ہفتہ، 25 مئی، 2024

سوال

حضرت مفتی صاحب نکاح کسے کہتے ہیں؟ اس کا معنی و مطلب کیا ہے؟ نکاح کے معنی میں  اور ائمہ کا کیا رجحان ہے؟ نکاح کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ پہلے زمانے میں کس طرح نکاح ہواکرتے تھے؟ فی زماننا وہ جائز ہے یا نہیں؟ مفصل جواب مطلوب ہے۔

العارض: حافظ سعدالدین ایم پی

الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی

عربی اور اردو زبان میں نکاح کا لفظ رائج ہے جبکہ اردو میں نکاح کے مترادف الفاظ شادی بیاہ بھی رائج ہیں انگریزی زبان میں اس کے لیے marriage کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔


نکاح کا معنی و مفہوم

لفظ نکاح باب  نكح  ينكح (منع، ضرب) سے مصدر ہے اور وہ جماع کرنے کے اور عقد کرنے کے معنی میں مستعمل ہے  استنكح  (استفعال) شادی کرنا  أنكح   (افعال)  شادی کرانا  تناكح   (تفاعل)  ایک دوسرے سے شادی کرنا۔

نکاح کے لغوی معنی کے بارے میں علامہ عبدالرحمن الجزیری لکھتے ہیں لغت کی رو سے اس کے معنی  وطى   (یعنی مباشرت یا جماع) اور باہم ملنے کے ہیں چنانچہ درخت کی شاخیں جب ایک دوسرے سے مل جائیں اور وہ باہم پیوست ہو جائیں تو کہا جاتا ہے   تناكحت الاشجار (یعنی درختوں کا ہجوم ہوگیا یا درخت آپس میں مل گئے اور اس کا اطلاق عقد یعنی نکاح پر بھی ہوتا ہے کیونکہ یہ سبب ہے مباشرت کا۔

نکاح کے شرعی معنی

نکاح کے شرعی معنی کے بارے میں عبدالرحمن الجزیری لکھتے ہیں دوسرے معنی اصولی ہیں جسے شرعی معنی بھی کہتے ہیں اس بارے میں علماء کے تین مختلف اقوال ہیں ۔ 

پہلا قول یہ ہے کہ نکاح کے معنی مباشرت کے ہیں اور مجازی معنی عقد نکاح کے ہیں۔

دوسرا قول یہ ہے کہ نکاح کے حقیقی معنی عقد کے ہیں اور مجازی معنی وطی کے ہیں، اس کا ثبوت قرآن اور حدیث میں لفظ زیادہ تر عقد کے معنی میں مستعمل ہوا ہے۔

تیسرا قول یہ ہے کہ لفظ نکاح عقد اور وطی دونوں معنوں میں مشترک ہے دراصل اقوال ثلاثہ میں سے یہ قول سب زیادہ قوی ہے۔

نکاح کے فقہی معنی: ۔نکاح کے تیسرے معنی فقہی ہیں

جس کی تعبیر فقہاء نے مختلف عبارتوں سے کی ہے لیکن مفہوم سب کا ایک ہے اور یہ کہ عقد نکاح شارع نے اس لیے رکھا ہے کہ اس سے خاوند اپنی بیوی کے تمام جسم سے محفوظ ہو سکے ۔ علامہ الجزیری نے کتاب الفقہ میں حنفی ، مالکی ، شافعی فقہاء سے نکاح کی جو تعریفیں منقول ہیں ان کو بیان کیا ہے۔

  احناف کے نزدیک

نکاح ایک معاملہ ہے جو اس ارداہ سے کیا جائے کہ ایک شخص ملک متعہ کا مالک ہو جائے ۔ 

نکاح کی فقہی تعریف: مولانا مجاہد الاسلام نکاح کی تعریف بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں نکاح مرد و عورت کے درمیان شرعی اصولوں پر کیا گیا معاہدہ ہے جس کے نتیجے میں ایک دوسرے کے ساتھ جنسی تعلق جائز اور پیدا ہونے والی اولاد کا نسب شرعا ثابت ہو جاتا ہے اور باہم حقوق و فرائض عائد ہو جاتے ہیں

شوافع کے نزدیک

نکاح ایک معاملہ ہے جس میں نکاح یا تزویج یا اس کے ہم معنی لفظ استعمال کیا جاتا ہے تاکہ اس سے مباشرت کی ملکیت حاصل ہو اور غرض اس سے یہ ہوتی ہے کہ ایک شخص لذت معلومہ سے تمتع کا مالک ہو جائے

 مالکیہ کے نزدیک

نکاح محض جنسی لذت ( یا عورت سے مباشرت کے لیے ایک معاملہ ہے جو حصول لذت سے پہلے گواہوں کی موجودگی میں کیا جاتا ہے۔

نکاح کی شرعی حیثیت 

فرض

اگر زنا میں مبتلا ہونے کا یقین ہو، اورمہر اور نفقہ پر بھی قادر ہو تو اس کے لیے  نکاح کرنا فرض ہے، اگر نکاح نہیں کرے گا تو گناہ گار ہوگا۔

واجب

اگر زنا میں مبتلا ہونے کا محض گمان ہو، اورمہر اور نفقہ پر بھی قادر ہو تو اس کے لیے  نکاح کرنا واجب ہے، اگر نکاح نہ کرنے کی صورت میں گنہگار ہوگا۔

سنت

نکاح کی استطاعت رکھنے والے افراد کے لیے عمومی احوال میں نکاح کرنا سنت  ہے، اگر کوئی شخص نکاح پر قدرت کے باوجود ساری عمر نکاح نہیں کرتا تو وہ تارکِ سنت ہوگا اس لیے حسبِ وسعت اسباب میسر آنے کی صورت میں نکاح کرنا چاہیے یہ ایمان کی تکمیل اور پاک دامنی کے حصول کا ذریعہ ہے، اور نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی سنت ہے۔

حرام

اگر نکاح کرنے کے بعد ظلم اور بیوی کے حقوق ضائع ہونے کا یقین ہو تو نکاح کرنا حرام ہے  اور اگر یقین نہ ہو، بلکہ اندیشہ ہو تو نکاح کرنا مکروہ ہے۔ 

مکروہ

اگر نکاح کرنے کے بعد ظلم اور بیوی کے حقوق ضائع ہونے کا محض اندیشہ اور گمان ہو، تو نکاح کرنا مکروہ ہے۔

زمانہ جاہلیت کے نکاح 

 عام نکاح

یہ نکاح اصولی طور پر آج بھی رواج میں ہے کہ ایک آدمی کی طرف سے دوسرے آدمی کو اس کی بیٹی یا اس کی زیر دست ولایت لڑکی کے لیے نکا ح کا پیغام دیا جاتا. پھر وہ مناسب مہر مقرر کر کے اس لڑکی کا نکاح اس آدمی سے کر دیتا.


  زواج البعولۃ

 یہ نکاح عرب میں بہت عام تھا. اس میں یہ تھا کہ مرد ایک یا بہت سی عورتوں کا مالک ہوتا. بعولت (خاوند ہونا) سے مراد مرد کا ’’عورتیں جمع کرنا‘‘ ہوتا تھا. اس میں عورت کی حیثیت عام مال و متاع جیسی ہوتی.

  زواج البدل 

بدلے کی شادی، اس سے مراد دو بیویوں کا آپس میں تبادلہ تھا. یعنی دو مرد اپنی اپنی بیویوں کو ایک دوسرے سے بدل لیتے اور اس کا نہ عورت کو علم ہوتا، نہ اس کے قبول کرنے، مہر یا ایجاب کی ضرورت ہوتی. بس دوسرے کی بیوی پسند آنے پر ایک مختصر سی مجلس میں یہ سب کچھ طے پاجاتا.

  نکاح الخدن 

دوستی کی شادی، اس میں مرد کسی عورت کو اپنے گھر بغیر نکاح، خطبہ اور مہر کے رکھ لیتا اور اس سے ازدواجی تعلقات قائم کر لیتا اور بعد ازاں یہ تعلق باہمی رضا مندی سے ختم ہو جاتا کسی قسم کی طلاق کی ضرورت نہیں تھی. اگر اولاد پیدا ہو جاتی تو وہ ماں کی طرف منسوب ہوتی. یہ طریقہ آج کل مغربی معاشرے میں بھی رائج ہے.

  نکاح الضغینہ

 جنگ کے بعد مال اور قیدی ہاتھ لگتے اور جاہلیت میں فاتح کے لیے مفتوح کی عورتیں، مال وغیرہ سب مباح تھا یہ عورتیں فاتح کی ملکیت ہو جاتیں اور وہ چاہتا تو انہیں بیچ دیتا چاہتا تو یونہی چھوڑ دیتا اور چاہتا تو ان سے مباشرت کرتا یا کسی دوسرے شخص کو تحفہ میں دے دیتا. یوں ایک آزاد عورت غلام بن کر بک جاتی. اس نکاح میں کسی خطبہ، مہر یا ایجاب و قبول کی ضرورت نہ تھی.

  نکاح شغار

 وٹے سٹے کی شادی. یہ وہ نکاح تھا کہ ایک شخص اپنی زیرسرپرستی رہنے والی لڑکی کا نکاح کسی شخص سے اس شرط پر کر دیتا کہ وہ اپنی کسی بیٹی، بہن وغیرہ کا نکاح اس سے کرائے گا. اس میں مہر بھی مقرر کرنا ضروری نہ تھا اسلام نے اس کی بھی ممانعت فرما دی. 

 نکاح الاستبضاع 

فائدہ اٹھانے کے لیے عورت مہیا کرنے کا نکاح. مراد یہ ہے کہ ایک شخص اپنی بیوی کو کسی دوسرے خوبصورت مرد کے ساتھ ازدواجی زندگی گزارنے کے لیے بھیج دیتا اور خود اس سے الگ رہتا تاکہ اس کی نسل خوبصورت پیدا ہو اور جب اس کو حمل ظاہر ہو جاتا تو وہ عورت پھر اپنے شوہر کے پاس آجاتی…

 نکاح الرہط

اجتماعي نکاح- اس کا مطلب يہ ہے کہ تقريباً دس آدمي ايک ہي عورت کے ليے جمع ہوتے اور ہر ايک اس سے مباشرت کرتا اور جب اس کے ہاں اولاد ہوتي تو وہ ان سب کو بلواتي اور وہ بغير کسي پس وپيش کے آ جاتے پھر وہ جسے چاہتي (پسند کرتي يا اچھا سمجھتي) اسے کہتي کہ يہ بچہ تيرا ہے اور اس شخص کو اس سے انکار کرنے کي اجازت نہ ہوتي تھي- 

نکاح البغايا

فاحشہ عورتوں سے تعلق، يہ بھي نکاح رہط سے ملتا جلتا ہے مگر اس ميں دو فرق تھے، ايک تو يہ کہ اس ميں دس سے زيادہ افراد بھي ہو سکتے تھے جبکہ نکاح رہط ميں دس سے زيادہ نہ ہوتے تھے- دوسرے يہ کہ ان مردوں سے بچہ منسوب کرنا عورت کا نہيں بلکہ مرد کا کام ہوتا تھا-

نکاح متعہ

 (عربی :  نكاح المتعة )  جسے عرف عام میں متعہ یا صیغہ کہا جاتا ہے؛ بغیر گواہوں کے ولی (شہادت) کی موجودگی یا غیر موجودگی میں ہونے والا ایک ایسا نکاح ہے جس کی مدت (ایک روز، چند روز، ماہ، سال یا کئی سال) معین ہوتی ہے جو فریقین خود طے کرتے ہیں اور اس مدت کے اختتام پر خود بخود علیحدگی ہو جاتی ہے یا اگر مرد باقی ماندہ مدت بخش دے تب بھی عورت نکاح سے آزاد ہو جاتی ہے مگر ہر صورت میں عدت اپنی شرائط کے ساتھ پوری کرنی پڑتی ہے اور اس نکاح کے نتیجے میں پیدا ہونے والی اولاد ماں کی طرف منسوب ہوتی اسے باپ کا نام نہیں دیا جاتا تھا۔

نکاحِ مؤقت

کا معنیٰ یہ ہے کہ کوئی شخص کسی عورت کے ساتھ ایسا عقدِ نکاح کرے جس میں بچے کی پیدائش اور اس کی تعلیم و تربیت وغیرہ جیسے مقاصدِ نکاح کے حصول کا ارادہ نہ کیا گیا ہو‘ بلکہ مدتِ معینہ مکمل ہونے پر عقد بھی ختم ہو جائے۔ یا ایسا نکاح جس میں مدت تو متعین نہ کی گئی ہو بلکہ یہ ارادہ کیا گیا ہو کہ عقد اس وقت تک قائم رہے گا جب تک شوہر اور بیوی اکٹھے رہیں گے‘ جب الگ ہو جائیں تو عقد ختم ہو جائے گا۔ نکاحِ متعہ، نکاحِ مؤقت اور متعین مدت کے لیے ہونے والے نکاح میں ایسا ہی ہوتا ہے۔ اس طرح ہونے والا ہر نکاح دراصل نکاحِ متعہ ہی ہے اگرچہ اس میں زوجیت کا لفظ استعمال کیا گیا ہو اور گواہ بھی حاضر ہوں۔

نکاح مسیار

مرد حالتِ سفر یا ملازمت کےلیے  کسی دوسرے ملک میں جائے اور  اسے وہاں اپنی طبعی  خواہش پوری کرنے   کی حاجت ہو تو طلاق کی نیت سے نکاح کرلے، یعنی دل میں یہ سوچے کہ جب میں سال دو سال بعد واپس  چلا جاؤں گا تو طلاق دے دوں گا۔

نکاح کا بار مرد پر کم سے کم ڈالنے  کی خاطر عورت نان نفقہ اور ساتھ رہنے کے حق وغیرہ سے دست بردار ہوجاتی ہے، لہذابیوی اپنے میکے میں رہتی  ہے، اورمرد کو جب موقع ملتا ہے وہ  بیوی سے اس کے میکے آکر  یا کچھ وقت کے لیے ساتھ کسی دوسری جگہ لے جاکر طبعی تقاضہ پورا کرتا ہے، اسے "نکاحِ مسیار"  اور عربی  زبان میں"زواجِ مسیار" کہتے ہیں،اس عمل کو جواز کا جامہ پہنانے کےلیے ظاہری طور پر نکاح کی شرائط و ارکان یعنی  ایجاب وقبول گواہ اور مہر و غیرہ کا لحاظ رکھا جاتاہے۔ (مستفاد: متفرق مضامین و کتب و شروحات)

واللہ أعلم بالثواب والیہ المرجع والمآب 

العارض مفتی آصف بن محمد گودھروی


کوئی تبصرے نہیں: