سوال
السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ
جناب مفتی صاحب ایک حافظ صاحب ہے اور وہ مدرسہ پڑا رہے ہیں اور وہ چالو مدرسہ میں سے چار مہینے کی جماعت میں جانے کا بول رہے ہیں تو مفتی صاحب ان کے لئے کیا حکم ہے
سائل: عبللطیف مہوا
الجواب وباللہ التوفیق
باسمہ سبحانہ وتعالی
قرآن و حدیث کی روشنی میں تبلیغ امت محمدیہ کے لئے فرض کے درجہ میں ہیں البتہ طریقہ تبلیغ نہ فرض ہے نہ واجب ہے اور نہ ہی سنت ہے جو بھی طریقہ اپنایا جائے مستحسن ہے لہذا مدارس اور دعوت اور خانقاہیں اور اس کے علاوہ جتنے بھی میدان ہے اعلاء کلمۃ اور اعلاء حق کے لئے وہ جس شعبہ سے وہ حق کو عام کرنے کی سعی کرے کا وہ اس فریضے سے سبکدوش ہوجائے گا۔
البتہ اس کا خیال رکھنا ہے کہ جس شعبہ میں بھی خدمت نجام دے وہ کما حقہ ہو اس میں کوتاہی کی کوئی صورت پیش نہ آئے آج کل یہ جو طریقہ ہے کہ درمیانی تعلیم میں مدارس سے اساتذہ دعوت کے کام سے چار مہینے چالیس دن رخصت لیکر جاتے ہے تو اس کے لئے چند باتوں کا دھیان میں رکھنا ضروری ہے۔
(١) بچوں کا تعلیمی نقصان نہ ہو۔
(٢) جتنے ایام کی رخصت ہو اس بچوں کی تعلیم کا مکمل انتظام ہو۔
(٣) منتظمین کی طرف سے اس کی رخصت منظور ہو تاکہ بعد میں پریشانیوں کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
اگر اس طرح سے مکمل نظم کے ساتھ وہ نکلنا چاہے تو نکل سکتا ہے۔
اس سلسلہ میں دارالعلوم دیوبند کا ایک فتویٰ ملاحظہ فرمائیں۔
مدرسہ میں پڑھنے والوں کو اسی طرح پڑھانے والوں کو چاہئے کہ وہ تعطیل کلاں میں چلہ کے لیے جائیں، تعلیم کے زمانہ میں جانا درست نہیں، اس سے تقریباً ۲۵۰/ اسباق کا ناغہ ہوگا، جس کی تلافی ممکن نہیں۔ رئیس التبلیغ حضرت مولانا محمد یوسف صاحب طلبہ و اساتذہ کو دوران تعلیم جماعت میں جانے کو منع فرماتے تھے۔ اس لیے چھٹیوں میں جانا چاہئے اس سے اسباق کا نقصان نہ ہوگا، اور چلہ بھی پورا ہو جائے گا۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔ (دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند جواب نمبر: ١۵۵٧٣۵)
العارض مفتی آصف گودھروی
خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں