سوال
السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ
جی مجھے یہ معلوم کرنا ہے کہ ایک مسلمان عورت کا ایک غیر مسلم حکیم سے علاج چل رہا ہے اس عورت کی گردن پے رسولی ہے بڑے بڑے ڈاکٹروں نے بتایا ہے کہ اسکا علاج آپریشن کے سوا کچھ نہیں ہے وہ غیر مسلم حکیم کہتے ہیں کہ میرے پاس ایک ایسی دوا ہے کہ جس سے یہ رسولی ختم ہو جائیگی اور دوا کے استعمال کا طریقہ یہ ہے کہ اس دوا کو بکری یا بھینس یا گائے کے پیشاب میں ملاکر لگانا ہے رات میں لگالو اور صبح نماز سے پہلے اتار دو آپ سے یہ معلوم کرنا ہے کہ کیا اس دوا کا استعمال جائز ہے یا نہیں وضاحت کے ساتھ جواب دیکر شکریہ کا موقع عنایت فرمائیں
سائل محمد رضوان جمالپور
الجواب وباللہ التوفیق
باسمہ سبحانہ وتعالی
مفتی بہ قول کے مطابق ماکول اللحم جانور (یعنی جن جانوروں کا گوشت کھایا جاتا ہے) ان کا پیشاب بطورِ علاج دوا میں استعمال کرنا اور پینا اس شرط کے ساتھ جائز ہے کہ کسی اور حلال اور مباح دوا سے اس بیماری کا علاج نہ ہورہا ہو یعنی صرف اضطراری حالت میں ہی جائز ہے، یعنی اس کے علاوہ شفا کی کوئی شکل نہ رہے، تب اس کی گنجائش ہوگی ، ورنہ نہیں اور ان حلال جانوروں کے پیشاب سے علاج تجویز کرنے والا ماہر ڈاکٹر یا حکیم ہو اورشفا کا ظن غالب ہو۔
کتاب النوازل میں حضرت مفتی سلمان صاحب منصورپوری نے ایک ایسے ہی سوال کے جواب میں تحریر فرمایا ہے کہ: گاۓ کے پیشاب ملی ہوئی دواؤں کا داخلی استعمال اسی وقت جائز ہے جب کہ اضطراری حالت ہو، یعنی طبیب حاذق اس دوا کو تجویز کرے، اور اس کے بدل کے طور پر کوئی پاک دوا دستیاب نہ ہو، اس کے بغیر اس دوا کا استعمال جائز نہ ہوگا، اور ایسی دواؤں کے خارجی استعمال مثلا لیپ لگانے کی ضرورت کے وقت گنجائش ہے البتہ جب نماز پڑھی جاۓ تو جس حصہ پر ناپاک دوالگی ہے اسے پاک کرنا لازم ہوگا۔ (مستفاد: فتاوی محمود ۳٦۸ /۱۸ڈابھیل) وأما الزيت والسمن ونحوهما من الأدهان التي أصابتها نجاسة خارجية ففيها خلاف بين العلماء. وقال الجمهور: يجوز الانتفاع بها في غير الأكل وهو قول أبي حنيفة وأصحابه . (تكملة فتح الملهم ١/۵٦٢ المكتبة الأشرفية ديو بند ) اختلف في التداوي بالمحرم وظاهر المذهب المنع ...... وقيل: يرخص إذا عـلـم فـيـه الـشـفـاء ولـم يـعـلـم دواء آخر كما رخص الخمر للعطشان وعليه الفتوى.
(الدر المختار على الشامي ١/٣٦٦ المكتبة الأشرفية ديوبند) يجوز للعليل شرب الدم والبول وأكل الميتة للتداوي إذا أخبره طبيب
مسـلـم أن شـفـاء ه فيـه، ولم يجد من المباح ما يقوم مقامه . (الفتاوى الهندية، كتاب الـكـراهية / البـاب الثـامـن عـشـر فـي التـداوي والمعالجات ٣٥٥/٥ زكريا، وكذا في الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الحظر والإباحة / فصل في البيع ٣٨٩/٦ کراچی)
الاستشفاء بالمحرم إنما لا يجوز إذا لم يعلم أن فيه شفاء، أما إذا علم أن فيه شفاء وليس له دواء آخر غيره ، فيجوز الاستشفاء به. (المحيط البرهاني، كتاب الاستحسان / الفصل التاسع عشر في التداوي والمعالجات 116/6 المكتبة الغفارية كوئته) فقط واللہ تعالی اعلم (کتاب النوازل ١٦/١٨٩)
فتاویٰ ہندیہ میں ہے:
يجوز للعليل شرب البول والدم وأكل الميتة للتداوي إذا أخبره طبيب مسلم أن شفاءه فيه ولم يجد من المباح ما يقوم مقامه۔ (فتاوی الهندية كتاب الكراهية الباب الثامن عشر في التداوي والمعالجات،۵/٤١٠)
فتاویٰ تاتارخانیہ میں ہے
الاستشفاء بالمحرم إنما لاتجوز إذا لم يعلم فيه شفاء، أما إذا علم أن فيه شفاء وليس له دواء أخر غير يجوز الاستشفاء به۔ (الفتاوى التاتارخانيه زكريا ١/٢٠٠ رقم ٢٨۵٠٤)
البحر الرائق میں ہے
ففي النهاية عن الذخيرة الاستشفاء بالحرام يجوز إذا علم أن فيه شفاء ولم يعلم دواء آخراه۔ (البحر الرائق١/١٢٢)
فتاوی شامی میں ہے
يجوز للعليل شرب البول والدم والميتة للتداوي إذا أخبره طبيب مسلم أن فيه شفاء ه، ولم يجد من المباح ما يقوم مقامه. (شامي ٧/٤٨٠زكريا)۔ واللہ اعلم بالصواب
العارض مفتی آصف گودھروی
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں