سوال
السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ مفتی صاحب
کوئی شخص جمعہ کی نماز کے بعد چھ رکعات ایک سلام سے پڑھے تو کیا آخری دو رکعات سنت مؤکدہ شمار ھوگی؟
سائل: مولانا بلال صاحب نولپوری
الجواب وباللہ التوفیق
باسمہ سبحانہ وتعالی
سنن مؤکدہ کو فقہاء نے أفعال کے اعتبار سے فرض کے قائم مقام قرار دیا ہے، لہذا سنتِ مؤکدہ کے اداکرنے کا وہی حکم و طریقہ ہے جو چار رکعت فرض کی ادائیگی کا ہے صرف اتنا فرق ہے کہ فرض کی آخری دورکعتوں میں صرف سورۂ فاتحہ پڑھنا سنت ہے اور سنن مؤکدہ میں چاروں رکعتوں میں سورۂ فاتحہ کے ساتھ ساتھ کوئی اور سورت یا آیات بھی ملانا ضروری ہے شامی میں ہے ولا يستفتح إذا قام إلى الثالثة منها لأنها لتأكدها أشبهت الفريضة۔ لہذا سنن مؤکدہ کا بھی وہی حکم ہوگا جو فرائض کا ہے۔
لہذا مسؤلہ صورت میں چونکہ دو الگ الگ سنن مؤکدہ کو ایک ہی تکبیر تحریمہ سے ادا کیا جارہا ہے اور سنن مؤکدہ فرائض کے مشابہ ہے تو جس طرح دو الگ الگ فرائض ایک تحریمہ سے درست نہیں ہے اسی طرح دو سنن مؤکدہ ایک تحریمہ سے درست نہیں ہوگی اور وہ دو رکعت سنت مؤکدہ میں شمار نہیں ہوگی۔
الدر المختار مع الشامی میں ہے۔
وسن مؤكدا أربع قبل الظهر و أربع قبل ( الجمعة و أربع ( بعدها بتسليمة فلو بتسليمتين لم تنب عن السنة ولذا لو نذرها لا يخرج عنه بستليمتين وبعكسه يخرج (فتاوی شامی ٢/٤٥١)
ایضاً
ولايصلى على النبي صلى الله عليه وسلم في القعدة الأولى في الأربع قبل الظهر والجمعة وبعدها ولو صلى ناسياً فعليه السهو، وقيل: لا، شمني ولا يستفتح إذا قام إلى الثالثة منها لأنها لتأكدها أشبهت الفريضة۔ (الدر المختار وحاشية ابن عابدين ٢/٤٥٦)
واللہ أعلم بالثواب والیہ المرجع والمآب
العارض مفتی آصف بن محمد گودھروی
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں