پیر، 10 اکتوبر، 2022

مسافت سفر کی ابتدا کہاں سے ہوگی گھر سے یا محلے کو تجاوز کرکے یا شہر کی حدود پار کرنے کے بعد سوال نمبر ٣٩٢

 سوال 

کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ: ایک شھر اسی کلو میٹر کے احاطے میں ہے کوئی شخص اسکے کنارے میں رہتا ہے اب وہ سفر کرے تو قصر کا حکم کب سے ہوگا اسی کلو میٹر کو پورہ کرنے کے بعد یا اپنی جگہ سے؟

مولانا بلال صاحب نولپوری


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی


علماء کرام کا اس بات پر اتفاق ہے کہ آدمی پر مسافر ہونے کا حکم اس وقت لگتا ہے جب کہ اپنے مقام سے اڑتالیس میل (٧٧.٢٥ کلو میٹر) بنیت سفر باہر نکل جائے، اب مسافتِ شرعی کا اعتبارکہاں سے شروع ہوگا آیا گھر یا محلے سے نکلنے کے بعد سے یاشہر کی حدود سے نکلنے کے بعد سے۔

اس سلسلہ میں عبارات فقہاء سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ قصر و اتمام کا حکم جس شہر میں وہ قیام پذیر ہے اس کے حدود سے نکلنے کے بعد ہوگا چاہے اس کی آبادی کا رقبہ سفر شرعی کی حدود سے بھی تجاوز کرجائے اور اصول و جزئیات سے بھی یہی بات معلوم ہوتی ہے کہ مسافر پر سفر کے احکام اس وقت لگتے ہیں جب وہ شہر یا گاؤں کی حدود سے باہر نکل جائے جب تک وہ ان کے حدود میں رہے گا اس وقت تک اس کے لیے قصر کرنا جائز نہیں۔


اس سلسلے میں عالم اسلامی کی معروف و مشہور شخصیت حضرت مفتی تقی عثمانی صاحب نے بھی فتاوی عثمانی میں اسی طرف رجحان کو ظاہر کیا ہے مع سوال و جواب کے ملاحظہ فرمائیں۔

سوال: (١) زید کراچی سے حیدرآباد ، سکھر جانے کے لئے سفر کو نکلتا ہے ، زید اپنے محلے اور بلاک کی حدود سے نکل کر قصر کرے یا کراچی شہر کی ساری حدود سے نکل کر قصر کرے؟ 

(٢) زید کسی ایسے شہر میں رہتا ہے جس شہر کی لمبائی تقریبا ۵۰ پچاس ، ۵۵ پچپن میل ہے ، زید اس شہر کے کونے میں رہتاہے زید کو اس شہر کے دوسرے کونے میں جانا ہے جو کہ تین دن کی مسافت پر ہے پیدل جانے کی صورت میں، لہذا ز ید قصر کرے یا پوری چار رکعت پڑھے ؟

جواب: (١) کراچی شہر کی حدود سے نکل کر قصر کرے۔ (٢) صورت مسئولہ میں قصر جائز نہیں اپنا شہر خواہ کتنا ہی طویل وعریض ہواس میں قصر جائز نہیں ہے۔ (فتاوی عثمانی ١/٤٩٨)


اسی طرح حضرت مفتی سلمان صاحب منصورپوری نے بھی کتاب النوازل میں اسی رجحان کی صراحت فرمائی ہے اس سلسلہ میں ان کے دوفتاوی پیش خدمت ہے ملاحظہ فرمائیں۔

الجواب وبالله التوفيق : آج کل جس طرح شہروں کی آبادیاں وسیع تر رقبہ تک پھیلتی جاری ہیں ان کا تصور فقہاء متقدمین کے زمانہ میں نہ تھا ، اس لئے فقہاء کے کلام میں اس کے متعلق صریح جزئیہ ملنا دشوار ہے ، اس بنا پر یہ مسئلہ مفتیان کرام کے لئے موضوع بحث بنا ہواہے تاہم اصول اور فقہی جزئیات سے اتنی بات معلوم ہوتی ہے کہ عرف میں جہاں تک کی آبادی پر ایک شہر کا اطلاق ہوتا ہے خواہ وہ آبادی کتنی ہی دور تک پھیل گئی ہو وہ سب ایک ہی شہر شمار ہوگا اور اس کی الگ الگ کالونیاں اس کے محلے شمار ہونگے اور جس جگہ کی آبادی کو عرف میں مذکورہ شہر سے الگ سمجھا جاتاہو تو اسے الگ آبادی کے حکم میں رکھا جائے گا اگر چہ آبادی بظاہر متصل ہو مثلا دہلی اور صاحب آباد یا دہلی اور گوڑگاواں دونوں عرفی اور سرکاری اعتبار سے الگ الگ آبادیاں شمار ہوتی ہیں ، جبکہ پورا دہلی آبادی کے اعتبار سے ایک شمار کیا جاتاہے اب دلی میں مقیم شخص پر سفر کا حکم اس وقت سے لگے گا جبکہ وہ شہر دہلی کی آبادی سے باہر نکل جائے ، مثلا یوپی کی طرف سفر کرنے والا صاحب آباد یا نوئیڈا یا غازی آباد آجاۓ اور ہریانہ کی طرف جانے والا گوڑگاؤں یافرید آباد میں داخل ہوجائے۔ (مستفاد: فتاوی رحیمیہ ٣٦٣/٦ احسن الفتاوی ۷۳/٤)

مستفاد: عـن ابـن عمر رضي الله عنه أنه كان يقصر الصلاة حين يخرج مـن يـوت الـمـديـنـة ويصر إذا رجع حتى يدخل بيوتها (مصنف عبد الرزاق باب المسافر متى يقصر إذا خرج مسافرا ٥٣٠/٢ رقم : ٤٣٢٣)

مـن خرج من عمارة مـوضـع إقـامتـه ( درمختار ) وأشار إلى أنه يشترط مـفـارقـة مـاكـان من توابع موضع الإقامة كربض المصر وهو ماحول المدينة من بيوت ومـسـاكـن فـإنـه فـي حـكـم الـمـصـر وكذا القرى المتصلة بالربض في الصحيح ، بخلاف البساتين ولو متصلة بالبناء ؛ لأنها ليست من البلدة . ( درمختار مع الشامي ٩٩/٢ ٥ زكريا )۔ (کتاب النوازل ۵/٣٩٧)


الـجـواب وبالله التوفيق : شہر میں رہتے ہوۓ آدمی مسافر نہیں ہوتا بلکہ شہر کی آبادی سے نکلنے کے بعد مسافر ہوتا ہے خواہ کتناہی بڑا شہر ہو لہذا مسئولہ صورت میں یہ شخص مسافر نہیں ہوگا بلکہ مقیم ہی رہےگا اور اس پر اتمام لازم ہوگا ( فتاوی محمودیہ جدید ٢٤٤/۷ )

والأصـل فـي ذلك ما روي عن علي رضي الله عنه أنه خرج من البصرة يريد السفر فجاء في وقت العصر فأتمها ، ثم نظر إلى خص أمامه فقال أما لو كنا جاوزنا هذا الخص لقصرنا . ( أخـرجـه عبد الرزاق في مصنفه ٥٢٩/٢ رقم ٤٣١٩، المحيط البرهاني ٣٨٧/٢ إدارة القرآن كراتشي )

والثالث الخروج من عمران المصر فلايصير مسافراً بمجرد النية مالم يخـرج مـن عـمـران الـمـصـر ؛ لأن النية إنما تعتبر إذا كانت مقارنة للفعل ؛ لأن مـجـرد الـعـزم عـفـو ، وفعل السفر لا يتحقق إلا بعد الخروج من المصر ، فما لم يخرج لايتحقق قران النية بالفعل ، فلا يصير مسافراً . ( بدائع الصنائع ١ / ٢٦٤ زكريا )

قـال مـحـمد رحمه الله تعالى : يقصر حين يخرج من مصره ، ويخلف دور المصر . ( الفتاوئ الهندية ١٣٩/١ )۔ (کتاب النوازل ١/٤٠١)


اسی طرح حضرت مفتی محمود صاحب گنگوہی نے فتاوی محمودیہ میں اسی کی صراحت فرمائی ہے ملاحظہ فرمائیں۔

سوال[۳۵۷۲]: ایک شہر یا قصبہ سے دوسرے شہر یا قصبہ کا فاصلہ قصر ہونے کے لئے کس طرح جوڑا جاۓ گا ؟ ایک صورت تو یہ ہے کہ جس محلہ سے چلے اس سے دوسرے شہر کے جس محلہ تک جانا ہو وہاں تک کا فاصلہ، اور دوسرا طریقہ یہ ہے کہ اپنے وطن کی آخری سرحد پہو نچنے والے مقام کی شروع کی سرحد ۔ چونکہ دونوں طریقوں میں فاصلہ کا تفاوت میلوں کا ہوگا مثلا : خط مستقیم کا فاصلہ الف ، ب۴۳/ میل ہے اور ج ، ۵۰/میل ہے اورالف اس ۵۵/میل ہے ،تو ج سے چلنے والا دس تک جانا چاہتا ہے ، اب مسافر ہوا یا نہیں؟

الجواب حامدا ومصليا

وطن کے آخری مکان سے سفر کی مسافت شروع ہوگی اور جس بستی میں جانا ہے اس کی ابتدائی سرحد تک مجموعی مسافت کو دیکھا جاۓ گا ، پس صورت مسئولہ میں مسافت سفر ۴۳/ میل ہوگی اور قصر کا حکم نہیں ہوگا۔ (فتاوی محمودیہ ٧/٤٧٦)


فتاوی شامی میں ہے

من خرج من عمارة موضع إقامتہ من جانب خروجہ …… قاصدا …… مسیرة ثلاثة أیام ولیالیھا ……صلی الفرض الرباعي رکعتین …حتی یدخل موضع مقامہ الخ ( الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الصلاة، باب صلاة المسافر، ٢/ ۵٩٩ ٦٠٤ ط مکتبة زکریا دیوبند)


کبیری میں ہے

من فارق بیوت موضع ہو فیہ من مصرأو قریة ناویا الذہاب إلی موضع بینہ وبین ذلک الموضع المسافة المذکورة صارمسافرا، فلایصیرمسافرا قبل أن یفارق عمران ما خرج منہ من الجانب الذی خرج منہ . (کبیری ۵٣٦ ط: اشرفی)


بدائع الصنائع میں ہے

وفعل السفر لا يتحقق إلا بعد الخروج من المصر فمالم یخرج لا یتحقق قران النیۃ بالفعل فلا یصیر مسافرا۔ (بدائع الصنائع ١٩٤)۔


الفقه الإسلامي وأدلته میں ہے

فقال الحنفية: أن يجاوز بيوت البلد التي يقيم فيها من الجهة التي خرج منها، وإن لم يجاوزها من جانب آخر وأن يجاوز كل البيوت، ولو كانت متفرقة متى كان أصلها من البلد، وأن يجاوز ماحول البلد من مساكن .... أن يقصد من ابتداء السفر موضعا معينا، ويعزم أن يقطع مسافة القصر من غير تردد. (الفقه الإسلامي وأدلته. ۱۳۵۰/۲ ۱۳۵۳ کتاب الصلوة، المبحث الثالث صلاة السفر، رشيديہ) 


العارض مفتی آصف گودھروی

کوئی تبصرے نہیں: