سوال
قربانی کس پر واجب ہے؟ کیا بالغ نابالغ سب پر واجب ہے؟ اور مرد و عورت دونوں پر واجب ہے؟ یا صرف مرد پر واجب ہے؟ نابالغ نصاب کا مالک ہو تو اس کا کیا حکم ہے؟ اور اس کے نصاب کی مقدار کیا ہے؟ زکوۃ اور قربانی کے نصاب میں کیا فرق ہے؟
سائل محمد زاہد ایم پی
الجواب وباللہ التوفیق
باسمہ سبحانہ وتعالی
قربانی کے شرائط
قربانی ایک عبادت ہے، جو ہر مسلمان، عاقل، بالغ، مقیم اور صاحبِ نصاب پر واجب ہے، چاہے مرد ہو یا عورت، نابالغ پر قربانی واجب نہیں ہے، نابالغ مال دار اور صاحب نصاب ہو تب بھی اس پر قربانی واجب نہیں ہوگی اور نہ ہی اس کے والد پر اپنے نابالغ بچہ کی طرف سے قربانی کرنا لازم ہوگا۔
نصاب قربانی
قربانی کا نصاب یہ ہے کہ جس کی ملکیت میں حاجت اصلیہ سے زائد اور ذمہ پر جو قرض ہے اس کو کم کرنے کے بعد نیچے دئے گئے مال میں سے کسی ایک کا مالک ہو،
(ا) سونا جبکہ ساڑھے سات تولہ(۸۷/٤٨ 87.48 گرام) یا اس سے زیادہ ہو۔
(۲) چاندی جبکہ ساڑھے باون تولہ ہو(٦١٢/٣٦ 612.36 گرام) یا اس سے زیادہ ہو۔
(۳) روپیہ، پیسہ، جبکہ وہ ساڑھے سات تولہ سونا (۸۷/٤٨ 87.48 گرام) یا ساڑھے باون تولہ چاندی (٦١٢/٣٦ 612.36 گرام) کی بقدر ہو.
(٤) مالِ تجارت جبکہ اس کی مالیت ساڑھےسات تولہ سونا (۸۷/٤٨ 87.48 گرام) یا ساڑھے باون تولہ چاندی(٦١٢/٣٦ 612.36 گرام) کی مالیت کے برابر ہو۔
(۵) ضرورت سے زائد سامان جیسے کہ رہائش کے مکان سے زائد مکان یا جائیداد وغیرہ ہو، یا استعمال سے زائد گھریلو سامان ہو جب کہ اس کی قیمت اوپر کے دئے گئے نصابوں میں سے کسی ایک کے برابر ہوجائے۔
زکوۃ اور قربانی کے نصاب میں یہ فرق ہے۔
(۱) قربانی اور زکوۃ کے واجب ہونے کے نصاب میں فرق یہ ہے کہ زکوۃ صرف اس مال پر فرض ہوتی ہے جو عادۃً بڑھتا ہے، جیسے مالِ تجارت، یا مویشی، یا سونا چاندی اور نقدی اس کے علاوہ ذاتی مکان، دکان، برتن، فرنیچر، اور دوسرے گھریلو سامان، ملوں، کارخانوں کی مشینری ، جواہرات خواہ کتنے ہی قیمتی ہوں اگر تجارت کے لیے نہ ہوں تو ان پر زکوۃ فرض نہیں ہے۔
جب کہ قربانی کے نصاب میں ان چیزوں کے ساتھ ضرورت سے زائد سامان کو بھی ملایا جاتا ہے، جیسے مکان، دکان، برتن، فرنیچر، اور دوسرے گھریلو سامان، ملوں، کارخانوں کی مشینری ، جواہرات اگر استعمال میں نہ ہو تو قربانی کے نصاب میں شامل کیا جائے گا، چاہے وہ تجارت کے لئے ہویا نہ ہو اسی طرح اس کے علاوہ ضرورت سے زائد جو بھی سامان ہوگا اس کو بھی قربانی کے نصاب میں ملایا جائے گا۔
(۲) زکوۃ میں نصاب پر سال کا گذرنا ضروری ہے جب کہ قربانی میں سال کا گذرنا ضروری نہیں ہے اگر کوئی آدمی قربانی کے تین دنوں میں سے یعنی دس ذی الحجہ کی صبح صادق سے لیکر بارہ ذی الحجہ کی غروب سے پہلے پہلے صاحبِ نصاب ہوگیا تو اس پر قربانی واجب ہوجائے گی۔
فتاوی شامی میں ہے
و شرائطها الإسلام والإقامة و الیسار الذي یتعلق به وجوب ( صدقة الفطر ) ... (لا الذکورۃ فتجب علی الأنثى) …… (قوله: و شرائطها) أي شرائط وجوبھا، ولم یذکر الحریة ... و لا العقل والبلوغ لما فیھما من الخلاف ... (قوله: والیسار) بأن ملك مائتي درهم أو عرضًا یساویها غیر مسکنه و ثیاب اللبس أو متاع یحتاجه إلى أن یذبح الأضحیة و لو له عقار یستغله فقیل: تلزم لو قیمته نصابًا ... فمتى فضل نصاب تلزمه و لو العقار وقفًا، فإن واجب له فی أیامھا نصاب تلزم و صاحب الثیاب الأربعة لو ساوی الرابع نصابًا غنی و ثلاثة فلا، والمرأۃ موسرۃ بالمعجل لو الزوج ملیًّا وبالمؤجل لا (فتاوی شامی ۹/٤۵۲ ط: دار عالم الکتب)
محیط برھانی میں ہے
وشرط وجوبها اليسار عند أصحابنا رحمهم الله والموسر في ظاهر الرواية من له مائتا درهم أو عشرون ديناراً أو شيء يبلغ ذلك سوى مسكنه ومتاع مسكنه ومتاعه ومركوبه وخادمه في حاجته التي لا يستغني عنها فأما ما عدا ذلك من متاعه أو رقيقه أو ... أو متاع.... أو لغيرها فإنها.... في داره. وفي الأجناس إن جاء يوم الأضحى وله مائتا درهم أو أكثر ولا مال غيره فهلك ذلك لم تجب عليه الأضحية وكذلك لو نقص عن المائتين ولو جاء يوم الأضحى ولا مال له ثم استفاد مائتي درهم فعليه الأضحية (المحیط البرھانی ٦/٨٦ ط دار الکتب العلمیة)
واللہ أعلم بالثواب والیہ المرجع والمآب
العارض مفتی آصف بن محمد گودھروی
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں