ہفتہ، 25 مئی، 2024

سوال

حضرت مفتی صاحب نکاح کسے کہتے ہیں؟ اس کا معنی و مطلب کیا ہے؟ نکاح کے معنی میں  اور ائمہ کا کیا رجحان ہے؟ نکاح کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ پہلے زمانے میں کس طرح نکاح ہواکرتے تھے؟ فی زماننا وہ جائز ہے یا نہیں؟ مفصل جواب مطلوب ہے۔

العارض: حافظ سعدالدین ایم پی

الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی

عربی اور اردو زبان میں نکاح کا لفظ رائج ہے جبکہ اردو میں نکاح کے مترادف الفاظ شادی بیاہ بھی رائج ہیں انگریزی زبان میں اس کے لیے marriage کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔


نکاح کا معنی و مفہوم

لفظ نکاح باب  نكح  ينكح (منع، ضرب) سے مصدر ہے اور وہ جماع کرنے کے اور عقد کرنے کے معنی میں مستعمل ہے  استنكح  (استفعال) شادی کرنا  أنكح   (افعال)  شادی کرانا  تناكح   (تفاعل)  ایک دوسرے سے شادی کرنا۔

نکاح کے لغوی معنی کے بارے میں علامہ عبدالرحمن الجزیری لکھتے ہیں لغت کی رو سے اس کے معنی  وطى   (یعنی مباشرت یا جماع) اور باہم ملنے کے ہیں چنانچہ درخت کی شاخیں جب ایک دوسرے سے مل جائیں اور وہ باہم پیوست ہو جائیں تو کہا جاتا ہے   تناكحت الاشجار (یعنی درختوں کا ہجوم ہوگیا یا درخت آپس میں مل گئے اور اس کا اطلاق عقد یعنی نکاح پر بھی ہوتا ہے کیونکہ یہ سبب ہے مباشرت کا۔

نکاح کے شرعی معنی

نکاح کے شرعی معنی کے بارے میں عبدالرحمن الجزیری لکھتے ہیں دوسرے معنی اصولی ہیں جسے شرعی معنی بھی کہتے ہیں اس بارے میں علماء کے تین مختلف اقوال ہیں ۔ 

پہلا قول یہ ہے کہ نکاح کے معنی مباشرت کے ہیں اور مجازی معنی عقد نکاح کے ہیں۔

دوسرا قول یہ ہے کہ نکاح کے حقیقی معنی عقد کے ہیں اور مجازی معنی وطی کے ہیں، اس کا ثبوت قرآن اور حدیث میں لفظ زیادہ تر عقد کے معنی میں مستعمل ہوا ہے۔

تیسرا قول یہ ہے کہ لفظ نکاح عقد اور وطی دونوں معنوں میں مشترک ہے دراصل اقوال ثلاثہ میں سے یہ قول سب زیادہ قوی ہے۔

نکاح کے فقہی معنی: ۔نکاح کے تیسرے معنی فقہی ہیں

جس کی تعبیر فقہاء نے مختلف عبارتوں سے کی ہے لیکن مفہوم سب کا ایک ہے اور یہ کہ عقد نکاح شارع نے اس لیے رکھا ہے کہ اس سے خاوند اپنی بیوی کے تمام جسم سے محفوظ ہو سکے ۔ علامہ الجزیری نے کتاب الفقہ میں حنفی ، مالکی ، شافعی فقہاء سے نکاح کی جو تعریفیں منقول ہیں ان کو بیان کیا ہے۔

  احناف کے نزدیک

نکاح ایک معاملہ ہے جو اس ارداہ سے کیا جائے کہ ایک شخص ملک متعہ کا مالک ہو جائے ۔ 

نکاح کی فقہی تعریف: مولانا مجاہد الاسلام نکاح کی تعریف بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں نکاح مرد و عورت کے درمیان شرعی اصولوں پر کیا گیا معاہدہ ہے جس کے نتیجے میں ایک دوسرے کے ساتھ جنسی تعلق جائز اور پیدا ہونے والی اولاد کا نسب شرعا ثابت ہو جاتا ہے اور باہم حقوق و فرائض عائد ہو جاتے ہیں

شوافع کے نزدیک

نکاح ایک معاملہ ہے جس میں نکاح یا تزویج یا اس کے ہم معنی لفظ استعمال کیا جاتا ہے تاکہ اس سے مباشرت کی ملکیت حاصل ہو اور غرض اس سے یہ ہوتی ہے کہ ایک شخص لذت معلومہ سے تمتع کا مالک ہو جائے

 مالکیہ کے نزدیک

نکاح محض جنسی لذت ( یا عورت سے مباشرت کے لیے ایک معاملہ ہے جو حصول لذت سے پہلے گواہوں کی موجودگی میں کیا جاتا ہے۔

نکاح کی شرعی حیثیت 

فرض

اگر زنا میں مبتلا ہونے کا یقین ہو، اورمہر اور نفقہ پر بھی قادر ہو تو اس کے لیے  نکاح کرنا فرض ہے، اگر نکاح نہیں کرے گا تو گناہ گار ہوگا۔

واجب

اگر زنا میں مبتلا ہونے کا محض گمان ہو، اورمہر اور نفقہ پر بھی قادر ہو تو اس کے لیے  نکاح کرنا واجب ہے، اگر نکاح نہ کرنے کی صورت میں گنہگار ہوگا۔

سنت

نکاح کی استطاعت رکھنے والے افراد کے لیے عمومی احوال میں نکاح کرنا سنت  ہے، اگر کوئی شخص نکاح پر قدرت کے باوجود ساری عمر نکاح نہیں کرتا تو وہ تارکِ سنت ہوگا اس لیے حسبِ وسعت اسباب میسر آنے کی صورت میں نکاح کرنا چاہیے یہ ایمان کی تکمیل اور پاک دامنی کے حصول کا ذریعہ ہے، اور نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی سنت ہے۔

حرام

اگر نکاح کرنے کے بعد ظلم اور بیوی کے حقوق ضائع ہونے کا یقین ہو تو نکاح کرنا حرام ہے  اور اگر یقین نہ ہو، بلکہ اندیشہ ہو تو نکاح کرنا مکروہ ہے۔ 

مکروہ

اگر نکاح کرنے کے بعد ظلم اور بیوی کے حقوق ضائع ہونے کا محض اندیشہ اور گمان ہو، تو نکاح کرنا مکروہ ہے۔

زمانہ جاہلیت کے نکاح 

 عام نکاح

یہ نکاح اصولی طور پر آج بھی رواج میں ہے کہ ایک آدمی کی طرف سے دوسرے آدمی کو اس کی بیٹی یا اس کی زیر دست ولایت لڑکی کے لیے نکا ح کا پیغام دیا جاتا. پھر وہ مناسب مہر مقرر کر کے اس لڑکی کا نکاح اس آدمی سے کر دیتا.


  زواج البعولۃ

 یہ نکاح عرب میں بہت عام تھا. اس میں یہ تھا کہ مرد ایک یا بہت سی عورتوں کا مالک ہوتا. بعولت (خاوند ہونا) سے مراد مرد کا ’’عورتیں جمع کرنا‘‘ ہوتا تھا. اس میں عورت کی حیثیت عام مال و متاع جیسی ہوتی.

  زواج البدل 

بدلے کی شادی، اس سے مراد دو بیویوں کا آپس میں تبادلہ تھا. یعنی دو مرد اپنی اپنی بیویوں کو ایک دوسرے سے بدل لیتے اور اس کا نہ عورت کو علم ہوتا، نہ اس کے قبول کرنے، مہر یا ایجاب کی ضرورت ہوتی. بس دوسرے کی بیوی پسند آنے پر ایک مختصر سی مجلس میں یہ سب کچھ طے پاجاتا.

  نکاح الخدن 

دوستی کی شادی، اس میں مرد کسی عورت کو اپنے گھر بغیر نکاح، خطبہ اور مہر کے رکھ لیتا اور اس سے ازدواجی تعلقات قائم کر لیتا اور بعد ازاں یہ تعلق باہمی رضا مندی سے ختم ہو جاتا کسی قسم کی طلاق کی ضرورت نہیں تھی. اگر اولاد پیدا ہو جاتی تو وہ ماں کی طرف منسوب ہوتی. یہ طریقہ آج کل مغربی معاشرے میں بھی رائج ہے.

  نکاح الضغینہ

 جنگ کے بعد مال اور قیدی ہاتھ لگتے اور جاہلیت میں فاتح کے لیے مفتوح کی عورتیں، مال وغیرہ سب مباح تھا یہ عورتیں فاتح کی ملکیت ہو جاتیں اور وہ چاہتا تو انہیں بیچ دیتا چاہتا تو یونہی چھوڑ دیتا اور چاہتا تو ان سے مباشرت کرتا یا کسی دوسرے شخص کو تحفہ میں دے دیتا. یوں ایک آزاد عورت غلام بن کر بک جاتی. اس نکاح میں کسی خطبہ، مہر یا ایجاب و قبول کی ضرورت نہ تھی.

  نکاح شغار

 وٹے سٹے کی شادی. یہ وہ نکاح تھا کہ ایک شخص اپنی زیرسرپرستی رہنے والی لڑکی کا نکاح کسی شخص سے اس شرط پر کر دیتا کہ وہ اپنی کسی بیٹی، بہن وغیرہ کا نکاح اس سے کرائے گا. اس میں مہر بھی مقرر کرنا ضروری نہ تھا اسلام نے اس کی بھی ممانعت فرما دی. 

 نکاح الاستبضاع 

فائدہ اٹھانے کے لیے عورت مہیا کرنے کا نکاح. مراد یہ ہے کہ ایک شخص اپنی بیوی کو کسی دوسرے خوبصورت مرد کے ساتھ ازدواجی زندگی گزارنے کے لیے بھیج دیتا اور خود اس سے الگ رہتا تاکہ اس کی نسل خوبصورت پیدا ہو اور جب اس کو حمل ظاہر ہو جاتا تو وہ عورت پھر اپنے شوہر کے پاس آجاتی…

 نکاح الرہط

اجتماعي نکاح- اس کا مطلب يہ ہے کہ تقريباً دس آدمي ايک ہي عورت کے ليے جمع ہوتے اور ہر ايک اس سے مباشرت کرتا اور جب اس کے ہاں اولاد ہوتي تو وہ ان سب کو بلواتي اور وہ بغير کسي پس وپيش کے آ جاتے پھر وہ جسے چاہتي (پسند کرتي يا اچھا سمجھتي) اسے کہتي کہ يہ بچہ تيرا ہے اور اس شخص کو اس سے انکار کرنے کي اجازت نہ ہوتي تھي- 

نکاح البغايا

فاحشہ عورتوں سے تعلق، يہ بھي نکاح رہط سے ملتا جلتا ہے مگر اس ميں دو فرق تھے، ايک تو يہ کہ اس ميں دس سے زيادہ افراد بھي ہو سکتے تھے جبکہ نکاح رہط ميں دس سے زيادہ نہ ہوتے تھے- دوسرے يہ کہ ان مردوں سے بچہ منسوب کرنا عورت کا نہيں بلکہ مرد کا کام ہوتا تھا-

نکاح متعہ

 (عربی :  نكاح المتعة )  جسے عرف عام میں متعہ یا صیغہ کہا جاتا ہے؛ بغیر گواہوں کے ولی (شہادت) کی موجودگی یا غیر موجودگی میں ہونے والا ایک ایسا نکاح ہے جس کی مدت (ایک روز، چند روز، ماہ، سال یا کئی سال) معین ہوتی ہے جو فریقین خود طے کرتے ہیں اور اس مدت کے اختتام پر خود بخود علیحدگی ہو جاتی ہے یا اگر مرد باقی ماندہ مدت بخش دے تب بھی عورت نکاح سے آزاد ہو جاتی ہے مگر ہر صورت میں عدت اپنی شرائط کے ساتھ پوری کرنی پڑتی ہے اور اس نکاح کے نتیجے میں پیدا ہونے والی اولاد ماں کی طرف منسوب ہوتی اسے باپ کا نام نہیں دیا جاتا تھا۔

نکاحِ مؤقت

کا معنیٰ یہ ہے کہ کوئی شخص کسی عورت کے ساتھ ایسا عقدِ نکاح کرے جس میں بچے کی پیدائش اور اس کی تعلیم و تربیت وغیرہ جیسے مقاصدِ نکاح کے حصول کا ارادہ نہ کیا گیا ہو‘ بلکہ مدتِ معینہ مکمل ہونے پر عقد بھی ختم ہو جائے۔ یا ایسا نکاح جس میں مدت تو متعین نہ کی گئی ہو بلکہ یہ ارادہ کیا گیا ہو کہ عقد اس وقت تک قائم رہے گا جب تک شوہر اور بیوی اکٹھے رہیں گے‘ جب الگ ہو جائیں تو عقد ختم ہو جائے گا۔ نکاحِ متعہ، نکاحِ مؤقت اور متعین مدت کے لیے ہونے والے نکاح میں ایسا ہی ہوتا ہے۔ اس طرح ہونے والا ہر نکاح دراصل نکاحِ متعہ ہی ہے اگرچہ اس میں زوجیت کا لفظ استعمال کیا گیا ہو اور گواہ بھی حاضر ہوں۔

نکاح مسیار

مرد حالتِ سفر یا ملازمت کےلیے  کسی دوسرے ملک میں جائے اور  اسے وہاں اپنی طبعی  خواہش پوری کرنے   کی حاجت ہو تو طلاق کی نیت سے نکاح کرلے، یعنی دل میں یہ سوچے کہ جب میں سال دو سال بعد واپس  چلا جاؤں گا تو طلاق دے دوں گا۔

نکاح کا بار مرد پر کم سے کم ڈالنے  کی خاطر عورت نان نفقہ اور ساتھ رہنے کے حق وغیرہ سے دست بردار ہوجاتی ہے، لہذابیوی اپنے میکے میں رہتی  ہے، اورمرد کو جب موقع ملتا ہے وہ  بیوی سے اس کے میکے آکر  یا کچھ وقت کے لیے ساتھ کسی دوسری جگہ لے جاکر طبعی تقاضہ پورا کرتا ہے، اسے "نکاحِ مسیار"  اور عربی  زبان میں"زواجِ مسیار" کہتے ہیں،اس عمل کو جواز کا جامہ پہنانے کےلیے ظاہری طور پر نکاح کی شرائط و ارکان یعنی  ایجاب وقبول گواہ اور مہر و غیرہ کا لحاظ رکھا جاتاہے۔ (مستفاد: متفرق مضامین و کتب و شروحات)

واللہ أعلم بالثواب والیہ المرجع والمآب 

العارض مفتی آصف بن محمد گودھروی


جمعہ، 24 مئی، 2024

زکوۃ کی ادائیگی کا طریقہ سوال نمبر ٤٧٤

 سوال

میں ہر سال رمضان المبارک میں زکوٰۃ نکالتا ہوں میرا حج کا سلکسن ہوگیا حج کا سلکسن ہوجانے کے بعد رمضان المبارک کے بعد جو ہفتہ بھرا اس پر زکوٰۃ واجب ہوگی؟ حالانکہ پیسے میرے پاس آخری ہفتے کے موجود تھے۔

سائل حاجی کفایت اللہ 


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی


بطور تمہید کہ یہ بات ذہن میں رکھیں کہ زکوٰة نکالنے کا طریقہ یہ ہے کہ سب سے پہلے مالک نصاب بننے کی تاریخ متعین کرلیں پھر سال گذر جانے کی تاریخ نوٹ کرلیں اس کے بعد جس قدر سونا، چاندی، نقد روپئے، سامان تجارت آپ کے پاس موجود ہوں ان سب کی قیمت لگا کر سب کو جوڑ لیں اسی طرح آپ نے کسی کو قرض دے رکھا ہے یا کسی اور طرح سے آپ کے پیسے دوسرے پر باقی ہیں تو اس رقم کو بھی مذکورہ حساب میں شامل کرلیں، نیز اگر آپ کے ذمہ کسی دوسرے کا قرض ہو یا کسی اور طرح کا اس کا پیسہ آپ کے ذمہ باقی ہو تو مذکورہ حساب میں سے اسے کم کردیں اب آپ نے سال پورا ہونے کی جو تاریخ متعین کی ہے اس تاریخ تک جو کچھ بھی ہے اس پر زکوۃ کا حساب ہوگا اور اس کے بعد آنے والی رقم کی زکوۃ کا حساب آئندہ سال ہوگا 


صورت مسؤلہ میں جو رقم آپ کے پاس ہے اگر اس رقم کے آپ پہلے سے مالک تھے تو اس پر زکوۃ واجب ہوچکی تھی اب اگر ان پیسوں کو حساب میں جوڑ کر زکوۃ نہیں نکالی ہے تو چونکہ اتنی مقدار زکوۃ نکالنا باقی ہے اس لئے اس کی زکوۃ نکالنا ضروری ہے اور اگر آپ رمضان میں ان پیسوں کی زکوۃ نکال چکے ہیں یا رمضان کے بعد اس کے مالک ہوئے ہیں تو اس پر زکوۃ واجب نہیں ہوگی۔


 واللہ أعلم بالثواب والیہ المرجع والمآب 

العارض مفتی آصف بن محمد گودھروی

پیر، 20 مئی، 2024

امام و مدرسین کا تنخواہ بڑھانے کی درخواست کرنا کیسا ہے؟ سوال نمبر ٤٧٣

سوال 

السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ 

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام و مفتیان عظام مسئلہ ذیل کے بارے میں، میری تنخواه ١٢ ہزار ہے اور ذمہ داری امامت اذان بچے کی تعلیم تو کیا میں اپنی تنخواه بڑهانے کیلئے ذمہ داروں سے کہہ سکتا ہوں یا نہیں جبکہ

حدیث شریف میں پڑھا ہے کہ جوشخص اللہ کے دیے ہوئے تھوڑے سے رزق پرراضی ہوجاتا ہے تو الله تعالی بھی اسکے تھوڑے سے عمل پر راضی ہو جاتا ہے اور اگروه تھوڑے رزق پر خوش نہیں ہوتا تو اللہ تعالیٰ بھی اسکے تھوڑے سے عمل پر راضی نہیں ہوتے۔ تو کیا تنخواه بڑھوانے کے لئے اپنی زبان سے کہنا حدیث کے خلاف ہوگا ؟ برائے مہربانی رہنمائی فرمائیں

سائل مولوی طیب


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی 


امامت اور درس و تدریس کا معاملہ مدرسین اور انتظامیہ کے درمیان فقہی اصطلاح کے اعتبار سے اجارہ کا معاملہ ہوتا ہے اور اجارہ میں فریقین اپنی رضامندی سے جو بھی اجرت طے کرلیں وہ جائز ہے اور عقد کے مطابق اجرت اور عمل واجب ہوتی ہے۔

البتہ علماء کرام انبیاء عظام کے وارث ہوتے ہیں انبیاء کے بعد علماء ہی کامرتبہ ہے آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اِنَّ الْعُلَمَاءَ ورثَةُ الانبیاءِ اسی طرح ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا عالم کی فضیلت عابد پر ایسی ہے  جیسی میری فضیلت میرے ادنیٰ امتی پر لہذا اہل علم کے بے شمار فضائل وارد ہوئے ہیں اس کو مدنظر رکھتے ہوئے انتظامیہ کو چاہیے کہ مدرسین کی بنیادی ضروریات کا خیال رکھتے ہوئے تنخواہ مقرر کریں، اسی طرح مدرسین کو بھی چاہئے کہ اپنی خدمات اللہ تعالی کی رضا کی خاطر سر انجام دیں جو تنخواہ ملتی ہے اس کو عطیہ خداوندی سمجھ کر قبول کریں۔

تاہم چونکہ امام و مدرسین اور انتظامیہ کے درمیان جو عقد ہوتاہے وہ اجارہ کا ہوتا ہے اس لئے مجبوری کی صورت میں تنخواہ میں  زیادتی کی درخواست کر سکتے ہیں جہاں تک حدیث کا تعلق ہے تو وہ تشجیع پر محمول ہے۔


فتاوی  شامی میں ہے

الزيادة في الأجرة من المستأجر تصح في المدة  وبعدها ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بخلاف الزيادة من جانب المؤجر فتجوز مطلقا ط عن الهندية ملخصا ۔۔۔۔۔۔۔ أما إذا مضى بعضها فقال في خزانة الأكمل لو استأجر دارا شهرين أو دابة ليركبها فرسخين فلما سكن فيها شهرا أو سافر فرسخا زاد في الأجرة فالقياس أن تعتبر الزيادة لما بقي ومحمد استحسن وجعلها موزعة لما مضى ولما بقي أبو السعود عن البيري (فتاوی شامی شروط الاجارۃ  ۹/۲۹)


واللہ أعلم بالثواب والیہ المرجع والمآب 

العارض مفتی آصف بن محمد گودھروی

بدھ، 15 مئی، 2024

طلاق رجعی میں رجوع کا طریقہ کیا ہے؟ سوال نمبر ٤٧٢

 سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ کے بارے میں کہ ۲۰۲٤-۵-۵ کو صبح ۳۰-۷ بجے مجھے میرے شوہر دوطلاقیں دی پھر دودن تک بات چیت نہیں ہوئی اب تین دن سے بات چیت بھی کرتے ہیں کبھی غصے سے تو کبھی پیار سے اور گھر میں خرچہ بھی دے رہے ہیں ایک بار دور سے آمنے سامنے بیتھ کر بھی بات چیت ہوئی تھی تو کیا ان باتوں سے نکاح سے رجوع ثابت ہوجائے گا یا زبان سے رجوع کریں تب رجوع ہوگا

سائلہ: اللہ کی بندی گودھرا 


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی


 شوہر نے  بیوی کو صریح الفاظ کے ساتھ دو طلاق دیدی تو اس سے بیوی پر دو طلاق رجعی واقع ہوجائیں گی۔

طلاقِ رجعی کے بعد شوہر  کو بیوی کی عدت یعنی حمل نہ ہونے کی صورت میں پوری تین ماہواریاں  میں رجوع کا حق ہے، اگر عدت کے دوران رجوع کرلیا دونوں کا نکاح برقرار رہے گا دوبارہ نکاح کی ضرورت نہیں ہے اور رجوع نہ کیا تو عدت پوری ہونے کے بعد وہ بائنہ ہوجائے گی اگر دوبارہ دونوں گھر بسانا چاہیں تو شرعی گواہوں کی موجودگی میں نئے مہرکے ساتھ نکاح کا ایجاب و قبول کرکے ایک ساتھ زندگی گذار سکتے ہیں۔

اور رجوع کا طریقہ یہ ہے کہ مرد اپنی بیوی سے زبان سے کہہ دے کہ میں نے رجوع کرلیا،اس سے قولی طور پر رجوع ہوجائے گا اور اگر زبان سے کچھ نہ کہے بلکہ بیوی سے تعلق قائم کرلے یا خواہش و رغبت سے اسے چھوئے یابوسہ لے لے اس سے بھی رجوع ہوجائے گا حاصل یہ ہے کہ قولاً یاعملاً رجوع کرلینا کافی ہے، البتہ قولی رجوع کرنا اوراس پر گواہان قائم کرنا مستحب ہے، اور رجوع ہوجانے کے بعد آئندہ کے لئے مرد کے لئے صرف ایک طلاق کا اختیار رہےگا۔

صورت مسئولہ میں سوال میں جو چیزیں بیان کی ہے اس سے رجوع  ثابت نہیں ہوگا رجوع یاتو زبان سے کرنا ہوگا یا پھر میاں بیوی کی طرح تعلقات قائم کرلیں تو بھی رجوع ہوجائے گا۔


ھدایہ میں ہے

کما فی الھدایہ و إذا طلق الرجل امرأته تطليقة رجعية أو تطليقتين فله أن يراجعها في عدتها رضيت بذلك أو لم ترض لقوله تعالى فَأَمْسِكُوهُنَّ بِمَعْرُوفٍ من غير فصل و لا بد من قيام العدة لأن الرجعة استدامة الملك ألا ترى أنه سمى إمساكا و هو الإبقاء و إنما يتحقق الاستدامة في العدة لأنه لا ملك بعد انقضائها و الرجعة أن يقول راجعتك أو راجعت امرأتي و هذا صريح في الرجعة و لا خلاف فيه بين الأئمة قال أو يطأها أو يقبلها أو يلمسها بشهوة أو ینظر إلى فرجها بشهوة و هذا عندنا (ہدایہ کتاب الطلاق،باب الرجعة ٢/٤٠۵ ط رحمانية)


فتاوی ہندیہ میں ہے

الرجعة إبقاء النكاح على ما كان ما دامت في العدة كذا في التبيين وهي على ضربين: سني وبدعي (فالسني) أن يراجعها بالقول ويشهد على رجعتها شاهدين ويعلمها بذلك فإذا راجعها بالقول نحو أن يقول لها: راجعتك أو ‌راجعت امرأتي ولم يشهد على ذلك أو أشهد ولم يعلمها بذلك فهو بدعي مخالف للسنة والرجعة صحيحة وإن راجعها بالفعل مثل أن يطأها أو يقبلها بشهوة أو ينظر إلى فرجها بشهوة فإنه يصير مراجعا عندنا إلا أنه يكره له ذلك ويستحب أن يراجعها بعد ذلك بالإشهاد كذا في الجوهرة النيرة۔ (فتاوی عالمگیری کتاب الطلاق الباب السادس فی الرجعة وفیما تحل به المطلقة و ما يتصل ١/٤٦٨ ط دار الفكر)


البدائع الصنائع میں ہے 

فان طلقھا ولم یراجعھا بل ترکھا حتی انقضت عدتھا بانت وھذا عندنا۔ (البدائع الصنائع ٣/١٨٠) 


مبسوط سرخسی میں ہے

فإذا انقضت العدة قبل الرجعة فقد بطل حق الرجعة وبانت المرأة منه (کتاب الطلاق باب الرجعۃ ٦/١٩ ط دار المعرفہ)




جمعہ، 10 مئی، 2024

کوپر ٹی رکھوانے کا حکم شرعی کیا ہے؟ سوال نمبر ٤٧١

 سوال

اسلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ 

حضرات مفتیان عظام کوپرٹی کے سلسلے میں مسئلہ دریافت کرنا ہے کہ کوپرٹی لگانا کیسا ہے؟ اولاد کے فاصلے کے لئے کوپرٹی لگانا کیسا ہے؟ اور کیا عورت کوپرٹی پہن کر حج کرسکتی ہے؟  یا اس کو نکلوانا پڑیگا؟ کوپرٹی لگی ہوئی ہو اور انسان مرجائے تو اس کو نکالنا ضروری ہے یا ویسے ہی دفنا دیا جاۓ گا؟ مدلل جواب عنایت فرمائیں عین نوازش ہوگی۔

سائل: مولوی اسامہ جھاڑکھنڈی


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی 

 

شریعتِ مطہرہ میں نکاح کے من جملہ اغراض و مقاصد میں سے  ایک اہم مقصد توالد وتناسل  ہے اولاد کی کثرت مطلوب اور محمود ہے، اس  لئے حمل روکنے والے اسباب کو اختیار کرنا  اس کثرت  کے منافی ہے جس کی وجہ سے ایسے اسباب کو اختیار کرنا شرعًاممنوع ہے۔

البتہ فقہائے کرام نے اعذار کی بنا پر جہاں انتہائی ضرورت ہو عارضی طور پر مختصر مدت کے لئے مانعِ حمل کی تدابیر اختیار کرنے کی اجازت دی ہے 

یعنی منع حمل کی ایسی تدابیر اختیار کرنا جس میں صلاحیت تو باقی رہے مگر اولاد کا امکان نہ ہو، مثلاً: نرودھ لوپ یا کنڈوم کا استعمال کرکے رحم میں نطفہ نہ پہنچنے دیا جائے استقرار حمل سے مانع ادویات کا استعمال کیا جائے وغیرہ وغیرہ۔

اور کوپرٹی (copper t) کے ذریعہ لمبی مدت تک حمل ٹھہرنے کے عمل کو روکا جاتا ہے اس لئے اس کے رکھوانے کی اجازت نہیں ہے۔


البتہ کچھ شرائط کے ساتھ خواتین کا کوپر ٹی رکھوانا جائز ہیں۔

(۱) ماہر ڈاکٹر نے لمبے عرصے تک حمل رکوانے کو ضروری قرار دے کر کوپر ٹی لگوانے کی تجویز دی ہو اور کوپر ٹی کوئی خاتون ڈاکٹر لگائے، اس کو لگانے میں غیر مرد کا واسطہ نہ آئے، اس لئے کہ مانعِ حمل کوئی بھی ایسی تدبیر اختیار کرنا جس میں عورت کو شوہر کے علاوہ کسی  مرد کے سامنے ستر کھولنا پڑے اس کی اجازت نہیں ہے، البتہ کسی جگہ ڈاکٹر صرف مرد ہی ہو کہ اس کے بغیر چارۂ کار ہی نہیں تو بدرجۂ مجبوری گنجائش ہوگی لیکن کم سے کم ستر کو کھولا جائے، نیز خاتون کے سامنے بھی بقدرِ ضرورت ستر کھولا جائے۔

(۲) عورت میں انتہائی کمزوری پیدا ہوگئ ہو یہاں تک کہ حمل کا بوجھ بھی اٹھانے کی استطاعت نہ ہو، حمل اور درد زہ کی تکالیف جھیلنے کی سکت نہ ہو یا بچہ کی ولادت کے بعد شدید کمزوری لاحق ہونے کا اندیشہ ہو تو جائز ہے۔ 

(۳) دوبچوں کے درمیان وقفہ اس لئے ہوکہ وہ بچوں کی صحیح نگہداشت کرسکے۔

(٤) اسی طرح لمبے سفر میں ہو، اور سفر کی حالت میں بچے کے جانی نقصان کا اندیشہ ہو تو اس صورت میں بھی کوپر ٹی رکھوانا جائز ہے۔


کوپر ٹی رکھوانے کی صورت میں حج کا حکم

کوپر ٹی رکھوانا یہ مانع احرام یا مکروہات احرام میں سے نہیں ہے اس لئے اس کو رکھواکر حج کرسکتے ہیں اس کو نکلوانا ضروری نہیں ہے۔


میت سے کوپر ٹی نکلوانے کا حکم 

ستر کو کھولے بغیر کوپر ٹی نکالنا مشکل ہوتاہے اور نکالنے کی کوشش کرنے کی صورت میں چونکہ میت کی بے حرمتی ہوتی ہے اس لئے اندر ہی چھوڑ دی جائے اگر اس کو بغیر ستر کھولے نکالنا ممکن ہو تو نکال لی جائے اور کشف عورت کے بغیر مشکل ہو تو میت کی حرمت وعزت بھی ضروری ہے اس لئے ویسے ہی دفنا کردیاجائے اس میں غسل اور دفن میں کوئی حرج نہیں ہوگا۔


مشکاة المصابیح میں ہے 

وقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم:تزوجوا الودود الولود فإني مکاثر بکم الأمم یوم القیامة (مشکاة المصابیح ص ۲٦۷)


ابو داؤد شریف میں ہے؛

عن معقل بن يسار قال جاء رجل إلى النبي صلى الله عليه وسلم، فقال إني أصبت امرأة ذات حسب وجمال وإنها لا تلد أفأتزوجها، قال لا ثم أتاه الثانية فنهاه ثم أتاه الثالثة، فقال تزوجوا ‌الودود ‌الولود فإني مكاثر بكم الأمم۔ (باب النهي عن تزويج من لم يلد من النساء ٢/٢٢٠ ط المكتبة العصرية - بيروت)


الفقه الإسلامي وأدلته سے مستفاد 

وبناء عليه يجوز استعمال موانع الحمل الحديثة كالحبوب وغيرها لفترة مؤقتة، دون أن يترتب عليه استئصال إمكان الحمل وصلاحية الإنجاب قال الزركشي يجوز استعمال الدواء لمنع الحبل في وقت دون وقت كالعزل، ولايجوز التداوي لمنع الحبل بالكلية. أو ربط عروق المبايض إذا ترتب عليه امتناع الحمل في المستقبل، والعبرة في ذلك لغلبة الظن۔ (الفقه الإسلامي ٦٤٥/٤ القسم الأول العبادات الباب السابع الحظر والإباحة المبحث الرابع ط دار الفكر)


فتاوی شامی سے مستفاد 

ويعزل عن الحرة وكذا المكاتبة نهر بحثاً بإذنها لكن في الخانية أنه يباح في زماننا لفساده قال الكمال فليعتبر عذراً مسقطاً لإذنها ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ويحتمل أنه أراد إلحاق مثل هذا العذر به كأن يكون في سفر بعيد، أو في دار الحرب فخاف على الولد۔ (فتاوی شامی باب نکاح الرقیق ،مطلب فی حکم العزل ٤/٣٣٥ ط زکریا)


البحر الرائق سے مستفاد

والإذن في ‌العزل عن الحرة لها ولا يباح بغيره لأنه حقها، وفي الخانية: ذكر في الكتاب أنه لا يباح بغير إذنها وقالوا في زماننا يباح لسوء الزمان قال في فتح القدير بعده فليعتبر مثله من الأعذار مسقطا لإذنها وأفاد وضع المسألة أن ‌العزل جائز بالإذن وهذا هو الصحيح عند عامة العلماء لما فی البخاري عن جابر: کنا نعزل والقرآن ینزل، الخ ( البحر الرائق ٣/٣٤٨ كتاب النكاح باب نكاح الرقيق ط دار الكتاب الإسلامي)


فتاوی شامی میں ہے 

ولو بلع مال غيره ومات هل يشق؟ قولان، والأولى نعم، فتح ۔۔۔۔۔۔ قوله ولو بلع مال غيره أي ولا مال له كما في الفتح وشرح المنية، ومفهومه أنه لو ترك ما لايضمن ما بلعه لايشق اتفاقًا قوله والأولى نعم لأنه وإن كان حرمة الآدمي أعلى من صيانة المال لكنه أزال احترامه بتعديه كما في الفتح ومفاده أنه لو سقط في جوفه بلا تعد لايشق اتفاقًا۔ (فتاوی شامی ۳/۱٤۵ ط زکریا)


واللہ أعلم بالثواب والیہ المرجع والمآب 

العارض مفتی آصف بن محمد گودھروی

ہفتہ، 4 مئی، 2024

کپڑوں یا بدن پر منی لگنے کی صورت میں پاک کرنے کا طریقہ سوال نمبر ٤٧٠

 سوال

حضرت مفتی صاحب مسئلہ یہ ہے کہ انسان کی منی پاک ہے یا ناپاک ہے؟ اگر کپروں پر لگ جائے تو کیا وہ ناپاک ہوجائیں گے؟ اور اس کو دھونا ضروری ہے ؟ یا بغیر دھوئے بھی نماز ہوجائے گی؟ اگر دھونا ضروری ہے تو کتنی مقدار دھوئے پورا کپڑا یا جہاں پر منی لگی ہے اس جگہ کو دھوئے؟ اور دھونے کے بعد اس کا سکھانا ضروری ہے یا دھوکر فوراً اس کپڑے کو استعمال کرسکتے ہیں؟ اور منی کے دھونے کا طریقہ کیا ہے؟ 

سائل: حافظ مستقیم مدھوبنی


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی


انسان کی منی ناپاک ہے کپڑوں پر لگ جائے تو کپڑے ناپاک ہوجائیں گے اور اس کا دھونا ضروری ہوگا اگر اس کی مقدار ایک درہم سے زائد ہو تو اس میں نماز پڑھنا جائز نہیں ہے اور اگر منی ایک درہم کی مقدار سے کم ہو تو ایسے کپڑوں میں کراہت کے ساتھ نماز ادا ہوجائے گی 

چونکہ منی بھی ایک نجاست ہے اور نجاست کا حکم شرعی یہ ہے کہ کپڑے کے جس حصہ میں نجاست لگ جائے وہی حصہ دھودے تو کپڑا پاک ہوجائے گا پورا کپڑا دھونا ضروری نہیں یہی حکم منی کا ہے کہ جہاں لگی ہے صرف اسی جگہ کو پاک کرنا ضروری ہے۔

امداد الاحکام میں ہے کہ احتلام ہونے پر تمام کپڑے ناپاک نہیں ہوتے بلکہ جس کپڑے پر جتنی دور تک منی کا اثرمعلوم ہو وہ کپڑا اسی قدر ناپاک ہوتا ہے، باقی سب پاک ہیں۔ (امداد الاحکام) فصل في النجاسۃ و أحکام التطھیر )

اسی طرح منی لگے کپڑوں کو اچھی طرح دھولیا جائے، اور منی کے اثرات بالکل ختم ہوجائیں اور کپڑوں پر صرف پانی کی تری باقی ہو تو کپڑے پاک شمار ہوں گے اس کو سکھانا ضروری نہیں ہے، دھونے کے بعد گیلے کپڑے بھی استعمال کرسکتے ہیں،

منی کو پاک کرنے کے دو طریقے ہیں

(۱) منی اگر گاڑھی ہو اور خشک ہوکر سوکھ جائے تو ایسی صورت میں اس کو کھرچ کر یعنی  رگڑکر اس کے  اثرات زائل کرنے  سے بھی  کپڑا پاک ہوجائے گا، اس بارے میں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی روایت کتب حدیث میں موجود ہے، اور یہ حکم غلیظ (گاڑھی)  منی کے ساتھ خاص ہے اور اگر منی کسی بیماری یا کسی اور  وجہ سے رقیق (پتلی) ہوگئی ہوتو دھونا ضروری ہوگا۔

(۲) اور اگر منی رقیق یعنی نرم اور پتلی ہوتو اس کو دھوکر پاک کرنا ضروری ہے اس طور پر کہ تین مرتبہ دھویا جائے اور ہرمرتبہ نچوڑا بھی جائے، یہاں تک کہ اس کا اثر (چکناہٹ وغیرہ) زائل ہوجائے۔


سنن ابی داؤد میں ہے

وأن عائشۃ قالت: کنت أفرک المني من ثوب رسول اللّٰہ فیصلی فیہ۔ (سنن أبوداود کتاب الطہارۃ، باب المنی یصیب الثوب،١/٥٣  مکتبۃ نعیمیہ دیوبند)


فتاوٰی ہندیہ میں ہے

ثوب نجس غسل في ثلاث جفان، أو في واحدة ثلاثا، وعصر في كل مرة طهر؛ لجريان العادة بالغسل. هكذا فلو لم يطهر لضاق على الناس. (الفصل الأول في تطهیر الأنجاس: ١/٤٣ ط حقانیة)


فتاوی شامی میں ہے 

(ويطهر مني) أي: محله (يابس بفرك) ولايضر بقاء أثره (إن طهر رأس حشفة) كأن كان مستنجيا بماء.... (وإلا) يكن يابساً أو لا رأسها طاهراً (فيغسل) كسائر النجاسات ولو دماً عبيطاً على المشهور (بلا فرق بين منيه) ولو رقيقاً لمرض به (ومنيها) ولا بين مني آدمي وغيره كما بحثه الباقاني (ولا بين ثوب) ولو جديداً أو مبطناً.

(قوله: بفرك) هو الحك باليد حتى يتفتت بحر. (قوله: ولايضر بقاء أثره) أي: كبقائه بعد الغسل، بحر.

(قوله: بلا فرق) أي: في فركه يابساً وغسله طرياً (قوله: ومنيها) أي: المرأة كما صححه في الخانية، وهو ظاهر الرواية عندنا كما في مختارات النوازل وجزم في السراج وغيره بخلافه ورجحه في الحلية بما حاصله: إن كلامهم متظافر على أن الاكتفاء بالفرك في المني استحسان بالأثر على خلاف القياس، فلايلحق به إلا ما في معناه من كل وجه، والنص ورد في مني الرجل ومني المرأة ليس مثله لرقته وغلظ مني الرجل، والفرك إنما يؤثر زوال المفروك أو تقليله وذلك فيما له جرم، والرقيق المائع لايحصل من فركه هذا الغرض فيدخل مني المرأة إذا كان غليظاً ويخرج مني الرجل إذا كان رقيقاً لعارض اهـ

أقول: وقد يؤيد ما صححه في الخانية بما صح «عن عائشة - رضي الله عنها - كنت أحك المني من ثوب رسول الله - صلى الله عليه وسلم - وهو يصلي» ولا خفاء أنه كان من جماع؛ لأن الأنبياء لاتحتلم، فيلزم اختلاط مني المرأة به، فيدل على طهارة منيها بالفرك بالأثر لا بالإلحاق فتدبر۔ (الدر المختار وحاشية ابن عابدين کتاب الطہارت باب الانجاس ١/ ۵١٤ ۔ ۵١٦)


واللہ أعلم بالثواب والیہ المرجع والمآب 

العارض مفتی آصف بن محمد گودھروی