جمعہ، 28 اکتوبر، 2022

غیر مسلموں کے تہواروں میں شرکت کا شرعی حکم سوال نمبر ٣٩٦

 سوال 

السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ

حضرت یہ پوچھنا چاھتاھوں کہ غیر مسلموں کے تہواروں میں شرکت کا کیا حکم ھے کیا یہ شرک ھے قرآن و حدیث کی روشنی میں جواب مرحمت فرمائے

سائل محمد فیصل بھوپالی


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی


طریقۂ اسلامی دنیا وآخرت میں بندے کی کامیابی کا ضامن ہے، اسی وجہ سے اسلام نے ان اسباب وذرائع کو اختیار کرنے کا حکم اور ترغیب دی ہے جس سے انسان کے دین و ایمان، جان ومال، اس کی عزت و آبرو اور سوچ وعقل محفوظ رہ سکے، اور اسی وجہ سے ہی اسلام نے ان تمام نقصان دہ امور سے منع فرمایا ہے جو اس کے دین و ایمان، جان و مال، اس کی عزت و آبرو اور سوچ و عقل کو نقصان دے،

اس کے بالمقابل کفار جو کہ اسلام اور اہل اسلام کے بد ترین دشمن ہیں، وہ دین اسلام اور مسلمانوں کو مٹانے کے لیے بھر پور جدوجہد اور کوشش کر رہے ہیں جس میں رفتہ رفتہ شدت آتی جارہی ہے، روز اول سے ہی مسلمانوں کو ان کے دین اسلام سے ہٹانے کے لیے مسلسل جدوجہد چلی آرہی ہے اور کفار کی جنگ کاایک اہم حصہ نظریاتی جنگ ہے جو وہ مسلمانوں سے مختلف محاذوں پرمختلف انداز سے  لڑرہے ہیں، جس کے ذریعے وہ ہمارے افکار، عقائد، دینی وثقافتی اقدار کو ٹارگٹ کررہے ہیں، کفر کے نظریاتی ہتھیاروں میں سے ایک ہتھیار غیر اخلاقی تہوار ہیں جو اپنی تاثیر، فساد اور نقصانات و بگاڑ کے اعتبار سے مسلمانوں کو وہ نقصان دے رہے ہیں جو کہ شاید وہ عسکری جنگ کے ذریعے بھی نہ پہنچا سکے ہوں۔

اسی بنا پر علمائے کرام فرماتے ہیں کہ غیر قوموں کے اکثر تہوار ان کے مشرکانہ عقائد پر مبنی ہوتے ہیں، اور مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہمارے لئے شرک سے بیزاری اور بے تعلقی کا اظہار ضروری ہے چنانچہ ان کے تہوار میں کسی بھی قسم کی شرکت سے انکے عقائد اور نظریات کی تائید و حمایت اور تقویت پائی جاتی ہے لہذا اس سے اجتناب ضروری ہے۔

نیز غیر مسلموں کے تہوار کی دوصورتیں ہے ایک وہ تہوار جن کا تعلق خالص مذہب سے ہے یعنی وہ ان کے شعائر میں سے ہو اور ان کے مذہب کی علامات میں سے ہو جیسے گنپتی وسرجن وغیرہ ایسے تہواروں میں شرکت سے ان کے دین کی تعظیم ہوتی ہے جس میں کفر کا قوی اندیشہ ہے لہذا مسلمانوں  کے لیے ضروری ہے کہ وہ غیر مسلموں کے ساتھ  یکجہتی یا محبت کی غرض سے ان کے ایسے تہواروں میں شرکت  سے مکمل اجتناب  کریں۔

دوسرے نمبر پر وہ تہوار جس کا تعلق جہالت پرمبنی خوشی سے ہے اس قسم کے تہواروں میں اگرچہ کفر تو نہیں ہے لیکن اس فعل قبیح میں ان کی تعداد کے اضافے کا سبب ہے اور حدیث (من كثر سواد قوم فہو منہم کنزالعمال ۲۲٫۹) کے مصداق ہوکر گناہ گار ہوں گے، لہذا اس فعل سے بچنا ضروری ہے


اس طرح کے ایک سوال کے جواب میں فتاوی دارالعلوم دیوبند میں اس طرح سے وضاحت فرمائی ہے کہ: ہندؤوں کے یہاں چوں کہ وحدت ادیان کا نظریہ پایا جاتا ہے؛ اس لیے وہ لوگ اسلامی تہواروں کے موقع پر مسلمانوں کو خوب دل کھول کر مبارک بادی دیتے ہیں، لیکن مذہب اسلام میں صرف اسلام ہی حق اور صحیح مذہب ہے، باقی سب مذاہب باطل ہیں؛ اس لیے مسلمان کے لیے کوئی ایسا کام جائز نہیں، جس سے غیروں کی کسی مذہبی چیز کی تعظیم وتکریم یا اس کی تعریف وغیرہ لازم آتی ہو؛ بلکہ اس طرح کی چیزوں میں کفر کا اندیشہ ہوتا ہے؛ اس لیے مسلمانوں کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ ہولی یا دیوالی کے موقع پر غیر مسلموں کو مبارک بادی دیں، اس میں بہت زیادہ احتیاط کی ضرورت ہے؛ البتہ اگر سخت مجبوری کی صورت ہو مثلاً کوئی ایسا کاروباری ساتھی یا ما تحت ملازم یا کمپنی کا مالک ہے کہ اگر اس موقعہ پر اس سے مسرت کا اظہار نہ کیا جائے تو اس کی جانب سے ضرر کا اندیشہ ہے یا ملک میں مذہب کی بنیاد پر منافرت پھیلانے والوں کو مزید منافرت پھیلانے کا موقع ملے گا تو ایسی مجبوری میں مجمل الفاظ کہنے کی گنجائش ہوگی، مثلاً یوں کہہ دے کہ میری نیک تمنائیں تمھارے ساتھ ہیں اور نیت یہ ہو کہ اللہ تعالی تم کو ایمان نصیب فرمائیں تہوار وغیرہ کی تعظیم یا تعریف وغیرہ ہرگز مقصود نہ ہو توشرعاً ان شاء اللہ اس کی گنجائش ہوگی۔

اجتمع المجوس یوم النیروز فقال مسلم: خوب سیرت نہاوند یکفر(الفتاوی البزازیة علی ھامش الھندیة، ۶: ۳۳۳، ط: مکتبة زکریا دیوبند)

وما یھدی المجوس یوم النیروز من أطعمتھم إلی الأشراف ومن کان لھم معرفة لا یحل أخذ ذلک علی وجہ الموافقة معھم وإن أخذہ لا علی ذلک الوجہ لا بأس بہ والاحتراز عنہ أسلم (المصدر السابق)۔ (دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند جواب نمبر: ١٤٦٢١٨)


فتاوی تاتارخانیہ میں ہے

اجتمع المجوس یوم النیروز فقال مسلم: خوب رسمے نہادہ اند أو قال: نیک آئیں نہادہ اند یخاف علیه الکفر۔ (الفتاوی التاتارخانیة، ۷/۳٤۸،مکتبہ زکریا دیوبند)


البحر الرائق  میں ہے

(والإعطاء باسم النيروز والمهرجان لايجوز) أي الهدايا باسم هذين اليومين حرام، بل كفر، وقال أبو حفص الكبير - رحمه الله -: لو أن رجلًا عبد الله تعالى خمسين سنةً، ثم جاء يوم النيروز وأهدى إلى بعض المشركين بيضةً يريد تعظيم ذلك اليوم فقد كفر وحبط عمله، وقال صاحب الجامع الأصغر: إذا أهدى يوم النيروز إلى مسلم آخر ولم يرد به تعظيم اليوم ولكن على ما اعتاده بعض الناس لايكفر ولكن ينبغي له أن لايفعل ذلك في ذلك اليوم خاصةً ويفعله قبله أو بعده لكي لايكون تشبيهاً بأولئك القوم، وقد قال صلى الله عليه وسلم: «من تشبه بقوم  فهو منهم». وقال في الجامع الأصغر: رجل اشترى يوم النيروز شيئًا يشتريه الكفرة منه وهو لم يكن يشتريه قبل ذلك إن أراد به تعظيم ذلك اليوم كما تعظمه المشركون كفر، وإن أراد الأكل والشرب والتنعم لايكفر (البحر الرائق ٨/۵۵۵ مسائل متفرقہ فی الاکراہ ط دار الکتاب الاسلامی)


سنن ابی داؤد میں ہے

عـن ابـن عـمـر، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم من تشبه بقوم فهو منهم. (سنن أبي داؤد، كتاب اللباس ، باب في لبس الشهرة ٢/۵۵٩ ، دار السلام)


شرح فقه اكبر میں ہے

ولو شبـه نـفـسـه بـاليهود، أوالنصارى: أي صورة أوسيرة على طريق المزاح، والهزل، ولو على هذا المنوال كفر الخ. (شرح فقه اكبر ، جديد اشرفي دیوبند ۲۲۸ ، قديم ٢٢٦)۔ 


فقط والسلام واللہ اعلم بالصواب

العارض مفتی آصف گودھروی 

ہفتہ، 15 اکتوبر، 2022

نماز میں سلام پھیرنے کا طریقہ سوال نمبر ٣٩۵

 سوال 

السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ

(١) جی مجھے یہ معلوم کرنا ہے کہ امام صاحب جب السلام علیکم ورحمتہ اللّٰہ کے ذریعے نماز سے باہر ہوتے ہیں تو بعض امام سلام کو تھوڑا سا کھینچ دیتے ہیں جسکی وجہ سے بہت سے مقتدیوں کا سلام امام صاحب کے سلام سے پہلے ہی مکمل ہوجاتا ہے کیا ایسا کرنے سے نماز میں کوئی خرابی تو نہیں آئیگی؟

(٢) یہ بھی بتائیں کہ امام صاحب کو سلام مختصر کرنا چاہئے یا تھورا بہت کھینچنا چاہئے؟

(٣) اور سلام گردن گھمانے کے بعد شروع کرنا چاہئے یا جیسے ہی گردن گھمانا شروع کریں تب ہی سلام شروع کردیں آپ سے بہت ہی ادب واحترام کے ساتھ درخواست ہے کہ وضاحت کے ساتھ جواب دیکر شکریہ کا موقع عنایت فرمائیں؟

سائل محمد رضوان جمالپوری


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی


(١) کسی مقتدی نے بغیر کسی عذر کے امام سے پہلے سلام پھیر دیا اس کے بعد امام نے سلام پھیرا  تو مقتدی کی نماز تو ہوگئی لیکن مکروہِ تحریمی ہے، تاہم نماز کا اعادہ واجب نہیں ہے لہذا جو شخص امام کے لفظ السلام کہنے سے پہلے اپنا لفظ السلام مکمل کرلے تو اگر اس نے سہواً یا کسی عذر کی بنا پر ایسا کیا ہے تب تو اس کی نماز بلا کراہت ادا ہوگئی اگر بلاعذر ایسا کیاہے تو متابعت امام (جو کہ واجب ہے) کے ترک کی وجہ سے اس کی نماز کراہت کے ساتھ ادا ہوگی البتہ اولی اور بہتر یہ ہے کہ امام کے سلام پھیرنے کے ساتھ ساتھ مقتدی بھی سلام پھیریں۔ اگر ساتھ ساتھ نہیں پھیر سکا کچھ بعد میں پھیرا تو اس کی بھی گنجائش ہے


(٢) سلام پھیر نے میں درمیانی طریقہ اختیار کرنا چاہئے نہ خوب کھینچ کر سلام پھیرنا ہے کہ مقتدی کا سلام امام کے سلام سے پہلے ہوجائے اور نہ بلکل جلدی جلدی سلام پھیرنا ہے۔


اس سلسلے حضرت مفتی شبیر صاحب مرادآبادی ایک استفتاء کے جواب میں تحریر فرماتے ہیں کہ: نماز کے اختتام پر سلام پھیرتے ہوۓ مدکر نے اور نہ کرنے میں درمیانی راہ اختیار کر نی چاہئے ، مد بہت زیادہ لمبانہ ہو اوراتنا مختصر بھی نہ ہو کہ پتہ ہی نہ چلے اور حضرت عبداللہ بن المبارک نے "حـذف السلام سنة“ کی تشریح کرتے ہوۓ یہی فرمایا ہے کہ سلام میں زیادہ لمبامد نہ کیا جاۓ ،ہاں البتہ فقہاء نے سیکھا ہے کہ پہلے سلام کے مقابلہ میں دوسرے سلام کوذ رامختصر اور معمولی پست کیا جاۓ ، ایسا بھی نہیں کہ پہلا سلام بہت زور سے اور دوسر اسلام بہت معمولی ہو صرف ۱۹-۲۰ کا فرق ہواورفقہاء کی عبارت سے یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ دونوں سلام میں بہت زیادہ کھینچنا نہیں چاہئے ؛ بلکہ مد میں اعتدال اختیار کرنا چاہئے ۔(مستفاد: احسن الفتاوی، زکر یا ۳۱۲/۳)

عـن أبـي هـريرة - رضي الله عنه- قال: حذف السلام سنة، قال علي بـن حـجـر، وقال ابن المبارك: يعني أن لا تمده مدا، قال أبو عيسى : هذا حديث حسن صحيح، وهو الذي يستحبه أهل العلم. (ترمذي شريف، الصلاة، باب ماجاء أن حذف السلام سنة، النسخة الهندية ١/٦٦ دارالسلام، رقم: ۲۹۷) (فتاوی قاسمیہ ۵/٧٦٩)


(٣) نماز میں دونوں جانب سلام پھیرنے کا مسنون طریقہ یہ ہے کہ سلام کا آغاز اس وقت کیا جائے جب چہرہ قبلہ کی طرف ہو یعنی قبلہ رُخ رہتے ہوئے سلام شروع کیا جائے اور اختتام چہرہ دائیں جانب یا بائیں جانب پھیر کر کیا جائے یعنی لفظ علیکم اس وقت ادا کیا جائے جب دائیں طرف رخ ہوجائے یہی صورت دوسرے سلام میں اختیار کی جائے گی۔


فتاوی شامی میں ہے

(قولہ لوأتمہ إلخ) أی لوأتم المؤتم التشہد ، بأن أسرع فیہ وفرغ منہ قبل إتمام إمامہ فأتی بما یخرجہ من الصلاة کسلام أوکلام أو قیام جاز: أی صحت صلاتہ لحصولہ بعد تمام الأرکان لأن الإمام وإن لم یکن أتم التشہد ؛ لکنہ قعد قدرہ لأن المفروض من القعدة قدر أسرع ما یکون من قرائة التشہد وقد حصل ، وإنما کرہ للمؤتم ذلک لترکہ متابعة الإمام بلا عذر ، فلو بہ کخوف حدث أو خروج وقت جمعة أو مرور مار بین یدیہ فلا کراہة کما سیأتی قبیل باب الاستخلاف .[الدر المختار وحاشیة ابن عابدین ٢/٢٤٠)


الفقہ الإسلامي وأدلتہ میں ہے 

فیشیر عند النطق بالتسلیمۃ للقبلۃ ویختمہا بالتیامن عند النطق بالکاف والمیم من ’’علیکم‘‘ حتی یری من خلفہ صفحۃ وجہہ۔ (الفقہ الإسلامي وأدلتہ : ١/۵۷۸)۔ واللہ اعلم بالصواب۔


العارض مفتی آصف گودھروی 

جمعرات، 13 اکتوبر، 2022

دوران عدت نکاح کرنا اسٹامپ پیپر پر دستخط سے طلاق کاحکم سوال نمبر ٣٩٤

 سوال

السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ 

جناب مفتی صاحب ایک عورت ہے جس کی طلاق ہوگئی ہے عورت ٦ مہینے سے اپنے ماں باپ کے گھر تھی اور آج اسکی طلاق ہوئی تو کیا وہ عددت گزار سکتی ہے یا نہیں اور اس مرد نے زبان سے طلاق نہیں بولا صرف پیپر پر ساین کیا تو طلاق ہوگئی یا نہیں اور وہ عورت دوسرے مرد سے نکاح کرنا چاہتے ہیں تو عدت کے بغیر نکاح کرسکتی ہے یا نہیں اور نہیں کرسکتے تو وہ عورت جس مرد سے نکاح کرنا چاہتے ہیں اس کے ساتھ رہ سکتی ہیں یا نہیں؟

سائل عبداللطیف مہوا


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی 


عدت کا وقت طلاق دینے کے فوراً بعد شروع ہوتاہے لہذا جب طلاق واقع ہوجائے اس کے  فورًا بعد سے ہی عدت شمار کرنا ہے طلاق کے بعد جب تک عدت نہ گذرجائے اس وقت تک اس عورت کا نکاح کسی اور سے کرنا جائز نہیں خواہ طلاق دینے سے پہلے شوہر اور بیوی میں طویل عرصے سے ملاقات کی نوبت نہ آئی ہو، عدت میں کیا گیا نکاح شرعاً باطل ہوتا ہے اگر اس عورت کا نکاح کرنا ہو تو عدت کے بعد کیا جائے اسی طرح قبل النکاح کسی اجنبی مرد کے ساتھ رہنا درست نہیں ہے چاہی اس سے بعد میں نکاح کا ارادہ ہو یا نہ ہو۔


طلاق دوطرح سے دی جاتی ہیں ایک زبانی طلاق یعنی اس کو اپنی زبان سے الفاظ طلاق سے اپنے نکاح سے علاحدہ کرنا چاہے وہ صریح الفاظ سے طلاق دے یا کنائی الفاظ سے۔

دوسرے نمبر پر تحریری طلاق یعنی طلاق نامہ یا اسٹیمپ پیپر پر دستخط کرنا البتہ اس میں یہ معلوم ہونا ضروری ہے کہ اس طلاق نامہ یا اسٹیمپ پیپر پر جس پر دستخط کرنا ہے وہ طلاق کے لئے ہے اور پھر اس پر دستخط کردے تو دستخط کرنے والے کی بیوی پر طلاق واقع ہوجائے گی اس لئے کہ جس طرح طلاق کا لفظ بولنے سے طلاق واقع ہوجاتی ہے اسی طرح لکھنے سے یا لکھے ہوئے پر دستخط  کرنے سے بھی واقع ہوجاتی ہے، بشرطیکہ کہ اس کو علم ہو کہ یہ طلاق نامہ ہے یا اس سے زبردستی طلاق نامہ پر دستخط نہ لی ہو اگر زبردستی طلاق نامہ پر دستخط کروائے تو بھی طلاق واقع نہیں ہوگی۔


مسؤلہ صورت میں عورت کے عدت طلاق کے بعد سے شروع ہوگی اور اس کے لئے عدت ختم ہونے سے پہلے کسی اور سے نہ نکاح کرنا جائز ہے اور نہ کسی اجنبی مرد کے ساتھ رہنا جائزہے اور مرد کو معلوم ہوتے ہوئے کہ اس اسٹیمپ پیپر پر  طلاق لکھی ہوئی  ہیں اور اس پر دستخط کردیا تو اس سے عورت پر طلاق واقع جائے گی 


بدائع الصنائع میں ہے 

وأما أحكام العدة :فمنها أنه لا يجوز للأجنبي نكاح المعتدة۔۔۔ وأما المطلقة ثلاثا أو بائنا والمتوفى عنها زوجها فلأن النكاح حال قيام العدة قائم من كل وجه لقيام بعض آثاره۔(بدائع الصنائع،کتاب الطّلاق،فصل فی أحکامِ العدّۃ ٤/٤٤٥)


الموسوعة الفقهية میں ہے

ذهب الحنفية إلى أن العدة تبدأ في الطلاق عقيب الطلاق، وفي الوفاة عقيب الوفاة، لأن سبب وجوب العدة الطلاق أو الوفاة، فيعتبر ابتداؤها من وقت وجود السبب، فإن لم تعلم بالطلاق أو الوفاة حتى مضت مدة العدة فقد انقضت مدته۔ (الموسوعة الفقهية الكويتية ٢٩/٣٢٦)


فتاوی عالمگیری میں ہے 

وإن كانت مرسومة يقع الطلاق نوى أو لم ينو ثم المرسومة لا تخلوأما إن أرسل الطلاق بأن كتب أما بعد فأنت طالق فكلما كتب هذا يقع الطلاق وتلزمها العدة من وقت الكتابة وإن علق طلاقها بمجيء الكتاب بأن كتب إذا جاءك كتابي هذا فأنت طالق فما لم يجئ إليها الكتاب لا يقع كذا في فتاوى قاضي خان۔ (الهندية: الفصل السادس ١/٣٧٨)


فتاوی شامی میں ہے 

وفي البحر أن المراد الإكراه على التلفظ بالطلاق، فلو أكره على أن يكتب طلاق امرأته فكتب لا تطلق لأن الكتابة أقيمت مقام العبارة باعتبار الحاجة ولا حاجة هنا.(ردالمحتار على الدرالمختار، كتاب الطلاق، مطلب: فى الإكراه على التوكيل بالطلاق والنكاح والعتاق ٤/٤٤٠ دارالكتب العلمية)

ایضاً 

وکذا کل کتاب لم یکتبہ بخطہ ولم یملہ بنفسہ لا یقع الطلاق مالم یقرأنہ کتابہ الخ۔ (شامي کتاب الطلاق مطلب في الطلاق بالکتابۃ ٤/٤۵٦)۔ واللہ اعلم بالصواب۔


العارض مفتی آصف گودھروی 

بدھ، 12 اکتوبر، 2022

ماکول اللحم جانوروں کے پیشاب کو بطور دوا استعمال کرنا کیسا ہے؟ سوال نمبر ٣٩٣

سوال 

السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ

 جی مجھے یہ معلوم کرنا ہے کہ ایک مسلمان عورت کا ایک غیر مسلم حکیم سے علاج چل رہا ہے اس عورت کی گردن پے رسولی ہے بڑے بڑے ڈاکٹروں نے بتایا ہے کہ اسکا علاج آپریشن کے سوا کچھ نہیں ہے وہ غیر مسلم حکیم کہتے ہیں کہ میرے پاس ایک ایسی دوا ہے کہ جس سے یہ رسولی ختم ہو جائیگی اور دوا کے استعمال کا طریقہ یہ ہے کہ اس دوا کو بکری یا بھینس یا گائے کے پیشاب میں ملاکر لگانا ہے رات میں لگالو اور صبح نماز سے پہلے اتار دو آپ سے یہ معلوم کرنا ہے کہ کیا اس دوا کا استعمال جائز ہے یا نہیں وضاحت کے ساتھ جواب دیکر شکریہ کا موقع عنایت فرمائیں 

سائل محمد رضوان جمالپور


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی


مفتی بہ قول کے مطابق ماکول اللحم جانور (یعنی جن جانوروں کا گوشت کھایا جاتا ہے) ان کا پیشاب بطورِ علاج  دوا میں استعمال کرنا اور پینا اس شرط کے ساتھ جائز ہے کہ کسی اور حلال اور مباح دوا سے اس بیماری کا علاج نہ ہورہا ہو یعنی صرف اضطراری حالت میں ہی جائز ہے، یعنی اس کے علاوہ شفا کی کوئی شکل نہ رہے، تب اس کی گنجائش ہوگی ، ورنہ نہیں اور ان حلال جانوروں کے پیشاب سے علاج تجویز کرنے والا ماہر ڈاکٹر یا حکیم ہو اورشفا کا ظن غالب ہو۔


کتاب النوازل میں حضرت مفتی سلمان صاحب منصورپوری نے ایک ایسے ہی سوال کے جواب میں تحریر فرمایا ہے کہ: گاۓ کے پیشاب ملی ہوئی دواؤں کا داخلی استعمال اسی وقت جائز ہے جب کہ اضطراری حالت ہو، یعنی طبیب حاذق اس دوا کو تجویز کرے، اور اس کے بدل کے طور پر کوئی پاک دوا دستیاب نہ ہو، اس کے بغیر اس دوا کا استعمال جائز نہ ہوگا، اور ایسی دواؤں کے خارجی استعمال مثلا لیپ لگانے کی ضرورت کے وقت گنجائش ہے البتہ جب نماز پڑھی جاۓ تو جس حصہ پر ناپاک دوالگی ہے اسے پاک کرنا لازم ہوگا۔ (مستفاد: فتاوی محمود ۳٦۸ /۱۸ڈابھیل) وأما الزيت والسمن ونحوهما من الأدهان التي أصابتها نجاسة خارجية ففيها خلاف بين العلماء. وقال الجمهور: يجوز الانتفاع بها في غير الأكل وهو قول أبي حنيفة وأصحابه . (تكملة فتح الملهم ١/۵٦٢ المكتبة الأشرفية ديو بند ) اختلف في التداوي بالمحرم وظاهر المذهب المنع ...... وقيل: يرخص إذا عـلـم فـيـه الـشـفـاء ولـم يـعـلـم دواء آخر كما رخص الخمر للعطشان وعليه الفتوى.


(الدر المختار على الشامي ١/٣٦٦ المكتبة الأشرفية ديوبند) يجوز للعليل شرب الدم والبول وأكل الميتة للتداوي إذا أخبره طبيب


مسـلـم أن شـفـاء ه فيـه، ولم يجد من المباح ما يقوم مقامه . (الفتاوى الهندية، كتاب الـكـراهية / البـاب الثـامـن عـشـر فـي التـداوي والمعالجات ٣٥٥/٥ زكريا، وكذا في الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الحظر والإباحة / فصل في البيع ٣٨٩/٦ کراچی)


الاستشفاء بالمحرم إنما لا يجوز إذا لم يعلم أن فيه شفاء، أما إذا علم أن فيه شفاء وليس له دواء آخر غيره ، فيجوز الاستشفاء به. (المحيط البرهاني، كتاب الاستحسان / الفصل التاسع عشر في التداوي والمعالجات 116/6 المكتبة الغفارية كوئته) فقط واللہ تعالی اعلم (کتاب النوازل ١٦/١٨٩)



فتاویٰ ہندیہ میں ہے:

يجوز للعليل شرب البول والدم وأكل الميتة للتداوي إذا أخبره طبيب مسلم أن شفاءه فيه ولم يجد من المباح ما يقوم مقامه۔ (فتاوی الهندية كتاب الكراهية الباب الثامن عشر في التداوي والمعالجات،۵/٤١٠)


فتاویٰ تاتارخانیہ میں ہے

الاستشفاء بالمحرم إنما لاتجوز إذا لم يعلم فيه شفاء، أما إذا علم أن فيه شفاء وليس له دواء أخر غير يجوز الاستشفاء به۔ (الفتاوى التاتارخانيه زكريا ١/٢٠٠ رقم ٢٨۵٠٤)


البحر الرائق میں ہے

ففي النهاية عن الذخيرة الاستشفاء بالحرام يجوز إذا علم أن فيه شفاء ولم يعلم دواء آخراه۔ (البحر الرائق١/١٢٢)


فتاوی شامی میں ہے 

يجوز للعليل شرب البول والدم والميتة للتداوي إذا أخبره طبيب مسلم أن فيه شفاء ه، ولم يجد من المباح ما يقوم مقامه. (شامي ٧/٤٨٠زكريا)۔ واللہ اعلم بالصواب


العارض مفتی آصف گودھروی 

پیر، 10 اکتوبر، 2022

مسافت سفر کی ابتدا کہاں سے ہوگی گھر سے یا محلے کو تجاوز کرکے یا شہر کی حدود پار کرنے کے بعد سوال نمبر ٣٩٢

 سوال 

کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ: ایک شھر اسی کلو میٹر کے احاطے میں ہے کوئی شخص اسکے کنارے میں رہتا ہے اب وہ سفر کرے تو قصر کا حکم کب سے ہوگا اسی کلو میٹر کو پورہ کرنے کے بعد یا اپنی جگہ سے؟

مولانا بلال صاحب نولپوری


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی


علماء کرام کا اس بات پر اتفاق ہے کہ آدمی پر مسافر ہونے کا حکم اس وقت لگتا ہے جب کہ اپنے مقام سے اڑتالیس میل (٧٧.٢٥ کلو میٹر) بنیت سفر باہر نکل جائے، اب مسافتِ شرعی کا اعتبارکہاں سے شروع ہوگا آیا گھر یا محلے سے نکلنے کے بعد سے یاشہر کی حدود سے نکلنے کے بعد سے۔

اس سلسلہ میں عبارات فقہاء سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ قصر و اتمام کا حکم جس شہر میں وہ قیام پذیر ہے اس کے حدود سے نکلنے کے بعد ہوگا چاہے اس کی آبادی کا رقبہ سفر شرعی کی حدود سے بھی تجاوز کرجائے اور اصول و جزئیات سے بھی یہی بات معلوم ہوتی ہے کہ مسافر پر سفر کے احکام اس وقت لگتے ہیں جب وہ شہر یا گاؤں کی حدود سے باہر نکل جائے جب تک وہ ان کے حدود میں رہے گا اس وقت تک اس کے لیے قصر کرنا جائز نہیں۔


اس سلسلے میں عالم اسلامی کی معروف و مشہور شخصیت حضرت مفتی تقی عثمانی صاحب نے بھی فتاوی عثمانی میں اسی طرف رجحان کو ظاہر کیا ہے مع سوال و جواب کے ملاحظہ فرمائیں۔

سوال: (١) زید کراچی سے حیدرآباد ، سکھر جانے کے لئے سفر کو نکلتا ہے ، زید اپنے محلے اور بلاک کی حدود سے نکل کر قصر کرے یا کراچی شہر کی ساری حدود سے نکل کر قصر کرے؟ 

(٢) زید کسی ایسے شہر میں رہتا ہے جس شہر کی لمبائی تقریبا ۵۰ پچاس ، ۵۵ پچپن میل ہے ، زید اس شہر کے کونے میں رہتاہے زید کو اس شہر کے دوسرے کونے میں جانا ہے جو کہ تین دن کی مسافت پر ہے پیدل جانے کی صورت میں، لہذا ز ید قصر کرے یا پوری چار رکعت پڑھے ؟

جواب: (١) کراچی شہر کی حدود سے نکل کر قصر کرے۔ (٢) صورت مسئولہ میں قصر جائز نہیں اپنا شہر خواہ کتنا ہی طویل وعریض ہواس میں قصر جائز نہیں ہے۔ (فتاوی عثمانی ١/٤٩٨)


اسی طرح حضرت مفتی سلمان صاحب منصورپوری نے بھی کتاب النوازل میں اسی رجحان کی صراحت فرمائی ہے اس سلسلہ میں ان کے دوفتاوی پیش خدمت ہے ملاحظہ فرمائیں۔

الجواب وبالله التوفيق : آج کل جس طرح شہروں کی آبادیاں وسیع تر رقبہ تک پھیلتی جاری ہیں ان کا تصور فقہاء متقدمین کے زمانہ میں نہ تھا ، اس لئے فقہاء کے کلام میں اس کے متعلق صریح جزئیہ ملنا دشوار ہے ، اس بنا پر یہ مسئلہ مفتیان کرام کے لئے موضوع بحث بنا ہواہے تاہم اصول اور فقہی جزئیات سے اتنی بات معلوم ہوتی ہے کہ عرف میں جہاں تک کی آبادی پر ایک شہر کا اطلاق ہوتا ہے خواہ وہ آبادی کتنی ہی دور تک پھیل گئی ہو وہ سب ایک ہی شہر شمار ہوگا اور اس کی الگ الگ کالونیاں اس کے محلے شمار ہونگے اور جس جگہ کی آبادی کو عرف میں مذکورہ شہر سے الگ سمجھا جاتاہو تو اسے الگ آبادی کے حکم میں رکھا جائے گا اگر چہ آبادی بظاہر متصل ہو مثلا دہلی اور صاحب آباد یا دہلی اور گوڑگاواں دونوں عرفی اور سرکاری اعتبار سے الگ الگ آبادیاں شمار ہوتی ہیں ، جبکہ پورا دہلی آبادی کے اعتبار سے ایک شمار کیا جاتاہے اب دلی میں مقیم شخص پر سفر کا حکم اس وقت سے لگے گا جبکہ وہ شہر دہلی کی آبادی سے باہر نکل جائے ، مثلا یوپی کی طرف سفر کرنے والا صاحب آباد یا نوئیڈا یا غازی آباد آجاۓ اور ہریانہ کی طرف جانے والا گوڑگاؤں یافرید آباد میں داخل ہوجائے۔ (مستفاد: فتاوی رحیمیہ ٣٦٣/٦ احسن الفتاوی ۷۳/٤)

مستفاد: عـن ابـن عمر رضي الله عنه أنه كان يقصر الصلاة حين يخرج مـن يـوت الـمـديـنـة ويصر إذا رجع حتى يدخل بيوتها (مصنف عبد الرزاق باب المسافر متى يقصر إذا خرج مسافرا ٥٣٠/٢ رقم : ٤٣٢٣)

مـن خرج من عمارة مـوضـع إقـامتـه ( درمختار ) وأشار إلى أنه يشترط مـفـارقـة مـاكـان من توابع موضع الإقامة كربض المصر وهو ماحول المدينة من بيوت ومـسـاكـن فـإنـه فـي حـكـم الـمـصـر وكذا القرى المتصلة بالربض في الصحيح ، بخلاف البساتين ولو متصلة بالبناء ؛ لأنها ليست من البلدة . ( درمختار مع الشامي ٩٩/٢ ٥ زكريا )۔ (کتاب النوازل ۵/٣٩٧)


الـجـواب وبالله التوفيق : شہر میں رہتے ہوۓ آدمی مسافر نہیں ہوتا بلکہ شہر کی آبادی سے نکلنے کے بعد مسافر ہوتا ہے خواہ کتناہی بڑا شہر ہو لہذا مسئولہ صورت میں یہ شخص مسافر نہیں ہوگا بلکہ مقیم ہی رہےگا اور اس پر اتمام لازم ہوگا ( فتاوی محمودیہ جدید ٢٤٤/۷ )

والأصـل فـي ذلك ما روي عن علي رضي الله عنه أنه خرج من البصرة يريد السفر فجاء في وقت العصر فأتمها ، ثم نظر إلى خص أمامه فقال أما لو كنا جاوزنا هذا الخص لقصرنا . ( أخـرجـه عبد الرزاق في مصنفه ٥٢٩/٢ رقم ٤٣١٩، المحيط البرهاني ٣٨٧/٢ إدارة القرآن كراتشي )

والثالث الخروج من عمران المصر فلايصير مسافراً بمجرد النية مالم يخـرج مـن عـمـران الـمـصـر ؛ لأن النية إنما تعتبر إذا كانت مقارنة للفعل ؛ لأن مـجـرد الـعـزم عـفـو ، وفعل السفر لا يتحقق إلا بعد الخروج من المصر ، فما لم يخرج لايتحقق قران النية بالفعل ، فلا يصير مسافراً . ( بدائع الصنائع ١ / ٢٦٤ زكريا )

قـال مـحـمد رحمه الله تعالى : يقصر حين يخرج من مصره ، ويخلف دور المصر . ( الفتاوئ الهندية ١٣٩/١ )۔ (کتاب النوازل ١/٤٠١)


اسی طرح حضرت مفتی محمود صاحب گنگوہی نے فتاوی محمودیہ میں اسی کی صراحت فرمائی ہے ملاحظہ فرمائیں۔

سوال[۳۵۷۲]: ایک شہر یا قصبہ سے دوسرے شہر یا قصبہ کا فاصلہ قصر ہونے کے لئے کس طرح جوڑا جاۓ گا ؟ ایک صورت تو یہ ہے کہ جس محلہ سے چلے اس سے دوسرے شہر کے جس محلہ تک جانا ہو وہاں تک کا فاصلہ، اور دوسرا طریقہ یہ ہے کہ اپنے وطن کی آخری سرحد پہو نچنے والے مقام کی شروع کی سرحد ۔ چونکہ دونوں طریقوں میں فاصلہ کا تفاوت میلوں کا ہوگا مثلا : خط مستقیم کا فاصلہ الف ، ب۴۳/ میل ہے اور ج ، ۵۰/میل ہے اورالف اس ۵۵/میل ہے ،تو ج سے چلنے والا دس تک جانا چاہتا ہے ، اب مسافر ہوا یا نہیں؟

الجواب حامدا ومصليا

وطن کے آخری مکان سے سفر کی مسافت شروع ہوگی اور جس بستی میں جانا ہے اس کی ابتدائی سرحد تک مجموعی مسافت کو دیکھا جاۓ گا ، پس صورت مسئولہ میں مسافت سفر ۴۳/ میل ہوگی اور قصر کا حکم نہیں ہوگا۔ (فتاوی محمودیہ ٧/٤٧٦)


فتاوی شامی میں ہے

من خرج من عمارة موضع إقامتہ من جانب خروجہ …… قاصدا …… مسیرة ثلاثة أیام ولیالیھا ……صلی الفرض الرباعي رکعتین …حتی یدخل موضع مقامہ الخ ( الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الصلاة، باب صلاة المسافر، ٢/ ۵٩٩ ٦٠٤ ط مکتبة زکریا دیوبند)


کبیری میں ہے

من فارق بیوت موضع ہو فیہ من مصرأو قریة ناویا الذہاب إلی موضع بینہ وبین ذلک الموضع المسافة المذکورة صارمسافرا، فلایصیرمسافرا قبل أن یفارق عمران ما خرج منہ من الجانب الذی خرج منہ . (کبیری ۵٣٦ ط: اشرفی)


بدائع الصنائع میں ہے

وفعل السفر لا يتحقق إلا بعد الخروج من المصر فمالم یخرج لا یتحقق قران النیۃ بالفعل فلا یصیر مسافرا۔ (بدائع الصنائع ١٩٤)۔


الفقه الإسلامي وأدلته میں ہے

فقال الحنفية: أن يجاوز بيوت البلد التي يقيم فيها من الجهة التي خرج منها، وإن لم يجاوزها من جانب آخر وأن يجاوز كل البيوت، ولو كانت متفرقة متى كان أصلها من البلد، وأن يجاوز ماحول البلد من مساكن .... أن يقصد من ابتداء السفر موضعا معينا، ويعزم أن يقطع مسافة القصر من غير تردد. (الفقه الإسلامي وأدلته. ۱۳۵۰/۲ ۱۳۵۳ کتاب الصلوة، المبحث الثالث صلاة السفر، رشيديہ) 


العارض مفتی آصف گودھروی

ہفتہ، 1 اکتوبر، 2022

نماز میں یاايها الذين آمنوا اجتنبوا كثيرا من الظن* کی جگہ *يا ايها الذين آمنوا لا تجتنبوا اليوم إن الله تواب رحيم پڑھا تو نماز کا کیا حکم ہے؟ سوال نمبر ٣٩١

 سوال 

السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ

اگر کوئی شخص نماز میں *يا ايها الذين آمنوا اجتنبوا كثيرا من الظن* کی جگہ *يا ايها الذين آمنوا لا تجتنبوا اليوم إن الله تواب رحيم* پڑھ دے تو نماز کا کیا حکم ہوگا؟

صرف *لا تجتنبوا اليوم* پڑھا ہے اور آگے *كثيرا من الظن* کا اضافہ نہیں کیا ہے بلکہ *إن الله تواب رحيم* پڑھ دیا ہے. 

سائل ابو اسامہ ، مالیگاؤں


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی


قرأت میں لفظ اس طرح سے بدل جائے کہ جس سے ایسے معنی پیدا ہوجائیں، جن کا اعتقاد کفر ہوتا ہے، تو نماز فاسد ہو جائے گی، اور اگر ایسا معنی پیدا نہ ہو جن کا اعتقاد کفر ہوتا ہے، تو نماز فاسد نہیں ہوتی۔

لہذا تلفظ کی تبدیلی یا الفاظ کی کمی بیشی کی وجہ سے معنیٰ کو دیکھا جائے گا اگر معنی تبدیل نہ ہو یا معنیٰ تو تبدیل ہو لیکن تغیر فاحش نہ ہو  تو  اس سے نماز فاسد نہیں ہوگی، اور اگر تغیر فاحش ہو تو نماز واجب الاعادہ ہوگی۔


صورت مسئولہ میں چونکہ یاايها الذين آمنوا اجتنبوا كثيرا من الظن* کی جگہ *يا ايها الذين آمنوا لا تجتنبوا اليوم إن الله تواب رحيم* پڑھا ہے جس میں معنی کا تغیر ایسا فاحش نہیں ہے کہ جس میں اعتقادی غلطی ہو اور معنی میں کفر ہو اس لئے کہ اس نے صرف یا ایھا الذین آمنوا لاتجتنبوا پڑھا ہے جو ذومعنی ہے لہذا بندے کی نظر میں اس سے نماز فاسد نہیں ہوگی البتہ اشتباہ کی وجہ سے لوٹالینا اولی ہے ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب۔


عالمگیری میں ہے۔

ومنها: ذکر کلمة مکان کلمة علی وجه البدل إن کانت الکلمة التي قرأها مکان کلمة یقرب معناها وهي في القرآن لاتفسد صلاته، نحو إن قرأ مکان العلیم الحکیم  وإن کان في القرآن، ولکن لاتتقاربان في المعنی نحو إن قرأ:وعداً علینا إنا کنا غافلین مکان فاعلین ونحوه مما لو اعتقده یکفر تفسد عند عامة مشایخنا،وهو الصحیح من مذهب أبي یوسف رحمه الله تعالی، هکذا في الخلاصة۔ (الفتاوی الهندیة، ١/٨٠ ط: المطبعة الکبری الأمیریة، بولاق، مصر)


فتاوی عالمگیری میں ہے 

وإن غیر المعنی تغیراً فاحشاً فإن قرأ: ” وعصی آدم ربه فغوی “ بنصب میم ” اٰدم “ ورفع باء ” ربه “……… وما أشبه ذلک لو تعمد به یکفر، وإذا قرأ خطأً فسدت صلاته۔ الخ (الفتاوی الخانیة علی هامش الهندیة، ١/١٦٨ ط: المطبعة الکبری الأمیریة، بولاق، مصر)


إمداد المفتین میں ہے۔

قال في شرح المنیة الکبیر القاعدة عند المتقدمین أن ما غیره تغیراً یکون اعتقاده کفراً تفسد في جمیع ذلک سواء کان في القرآن أو لم یکن إلا ما کان من تبدیل الجمل مفصولاً بوقف تام، ثم قال بعد ذلک: فالأولی الأخذ بقول المتقدمین۔ (إمداد المفتین، ص ۳۰۳)۔ واللہ اعلم بالصواب۔


العارض مفتی آصف گودھروی

خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا

دوران تعلیم مدرسے سے چھٹی لے کر چار مہینے دعوت میں جانا سوال نمبر ٣٩٠

 سوال

السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ 

جناب مفتی صاحب ایک حافظ صاحب ہے اور وہ مدرسہ پڑا رہے ہیں اور وہ چالو مدرسہ میں سے چار مہینے کی جماعت میں جانے کا بول رہے ہیں تو مفتی صاحب ان کے لئے کیا حکم ہے 

سائل: عبللطیف مہوا


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی


قرآن و حدیث کی روشنی میں تبلیغ امت محمدیہ کے لئے فرض کے درجہ میں ہیں البتہ طریقہ تبلیغ نہ فرض ہے نہ واجب ہے اور نہ ہی سنت ہے جو بھی طریقہ اپنایا جائے مستحسن ہے لہذا مدارس اور دعوت اور خانقاہیں اور اس کے علاوہ جتنے بھی میدان ہے اعلاء کلمۃ اور اعلاء حق کے لئے وہ جس شعبہ سے وہ حق کو عام کرنے کی سعی کرے کا وہ اس فریضے سے سبکدوش ہوجائے گا۔


البتہ اس کا خیال رکھنا ہے کہ جس شعبہ میں بھی خدمت نجام دے وہ کما حقہ ہو اس میں کوتاہی کی کوئی صورت پیش نہ آئے آج کل یہ جو طریقہ ہے کہ درمیانی تعلیم میں مدارس سے اساتذہ دعوت کے کام سے چار مہینے چالیس دن رخصت لیکر جاتے ہے تو اس کے لئے چند باتوں کا دھیان میں رکھنا ضروری ہے۔


(١) بچوں کا تعلیمی نقصان نہ ہو۔


(٢) جتنے ایام کی رخصت ہو اس بچوں کی تعلیم کا مکمل انتظام ہو۔


(٣) منتظمین کی طرف سے اس کی رخصت منظور ہو تاکہ بعد میں پریشانیوں کا سامنا نہ کرنا پڑے۔


اگر اس طرح سے مکمل نظم کے ساتھ وہ نکلنا چاہے تو نکل سکتا ہے۔


اس سلسلہ میں دارالعلوم دیوبند کا ایک فتویٰ ملاحظہ فرمائیں۔

مدرسہ میں پڑھنے والوں کو اسی طرح پڑھانے والوں کو چاہئے کہ وہ تعطیل کلاں میں چلہ کے لیے جائیں، تعلیم کے زمانہ میں جانا درست نہیں، اس سے تقریباً ۲۵۰/ اسباق کا ناغہ ہوگا، جس کی تلافی ممکن نہیں۔ رئیس التبلیغ حضرت مولانا محمد یوسف صاحب طلبہ و اساتذہ کو دوران تعلیم جماعت میں جانے کو منع فرماتے تھے۔ اس لیے چھٹیوں میں جانا چاہئے اس سے اسباق کا نقصان نہ ہوگا، اور چلہ بھی پورا ہو جائے گا۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔ (دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند جواب نمبر: ١۵۵٧٣۵)


العارض مفتی آصف گودھروی

خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا

منگنی کے وقت دئے ہوئے سونے کا حکم سوال نمبر ٣٨٩

 سوال 

السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ

کیا فرماتے ہیں علمائے دین اور مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں

میرے بیٹے صفوان کی شادی 10/01/2021 کو ظہیرہ احمد مامجی کے ساتھ ہوئی ہے ابتدا میں دونوں کا گھر سنسار بہت اچھا رہا لیکن اب لڑکی تمام ترسہولیات کے باوجود لڑکے کے ساتھ رہنا نہیں چاہتی اس کا صرف ایک ہی جواب ہے کہ مجھے اس کے ساتھ نہیں رہنا ہے اب لین دین میں منگنی کے وقت جو ہمارا دیا ہوا سونا ہے اس کے واپسی کا مطالبہ ہے چونکہ ہمارے بیٹوں کو ہم نے پانچ پانچ تولہ سونا دینے کا وعدہ کیا تھا تو اس میں سے تین تولہ سونا منگنی کے وقت دیا تھا اور جو مابقیہ لین دین ہے وہ ہم معاف کررہے ہیں لیکن وہ لوگ اس کو واپس کرنے کے لئے تیار نہیں ہے اب سوال یہ ہے کہ اس طرح سے ہمارا ان سے سونا طلب کرنا شرعاً کیسا ہے؟ اور ان لوگوں کا واپس کرنے سے انکارکرنا شرعاً کیسا ہے؟ اس سلسلے میں شرعی نقطۂ نظر سے ہمارے لئے کیا حکم ہے رہنمائی فرمائیں۔

سائل حاجی صدیق مدارا


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی


زوجین میں نبھاؤ کی کوئی شکل نہ رہے اور شوہر طلاق نہیں دینا چاہتا لیکن عورت رہنا نہ چاہتی ہو

تو شوہر سے علاحدہ ہونے کی دوصورتیں ہے

ایک تو یہ کہ عورت  و مرد یا اس کا پریوار آپس میں ملکر بات چیت کرکے قبل النکاح یا بعد النکاح جو  لین دین ہوا تھا اس میں کچھ لے دے کر علاحدگی اختیار کرلیں جس کو صلح کی شکل سے تعبیر کیا جاسکتا ہے۔

دوسری صورت عورت مال دے کر اپنے نکاح کو ختم کروالیں جس کو شرع کی اصطلاح میں خلع کہتے ہیں یعنی میاں بیوی کی رضامندی سے کسی چیز کے عوض رشتہ نکاح کو ختم کردینا۔


سوال میں دریافت طلب جو مسئلہ ہے وہ پہلی قسم سے تعلق رکھتا ہے اب لڑکے والوں کا مطالبہ سونا وپس کرنے کا ہے لیکن لڑکی والے دینے سے انکارکرہے تو اس میں اصولی بات یہ ہے کہ ملکیت کس کی ہے وہ دیکھا جائے۔


البتہ عام طور پر  لڑکی کو  نکاح کے موقع پر مہر کے علاوہ جو  زیورات سسرال والوں کی طرف سے ملتے ہیں، ان میں یہ تفصیل ہے کہ اگر  زیورات دیتے وقت  سسرال والوں نے اس بات  کی صراحت کی تھی کہ یہ  بطورِ عاریت یعنی صرف  استعمال کرنے کے لیے ہیں  تو پھر یہ  زیورات لڑکے والوں کی ملکیت ہوں گے۔


اور اگرسسرال والوں نے ہبہ گفٹ اور  مالک بناکر دینے کی صراحت کردی تھی تو پھر ان زیورات  کی مالک لڑکی ہوگی۔


اور اگر  زیورات دیتے وقت کسی قسم کی صراحت نہیں  کی تھی تو پھر لڑکے کے خاندان کے عرف کا اعتبار ہوگا، اگر ان کا عرف و رواج بطورِ ملک دینے کا ہے  تو اس میں زیورات کی مالک لڑکی ہوگی، اور اگر  بطورِ عاریت دینے کا رواج ہے تو پھر سسرال والے ہی مالک ہوں گے۔


فتاوی دارالعلوم دیوبند میں اس مسئلہ کی وضاحت اس انداز سے کی ہے کہ: لڑکے کے باپ نے بہو کو جو زیور دیا تھا، اگر بہو کو اس زیور کا مالک بنادیا تھا تو وہ بہو کا ہے، اور اگر مالک نہیں بنایا تھا بلکہ عاریت کی صراحت کے ساتھ دیا تھا تو وہ عاریت ہوگا اور باپ کو دیا ہوا زیور بہو سے واپس لینے کا حق ہوگا ۔ اور اگر دیتے وقت کوئی صراحت نہیں کی گئی تھی توعلاقہ اور خاندان کے عرف کا اعتبار ہوگا۔ (مستفاد: دارالافتاء دارالعلوم دیوبند جواب نمبر: ١۵٧٣۵٩)


زیورات کی ملکیت کے بارے میں ایک اور سوال کے جواب میں تحریر فرماتے ہیں کہ: اس کا فیصلہ عرف و رواج پر ہے، اگر عرف یہ ہو کہ لڑکے والوں کی طرف سے لڑکی کو زیور صرف استعمال کے لیے بطور رعایت دیا جاتا ہو تو ملکیت لڑکے والے کی ہوگی، اور اگر مالک بناکر دینے کا رواج ہو تو ملکیت بیوی کی ہوگی۔ (مستفاد: دارالافتاء دارالعلوم دیوبند جواب نمبر: ١١١٨٢)


سوال کی نوعیت سے کہ جس میں یہ جملہ ہے (ہمارے بیٹوں کو ہم نے پانچ پانچ تولہ سونا دینے کا وعدہ کیا تھا تو اس میں سے تین تولہ سونا منگنی کے وقت دیا تھا) اس سے واضح ہوتاہے کہ ان کو سونا بطور عاریت کے دیا گیا تھا اصل ملکیت لڑکے کی ہے اور عاریت پر لی ہوئی چیز امانت ہوتی ہے، اور مالک کے مطالبہ پر امانت لوٹانا واجب ہے، اور مطالبہ کے باوجود مالک کو امانت واپس نہ کرنا، امانت میں خیانت ہے، جو کبیرہ گناہ ہے لہذا اس کو واپس کرنا ضروری ہوگا واپس نہ کرنے کی صورت میں وہ لوگ گنہگار ہوں گے۔


فتاوی شامی میں ہے 

سوى ما يكون على الزوجة ليلة الزفاف من الحلي والثياب، فإن الكثير منه أو الأكثر عارية، فلو ماتت ليلة الزفاف لم يكن للرجل أن يدعي أنه لها، بل القول فيه للأب أو الام أنه عارية أو مستعار لها كما يعلم من قول الشارح، كما لو كان أكثر مما يجهز به مثلها، وقد يقال، هذا ليس من الجهاز عرفا، وبقي لو جرى العرف في تمليك البعض وإعارة البعض فتاوی شامی ٤/٣٠٨)


فتاوی عالمگیری  میں ہے:

وإذا بعث الزوج إلى أهل زوجته أشياء عند زفافها، منها ديباج فلما زفت إليه أراد أن يسترد من المرأة الديباج ليس له ذلك إذا بعث إليها على جهة التمليك، كذا في الفصول العمادية إلی قولہ - وقال في الواقعات: إن کان العرف ظاہراً بمثلہ في الجہاز کما في دیارنا، فالقول قول الزوج، وإن کان مشترکا، فالقول قول الأب۔ (فتاوی عالمگیری ١/٣٢٧ الفصل السادس عشر فی جہاز البنت، ط: رشیدیہ)۔ واللہ اعلم بالصواب۔


العارض مفتی آصف گودھروی

خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا