سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ کے بارے میں کہ ۲۰۲٤-۵-۵ کو صبح ۳۰-۷ بجے مجھے میرے شوہر دوطلاقیں دی پھر دودن تک بات چیت نہیں ہوئی اب تین دن سے بات چیت بھی کرتے ہیں کبھی غصے سے تو کبھی پیار سے اور گھر میں خرچہ بھی دے رہے ہیں ایک بار دور سے آمنے سامنے بیتھ کر بھی بات چیت ہوئی تھی تو کیا ان باتوں سے نکاح سے رجوع ثابت ہوجائے گا یا زبان سے رجوع کریں تب رجوع ہوگا
سائلہ: اللہ کی بندی گودھرا
الجواب وباللہ التوفیق
باسمہ سبحانہ وتعالی
شوہر نے بیوی کو صریح الفاظ کے ساتھ دو طلاق دیدی تو اس سے بیوی پر دو طلاق رجعی واقع ہوجائیں گی۔
طلاقِ رجعی کے بعد شوہر کو بیوی کی عدت یعنی حمل نہ ہونے کی صورت میں پوری تین ماہواریاں میں رجوع کا حق ہے، اگر عدت کے دوران رجوع کرلیا دونوں کا نکاح برقرار رہے گا دوبارہ نکاح کی ضرورت نہیں ہے اور رجوع نہ کیا تو عدت پوری ہونے کے بعد وہ بائنہ ہوجائے گی اگر دوبارہ دونوں گھر بسانا چاہیں تو شرعی گواہوں کی موجودگی میں نئے مہرکے ساتھ نکاح کا ایجاب و قبول کرکے ایک ساتھ زندگی گذار سکتے ہیں۔
اور رجوع کا طریقہ یہ ہے کہ مرد اپنی بیوی سے زبان سے کہہ دے کہ میں نے رجوع کرلیا،اس سے قولی طور پر رجوع ہوجائے گا اور اگر زبان سے کچھ نہ کہے بلکہ بیوی سے تعلق قائم کرلے یا خواہش و رغبت سے اسے چھوئے یابوسہ لے لے اس سے بھی رجوع ہوجائے گا حاصل یہ ہے کہ قولاً یاعملاً رجوع کرلینا کافی ہے، البتہ قولی رجوع کرنا اوراس پر گواہان قائم کرنا مستحب ہے، اور رجوع ہوجانے کے بعد آئندہ کے لئے مرد کے لئے صرف ایک طلاق کا اختیار رہےگا۔
صورت مسئولہ میں سوال میں جو چیزیں بیان کی ہے اس سے رجوع ثابت نہیں ہوگا رجوع یاتو زبان سے کرنا ہوگا یا پھر میاں بیوی کی طرح تعلقات قائم کرلیں تو بھی رجوع ہوجائے گا۔
ھدایہ میں ہے
کما فی الھدایہ و إذا طلق الرجل امرأته تطليقة رجعية أو تطليقتين فله أن يراجعها في عدتها رضيت بذلك أو لم ترض لقوله تعالى فَأَمْسِكُوهُنَّ بِمَعْرُوفٍ من غير فصل و لا بد من قيام العدة لأن الرجعة استدامة الملك ألا ترى أنه سمى إمساكا و هو الإبقاء و إنما يتحقق الاستدامة في العدة لأنه لا ملك بعد انقضائها و الرجعة أن يقول راجعتك أو راجعت امرأتي و هذا صريح في الرجعة و لا خلاف فيه بين الأئمة قال أو يطأها أو يقبلها أو يلمسها بشهوة أو ینظر إلى فرجها بشهوة و هذا عندنا (ہدایہ کتاب الطلاق،باب الرجعة ٢/٤٠۵ ط رحمانية)
فتاوی ہندیہ میں ہے
الرجعة إبقاء النكاح على ما كان ما دامت في العدة كذا في التبيين وهي على ضربين: سني وبدعي (فالسني) أن يراجعها بالقول ويشهد على رجعتها شاهدين ويعلمها بذلك فإذا راجعها بالقول نحو أن يقول لها: راجعتك أو راجعت امرأتي ولم يشهد على ذلك أو أشهد ولم يعلمها بذلك فهو بدعي مخالف للسنة والرجعة صحيحة وإن راجعها بالفعل مثل أن يطأها أو يقبلها بشهوة أو ينظر إلى فرجها بشهوة فإنه يصير مراجعا عندنا إلا أنه يكره له ذلك ويستحب أن يراجعها بعد ذلك بالإشهاد كذا في الجوهرة النيرة۔ (فتاوی عالمگیری کتاب الطلاق الباب السادس فی الرجعة وفیما تحل به المطلقة و ما يتصل ١/٤٦٨ ط دار الفكر)
البدائع الصنائع میں ہے
فان طلقھا ولم یراجعھا بل ترکھا حتی انقضت عدتھا بانت وھذا عندنا۔ (البدائع الصنائع ٣/١٨٠)
مبسوط سرخسی میں ہے
فإذا انقضت العدة قبل الرجعة فقد بطل حق الرجعة وبانت المرأة منه (کتاب الطلاق باب الرجعۃ ٦/١٩ ط دار المعرفہ)
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں