سوال
السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ
جناب مفتی صاحب ایک عورت ہے جس کی طلاق ہوگئی ہے عورت ٦ مہینے سے اپنے ماں باپ کے گھر تھی اور آج اسکی طلاق ہوئی تو کیا وہ عددت گزار سکتی ہے یا نہیں اور اس مرد نے زبان سے طلاق نہیں بولا صرف پیپر پر ساین کیا تو طلاق ہوگئی یا نہیں اور وہ عورت دوسرے مرد سے نکاح کرنا چاہتے ہیں تو عدت کے بغیر نکاح کرسکتی ہے یا نہیں اور نہیں کرسکتے تو وہ عورت جس مرد سے نکاح کرنا چاہتے ہیں اس کے ساتھ رہ سکتی ہیں یا نہیں؟
سائل عبداللطیف مہوا
الجواب وباللہ التوفیق
باسمہ سبحانہ وتعالی
عدت کا وقت طلاق دینے کے فوراً بعد شروع ہوتاہے لہذا جب طلاق واقع ہوجائے اس کے فورًا بعد سے ہی عدت شمار کرنا ہے طلاق کے بعد جب تک عدت نہ گذرجائے اس وقت تک اس عورت کا نکاح کسی اور سے کرنا جائز نہیں خواہ طلاق دینے سے پہلے شوہر اور بیوی میں طویل عرصے سے ملاقات کی نوبت نہ آئی ہو، عدت میں کیا گیا نکاح شرعاً باطل ہوتا ہے اگر اس عورت کا نکاح کرنا ہو تو عدت کے بعد کیا جائے اسی طرح قبل النکاح کسی اجنبی مرد کے ساتھ رہنا درست نہیں ہے چاہی اس سے بعد میں نکاح کا ارادہ ہو یا نہ ہو۔
طلاق دوطرح سے دی جاتی ہیں ایک زبانی طلاق یعنی اس کو اپنی زبان سے الفاظ طلاق سے اپنے نکاح سے علاحدہ کرنا چاہے وہ صریح الفاظ سے طلاق دے یا کنائی الفاظ سے۔
دوسرے نمبر پر تحریری طلاق یعنی طلاق نامہ یا اسٹیمپ پیپر پر دستخط کرنا البتہ اس میں یہ معلوم ہونا ضروری ہے کہ اس طلاق نامہ یا اسٹیمپ پیپر پر جس پر دستخط کرنا ہے وہ طلاق کے لئے ہے اور پھر اس پر دستخط کردے تو دستخط کرنے والے کی بیوی پر طلاق واقع ہوجائے گی اس لئے کہ جس طرح طلاق کا لفظ بولنے سے طلاق واقع ہوجاتی ہے اسی طرح لکھنے سے یا لکھے ہوئے پر دستخط کرنے سے بھی واقع ہوجاتی ہے، بشرطیکہ کہ اس کو علم ہو کہ یہ طلاق نامہ ہے یا اس سے زبردستی طلاق نامہ پر دستخط نہ لی ہو اگر زبردستی طلاق نامہ پر دستخط کروائے تو بھی طلاق واقع نہیں ہوگی۔
مسؤلہ صورت میں عورت کے عدت طلاق کے بعد سے شروع ہوگی اور اس کے لئے عدت ختم ہونے سے پہلے کسی اور سے نہ نکاح کرنا جائز ہے اور نہ کسی اجنبی مرد کے ساتھ رہنا جائزہے اور مرد کو معلوم ہوتے ہوئے کہ اس اسٹیمپ پیپر پر طلاق لکھی ہوئی ہیں اور اس پر دستخط کردیا تو اس سے عورت پر طلاق واقع جائے گی
بدائع الصنائع میں ہے
وأما أحكام العدة :فمنها أنه لا يجوز للأجنبي نكاح المعتدة۔۔۔ وأما المطلقة ثلاثا أو بائنا والمتوفى عنها زوجها فلأن النكاح حال قيام العدة قائم من كل وجه لقيام بعض آثاره۔(بدائع الصنائع،کتاب الطّلاق،فصل فی أحکامِ العدّۃ ٤/٤٤٥)
الموسوعة الفقهية میں ہے
ذهب الحنفية إلى أن العدة تبدأ في الطلاق عقيب الطلاق، وفي الوفاة عقيب الوفاة، لأن سبب وجوب العدة الطلاق أو الوفاة، فيعتبر ابتداؤها من وقت وجود السبب، فإن لم تعلم بالطلاق أو الوفاة حتى مضت مدة العدة فقد انقضت مدته۔ (الموسوعة الفقهية الكويتية ٢٩/٣٢٦)
فتاوی عالمگیری میں ہے
وإن كانت مرسومة يقع الطلاق نوى أو لم ينو ثم المرسومة لا تخلوأما إن أرسل الطلاق بأن كتب أما بعد فأنت طالق فكلما كتب هذا يقع الطلاق وتلزمها العدة من وقت الكتابة وإن علق طلاقها بمجيء الكتاب بأن كتب إذا جاءك كتابي هذا فأنت طالق فما لم يجئ إليها الكتاب لا يقع كذا في فتاوى قاضي خان۔ (الهندية: الفصل السادس ١/٣٧٨)
فتاوی شامی میں ہے
وفي البحر أن المراد الإكراه على التلفظ بالطلاق، فلو أكره على أن يكتب طلاق امرأته فكتب لا تطلق لأن الكتابة أقيمت مقام العبارة باعتبار الحاجة ولا حاجة هنا.(ردالمحتار على الدرالمختار، كتاب الطلاق، مطلب: فى الإكراه على التوكيل بالطلاق والنكاح والعتاق ٤/٤٤٠ دارالكتب العلمية)
ایضاً
وکذا کل کتاب لم یکتبہ بخطہ ولم یملہ بنفسہ لا یقع الطلاق مالم یقرأنہ کتابہ الخ۔ (شامي کتاب الطلاق مطلب في الطلاق بالکتابۃ ٤/٤۵٦)۔ واللہ اعلم بالصواب۔
العارض مفتی آصف گودھروی
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں