه يجعل هبة وبالهبة للغني أو لمن لا يكون محتاجا إليه لا يكون آثما (فتاوی شامي ٣/٣٠٦ مکتب عالم الکتاب)
واللہ أعلم بالثواب والیہ المرجع والمآب
العارض مفتی آصف بن محمد گودھروی
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں