سوال
اسلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
حضرات مفتیان عظام کوپرٹی کے سلسلے میں مسئلہ دریافت کرنا ہے کہ کوپرٹی لگانا کیسا ہے؟ اولاد کے فاصلے کے لئے کوپرٹی لگانا کیسا ہے؟ اور کیا عورت کوپرٹی پہن کر حج کرسکتی ہے؟ یا اس کو نکلوانا پڑیگا؟ کوپرٹی لگی ہوئی ہو اور انسان مرجائے تو اس کو نکالنا ضروری ہے یا ویسے ہی دفنا دیا جاۓ گا؟ مدلل جواب عنایت فرمائیں عین نوازش ہوگی۔
سائل: مولوی اسامہ جھاڑکھنڈی
الجواب وباللہ التوفیق
باسمہ سبحانہ وتعالی
شریعتِ مطہرہ میں نکاح کے من جملہ اغراض و مقاصد میں سے ایک اہم مقصد توالد وتناسل ہے اولاد کی کثرت مطلوب اور محمود ہے، اس لئے حمل روکنے والے اسباب کو اختیار کرنا اس کثرت کے منافی ہے جس کی وجہ سے ایسے اسباب کو اختیار کرنا شرعًاممنوع ہے۔
البتہ فقہائے کرام نے اعذار کی بنا پر جہاں انتہائی ضرورت ہو عارضی طور پر مختصر مدت کے لئے مانعِ حمل کی تدابیر اختیار کرنے کی اجازت دی ہے
یعنی منع حمل کی ایسی تدابیر اختیار کرنا جس میں صلاحیت تو باقی رہے مگر اولاد کا امکان نہ ہو، مثلاً: نرودھ لوپ یا کنڈوم کا استعمال کرکے رحم میں نطفہ نہ پہنچنے دیا جائے استقرار حمل سے مانع ادویات کا استعمال کیا جائے وغیرہ وغیرہ۔
اور کوپرٹی (copper t) کے ذریعہ لمبی مدت تک حمل ٹھہرنے کے عمل کو روکا جاتا ہے اس لئے اس کے رکھوانے کی اجازت نہیں ہے۔
البتہ کچھ شرائط کے ساتھ خواتین کا کوپر ٹی رکھوانا جائز ہیں۔
(۱) ماہر ڈاکٹر نے لمبے عرصے تک حمل رکوانے کو ضروری قرار دے کر کوپر ٹی لگوانے کی تجویز دی ہو اور کوپر ٹی کوئی خاتون ڈاکٹر لگائے، اس کو لگانے میں غیر مرد کا واسطہ نہ آئے، اس لئے کہ مانعِ حمل کوئی بھی ایسی تدبیر اختیار کرنا جس میں عورت کو شوہر کے علاوہ کسی مرد کے سامنے ستر کھولنا پڑے اس کی اجازت نہیں ہے، البتہ کسی جگہ ڈاکٹر صرف مرد ہی ہو کہ اس کے بغیر چارۂ کار ہی نہیں تو بدرجۂ مجبوری گنجائش ہوگی لیکن کم سے کم ستر کو کھولا جائے، نیز خاتون کے سامنے بھی بقدرِ ضرورت ستر کھولا جائے۔
(۲) عورت میں انتہائی کمزوری پیدا ہوگئ ہو یہاں تک کہ حمل کا بوجھ بھی اٹھانے کی استطاعت نہ ہو، حمل اور درد زہ کی تکالیف جھیلنے کی سکت نہ ہو یا بچہ کی ولادت کے بعد شدید کمزوری لاحق ہونے کا اندیشہ ہو تو جائز ہے۔
(۳) دوبچوں کے درمیان وقفہ اس لئے ہوکہ وہ بچوں کی صحیح نگہداشت کرسکے۔
(٤) اسی طرح لمبے سفر میں ہو، اور سفر کی حالت میں بچے کے جانی نقصان کا اندیشہ ہو تو اس صورت میں بھی کوپر ٹی رکھوانا جائز ہے۔
کوپر ٹی رکھوانے کی صورت میں حج کا حکم
کوپر ٹی رکھوانا یہ مانع احرام یا مکروہات احرام میں سے نہیں ہے اس لئے اس کو رکھواکر حج کرسکتے ہیں اس کو نکلوانا ضروری نہیں ہے۔
میت سے کوپر ٹی نکلوانے کا حکم
ستر کو کھولے بغیر کوپر ٹی نکالنا مشکل ہوتاہے اور نکالنے کی کوشش کرنے کی صورت میں چونکہ میت کی بے حرمتی ہوتی ہے اس لئے اندر ہی چھوڑ دی جائے اگر اس کو بغیر ستر کھولے نکالنا ممکن ہو تو نکال لی جائے اور کشف عورت کے بغیر مشکل ہو تو میت کی حرمت وعزت بھی ضروری ہے اس لئے ویسے ہی دفنا کردیاجائے اس میں غسل اور دفن میں کوئی حرج نہیں ہوگا۔
مشکاة المصابیح میں ہے
وقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم:تزوجوا الودود الولود فإني مکاثر بکم الأمم یوم القیامة (مشکاة المصابیح ص ۲٦۷)
ابو داؤد شریف میں ہے؛
عن معقل بن يسار قال جاء رجل إلى النبي صلى الله عليه وسلم، فقال إني أصبت امرأة ذات حسب وجمال وإنها لا تلد أفأتزوجها، قال لا ثم أتاه الثانية فنهاه ثم أتاه الثالثة، فقال تزوجوا الودود الولود فإني مكاثر بكم الأمم۔ (باب النهي عن تزويج من لم يلد من النساء ٢/٢٢٠ ط المكتبة العصرية - بيروت)
الفقه الإسلامي وأدلته سے مستفاد
وبناء عليه يجوز استعمال موانع الحمل الحديثة كالحبوب وغيرها لفترة مؤقتة، دون أن يترتب عليه استئصال إمكان الحمل وصلاحية الإنجاب قال الزركشي يجوز استعمال الدواء لمنع الحبل في وقت دون وقت كالعزل، ولايجوز التداوي لمنع الحبل بالكلية. أو ربط عروق المبايض إذا ترتب عليه امتناع الحمل في المستقبل، والعبرة في ذلك لغلبة الظن۔ (الفقه الإسلامي ٦٤٥/٤ القسم الأول العبادات الباب السابع الحظر والإباحة المبحث الرابع ط دار الفكر)
فتاوی شامی سے مستفاد
ويعزل عن الحرة وكذا المكاتبة نهر بحثاً بإذنها لكن في الخانية أنه يباح في زماننا لفساده قال الكمال فليعتبر عذراً مسقطاً لإذنها ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ويحتمل أنه أراد إلحاق مثل هذا العذر به كأن يكون في سفر بعيد، أو في دار الحرب فخاف على الولد۔ (فتاوی شامی باب نکاح الرقیق ،مطلب فی حکم العزل ٤/٣٣٥ ط زکریا)
البحر الرائق سے مستفاد
والإذن في العزل عن الحرة لها ولا يباح بغيره لأنه حقها، وفي الخانية: ذكر في الكتاب أنه لا يباح بغير إذنها وقالوا في زماننا يباح لسوء الزمان قال في فتح القدير بعده فليعتبر مثله من الأعذار مسقطا لإذنها وأفاد وضع المسألة أن العزل جائز بالإذن وهذا هو الصحيح عند عامة العلماء لما فی البخاري عن جابر: کنا نعزل والقرآن ینزل، الخ ( البحر الرائق ٣/٣٤٨ كتاب النكاح باب نكاح الرقيق ط دار الكتاب الإسلامي)
فتاوی شامی میں ہے
ولو بلع مال غيره ومات هل يشق؟ قولان، والأولى نعم، فتح ۔۔۔۔۔۔ قوله ولو بلع مال غيره أي ولا مال له كما في الفتح وشرح المنية، ومفهومه أنه لو ترك ما لايضمن ما بلعه لايشق اتفاقًا قوله والأولى نعم لأنه وإن كان حرمة الآدمي أعلى من صيانة المال لكنه أزال احترامه بتعديه كما في الفتح ومفاده أنه لو سقط في جوفه بلا تعد لايشق اتفاقًا۔ (فتاوی شامی ۳/۱٤۵ ط زکریا)
واللہ أعلم بالثواب والیہ المرجع والمآب
العارض مفتی آصف بن محمد گودھروی
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں