پیر، 27 نومبر، 2023

کھانے پینے کے کچھ ضروری مسائل سوال نمبر ٤٤٤

 سوال

حضرت مفتی صاحب زمانے کے حساب سے کھانے کے سلسلے میں کچھ سوالات ہے جس کا حل باحوالہ مطلوب ہے براہ کرم اس کی وضاحت فرماکر مہربانی فرمائیں۔

چلتے پھرتے کھانا کیسا ہے؟ کسی لاڑی یا ٹھیکہ پر کھڑے ہیں اور بیٹھنے کی جگہ نہیں ہے تو کھڑے کھڑے کھانا کیسا ہے؟

اسی طرح جوتے پہن کر کھانا کیسا ہے؟ جیسا کہ عام طور ہوٹلوں ریسٹورنٹ میں دیکھا جاتا ہے

لقمہ ٹیبل یا میز پر یا نیچے گرجائے تو اس کا شرعی حکم کیا ہے؟

سائل حافظ مستقیم بانگلہ دیش 


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی


کھانا پینا اللہ تعالیٰ کی ایک عظیم نعمت ہے جس کی حقیقی اہمیت سے وہی لوگ آگاہ ہو سکتے ہیں جنہیں خدانخواستہ خوراک کی قلت کا سامنا  ہو ایک مسلمان کو چاہئے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ اس نعمت کا شکر ادا کرے اور کھانے پینے کے سلسلے میں کھانے کے اسلامی آداب اور طریقۂ نبوی کا خصوصی اہتمام کیا جائے۔

لہذا کھڑے کھڑے اور چلتے پھرتے کھانا پینا اور بغیر عذر کے کھڑے ہوکر کھانے کی عادت بنانا خلاف سنت اور مکروہ ہے البتہ مجبوری ہو یا بیٹھنے کی جگہ نہ ہو یا ایسی جگہ ہو جہاں عام طور پر کھانے کے لئے بیٹھنا کریہ الہیت ہو یعنی وہاں بیٹھنا طبیعت کو گوارا نہ ہو جیسے ٹھیلے کے وہاں نالی یا گندگی ہو تو کھڑے ہوکر کھانے پینے کی گنجائش ہے اور اس طرح مجبوری کی صورت میں وہ گناہ گار بھی نہیں ہوگا.

اسی طرح جوتا پہن کر کھانے کی گنجائش تو ہے لیکن بہتر نہیں ہے البتہ آج کل یہ متکبرین کا شعار بن گیا ہے اس لیے اس سے احتیاط ضروری ہے۔

کھانا کھاتے ہوئے جو لقمہ زمین پر گرجاتا ہے اس کے بارے میں احادیث میں مذکور ہے کہ اگر کوئی لقمہ کھاتے ہوئے زمین پر گر جائے تو اسے اٹھا کر اس سے ایذا  پہنچانے والی چیز کو صاف کر کے کھا لیا جائے اور شیطان کے لئے نہ چھوڑا جائے۔

لہذا گرے ہوئے لقمہ کے سلسلہ میں حکم یہ ہے کہ اس پر سے مٹی وغیرہ ہٹا کر اسے کھانا ممکن ہو تو اسے کھا لینا مستحب ہے، چاہے مٹی ہاتھ سے ہٹا لی جائے یا دھو لی جائے۔ اور اگر اس کو ہٹانا ممکن نہ ہو یا کسی ناپاک چیز پر وہ لقمہ گرگیا ہے تو اسے کھایا نہ جائے،  بلکہ کسی ایسی جگہ ڈال دیا جائے جہاں سے عام طور پر جانور وغیرہ گزرتے ہو تاکہ وہ اس کے کھانے کے کام آجائے  اس کو شیطان کے لیے نہ چھوڑا جائے جیسا کہ احادیث میں وارد ہے۔


حاشیة الترغیب والترہیب میں ہے 

کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم إذا أتی بطعام وضعہ علی الأرض فہو أقرب إلی التواضع (حاشیة الترغیب والترہیب: ۳/۱۵۲)


مشکاة شریف میں ہے 

قال النبي صلی اللہ علیہ وسلم إذا وضع الطعام فاخلعوا نعالکم فإنہ أروح لأقدامکم (مشکاة شریف ۳٤۸)


مجمع الزوائد میں ہے 

عن أنس رضی اللّٰہ عنہ قال: قال النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم إذا أکلتم الطعام فاخلعوا نعالکم فإنہ أروح لأقدامکم۔ (مجمع الزوائد، کتاب الأطعمة / باب خلع النعال عند الأکل ۵/۲۳)


شرح النووی لصحیح مسلم میں ہے 

واستحباب أكل اللقمة الساقطة بعد مسح أذى يصيبها هذا إذا لم تقع على موضع نجس فإن وقعت على موضع نجس تنجست ولابد من غسلها إن أمكن فإن تعذر أطعمها حيوانا ولايتركها للشيطان ومنها إثبات الشياطين وأنهم يأكلون وقد تقدم قريبا (كتاب الأشربة ،باب  استحباب لعق الأصابع واكل اللقمة ١٣/٢٠٤ ط:داراحياء التراث)


شرح ریاض الصالحین میں ہے 

ولكن رسول الله صلى الله عليه وسلم ‌دلنا على الخير فقال: (فليأخذها وليمط ما بها من أذى، وليأكلها، ولا يدعها للشيطان) خذها وأمط ما بها من أذى ـ من تراب أو عيدان أو غير ذلك ـ ثم كلها ولا تدعها للشيطان. والإنسان إذا فعل هذا امتثالاً لأمر النبي صلى الله عليه وسلم وتواضعاً لله عز وجل وحرماناً للشيطان من أكلها؛ حصل على هذه الفوائد الثلاثة: الامتثال لأمر النبي صلى الله عليه وسلم، والتواضع، وحرمان الشيطان من أكلها. هذه فوائد ثلاث، ومع ذلك فإن أكثر الناس إذا سقطت اللقمة على السفرة أو على سماط نظيف تركها، وهذا خلاف السنة۔

وفي هذا الحديث من الفوائد: أنه لا ينبغي للإنسان أن ياكل طعاماً فيه أذى، لأن نفسك عندك أمانة، لا تأكل شيئاً فيه أذى، من عيدان أو شوك أو ما أشبه ذلك، وعليه فإننا نذكر الذين يأكلون السمك أن يحتاطوا لأنفسهم، لأن السمك لها عظام دقيقة مثل الإبر، إذا لم يحترز الإنسان منها، فربما تخل إلى بطنه وتجرح معدته أو أمعاءه وهو لا يشعر، لهذا ينبغي للإنسان أن يراعي نفسه، وأن يكون لها أحسن راع، فصلوات الله وسلامه على نبينا محمد وعلى آله وأصحابه ومن تبعهم بإحسان إلى يوم الدين۔ (باب الأمر بالمحافظة علي السنة ٢/٣٠٠ ط:دار الوطن للنشر)


فتاوی عالمگیری میں ہے

لا بأس بالشرب قائماً، ولايشرب ماشیاً، ورخص للمسافرين، ولايشرب بنفس واحد۔ (فتاوی عالمگیری ٥/ ٣٤١)


واللہ أعلم بالثواب والیہ المرجع والمآب 

العارض مفتی آصف بن محمد گودھروی

ہفتہ، 25 نومبر، 2023

وہ حضرات جن کو بھیک دے سکتے اور وہ حضرات جن کو بھیک نہیں دے سکتے ان کی تفصیل سوال نمبر ٤٤٣

سوال 

بسم اللہ الرحمن الرحیم السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ 

مفتیان کرام یہ بتلادیجئے کہ جو فقیر مانگتے رہتے ہیں ان کی مدد کرنا جائز ہے یا نہیں جن حضرات کے پاس ایک دن کا کھانا بھی ہو اور ستر چھپانے کا کپڑا بھی ہو ان کو دینے کا حکم نیز یہ بھی بتلادیں اگر کسی کے پاس فلحال تو کچھ نہ ہو لیکن وہ صحیح سالم ہو اور کمانے پر قدرت ہو اس کو دینے کا کیا حکم ہے؟

میں دینا چاہتا ہوں لیکن پھر یہ سوچتا ہوں کہ کہیں ثواب کے حصول کے چکر میں گناہ ہی نہ مل جائے کیونکہ خاص طور پر وہ حضرات جو رکشہ وغیرہ میں آتے ہیں ان کے پاس تو پہلے ہی سے بہت زیادہ ہوتا ہے لیکن ان میں سے بہت سے حضرات ہاتھ ٹانگ وغیرہ سے معذور ہوتے ہیں تو کیا ہاتھ یا ٹانگ وغیرہ سے معذور ہونا مانگنے کے  جواز کے لئے کافی ہے، اور ہمارا ان کو دینا صحیح ہے نیز اس طرف بھی راہنمائی فرمائیں کہ ہم جس سائل کو دے سکتے ہیں اس میں کیا کیا چیزیں دیکھنی چاہیے مفصل اور مدلل جواب ارسال فرمادیں مہربانی ہوگی

سائل: عبد السلام روڑکی ہریدوار


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی


اسلام میں ایسے شخص کو جس کے پاس ایک دن کے صبح و شام کے کھانے کا  اور ستر ڈھانکنے کے لئے  کپڑے کا انتظام موجود ہے، سوال کرنے سے منع کیا گیا ہے اسی طرح جو آدمی کمانے پر قادر ہو اس کے لیے بھی سوال کرنا جائز نہیں، اور مانگنے کی عادت اور پیشہ بنالینا یہ تو بالکل بھی جائز نہیں ہے، حدیث شریف میں آتا ہے کہ جو شخص بلاضرورت مانگتا ہے، قیامت کے دن اس کا یہ مانگنا اس کے چہرے پر زخم بن کر ظاہر ہوگا ایک دوسری روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص اپنے مال کو بڑھانے کے لیے سوال کررہا ہے تو وہ جہنم کا انگارہ جمع کررہا ہے، اب اس کی مرضی چاہے زیادہ جمع کرے یا کم۔ اسی طرح حضرت سہل سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جس کے پاس ایک دن کے صبح و شام کے کھانے کا انتظام موجود ہے، پھر بھی وہ سوال کرتا ہے تو وہ جہنم کی آگ اکٹھا کررہا ہے۔

مسؤلہ صورت میں ایسے لوگ جو حقیقت میں ضرورت مند اور محتاج نہ ہوں بلکہ بھیک مانگنا ان کا پیشہ بن گیا ہو، ان کے لیے بھیک مانگنا حرام اور ان کو دینا ناجائز ہے، جیسے شہروں میں سڑکوں پر ٹریفک سگنلز کے قریب جو لوگ بھیک مانگتے ہیں اور ان کے بارے میں کوئی جانتا ہو کہ یہ فقیر نہیں، بلکہ پیشہ ور ہیں، تو ان کو بھیک نہیں دینا چاہئے اسی طرح چاہے معذور ہو یا نہ ہو ان کا پیشہ ہی بھیک مانگنا ہوتو ان کو دینا جائز نہیں ہے۔


 کن حضرات کو بھیک نہیں دے سکتے۔

(١) پیشہ ور فقیروں کو دینا درست نہیں ہے یعنی جو کمانے کی طاقت ہونے کے باوجود راستوں اور بازاروں میں بھیک مانگنے کا پیشہ بنا لیا ہے ان کو کچھ بھی نہ دیا جائے اور یہ لوگ اَمَّا السَّآئِلَ فَلاَ تَنْہَرْ یعنی سوال کرنے والے کو جھڑکو مت، کے زمرے میں داخل نہیں ہوں گے ان کو نہ دینے کی صورت میں کوئی گناہ نہ ہوگا۔


(٢) اسی طرح جس آدمی کے پاس ایک دن کا کھانا ہو اور ستر ڈھانکنے کے لئے کپڑا ہو اس کا لوگوں سے مانگنا جائز نہیں ہے لہذا ان کو بھی نہ دیا جائے۔


(٣) اسی طرح ایسے افراد جو ہاتھوں اور پیروں سے معذور ہے اور انہوں نے مستقل بھیک مانگنے کا پیشہ بنالیا ہے ان کو بھی بلا ضرورت نہ دیا جائے۔ 


(٤) خصوصاً جن کے بارے میں علم ہو کہ یہ پیشہ ور بھکاری ہیں تو ایسے افراد کو نہ دیکر ان کی حوصلہ شکنی کرنی چاہیے البتہ اگر کسی نے بھیک دے دی تو وہ گناہ گار نہ ہوگا، لینے والا گناہ گار ہوگا، البتہ ایسے افراد کو زکات یا صدقاتِ واجبہ دینا جائز نہیں ہے۔


کن حضرات کو بھیک دے سکتے۔

(١) اگر کسی آدمی پر فاقہ ہو یا واقعی کوئی سخت ضرورت پیش آگئی ہو جس کی وجہ سے وہ انتہائی مجبوری کی بنا پر سوال کرے تو اس کے لئے مانگنے کی گنجائش ہے اور اس کو حسب استطاعت مدد کرنا چاہیئے 


(٢) ہاتھ پیروں سے معذور آدمی کو بقدر ضرورت اپنی استطاعت کے مطابق مدد کرنا چاہیئے۔


(٣) مقروض آدمی جب کہ وہ اپنا قرضہ چکانے کی طاقت نہ رکھنا ہو تو اس کو بھی دینا چاہیئے


(٤) گھر سے محروم آدمی کو گھر بنانے کے لئے دینا چاہیئے


(٥) دواء و علاج کے لئے جب کہ اس کے پاس گنجائش نہ ہو تو اس کو بھی  دینا چاہیئے


(٦) ایسا آدمی جس کا خاندان بڑا ہو اور کمائی ان کے مقابلے میں پوری نہ ہوتی ہو تو اس کو بھی دینا چاہیئے۔


(٧) شادی بیاہ میں جب اس کے پاس خرچ کا انتظام نہ ہو تو شرعی حد تک امداد دینی چاہیئے۔


(٨) حصول علم میں کسی کے پاس ذرائع نہ ہو تو اس کی بھی حسب استطاعت امداد کرنی چاہیئے۔


(٩) جو آدمی اللہ کے راستے میں ظالموں کا مقابلہ کرنا چاہے یا اللہ کے راستے میں نکلنے کا عزم مصمم ہو اور اس کے پاس ذرائع نہ ہو تو اس کی بھی مدد کرنی چاہیئے۔


ان حضرات کے پیچھے خرچ کرنے سے وہ عند اللہ ماجور ہوگا اور عند اللہ درجات و ترقیات کا سبب ہوگا ان شاءاللہ


صحيح مسلم میں ہے:

حدثنا أبو كريب وواصل بن عبد الأعلى قالا: حدثنا ابن فضيل عن عمارة بن القعقاع عن أبي زرعة عن أبي هريرة قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم من سأل الناس أموالهم تكثراً فإنما يسأل جمراً فليستقل أو ليستكثر (صحيح مسلم، كتاب الزكاة، باب من تحل له المسألة، رقم الحديث: ١٠٤١)

ایضاً 

عن قبيصة بن مخارق الهلالي قال: تحملت حمالةً، فأتيت رسول الله صلى الله عليه وسلم أسأله فيها، فقال: أقم حتى تأتينا الصدقة فنأمر لك بها، قال: ثم قال: يا قبيصة! إن المسألة لا تحل إلا لأحد ثلاثة: رجل تحمل حمالةً فحلت له المسألة حتى يصيبها ثم يمسك، ورجل أصابته جائحة اجتاحت ماله فحلت له المسألة حتى يصيب قواماً من عيش ـ أو قال: سداداً من عيش ـ، ورجل أصابته فاقة حتى يقوم ثلاثة من ذوي الحجا من قومه لقدأصابت فلاناً فاقة فحلت له المسألة حتى يصيب قواماً من عيش ـ أو قال: سداداً من عيش ـ، فما سواهن من المسألة يا قبيصة سحتاً يأكلها صاحبها سحتاً". (صحيح مسلم، كتاب الزكاة، باب من تحل له المسألة، رقم الحديث، ١٠٤٤)


النهر الفائق میں ہے

ولا يسأل أي لا يحل له أن يسأل شيئا من القوت من له قوت يومه وهذا أولى من قوله في البحر أي لا يحل له أن يسأل قوت يومه لأن عدم الحل لا يتقيد به لخبر: من سأل الناس وعنده ما يغنيه فإنما يستكثر جمر جهنم قالوا يا رسول الله ومايغنيه؟ قال يغديه ويعشيه قيد بالسؤال لأن الأخذ لغيره لمن له القوت جائز وبقوت يومه لأن له أن يسأل الكسوة إذا كان عاريا كمن لا قوت له إلا إذا كان مكتسيا فلا يحل له السؤال إلا إذا كان غازيا لاشتغاله بالجهاد كذا في (غاية البيان).( ١/٤٦٩ النهر الفائق)


بذل المجہود میں ہے 

وأما في ہذا الزّمان فتشاہد کثیراً من الناس اتخذوا السوال حرفة لہم ولہم فضول أموال فحینئذ یحرم لہم السوال ویحرم علی الناس إعطاوٴہم۔ (بذل المجہود: ٣/٥٤) 


شامی میں ہے

ولا يحل أن يسأل من القوت من له قوت يومه بالفعل أو بالقوة كالصحيح المكتسب ويأثم معطيه إن علم بحاله لإعانته على المحرم ولو سأل للكسوة أو لاشتغاله عن الكسب بالجهاد أو طلب العلم جاز لو محتاجا۔

قوله ولا يحل أن يسأل إلخ قيد بالسؤال لأن الأخذ بدونه لا يحرم بحر وقيد بقوله شيئا من القوت لأن له سؤال ما هو محتاج إليه غير القوت كثوب شرنبلالية۔

وإذا كان له دار يسكنها ولا يقدر على الكسب قال ظهير الدين  لا يحل له السؤال إذا كان يكفيه ما دونها معراج ثم نقل ما يدل على الجواز وقال وهو أوسع وبه يفتى 

قوله كالصحيح المكتسب لأنه قادر بصحته واكتسابه على قوت اليوم بحر  قوله ويأثم معطيه إلخ قال الأكمل في شرح المشارق

وأما الدفع إلى مثل هذا السائل عالما بحاله فحكمه في القياس الإثم به ; لأنه إعانة على الحرام ، لكنه يجعل هبة وبالهبة للغني أو لمن لا يكون محتاجا إليه لا يكون آثما (فتاوی شامي ٣/٣٠٦ مکتب عالم الکتاب)


واللہ أعلم بالثواب والیہ المرجع والمآب 

العارض مفتی آصف بن محمد گودھروی


منگل، 21 نومبر، 2023

میز یا ٹیبل پر کھانا رکھ کر اور کرسی پر بیٹھ کر کھانے کا شرعی حکم سوال نمبر ٤٤٢

 سوال 

السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ

مفتی صاحب ایک مسئلہ ہے کہ شادی وغیرہ کی تقریب میں اسی طرح ہوٹلوں میں میز یا ٹیبل پر کھانا رکھ کر اور کرسی پر بیٹھ کر کھانا کھانا اور کھلانا کیسا ہے؟ جائز ہے یا حرام ہے یا مکروہ ہے؟ اور بعض لوگوں سے سنا گیا ہے کہ یہ یہودیوں کا طریقہ ہے اس طرح سے کھانا درست نہیں ہے تو کیا یہ صحیح ہے؟ 

سائل: عامر احمد ایم پی


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی


میز یا کرسی پر بیٹھ کر کھانا کھانا یا کھلانا یہ آداب طعام کے خلاف ہے لہٰذا بلاعذر کرسی یا میز پر بیٹھ کر کھانے یا کھلانے سے احتیاط کرنا چاہیے لیکن خصوصیت سے اس بارے میں کوئی ممانعت وارد نہیں ہوئی البتہ یہ طریقہ نصاریٰ کا تھا اور انھیں کے ساتھ خاص تھا اور حدیث میں "إيَّاكُمْ وزي الْأَعَاجِم عجمیوں کے طریقوں سے بچو" اس حدیث کی رو سے اس طرح سے کھانے سے احتراز لازم تھا لیکن اب خاص یہ طریقہ ان کا نہ رہا اب یہ ہر جگہ شائع و ذائع ہوگیا ہے اس لئے میز یا ٹیبل پر کھانا گناہ نہیں رہا۔


البتہ سنت کے خلاف ضرور ہے لیکن یہ سنت مؤکدہ بھی نہیں ہے کہ جس کا ترک گناہ ہو البتہ مکروہ تنزیہی ضرور ہے بلا ضرورت کہ اس طرح نہ کھایا جائے بلکہ سنت کے مطابق ہی کھانا اور کھلانا چاہیئے اللہ کے رسول سے زمین پر دسترخوان بچھاکر کھانے کے متعلق روایات مروی ہے بخاری شریف میں ہے کہ حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی خوان پر کھانا نہیں کھایا اور نہ چھوٹی چھوٹی طشتریوں میں کھایا اور نہ آپ کے لئے پتلی پتلی چپاتی پکائی گئی حضرت قتادہ سے پوچھا گیا کہ وہ کس چیز پر کھانا کھاتے تھے؟ انہوں نے کہا کہ یہی چمڑے کے دسترخوان پر۔ حدیث میں لفظ خوان مستعمل ہے جس کا ایک معنی  چوکی  یا میز بھی ہوتا ہے جس پر کھانا رکھ کر کھایا جائے تاکہ کھانے میں جُھکنا نہ پڑے، ہاں اگر کوئی عذر ہو مثلاً بدن بھاری ہونے کی وجہ سے زمین پر نہ بیٹھ سکے یا کسی ایسی جگہ دعوت ہو جہاں کرسی پر بیٹھنے کے علاوہ انتظام نہ ہو تو ایسے موقع پر کرسی یا میز پر بیٹھ کر کھانے میں سنت کے خلاف نہیں ہے۔


حاشیة الترغیب والترہیب میں ہے

کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم إذا أتی بطعام وضعہ علی الأرض فہو أقرب إلی التواضع (حاشیة الترغیب والترہیب: ۳/۱۵۲)


بخاری شریف میں ہے

عن أنس رضی اللّٰہ عنہ قال: ما علمت النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم أکل علی سُکُرُّجةٍ قطُّ، ولا خُبزَ لہ مُرققٌ قطُّ، ولا أکل علی خِوانٍ قطُّ، فقیل لقتادة: فعلی ما کانوا یأکلون؟ قال: علی السفر۔ (صحیح البخاری، کتاب الأطعمة / باب الخبز المرقق والأکل علی الخوان والسفرة ۲/۸۱۱ دار الفکر بیروت)


الکوکب الدري میں ہے

والحاصل أن الأکل علیہ (أي الخوان) بحسب نفس ذاتہ لا یربو علی ترک الأولیة فأما إذا لزم فیہ التشبہ بالیہود أو النصاری -کما ہو في دیارنا- کان مکروہًا تحریمًا وأما إذا لم یکن علی دأبہم فلا یخلوا أیضًا عن تفویت منافع․ (الکوکب الدری) قال المحشي: قال المناوي: یعتاد المکتبرون من العجم الأکل علیہ لئلا تنخفض روٴوسہم، فالأکل علیہ بدعة لکنہ جائز إن خلا عن قصد التکبر․ (الکوکب الدري مع حاشیتہ ط المکتبة الیحویة) 


جمع الوسائل في شرح الشمائل میں ہے

اعلم أنہ یطلق الخوان في المتعارف علی ما لہ أرجل ویکون مرتفعًا عن الأرض، واستعمالہ لم یزل من دأب المترفین وصنیع الجبارین لئلا یفتقروا إلی خفض الرأس عند الأکل، فالأکل علیہ بدعة لکنہا جائزة․ (جمع الوسائل في شرح الشمائل ص٤٤ ط ادارة التالیفات اشرفیہ/ ملتان)


الموسوعۃ الفقھیۃ میں ہے

فالسنة عند الحنفية بالمعنى الفقهي نوعان: أ - سنة الهدى: وهي ما تكون إقامتها تكميلا للدين، وتتعلق بتركها كراهة أو إساءة، كصلاة الجماعة، والأذان، والإقامة، ونحوها، وذلك لأن النبي صلى الله عليه وسلم واظب عليها على سبيل العبادة، وتسمى أيضا السنة المؤكدة.

ب - سنن الزوائد: وهي التي لا يتعلق بتركها كراهة ولا إساءة، لأن النبي صلى الله عليه وسلم فعلها على سبيل العادة، فإقامتها حسنة، كسير النبي صلى الله عليه وسلم في لباسه وقيامه، وقعوده وأكله، ونحو ذلك۔ (الموسوعۃ الفقھیۃ الکویتیۃ ٢٥/٢٦٥ ط: دار السلاسل)


واللہ أعلم بالثواب والیہ المرجع والمآب 

العارض مفتی آصف بن محمد گودھروی

منگل، 7 نومبر، 2023

چوری کے مال کی خریدو فروخت کرنا کیسا ہے؟ سوال نمبر ٤٤١

 سوال

السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ 

مسئلہ یہ ہے کہ ایک آدمی مثلا زید عمرو سے کوئی چیز خرید رھا ھے اور عمر کو جو پیسوں پر چیز دے رہے ہیں بائع  وہ چوری کی ہے تو اب زید کے لیے عمر سے پیسوں پر وہ چیز خریدنا جائز ھے یا نہیں

سائل: سیف اللہ سندی


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی


چوری کا مال اصولی اعتبار سے اصل مالک کا ہی رہے گا چاہے وہ جتنے ہاتھوں میں چلاجائے وہ اوروں کے لئے حرام ہی رہتا ہے اور اصل مالک کے علاوہ کوئی دوسرا اس کامالک نہیں بنتا اس لیے چوری کے مال کی خرید و فروخت کرنا کسی حال میں جائز نہیں ہے،


صورت  مسئولہ میں اگر پہلے سے معلوم ہے کہ یہ مال چوری کا ہے یا قرائن سے  غالب گمان یہ ہے کہ یہ  مال چوری کا ہے تو شرعاً ایسا مال خریدنا جائز نہیں ہے اور اگر کوئی شخص چوری کے مال کی خریدو فروخت کرتا ہے تو ایسے شخص کے ساتھ کاروباری معاملات رکھنا بھی شرعا جائز نہیں یہاں تک کہ مشکوک مال کے خریدو فروخت سے بھی اجتناب بہتر ہے اگرچہ مال مشکوک ہونے کی صورت میں خریدو فروخت کی گنجائش ہے۔


السنن الکبری میں ہے

عن شرحبيل مولى الأنصار عن أبي هريرة عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال من اشترى سرقةً وهو يعلم أنها سرقة فقد أشرك في عارها وإثمها۔ (السنن الكبرى للبيهقي ۵/٥٤٨ کتاب البیوع باب كراهية مبايعة من أكثر ماله من الربا أو ثمن المحرم ط دار الكتاب العلمية)


فتاوی شامی میں ہے

(‌الحرام ينتقل) أي تنتقل حرمته وإن تداولته الأيدي وتبدلت الأملاك، ويأتي تمامه قريبا(قوله ولا للمشتري منه) فيكون بشرائه منه مسيئا؛ لأنه ملكه بكسب خبيث، وفي شرائه تقرير للخبث، ويؤمر بما كان يؤمر به البائع من رده على الحربي؛ لأن وجوب الرد على البائع إنما كان لمراعاة ملك الحربي ولأجل غدر الأمان وهذا المعنى قائم في ملك المشتري كما في ملك البائع الذي أخرجه۔ (ردالمحتار على الدر المختار كتاب البيوع باب البيع الفاسد مطلب الحرمۃ تتعدد ۷/۳۰۰)

ایضاً 

‌والحاصل ‌أنه ‌إن ‌علم أرباب الأموال وجب رده عليهم وإلا فإن علم عين الحرام لا يحل له ويتصدق به بنية صاحبه۔ (رد المحتار على الدر المختار باب البيع الفاسد مطلب فيمن ورث مالا حراما ۷/۳۰۱)


حاشیۃ الطحطاوی علی الدر المختار میں ہے:

ان علم ان العين التي يغلب علي الظن انهم اخذوها من الغير بالظلم قائمة وباعوها في الاسواق فانه لاينبغي شرائها منهم وان تداولته الأيدي۔ ( کتاب الحظر والاباحۃ فصل فی البیع ٤/١٩٢ ط دار المعرفۃ)


واللہ أعلم بالثواب والیہ المرجع والمآب 

العارض مفتی آصف بن محمد گودھروی

ہفتہ، 4 نومبر، 2023

جمعہ کے بعد کی چھ رکعت سنتیں ایک سلام سے پڑھنے کا حکم سوال نمبر ٤٤٠

 سوال 

السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ مفتی صاحب 

کوئی شخص جمعہ کی نماز کے بعد چھ رکعات ایک سلام سے پڑھے تو کیا آخری دو رکعات سنت مؤکدہ شمار ھوگی؟

سائل: مولانا بلال صاحب نولپوری 


الجواب وباللہ التوفیق 

باسمہ سبحانہ وتعالی


سنن مؤکدہ کو فقہاء نے أفعال کے اعتبار سے فرض کے قائم مقام قرار دیا ہے، لہذا سنتِ مؤکدہ کے اداکرنے کا وہی حکم و طریقہ ہے جو چار رکعت فرض کی ادائیگی کا ہے صرف اتنا فرق ہے کہ فرض کی آخری دورکعتوں میں  صرف سورۂ فاتحہ پڑھنا سنت ہے اور سنن مؤکدہ میں چاروں رکعتوں میں  سورۂ فاتحہ کے ساتھ ساتھ کوئی اور سورت یا آیات بھی ملانا ضروری ہے شامی میں ہے ولا يستفتح إذا قام إلى الثالثة منها لأنها لتأكدها أشبهت الفريضة۔ لہذا سنن مؤکدہ کا بھی وہی حکم ہوگا جو فرائض کا ہے۔


لہذا مسؤلہ صورت میں چونکہ دو الگ الگ سنن مؤکدہ کو ایک ہی تکبیر تحریمہ سے ادا کیا جارہا ہے اور سنن مؤکدہ فرائض کے مشابہ ہے تو جس طرح دو الگ الگ فرائض ایک تحریمہ سے درست نہیں ہے اسی طرح دو سنن مؤکدہ ایک تحریمہ سے درست نہیں ہوگی اور وہ دو رکعت سنت مؤکدہ میں شمار نہیں ہوگی۔


الدر المختار مع الشامی میں ہے۔

وسن مؤكدا أربع قبل الظهر و أربع قبل ( الجمعة و أربع ( بعدها بتسليمة فلو بتسليمتين لم تنب عن السنة ولذا لو نذرها لا يخرج عنه بستليمتين وبعكسه يخرج (فتاوی شامی ٢/٤٥١)

ایضاً 

ولايصلى على النبي صلى الله عليه وسلم في القعدة الأولى في الأربع قبل الظهر والجمعة وبعدها ولو صلى ناسياً فعليه السهو، وقيل: لا، شمني ولا يستفتح إذا قام إلى الثالثة منها لأنها لتأكدها أشبهت الفريضة۔ (الدر المختار وحاشية ابن عابدين ٢/٤٥٦)


واللہ أعلم بالثواب والیہ المرجع والمآب 

العارض مفتی آصف بن محمد گودھروی

بینک میں رکھے ہوئے پیسوں کے بدلے اپنے پاس سے صدقہ کرنا سوال نمبر ٤٣٩

 سوال

السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ 

مفتی صاحب میرے موبائل میں ایک ہزار روپے ہیں جو مشکوک ہیں اب اگر میں ایسا کروں کہ موبائل والے ہزار روپے استعمال کردوں اور جیب سے ہزار روپے صدقہ کردوں تو کیا جائز ہے؟

سائل: سہیل جے پوری


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی


مذکورہ صورت کو سمجھنے سے پہلے یہ بات بطور تمہید کے سمجھلیں کہ ثمن متعین کرنے سے متعین نہیں ہوتاہے بیوعات میں بھی ثمن کی تعیین صرف بائع یا مشتری کو بھروسہ دینے کے لئے ہوتی ہے ہدایہ میں بھی یہ بات بطور اصول کے بیان کی ہے کہ ثمن کو متعین کرنے سے اس کی تعیین نہیں ہوتی۔

لہذا صورت مسئولہ میں جو صورت بیان کی ہے کہ موبائل میں ایک ہزار روپے مشکوک ہیں اب موبائل والے ہزار روپے استعمال کرکے الگ سے ہزار روپے صدقہ کریں تو یہ صورت جائز ہے اور سائل اس طرح سے صدقہ کرنے سے ذمہداری سے سبکدوش ہوجائے گا۔


حدیث میں ہے۔

عن ابن عمر قال کنت أبیع الابل فی البقیع فأبیع بالدنانیر و آخذ الدراہم و أبیع بالدراہم و آخذبا لدنانیر فوقع فی نفسی من ذالک فأتیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم و ھو فی بیت حفصة او قال حین خرج من بیت حفصة فقلت یا رسول اللہ رویدک أسألک انی أبیع الابل بالبقیع فأبیع بالدنانیر و آخذ الدراہم و ابیع بالدراہم و آخذ الـدنـانـيـر ، فقال : لا بأس ان تأخذها بسعر يومها مالم تفرقا و بينكما شئ ۔ ( سنن بیہقی ، باب اقتضاء الذهب من الورق، ٤٦٦/٥، نمبر ۱۰۵۱۳ )


اثر میں ہے۔

عـن ابـن سـيـريـن قـال اذا بعت شيئا بدينار فحل الاجل فخذ بالدينار ما شئت من ذلك النوع و غيـره . ( مصنف عبدالرزاق ، باب السلعۃ یسلفھا فی دینار ھل یاخذ غیرالدینار ٨/١٢، نمبر ١٤۱۹۳) 


ہدایہ میں ہے۔

لیس فیہ غرر الانفساخ بالہلاک لعدم تعینہابالتعیین بخلاف المبیع۔ (ہدایہ رحمانیہ ٣/٨٠)


واللہ أعلم بالثواب والیہ المرجع والمآب 

العارض مفتی آصف بن محمد گودھروی