سوال
السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ
اگر کوئی شخص نماز میں *يا ايها الذين آمنوا اجتنبوا كثيرا من الظن* کی جگہ *يا ايها الذين آمنوا لا تجتنبوا اليوم إن الله تواب رحيم* پڑھ دے تو نماز کا کیا حکم ہوگا؟
صرف *لا تجتنبوا اليوم* پڑھا ہے اور آگے *كثيرا من الظن* کا اضافہ نہیں کیا ہے بلکہ *إن الله تواب رحيم* پڑھ دیا ہے.
سائل ابو اسامہ ، مالیگاؤں
الجواب وباللہ التوفیق
باسمہ سبحانہ وتعالی
قرأت میں لفظ اس طرح سے بدل جائے کہ جس سے ایسے معنی پیدا ہوجائیں، جن کا اعتقاد کفر ہوتا ہے، تو نماز فاسد ہو جائے گی، اور اگر ایسا معنی پیدا نہ ہو جن کا اعتقاد کفر ہوتا ہے، تو نماز فاسد نہیں ہوتی۔
لہذا تلفظ کی تبدیلی یا الفاظ کی کمی بیشی کی وجہ سے معنیٰ کو دیکھا جائے گا اگر معنی تبدیل نہ ہو یا معنیٰ تو تبدیل ہو لیکن تغیر فاحش نہ ہو تو اس سے نماز فاسد نہیں ہوگی، اور اگر تغیر فاحش ہو تو نماز واجب الاعادہ ہوگی۔
صورت مسئولہ میں چونکہ یاايها الذين آمنوا اجتنبوا كثيرا من الظن* کی جگہ *يا ايها الذين آمنوا لا تجتنبوا اليوم إن الله تواب رحيم* پڑھا ہے جس میں معنی کا تغیر ایسا فاحش نہیں ہے کہ جس میں اعتقادی غلطی ہو اور معنی میں کفر ہو اس لئے کہ اس نے صرف یا ایھا الذین آمنوا لاتجتنبوا پڑھا ہے جو ذومعنی ہے لہذا بندے کی نظر میں اس سے نماز فاسد نہیں ہوگی البتہ اشتباہ کی وجہ سے لوٹالینا اولی ہے ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب۔
عالمگیری میں ہے۔
ومنها: ذکر کلمة مکان کلمة علی وجه البدل إن کانت الکلمة التي قرأها مکان کلمة یقرب معناها وهي في القرآن لاتفسد صلاته، نحو إن قرأ مکان العلیم الحکیم وإن کان في القرآن، ولکن لاتتقاربان في المعنی نحو إن قرأ:وعداً علینا إنا کنا غافلین مکان فاعلین ونحوه مما لو اعتقده یکفر تفسد عند عامة مشایخنا،وهو الصحیح من مذهب أبي یوسف رحمه الله تعالی، هکذا في الخلاصة۔ (الفتاوی الهندیة، ١/٨٠ ط: المطبعة الکبری الأمیریة، بولاق، مصر)
فتاوی عالمگیری میں ہے
وإن غیر المعنی تغیراً فاحشاً فإن قرأ: ” وعصی آدم ربه فغوی “ بنصب میم ” اٰدم “ ورفع باء ” ربه “……… وما أشبه ذلک لو تعمد به یکفر، وإذا قرأ خطأً فسدت صلاته۔ الخ (الفتاوی الخانیة علی هامش الهندیة، ١/١٦٨ ط: المطبعة الکبری الأمیریة، بولاق، مصر)
إمداد المفتین میں ہے۔
قال في شرح المنیة الکبیر القاعدة عند المتقدمین أن ما غیره تغیراً یکون اعتقاده کفراً تفسد في جمیع ذلک سواء کان في القرآن أو لم یکن إلا ما کان من تبدیل الجمل مفصولاً بوقف تام، ثم قال بعد ذلک: فالأولی الأخذ بقول المتقدمین۔ (إمداد المفتین، ص ۳۰۳)۔ واللہ اعلم بالصواب۔
العارض مفتی آصف گودھروی
خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں