سوال
السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ
حضرت یہ پوچھنا چاھتاھوں کہ غیر مسلموں کے تہواروں میں شرکت کا کیا حکم ھے کیا یہ شرک ھے قرآن و حدیث کی روشنی میں جواب مرحمت فرمائے
سائل محمد فیصل بھوپالی
الجواب وباللہ التوفیق
باسمہ سبحانہ وتعالی
طریقۂ اسلامی دنیا وآخرت میں بندے کی کامیابی کا ضامن ہے، اسی وجہ سے اسلام نے ان اسباب وذرائع کو اختیار کرنے کا حکم اور ترغیب دی ہے جس سے انسان کے دین و ایمان، جان ومال، اس کی عزت و آبرو اور سوچ وعقل محفوظ رہ سکے، اور اسی وجہ سے ہی اسلام نے ان تمام نقصان دہ امور سے منع فرمایا ہے جو اس کے دین و ایمان، جان و مال، اس کی عزت و آبرو اور سوچ و عقل کو نقصان دے،
اس کے بالمقابل کفار جو کہ اسلام اور اہل اسلام کے بد ترین دشمن ہیں، وہ دین اسلام اور مسلمانوں کو مٹانے کے لیے بھر پور جدوجہد اور کوشش کر رہے ہیں جس میں رفتہ رفتہ شدت آتی جارہی ہے، روز اول سے ہی مسلمانوں کو ان کے دین اسلام سے ہٹانے کے لیے مسلسل جدوجہد چلی آرہی ہے اور کفار کی جنگ کاایک اہم حصہ نظریاتی جنگ ہے جو وہ مسلمانوں سے مختلف محاذوں پرمختلف انداز سے لڑرہے ہیں، جس کے ذریعے وہ ہمارے افکار، عقائد، دینی وثقافتی اقدار کو ٹارگٹ کررہے ہیں، کفر کے نظریاتی ہتھیاروں میں سے ایک ہتھیار غیر اخلاقی تہوار ہیں جو اپنی تاثیر، فساد اور نقصانات و بگاڑ کے اعتبار سے مسلمانوں کو وہ نقصان دے رہے ہیں جو کہ شاید وہ عسکری جنگ کے ذریعے بھی نہ پہنچا سکے ہوں۔
اسی بنا پر علمائے کرام فرماتے ہیں کہ غیر قوموں کے اکثر تہوار ان کے مشرکانہ عقائد پر مبنی ہوتے ہیں، اور مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہمارے لئے شرک سے بیزاری اور بے تعلقی کا اظہار ضروری ہے چنانچہ ان کے تہوار میں کسی بھی قسم کی شرکت سے انکے عقائد اور نظریات کی تائید و حمایت اور تقویت پائی جاتی ہے لہذا اس سے اجتناب ضروری ہے۔
نیز غیر مسلموں کے تہوار کی دوصورتیں ہے ایک وہ تہوار جن کا تعلق خالص مذہب سے ہے یعنی وہ ان کے شعائر میں سے ہو اور ان کے مذہب کی علامات میں سے ہو جیسے گنپتی وسرجن وغیرہ ایسے تہواروں میں شرکت سے ان کے دین کی تعظیم ہوتی ہے جس میں کفر کا قوی اندیشہ ہے لہذا مسلمانوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ غیر مسلموں کے ساتھ یکجہتی یا محبت کی غرض سے ان کے ایسے تہواروں میں شرکت سے مکمل اجتناب کریں۔
دوسرے نمبر پر وہ تہوار جس کا تعلق جہالت پرمبنی خوشی سے ہے اس قسم کے تہواروں میں اگرچہ کفر تو نہیں ہے لیکن اس فعل قبیح میں ان کی تعداد کے اضافے کا سبب ہے اور حدیث (من كثر سواد قوم فہو منہم کنزالعمال ۲۲٫۹) کے مصداق ہوکر گناہ گار ہوں گے، لہذا اس فعل سے بچنا ضروری ہے
اس طرح کے ایک سوال کے جواب میں فتاوی دارالعلوم دیوبند میں اس طرح سے وضاحت فرمائی ہے کہ: ہندؤوں کے یہاں چوں کہ وحدت ادیان کا نظریہ پایا جاتا ہے؛ اس لیے وہ لوگ اسلامی تہواروں کے موقع پر مسلمانوں کو خوب دل کھول کر مبارک بادی دیتے ہیں، لیکن مذہب اسلام میں صرف اسلام ہی حق اور صحیح مذہب ہے، باقی سب مذاہب باطل ہیں؛ اس لیے مسلمان کے لیے کوئی ایسا کام جائز نہیں، جس سے غیروں کی کسی مذہبی چیز کی تعظیم وتکریم یا اس کی تعریف وغیرہ لازم آتی ہو؛ بلکہ اس طرح کی چیزوں میں کفر کا اندیشہ ہوتا ہے؛ اس لیے مسلمانوں کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ ہولی یا دیوالی کے موقع پر غیر مسلموں کو مبارک بادی دیں، اس میں بہت زیادہ احتیاط کی ضرورت ہے؛ البتہ اگر سخت مجبوری کی صورت ہو مثلاً کوئی ایسا کاروباری ساتھی یا ما تحت ملازم یا کمپنی کا مالک ہے کہ اگر اس موقعہ پر اس سے مسرت کا اظہار نہ کیا جائے تو اس کی جانب سے ضرر کا اندیشہ ہے یا ملک میں مذہب کی بنیاد پر منافرت پھیلانے والوں کو مزید منافرت پھیلانے کا موقع ملے گا تو ایسی مجبوری میں مجمل الفاظ کہنے کی گنجائش ہوگی، مثلاً یوں کہہ دے کہ میری نیک تمنائیں تمھارے ساتھ ہیں اور نیت یہ ہو کہ اللہ تعالی تم کو ایمان نصیب فرمائیں تہوار وغیرہ کی تعظیم یا تعریف وغیرہ ہرگز مقصود نہ ہو توشرعاً ان شاء اللہ اس کی گنجائش ہوگی۔
اجتمع المجوس یوم النیروز فقال مسلم: خوب سیرت نہاوند یکفر(الفتاوی البزازیة علی ھامش الھندیة، ۶: ۳۳۳، ط: مکتبة زکریا دیوبند)
وما یھدی المجوس یوم النیروز من أطعمتھم إلی الأشراف ومن کان لھم معرفة لا یحل أخذ ذلک علی وجہ الموافقة معھم وإن أخذہ لا علی ذلک الوجہ لا بأس بہ والاحتراز عنہ أسلم (المصدر السابق)۔ (دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند جواب نمبر: ١٤٦٢١٨)
فتاوی تاتارخانیہ میں ہے
اجتمع المجوس یوم النیروز فقال مسلم: خوب رسمے نہادہ اند أو قال: نیک آئیں نہادہ اند یخاف علیه الکفر۔ (الفتاوی التاتارخانیة، ۷/۳٤۸،مکتبہ زکریا دیوبند)
البحر الرائق میں ہے
(والإعطاء باسم النيروز والمهرجان لايجوز) أي الهدايا باسم هذين اليومين حرام، بل كفر، وقال أبو حفص الكبير - رحمه الله -: لو أن رجلًا عبد الله تعالى خمسين سنةً، ثم جاء يوم النيروز وأهدى إلى بعض المشركين بيضةً يريد تعظيم ذلك اليوم فقد كفر وحبط عمله، وقال صاحب الجامع الأصغر: إذا أهدى يوم النيروز إلى مسلم آخر ولم يرد به تعظيم اليوم ولكن على ما اعتاده بعض الناس لايكفر ولكن ينبغي له أن لايفعل ذلك في ذلك اليوم خاصةً ويفعله قبله أو بعده لكي لايكون تشبيهاً بأولئك القوم، وقد قال صلى الله عليه وسلم: «من تشبه بقوم فهو منهم». وقال في الجامع الأصغر: رجل اشترى يوم النيروز شيئًا يشتريه الكفرة منه وهو لم يكن يشتريه قبل ذلك إن أراد به تعظيم ذلك اليوم كما تعظمه المشركون كفر، وإن أراد الأكل والشرب والتنعم لايكفر (البحر الرائق ٨/۵۵۵ مسائل متفرقہ فی الاکراہ ط دار الکتاب الاسلامی)
سنن ابی داؤد میں ہے
عـن ابـن عـمـر، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم من تشبه بقوم فهو منهم. (سنن أبي داؤد، كتاب اللباس ، باب في لبس الشهرة ٢/۵۵٩ ، دار السلام)
شرح فقه اكبر میں ہے
ولو شبـه نـفـسـه بـاليهود، أوالنصارى: أي صورة أوسيرة على طريق المزاح، والهزل، ولو على هذا المنوال كفر الخ. (شرح فقه اكبر ، جديد اشرفي دیوبند ۲۲۸ ، قديم ٢٢٦)۔
فقط والسلام واللہ اعلم بالصواب
العارض مفتی آصف گودھروی