پیر، 20 مئی، 2024

امام و مدرسین کا تنخواہ بڑھانے کی درخواست کرنا کیسا ہے؟ سوال نمبر ٤٧٣

سوال 

السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ 

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام و مفتیان عظام مسئلہ ذیل کے بارے میں، میری تنخواه ١٢ ہزار ہے اور ذمہ داری امامت اذان بچے کی تعلیم تو کیا میں اپنی تنخواه بڑهانے کیلئے ذمہ داروں سے کہہ سکتا ہوں یا نہیں جبکہ

حدیث شریف میں پڑھا ہے کہ جوشخص اللہ کے دیے ہوئے تھوڑے سے رزق پرراضی ہوجاتا ہے تو الله تعالی بھی اسکے تھوڑے سے عمل پر راضی ہو جاتا ہے اور اگروه تھوڑے رزق پر خوش نہیں ہوتا تو اللہ تعالیٰ بھی اسکے تھوڑے سے عمل پر راضی نہیں ہوتے۔ تو کیا تنخواه بڑھوانے کے لئے اپنی زبان سے کہنا حدیث کے خلاف ہوگا ؟ برائے مہربانی رہنمائی فرمائیں

سائل مولوی طیب


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی 


امامت اور درس و تدریس کا معاملہ مدرسین اور انتظامیہ کے درمیان فقہی اصطلاح کے اعتبار سے اجارہ کا معاملہ ہوتا ہے اور اجارہ میں فریقین اپنی رضامندی سے جو بھی اجرت طے کرلیں وہ جائز ہے اور عقد کے مطابق اجرت اور عمل واجب ہوتی ہے۔

البتہ علماء کرام انبیاء عظام کے وارث ہوتے ہیں انبیاء کے بعد علماء ہی کامرتبہ ہے آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اِنَّ الْعُلَمَاءَ ورثَةُ الانبیاءِ اسی طرح ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا عالم کی فضیلت عابد پر ایسی ہے  جیسی میری فضیلت میرے ادنیٰ امتی پر لہذا اہل علم کے بے شمار فضائل وارد ہوئے ہیں اس کو مدنظر رکھتے ہوئے انتظامیہ کو چاہیے کہ مدرسین کی بنیادی ضروریات کا خیال رکھتے ہوئے تنخواہ مقرر کریں، اسی طرح مدرسین کو بھی چاہئے کہ اپنی خدمات اللہ تعالی کی رضا کی خاطر سر انجام دیں جو تنخواہ ملتی ہے اس کو عطیہ خداوندی سمجھ کر قبول کریں۔

تاہم چونکہ امام و مدرسین اور انتظامیہ کے درمیان جو عقد ہوتاہے وہ اجارہ کا ہوتا ہے اس لئے مجبوری کی صورت میں تنخواہ میں  زیادتی کی درخواست کر سکتے ہیں جہاں تک حدیث کا تعلق ہے تو وہ تشجیع پر محمول ہے۔


فتاوی  شامی میں ہے

الزيادة في الأجرة من المستأجر تصح في المدة  وبعدها ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بخلاف الزيادة من جانب المؤجر فتجوز مطلقا ط عن الهندية ملخصا ۔۔۔۔۔۔۔ أما إذا مضى بعضها فقال في خزانة الأكمل لو استأجر دارا شهرين أو دابة ليركبها فرسخين فلما سكن فيها شهرا أو سافر فرسخا زاد في الأجرة فالقياس أن تعتبر الزيادة لما بقي ومحمد استحسن وجعلها موزعة لما مضى ولما بقي أبو السعود عن البيري (فتاوی شامی شروط الاجارۃ  ۹/۲۹)


واللہ أعلم بالثواب والیہ المرجع والمآب 

العارض مفتی آصف بن محمد گودھروی

کوئی تبصرے نہیں: