سوال
السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین اور مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں
میرے بیٹے صفوان کی شادی 10/01/2021 کو ظہیرہ احمد مامجی کے ساتھ ہوئی ہے ابتدا میں دونوں کا گھر سنسار بہت اچھا رہا لیکن اب لڑکی تمام ترسہولیات کے باوجود لڑکے کے ساتھ رہنا نہیں چاہتی اس کا صرف ایک ہی جواب ہے کہ مجھے اس کے ساتھ نہیں رہنا ہے اب لین دین میں منگنی کے وقت جو ہمارا دیا ہوا سونا ہے اس کے واپسی کا مطالبہ ہے چونکہ ہمارے بیٹوں کو ہم نے پانچ پانچ تولہ سونا دینے کا وعدہ کیا تھا تو اس میں سے تین تولہ سونا منگنی کے وقت دیا تھا اور جو مابقیہ لین دین ہے وہ ہم معاف کررہے ہیں لیکن وہ لوگ اس کو واپس کرنے کے لئے تیار نہیں ہے اب سوال یہ ہے کہ اس طرح سے ہمارا ان سے سونا طلب کرنا شرعاً کیسا ہے؟ اور ان لوگوں کا واپس کرنے سے انکارکرنا شرعاً کیسا ہے؟ اس سلسلے میں شرعی نقطۂ نظر سے ہمارے لئے کیا حکم ہے رہنمائی فرمائیں۔
سائل حاجی صدیق مدارا
الجواب وباللہ التوفیق
باسمہ سبحانہ وتعالی
زوجین میں نبھاؤ کی کوئی شکل نہ رہے اور شوہر طلاق نہیں دینا چاہتا لیکن عورت رہنا نہ چاہتی ہو
تو شوہر سے علاحدہ ہونے کی دوصورتیں ہے
ایک تو یہ کہ عورت و مرد یا اس کا پریوار آپس میں ملکر بات چیت کرکے قبل النکاح یا بعد النکاح جو لین دین ہوا تھا اس میں کچھ لے دے کر علاحدگی اختیار کرلیں جس کو صلح کی شکل سے تعبیر کیا جاسکتا ہے۔
دوسری صورت عورت مال دے کر اپنے نکاح کو ختم کروالیں جس کو شرع کی اصطلاح میں خلع کہتے ہیں یعنی میاں بیوی کی رضامندی سے کسی چیز کے عوض رشتہ نکاح کو ختم کردینا۔
سوال میں دریافت طلب جو مسئلہ ہے وہ پہلی قسم سے تعلق رکھتا ہے اب لڑکے والوں کا مطالبہ سونا وپس کرنے کا ہے لیکن لڑکی والے دینے سے انکارکرہے تو اس میں اصولی بات یہ ہے کہ ملکیت کس کی ہے وہ دیکھا جائے۔
البتہ عام طور پر لڑکی کو نکاح کے موقع پر مہر کے علاوہ جو زیورات سسرال والوں کی طرف سے ملتے ہیں، ان میں یہ تفصیل ہے کہ اگر زیورات دیتے وقت سسرال والوں نے اس بات کی صراحت کی تھی کہ یہ بطورِ عاریت یعنی صرف استعمال کرنے کے لیے ہیں تو پھر یہ زیورات لڑکے والوں کی ملکیت ہوں گے۔
اور اگرسسرال والوں نے ہبہ گفٹ اور مالک بناکر دینے کی صراحت کردی تھی تو پھر ان زیورات کی مالک لڑکی ہوگی۔
اور اگر زیورات دیتے وقت کسی قسم کی صراحت نہیں کی تھی تو پھر لڑکے کے خاندان کے عرف کا اعتبار ہوگا، اگر ان کا عرف و رواج بطورِ ملک دینے کا ہے تو اس میں زیورات کی مالک لڑکی ہوگی، اور اگر بطورِ عاریت دینے کا رواج ہے تو پھر سسرال والے ہی مالک ہوں گے۔
فتاوی دارالعلوم دیوبند میں اس مسئلہ کی وضاحت اس انداز سے کی ہے کہ: لڑکے کے باپ نے بہو کو جو زیور دیا تھا، اگر بہو کو اس زیور کا مالک بنادیا تھا تو وہ بہو کا ہے، اور اگر مالک نہیں بنایا تھا بلکہ عاریت کی صراحت کے ساتھ دیا تھا تو وہ عاریت ہوگا اور باپ کو دیا ہوا زیور بہو سے واپس لینے کا حق ہوگا ۔ اور اگر دیتے وقت کوئی صراحت نہیں کی گئی تھی توعلاقہ اور خاندان کے عرف کا اعتبار ہوگا۔ (مستفاد: دارالافتاء دارالعلوم دیوبند جواب نمبر: ١۵٧٣۵٩)
زیورات کی ملکیت کے بارے میں ایک اور سوال کے جواب میں تحریر فرماتے ہیں کہ: اس کا فیصلہ عرف و رواج پر ہے، اگر عرف یہ ہو کہ لڑکے والوں کی طرف سے لڑکی کو زیور صرف استعمال کے لیے بطور رعایت دیا جاتا ہو تو ملکیت لڑکے والے کی ہوگی، اور اگر مالک بناکر دینے کا رواج ہو تو ملکیت بیوی کی ہوگی۔ (مستفاد: دارالافتاء دارالعلوم دیوبند جواب نمبر: ١١١٨٢)
سوال کی نوعیت سے کہ جس میں یہ جملہ ہے (ہمارے بیٹوں کو ہم نے پانچ پانچ تولہ سونا دینے کا وعدہ کیا تھا تو اس میں سے تین تولہ سونا منگنی کے وقت دیا تھا) اس سے واضح ہوتاہے کہ ان کو سونا بطور عاریت کے دیا گیا تھا اصل ملکیت لڑکے کی ہے اور عاریت پر لی ہوئی چیز امانت ہوتی ہے، اور مالک کے مطالبہ پر امانت لوٹانا واجب ہے، اور مطالبہ کے باوجود مالک کو امانت واپس نہ کرنا، امانت میں خیانت ہے، جو کبیرہ گناہ ہے لہذا اس کو واپس کرنا ضروری ہوگا واپس نہ کرنے کی صورت میں وہ لوگ گنہگار ہوں گے۔
فتاوی شامی میں ہے
سوى ما يكون على الزوجة ليلة الزفاف من الحلي والثياب، فإن الكثير منه أو الأكثر عارية، فلو ماتت ليلة الزفاف لم يكن للرجل أن يدعي أنه لها، بل القول فيه للأب أو الام أنه عارية أو مستعار لها كما يعلم من قول الشارح، كما لو كان أكثر مما يجهز به مثلها، وقد يقال، هذا ليس من الجهاز عرفا، وبقي لو جرى العرف في تمليك البعض وإعارة البعض فتاوی شامی ٤/٣٠٨)
فتاوی عالمگیری میں ہے:
وإذا بعث الزوج إلى أهل زوجته أشياء عند زفافها، منها ديباج فلما زفت إليه أراد أن يسترد من المرأة الديباج ليس له ذلك إذا بعث إليها على جهة التمليك، كذا في الفصول العمادية إلی قولہ - وقال في الواقعات: إن کان العرف ظاہراً بمثلہ في الجہاز کما في دیارنا، فالقول قول الزوج، وإن کان مشترکا، فالقول قول الأب۔ (فتاوی عالمگیری ١/٣٢٧ الفصل السادس عشر فی جہاز البنت، ط: رشیدیہ)۔ واللہ اعلم بالصواب۔
العارض مفتی آصف گودھروی
خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں