ہفتہ، 15 اکتوبر، 2022

نماز میں سلام پھیرنے کا طریقہ سوال نمبر ٣٩۵

 سوال 

السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ

(١) جی مجھے یہ معلوم کرنا ہے کہ امام صاحب جب السلام علیکم ورحمتہ اللّٰہ کے ذریعے نماز سے باہر ہوتے ہیں تو بعض امام سلام کو تھوڑا سا کھینچ دیتے ہیں جسکی وجہ سے بہت سے مقتدیوں کا سلام امام صاحب کے سلام سے پہلے ہی مکمل ہوجاتا ہے کیا ایسا کرنے سے نماز میں کوئی خرابی تو نہیں آئیگی؟

(٢) یہ بھی بتائیں کہ امام صاحب کو سلام مختصر کرنا چاہئے یا تھورا بہت کھینچنا چاہئے؟

(٣) اور سلام گردن گھمانے کے بعد شروع کرنا چاہئے یا جیسے ہی گردن گھمانا شروع کریں تب ہی سلام شروع کردیں آپ سے بہت ہی ادب واحترام کے ساتھ درخواست ہے کہ وضاحت کے ساتھ جواب دیکر شکریہ کا موقع عنایت فرمائیں؟

سائل محمد رضوان جمالپوری


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی


(١) کسی مقتدی نے بغیر کسی عذر کے امام سے پہلے سلام پھیر دیا اس کے بعد امام نے سلام پھیرا  تو مقتدی کی نماز تو ہوگئی لیکن مکروہِ تحریمی ہے، تاہم نماز کا اعادہ واجب نہیں ہے لہذا جو شخص امام کے لفظ السلام کہنے سے پہلے اپنا لفظ السلام مکمل کرلے تو اگر اس نے سہواً یا کسی عذر کی بنا پر ایسا کیا ہے تب تو اس کی نماز بلا کراہت ادا ہوگئی اگر بلاعذر ایسا کیاہے تو متابعت امام (جو کہ واجب ہے) کے ترک کی وجہ سے اس کی نماز کراہت کے ساتھ ادا ہوگی البتہ اولی اور بہتر یہ ہے کہ امام کے سلام پھیرنے کے ساتھ ساتھ مقتدی بھی سلام پھیریں۔ اگر ساتھ ساتھ نہیں پھیر سکا کچھ بعد میں پھیرا تو اس کی بھی گنجائش ہے


(٢) سلام پھیر نے میں درمیانی طریقہ اختیار کرنا چاہئے نہ خوب کھینچ کر سلام پھیرنا ہے کہ مقتدی کا سلام امام کے سلام سے پہلے ہوجائے اور نہ بلکل جلدی جلدی سلام پھیرنا ہے۔


اس سلسلے حضرت مفتی شبیر صاحب مرادآبادی ایک استفتاء کے جواب میں تحریر فرماتے ہیں کہ: نماز کے اختتام پر سلام پھیرتے ہوۓ مدکر نے اور نہ کرنے میں درمیانی راہ اختیار کر نی چاہئے ، مد بہت زیادہ لمبانہ ہو اوراتنا مختصر بھی نہ ہو کہ پتہ ہی نہ چلے اور حضرت عبداللہ بن المبارک نے "حـذف السلام سنة“ کی تشریح کرتے ہوۓ یہی فرمایا ہے کہ سلام میں زیادہ لمبامد نہ کیا جاۓ ،ہاں البتہ فقہاء نے سیکھا ہے کہ پہلے سلام کے مقابلہ میں دوسرے سلام کوذ رامختصر اور معمولی پست کیا جاۓ ، ایسا بھی نہیں کہ پہلا سلام بہت زور سے اور دوسر اسلام بہت معمولی ہو صرف ۱۹-۲۰ کا فرق ہواورفقہاء کی عبارت سے یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ دونوں سلام میں بہت زیادہ کھینچنا نہیں چاہئے ؛ بلکہ مد میں اعتدال اختیار کرنا چاہئے ۔(مستفاد: احسن الفتاوی، زکر یا ۳۱۲/۳)

عـن أبـي هـريرة - رضي الله عنه- قال: حذف السلام سنة، قال علي بـن حـجـر، وقال ابن المبارك: يعني أن لا تمده مدا، قال أبو عيسى : هذا حديث حسن صحيح، وهو الذي يستحبه أهل العلم. (ترمذي شريف، الصلاة، باب ماجاء أن حذف السلام سنة، النسخة الهندية ١/٦٦ دارالسلام، رقم: ۲۹۷) (فتاوی قاسمیہ ۵/٧٦٩)


(٣) نماز میں دونوں جانب سلام پھیرنے کا مسنون طریقہ یہ ہے کہ سلام کا آغاز اس وقت کیا جائے جب چہرہ قبلہ کی طرف ہو یعنی قبلہ رُخ رہتے ہوئے سلام شروع کیا جائے اور اختتام چہرہ دائیں جانب یا بائیں جانب پھیر کر کیا جائے یعنی لفظ علیکم اس وقت ادا کیا جائے جب دائیں طرف رخ ہوجائے یہی صورت دوسرے سلام میں اختیار کی جائے گی۔


فتاوی شامی میں ہے

(قولہ لوأتمہ إلخ) أی لوأتم المؤتم التشہد ، بأن أسرع فیہ وفرغ منہ قبل إتمام إمامہ فأتی بما یخرجہ من الصلاة کسلام أوکلام أو قیام جاز: أی صحت صلاتہ لحصولہ بعد تمام الأرکان لأن الإمام وإن لم یکن أتم التشہد ؛ لکنہ قعد قدرہ لأن المفروض من القعدة قدر أسرع ما یکون من قرائة التشہد وقد حصل ، وإنما کرہ للمؤتم ذلک لترکہ متابعة الإمام بلا عذر ، فلو بہ کخوف حدث أو خروج وقت جمعة أو مرور مار بین یدیہ فلا کراہة کما سیأتی قبیل باب الاستخلاف .[الدر المختار وحاشیة ابن عابدین ٢/٢٤٠)


الفقہ الإسلامي وأدلتہ میں ہے 

فیشیر عند النطق بالتسلیمۃ للقبلۃ ویختمہا بالتیامن عند النطق بالکاف والمیم من ’’علیکم‘‘ حتی یری من خلفہ صفحۃ وجہہ۔ (الفقہ الإسلامي وأدلتہ : ١/۵۷۸)۔ واللہ اعلم بالصواب۔


العارض مفتی آصف گودھروی 

کوئی تبصرے نہیں: