جمعہ، 21 مارچ، 2025

صاحب نصاب کے پاس زکوۃ دینے کے لئے روپئے پیسے نہ ہو تو کیا کریں سوال نمبر ۵۰۵

 سوال

کیا کہتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلے کے بارے میں مسئلہ یہ ہے کہ ایک کاروبار ہے جس کے اوپر بہت زیادہ قرضہ ہے وہ ادا کرنے ہیں اور اس کاروبار کے کسٹمرز کے اوپر بھی اس کاروبار کا قرضہ ہے یعنی جو لوگوں سے لینے ہیں  

تو جو چیزیں قرضے پردی ہوئی ہیں ان کو شمار کیا جائے گا؟ یا نہیں اس کی زکوۃ کا کیا حکم ہے؟ نیز یہ بھی بتائیں کے ادھار کا حساب لگار کر جو رقم لینی ہے اس سے ذمہ والے قرضے کو مائنس کردیا جائے اس کے بعد لی ہوی رقم نصاب تک پہنچتی ہے لیکن ابھی مالک کے پاس موجود نہیں ہے نہ گھر میں نہ جیب میں تو ایسی صورت میں زکوۃ کس طرح ادا کی جائے?

سائل: سیف اللہ سندھی



الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی 


مسئولہ صورت میں کاروبار میں جتنی اشیاء یا رقم قرضے میں دے رکھی ہے سامنے والا دینے کا اقرار کرے یا انکار کریں لیکن اس کے پاس ثابت کرنے کے لئے گواہ موجود ہے تو اس رقم کو بھی زکوۃ میں ملایا جائے گا اور ان سب کی زکوۃ ادا کرنا واجب ہوگا۔


اور کاروبار میں جتنا قرضہ لیا ہے ان سب کو شمار کرکے زکوۃ کے حساب سے مائنس کردیا جائے گا اس کے بعد جو رقم بچ جائے اس کی زکوۃ ادا کرنا واجب ہے۔


اگر کسی پر زکوۃ واجب ہے لیکن اس کے پاس پیسے نہیں ہے تو شریعت میں زکوة پیسوں ہی سے ادا کرنا ضروری نہیں کاروباری اشیاء میں سے زکوۃ کی رقم کے برابر کچھ اشیاء بھی غریبوں میں تقسیم کرسکتے ہیں۔


البتہ زیادہ بہتر یہ ہے کہ زکوۃ کی ادائیگی میں فقراء ومساکین کو نقد رقم دیں تاکہ وہ سہولت سے اپنی ضرورت کے مطابق اشیاء خرید سکیں اس لیے زکوۃ کی ادائیگی کی افضل صورت یہی ہے کہ نقد دیں البتہ نقد نہیں ہے اور اس کے بجائے اگر کوئی شخص مستحقین کو راشن کپڑے یا دیگر چیزیں مالکانہ طور پر دے دیں تو اس سے بھی زکوۃ دینے والے کی زکوۃ ادا ہوجاتی ہے لہذا اگر وہ نقد نہیں دے سکتے ہیں تو اس کی قیمت کے برابر دوسری اشیاء دینے سے زکوۃ ادا ہوجائے گی۔


البحر الرائق میں ہے 

 وقيد بالتمليك احترازا عن الإباحة ولهذا ذكر الولوالجي وغيره أنه لو عال يتيما فجعل يكسوه ويطعمه وجعله من زكاة ماله فالكسوة تجوز لوجود ركنه وهو التمليك وأما الإطعام إن دفع الطعام إليه بيده يجوز أيضا لهذه العلة وإن كان لم يدفع إليه ويأكل اليتيم لم يجز لانعدام الركن وهو التمليك۔ (البحر الرائق شرح كنز الدقائق ۲/۲۵۳)


فتح القدیر میں ہے 

ومن كان عليه دين يحيط بماله فلا زكاة عليه ) وقال الشافعي : تجب لتحقق السبب وهو ملك نصاب تام ولنا أنه مشغول بحاجته الأصلية فاعتبر معدوما كالماء المستحق بالعطش وثياب البذلة والمهنة ( وإن كان ماله أكثر من دينه زكى الفاضل إذا بلغ نصابا ) لفراغه عن الحاجة الأصلية ، والمراد به دين له مطالب من جهة العباد حتى لا يمنع دين النذر والكفارة۔ (فتح القدير لكمال بن الهمام - ٣/٤٧۵)


واللہ أعلم بالصواب والیہ المرجع والمآب 

العارض مفتی آصف بن محمد گودھروی 


پیر، 17 مارچ، 2025

چلتے چلتے آیت سجدہ کی تلاوت سے کتنے سجدہ واجب ہوں گے؟ سوال نمبر ۵٠٤

 سوال 

اسلام عليكم ورحمۃ وبرکاتہ میں امید کرتا ہوں بخیریت ہونگے 

اگر کوئی شخص مسجد یا اور کوئی جگہ میں قرآن پڑھیں چلتے چلتے اور سجدہ کی آیت تلاوت کرے تو کتنا سجدہ کرے؟ جواب حوالہ کے ساتھ مطلوب ہے

سائل: مولوی امتیاز انڈمان 


الجواب وباللہ التوفیق 

باسمہ سبحانہ وتعالی 


سجدہ تلاوت میں اصل اعتبار مجلس کا ہے جس جگہ آیت سجدہ تلاوت کی ہے اسی مجلس میں دوبارہ اسی آیتِ سجدہ کو پڑھنے کی صورت میں دوبارہ سجدہ کرنا لازم نہیں ہے البتہ اگر مجلس بدل جائے اور دوسری مرتبہ آیتِ سجدہ پڑھیں یا اس آیت کے علاوہ دوسری آیت سجدہ کی تلاوت کریں تو سجدہ تلاوت دوبارہ کرنا ضروری ہے۔


فقہاء نے تبدل مجلس کی دو صورتیں بیان کی ہے۔

(۱) حقیقی اعتبار سے مجلس بدل جائے، جیسے جس جگہ پر تلاوت کررہا ہے اس جگہ کو چھوڑ کر دوسری جگہ چلا جائے۔

(۲) حکمی اعتبار سے مجلس بدل جائے جیسے اسی جگہ پر بیٹھے بیٹھے کھانا شروع کردینا، یا کوئی اور کام شروع کردینا جو تلاوت کے حکم میں نہ ہو تو اس سے مجلس بدل جائے گی۔


البتہ فقہاء کرام نے عمل قلیل کو ایک ہی مجلس شمار کیا ہے 

جیسے آیت سجدہ کی تلاوت کرنے کے بعد کھڑا ہوجائے یا ایک دو قدم چل پڑے یا ایک دو لقمے کھالے یا ایک گھونٹ پانی پی لے تو ان سب سے مجلس تبدیل نہیں ہوگی


صورت مسئولہ میں اگر وہ جس جگہ تلاوت کررہاہے اسی جگہ پر جیسے کہ مسجد میں تلاوت کررہا ہے تو اس کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک یا روم کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک چہل قدمی کرتے ہوئے آیت سجدہ کا تکرار کرے تو اس پر ایک ہی سجدہ واجب ہوگا اس لئے کہ اتحاد مجلس ہے اور وہ مسجد یا روم میں چہل قدمی کرتے ہوئے اندر اور باہر آتا جاتا رہے اور آیت سجدہ کی تلاوت کا تکرار کریں تو اس پر جتنی بار آیت سجدہ تلاوت کرے گا اتنی بار سجدہ واجب ہوگا کیوں کہ مجلس بدل گئی۔


فتاویٰ شامی میں ہے 

قال الحصکفی: (ولو کررہا فی مجلسین تکررت وفی مجلس) واحد (لا) تتکرر بل کفتہ واحدة۔ وفعلہا بعد الأولی أولی قنیة۔ قال ابن عابدین: بخلاف ما إذا طال جلوسہ أو قرائتہ أو سبح أو ہلل أو أکل لقمة أو شرب شربة أو نام قاعدا أو کان جالسا فقام أو مشی خطوتین أو ثلاثا علی الخلاف أو کان قائما فقعد أو نازلا فرکب فی مکانہ فلا تتکرر حلیة ملخصا (قولہ بل کفتہ واحدة) ولا یندب تکرارہا۔ ( رد المحتار: ۵۹۰/۲، زکریا، دیوبند)


بدائع الصنائع میں ہے

ثم تبدل المجلس قد يكون حقيقة وقد يكون حكما بأن تلا آية السجدة ثم أكل أو نام مضطجعا، أو أرضعت صبيا، أو أخذ في بيع أو شراء أو نكاح أو عمل يعرف أنه قطع لما كان قبل ذلك ثم أعادها فعليه سجدة أخرى؛ لأن المجلس يتبدل بهذه الأعمال.

ألا ترى أن القوم يجلسون لدرس العلم فيكون مجلسهم مجلس الدرس، ثم يشتغلون بالنكاح فيصير مجلسهم مجلس النكاح، ثم بالبيع فيصير مجلسهم مجلس البيع، ثم بالأكل فيصير مجلسهم مجلس الأكل، ثم بالقتال فيصير مجلسهم مجلس القتال فصار تبدل المجلس بهذه الأعمال كتبدله بالذهاب والرجوع لما مر.

ولو نام قاعدا أو أكل لقمة أو شرب شربة أو تكلم بكلمة أو عمل عملا يسيرا ثم أعادها فليس عليه أخرى؛ لأن بهذا القدر لا يتبدل المجلس والقياس فيهما سواء أنه لا يلزمه أخرى لاتحاد المكان حقيقة إلا أنا استحسنا إذا طال العمل اعتبارا بالمخيرة إذا عملت عملا كثيرا خرج الأمر عن يدها وكان قطعا للمجلس بخلاف ما إذا أكل لقمة أو شرب شربة.

ولو قرأ آية السجدة فأطال القراءة بعدها أو أطال الجلوس ثم أعادها ليس عليه سجدة أخرى لأن مجلسه لم يتبدل بقراءة القرآن وطول الجلوس، وكذا لو اشتغل بالتسبيح أو بالتهليل ثم أعادها لا يلزمه أخرى. (كتاب الصلاة,فصل سجدة التلاوة ۱/۱۸۳ مطبوعہ دار الكتب العلمية) 


فتاویٰ عالمگیری میں ہے 

والمجلس واحد وإن طال أو أكل لقمة أو شرب شربة أو قام أو مشى خطوة أو خطوتين أو انتقل من زاوية البيت أو المسجد إلى زاوية إلا إذا كانت الدار كبيرة كدار السلطان وإن انتقل في المسجد الجامع من زاوية إلى زاوية لا يتكرر الوجوب وإن انتقل فيه من دار إلى دار ففي كل موضع يصح الاقتداء يجعل كمكان واحد وسير السفينة لا يقطع المجلس بخلاف سير الدابة إذا لم يكن راكبها في الصلاة، كذا في فتاوى قاضي خان. (فتاویٰ عالمگیری كتاب الصلاة ۱/١٣٤ ط'دار الفكر)


واللہ أعلم بالصواب والیہ المرجع والمآب 

العارض مفتی آصف بن محمد گودھروی

ہفتہ، 15 مارچ، 2025

کرایہ پر دئے ہوئے دکان و مکانات کے زکوۃ کا حکم سوال نمبر ۵۰۳

 سوال 

السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ 

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام مسئلہ ذيل کے با رے میں 

کرایہ کے کمروں کی زكوة کس اعتبار سے ادا کی جائے گی پورے سال کا کرایہ کے حساب سے یا کمرے کی زمین کے اعتبار سے مثلا کمرے کا ماہانہ کرایہ ٢٠٠٠ روپیے ہے اور کمرے کی قیمت دو لاکھ ہے تو کس حساب سے زكوة ادا کی جائے گی برائے مہربانی مدلل جواب عنایت فرمائیں

سائل: مولوی طیب پانی پت ہریانہ 


الجواب وباللہ التوفیق 

باسمہ سبحانہ وتعالی 


کسی بھی چیز میں زکوۃ کے وجوب کی شرطِ اول مال نامی یعنی تجارت کے لئے ہونا ہے اگر وہ چیز مال تجارت کے لئے نہیں ہے تو اس پر زکوۃ واجب نہیں ہوگی۔


مسؤلہ صورت میں کمرے کرایہ پر دئے ہوئے  ہے تجارت کے لئے نہیں ہے تو کرایہ پر زکوۃ واجب ہوگی جب وہ نصاب تک پہنچ جائے اور اس پر سال گزر جائے کمروں اور اس کی زمیں کی قیمت پر زکات واجب نہیں ہوگی، اسی طرح اگر کرایہ سال بھر محفوظ نہ رہتا ہو، استعمال میں آجاتا ہو تو اس صورت میں استعمال شدہ کرایہ کی رقم پر بھی زکوۃ لازم نہیں ہوگی۔


البتہ اگر پہلے سے صاحبِ نصاب ہو اور ہر سال زکوۃ ادا کرتا ہو تو اس صورت میں جس دن اس کی زکوۃ کا سال مکمل ہو رہا ہو، اس دن تک جتنا کرایہ اس کے پاس موجود ہو استعمال میں نہ آیا ہو اسے کل مال کے ساتھ ملاکر زکوۃ ادا کرنا لازم ہوگا، اسی طرح اگر کرایہ کی رقم جمع کرکے وہ صاحبِ نصاب ہوجائے تو سال پورا ہونے پر زکوۃ ادا کرنی ہوگی


امدادالفتاوی میں ہے

پس مواضع اگر واسطے تجارت کے ہیں تو بعد حولان حول ان کی قیمت و منافع پر زکوۃ لازم ہوگی ۔ اور اگر اجارہ کے لیے ہیں یا اپنے مصارف کے لیے ہیں پس خود ان میں تو زکوۃ واجب نہیں ۔۔۔اور ایسے ہی اگر منافع یا کرایہ جنس غلات سے ہو، البتہ اگر زر کرایہ یا منافع نقود میں سے ہو اور اس پر سال بھر گزر جاوے اس میں زکوۃ واجب ہے۔ (امدادالفتاوی، ۲/۵٤ ،کتاب الزکوۃ و الصدقات ط مکتبہ دارالعلوم کراچی )


فتاوی قاضی خان میں ہے

ولو اشترى الرجل داراً أو عبداً للتجارة، ثم أجره يخرج من أن يكون للتجارة؛ لأنه لما أجر فقد قصد المنفعة، ولو اشترى قدوراً من صفر يمسكها أو يؤاجرها لا تجب فيها الزكاة كما لا تجب في بيوت الغلة، ولو دخل من أرضه حنطة يبلغ قيمتها قيمة نصاب ونوى أن يمسكها ويبيعها فأمسكها حولاً لا تجب فيها الزكاة كما في الميراث۔ (الفتاوی قاضی خان ۱/۲۲۲ کتاب الزکوۃ فصل في مال التجارۃ، ط مکتبة دار الکتب العلمیہ)


فتاوی عالمگیری میں ہے 

ومنہا فراغ المال عن حاجتہ الأصلیۃ فلیس في دور السکنیٰ وثیاب البدن وأثاث المنزل ودواب الرکوب وعبید الخدمۃ وسلاح الاستعمال زکاۃ وکذا طعام أہلہ۔ (الفتاوی عالمگیری قدیم ۱/۱۷۲ کتاب الزکاۃ)


واللہ أعلم بالصواب والیہ المرجع والمآب 

العارض مفتی آصف بن محمد گودھروی

مقروض آدمی پر زکوۃ کا حکم سوال نمبر ۵۰۲

 سوال 

السلام علیکم و رحمۃاللہ وبرکاتہ 

مسئلہ یہ ہے کہ ایک بندے کے پاس ایک پلاٹ ہے جو بیچنے کی نیت سے لیا ہوا ہے اور دو سال ہو چکے ہے 

اور گھر کی مستورات کے کچھ زیورات ایک آدھ لاکھ کے ہیں اور ہر سال وہ زکوۃ نکالتا تھا لیکن اب اس نے ایک Ashok Leyland کمپنی کی گاڑی دوسروں سے قرض لیکر نقد لی ہوئی ہے اب اس گاڑی میں آدھی رقم تو قرض کی ہیں اور وہ دینا باقی ہے، تو کیا اس پر زکوۃ ہوگی یا نہیں؟ شریعت کی روشنی میں جواب مطلوب ہے 

سائل: عبدالحی سالک اورنگ آباد مہاراشٹر


الجواب وباللہ التوفیق 

باسمہ سبحانہ وتعالی 


اگر کسی شخص کے پاس اموال زکوۃ موجود ہے اور اس پر قرضے بھی ہے، تو اس کی تین صورتیں ہوگی

پہلی صورت یہ ہے کہ اس کے پاس جتنا مال موجود ہے اتنی ہی مقدار میں اس شخص پر قرض بھی ہے، یا مال کم ہے اور قرض زیادہ ہے تو ایسی صورت میں اس شخص پر زکوۃ فرض نہیں ہے۔

دوسری صورت یہ ہے کہ مقروض کے پاس اتنا مال ہے کہ قرض اداکرنے کے بعد بقیہ مال نصاب کو نہیں پہنچتا بلکہ نصاب سے کم ہے تو اس صورت میں بھی چوںکہ وہ نصاب سے کم مال کا مالک ہے اس لئے اس پر زکوۃ واجب نہیں ہوگی۔

تیسری صورت یہ ہے کہ مقروض کے پاس اتنا مال ہے کہ قرض اداکرنے کے بعد بقیہ مال نصاب کو پہنچ جاتاہے اور اس پر سال بھی گزرچکا ہو اس صورت میں ایسے شخص پر قرض کے پیسے الگ کرنے کے بعد جو مال باقی رہے گا اس مال کی زکوۃ اس کے حصاب سے ادا کرنا لازم ہے۔

صورت مسئولہ میں سوال میں مذکور مقروض شخص کے پاس دیکھا جائے گا کہ پلاٹ کی قیمت کیا ہے اور قرضہ کتنا ہے اگر قرض کی ادائیگی کے بعد باقی مال نصاب کے برابر یا نصاب سے زائد باقی بچتا ہے اور سال گزرچکا ہو تو اس بقیہ مال کی زکوۃ اس کے حصاب سے ادا کرنا اس پر لازم ہے۔

اور اگر اس مقروض کے پاس پلاٹ کی قیمت صرف قرض کے برابر ہو یا قرض اد اکرنے کے بعد اس کے پاس کچھ نہ بچتا ہو اس صورت میں زکوۃ لازم نہ ہوگی۔


فتح القدیر میں ہے 

ومن كان عليه دين يحيط بماله فلا زكاة عليه ) وقال الشافعي : تجب لتحقق السبب وهو ملك نصاب تام ولنا أنه مشغول بحاجته الأصلية فاعتبر معدوما كالماء المستحق بالعطش وثياب البذلة والمهنة ( وإن كان ماله أكثر من دينه زكى الفاضل إذا بلغ نصابا ) لفراغه عن الحاجة الأصلية ، والمراد به دين له مطالب من جهة العباد حتى لا يمنع دين النذر والكفارة۔ (فتح القدير لكمال بن الهمام - ٣/٤٧۵) فقط و الله أعلم


واللہ أعلم بالصواب والیہ المرجع والمآب 

العارض مفتی آصف بن محمد گودھروی 

جمعہ، 14 مارچ، 2025

زکوۃ کے مال کو عمارت کی درستگی کے لئے استعمال کرنا کیسا ہے؟ سوال نمبر ۵۰۱

 سوال 

السلام علیکم ورحمۃ اللہ 

مسئلہ یہ ہے کہ ایک گاؤں میں مسجد کے امام صاحب کا مکان تعمیر کرنا ہے جو کہ بہت ہی خستہ اور پرانا ہو چکا ہے رہنے کے لائق بھی نہیں ہے

مسجد کے امام کے لیے ہی وہ وقف کیا گیا ہے اب اس کو بنوانا ہے تو بستی والے اس کو بنوانے سے قاصر ہے 

تو کیا زکوۃ کی رقم جمع کر کے اس کو بنوا سکتے ہیں؟ یا نہیں شریعت کی روشنی میں جواب مطلوب ہے

سائل: عبدالحی سالک اور نگ آباد


الجواب وباللہ التوفیق 

باسمہ سبحانہ وتعالیٰ 


زکوۃ اور دیگر صدقاتِ واجبہ کے مصارف فقراء ومساکین وغیرہ ہیں جن پر تملیکاً خرچ کرنا ضروری ہے، نیز حسبِ تصریح فقہائے حنفیہ اموالِ زکوٰۃ میں تملیک شرط ہے یعنی اس مال کو کسی اہل مصرفِ زکوٰۃ کی ملکیت میں بحیثیتِ تملیک کہ دینا ضروری ہے۔


صاحب بدائع نے بدائع الصنائع میں تحریر فرمایاہے کہ، اللہ تعالیٰ نے آتواالزکوٰۃ کا حکم فرمایا، اور ایتاء میں تملیک کے معنیٰ پائے جاتے ہیں، اور اسی وجہ سے اللہ نے زکوٰۃ کو صدقہ سے تعبیر کیا ہے اور تصدق میں تملیک ہے۔ 

اسی طرح صاحب ہدایہ صاحب فتح القدیر صاحب بنایہ صاحب بحر زکوٰۃ کے مال کومسجد اور کفن دفن میں خرچ کرنے کے عدمِ جواز کے پورے مسئلے کو بیان کرنے کے بعد اس کی وجہ تحریر فرماتے ہیں کہ زکوٰۃ میں تملیک یہ جزو لاینفک ہے بغیر تملیک کہ زکوۃ ادا نہیں ہوگی۔ 

الخلاصۃ الفقہیہ میں تو تملیک کو اصل کا درجہ دیتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں کہ، زکوٰۃ بلا تملیکِ مال درست نہیں ہے، پھر ایک قاعدہ بیان کیا ہے کہ ہر ایسی عبادت جو تملیک سے خالی ہو وہاں زکوۃ دینادرست نہیں ہے۔

لہذا صورت مسئولہ میں وقف شدہ عمارت پر زکوۃ کی رقم ادا کرنا درست نہیں ہے 


حیلۂ تملیک

البتہ حیلۂ تملیک سے زکوۃ کی رقم اس عمارت میں صرف کرنا درست ہے اس کا طریقہ یہ ہے کہ کسی مستحق زکوٰۃ شخص کو کسی عوض کے بغیر زکوٰۃ کی رقم کا مالک بنادے یا امام صاحب اگر مستحق زکوۃ ہے تو اس کو مالک بناکر اس کو اس بات کی ترغیب دی جائے کہ وہ اس کی تعمیر کردے اس لئے کہ فقہاء نے حیلۂ تملیک کی جو تعریف بیان کی ہے وہ اس طرح ہے کہ کسی مستحق زکوٰۃ شخص کو مالک بناکر اس کے واسطے سے کسی ایسے دینی یا رفاہی کام میں خرچ کرنا جہاں زکوٰۃ کی رقم کا شرعا استعمال کرنا درست نہ ہو حیلۂ تملیک کہا جاتا ہے۔


بدائع الصنائع میں ہے 

وقد أمراللہ تعالی الملاک بإیتاء الزکوٰۃ لقولہ عزوجل وآتواالزکوٰۃ والایتاء ھو التملیک ولذاسمیٰ اللہ تعالیٰ الزکوٰۃ صدقۃ بقولہ عزوجل إنما الصدقات للفقرآء والتصدق تملیک (بدائع ۲/ ۴۵۶)


ہدایہ میں پ

لإنعدام الملک وھوالرکن۔ (ہدایہ جلد۱/ ۲۲۲)


فتح القدیر میں ہے 

لإنعدام التملیک وھوالرکن: فإن اللہ تعالیٰ سماھا صدقۃ،وحقیقۃ الصدقۃ تملیک المال من الفقیر (فتح القدیر۲/۲۷۲)


البانیہ میں ہے

لأن الرکن فی الزکوٰۃ التملیک من الفقیر۔ (البنایہ ۳/ ۴۶۲)


البحر الرائق میں ہے 

وعدم الجواز لإنعدام التملیک الذی ھو الرکن۔ (البحرالرئق۲/۲۷۲)


الخلاصۃ الفقہیہ میں ہے 

والأصل فیہ أن الواجب فیہ فعل الإیتاء فی جزء من المال، ولا یحصل الإیتاء إلا بالتملیک، فکل قربۃ خلت عن التملیک لایجزیٔ عن الزکوٰۃ۔ (الخلاصۃ الفقہیہ ص۴۵۳)


التاتارخانیہ میں ہے

والحیلۃ لمن أراد ذالک أن یتصدق ینوی الزکوٰۃ علی فقیر،ثم یأمرہ بعد ذالک بالصرف إلی ھذہ الوجوہ،فیکون لصاحب المال ثواب الصدقۃ ولذلک الفقیر ثواب ھذاالصرف۔ التاتارخانیہ جدید ۳/۲۰۸


واللہ اعلم باالصواب والیہ المرجع والمآب 

العارض: مفتی آصف بن محمد گودھروی


اتوار، 9 مارچ، 2025

اموال زکوۃ میں اداء کا وجوب کب ہوگا سوال نمبر ۵۰۰

 سوال

بنتِ حوا کے پاس پچھلے 5 مہینوں سے نصاب کے برابر یا اس سے زیادہ مال موجود ہے، جس پر ابھی سال مکمل نہیں ہوا۔

تو کیا اس رقم پر زکوٰۃ فرض ہوگی یا سال مکمل ہونے کے بعد زکوٰۃ نکالنی ہوگی؟


سائل: عنایت اللہ پالنپوری


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی


نصاب زکوۃ میں حاصل ہونے والے مال کی دو حالتیں ہوتی ہے۔

ایک حالت یہ ہے کہ حاصل ہونے والا مال، مال مبتدی ہو یعنی جس وقت وہ مال حاصل ہوا تو حصول کے وقت اس کے پاس پہلے سے اتنا مال نہیں تھا کہ وہ شرعی نصاب کا مالک ہو جائے تو ایسی صورت میں اس مال پر زکوۃ کی ادائیگی اس وقت لازم ہوگی جب اس مال پر سال گزر جائے۔


شرعی نصاب یہ ہے

ا۔۔۔ سونا جبکہ ساڑھے سات تولہ(۸۷/٤٨ 87.48 گرام) یا اس سے زیادہ ہو۔

۲۔۔۔ چاندی جبکہ ساڑھے باون تولہ ہو(٦١٢/٣٦ 612.36 گرام) یا اس سے زیادہ ہو۔

۳۔۔۔ روپیہ، پیسہ، جبکہ اس کی مالیت ساڑھےسات تولہ سونا (۸۷/٤٨ 87.48 گرام) یا ساڑھے باون تولہ چاندی(٦١٢/٣٦ 612.36 گرام) کی مالیت کے بقدر ہو.

٤۔۔۔ مالِ تجارت جبکہ اس کی مالیت ساڑھےسات تولہ سونا (۸۷/٤٨ 87.48 گرام) یا ساڑھے باون تولہ چاندی(٦١٢/٣٦ 612.36 گرام) کی مالیت کے برابر ہو۔


دوسری حالت مال مستفاد کی ہے یعنی کوئی شخص پہلے سے شرعی نصاب کا مالک تھا اور اس پر زکوۃ واجب تھی پھر درمیان سال میں کچھ مال حاصل ہوا تو یہ مال مال مستفاد کی قبیل سے ہیں اور مال مستفاد یعنی درمیان سال میں جو مال کسی بھی اعتبار سے حاصل ہو اس کا حکم یہ ہے کہ اس کو بھی اسی نصاب سے ملا کر زکوۃ نکالنا لازم ہوگی لہذا مزکی ( زکوۃ دینے والا اپنی زکوۃ دینے کی تاریخ اور مہینہ متعین کر لے اسکے بعد سال کے درمیان جتنا بھی مال حاصل ہوتا رہے سونا چاندی یا نقد رقم سے یا مال تجارت سے ان سب کو ملا کر زکوۃ اپنی متعینہ تاریخ میں نکالے گا یہ مال مستفاد کا حکم ہے۔


مسؤلہ صورت میں اگر وہ پہلے سے صاحب نصاب تھی تو اس کو ماقبل نصاب کے ساتھ ملاکر اس پہلے نصاب کا سال مکمل ہوجائے تو دونوں مالوں کی زکوۃ ایک ساتھ واجب ہوگی چاہے دوسرے مال پر سال پورا ہوا ہو یا نہ ہوا ہو۔

اور اگر وہ پہلے سے صاحب نصاب نہیں تھی تو اس پر زکوۃ کی ادائیگی اس وقت لازم ہوگی جب اس مال پر سال گزر جائے۔

 

الھدایة کتاب الزکوة میں ہے۔

وفی الھدایة الزکوة واجبة علی الحر العاقل البالغ المسلم اذا ملک نصابا ملکا تاما و حال علیہ الحول، (الھدایة کتاب الزکوة ١/٢٠٠)


فتاوی عالمگیری میں ہے۔

ومن كان له نصاب فاستفاد في اثناء الحول مالا من جنسه ضمه الى ماله وزكـاه المستفاد من نمائه اولا وبأى وجه استفاد ضمہ۔ (فتاوی عالمگیری ١/١٧٥)۔


واللہ اعلم باالصواب والیہ المرجع والمآب 

العارض: مفتی آصف بن محمد گودھروی


قرض پر دی ہوئی رقم پر زکوۃ کا حکم سوال نمبر ٤٩٩

 سوال

زید نے حارث کو 1.6 لاکھ بطورِ قرض دیے ہیں۔ اب حارث اس حالت میں نہیں ہے کہ قرض واپس کر سکے، لیکن اس کی نیت ہے کہ وہ قرض واپس کرے گا، مگر اس نے ابھی کوئی وقت مقرر نہیں کیا اور فی الحال وہ قرض واپس کرنے کی پوزیشن میں بھی نہیں ہے۔ زید کے پاس اس قرض کے علاوہ کوئی اور رقم بھی موجود نہیں ہے کہ کسی دوسری رقم میں سے اس قرض کی زکوٰۃ ادا کر سکے۔

تو اس حالت میں زکوٰۃ کیسے ادا کرنی ہوگی؟ یا زکوٰۃ قرض واپس ملنے کے بعد ادا کرنی ہوگی؟

سائل عنایت اللہ پالنپوری 


الجواب وباللہ التوفیق 

باسمہ سبحانہ وتعالی 


کسی صاحب نصاب شخص کا مال دوسرے شخص کے پاس بطور قرض موجود ہو، اور وہ مقروض اس کا اقرار بھی کر رہا ہو، اور اس سے ملنے کی امید بھی ہو، چاہے ابھی اس کے پاس اتنی حیثیت نہیں ہے کہ وہ ابھی ادا کرسکے اس کے باوجود اس مال پر سال گزرنے کی صورت میں قرض دینے والے پر زکوۃ واجب ہوگی، البتہ زکوۃ کی ادائیگی قرض وصول کرنے کے بعد واجب ہوگی، جتنا قرض وصول ہوگا اتنے پر واجب ہوگی، البتہ جب قرض وصول ہوگا تواس کی گزشتہ سالوں کی زکاۃ بھی اس پر واجب ہوگی ۔


صورت مسئولہ میں چونکہ قرض لینے والا دینے کا اقرار کرتا ہے تو اس پر زکوۃ واجب ہوگی البتہ ادائگی کا حکم وصولیابی کے بعد ہوگا۔


فتاویٰ شامی میں ہے 

( تجب) زكاتها إذا تم نصابا وحال الحول، لكن لا فورا بل (عند قبض أربعين درهما من الدين) القوي كقرض (وبدل مال تجارة) فكلما قبض أربعين درهما يلزمه درهم ( الدرالمختار على صدر ردالمحتار، كتاب الزكوة ، باب زكوة المال ١/٢٣٦ دارالكتب العلمية)


واللہ أعلم بالصواب والیہ المرجع والمآب 

العارض مفتی آصف بن محمد گودھروی

جمعہ، 7 مارچ، 2025

معتدہ اپنی عدت کہا گزارے سوال نمبر ٤٩٨

سوال 

السلام علیکم ورحمت اللہ وبرکاتہ

بعد سلام بخیر رہ کر طالبِ خیر ہیں۔ حضرت مفتی صاحب ایک عورت عدت گذارنے کا حق کہاں رکھتی ہے ؟؟ شوہر کے گھر میں یا کسی اور جگہ؟ جواب دیکر شکریہ کا موقع فراہم کیجئے ۔جزاکم اللہ خیراً ۔فقط والسلام۔

العارض: مولانامحمد یاسین صاحب


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی


شوہر کے انتقال کے بعد شرعی اعتبار سے عورت کو اسی گھر میں عدت گزارنے کا حکم ہے جہاں بیوی اپنے شوہر کے ساتھ اس کے انتقال سے پہلے رہا کرتی تھی لہذا خاوند کی وفات کے وقت جس مکان میں عورت سکونت پذیر ہو اسی مکان میں اس کو عدت پوری کرنا لازم ہے۔

البتہ کچھ اعذار کی وجہ سے شریعت نے اس کو دوسری جگہ منتقل ہونے کی اجازت دی ہے۔

وہ اعذار یہ ہے۔

طبیعت زیادہ خراب ہوجائے اور شوہر کے گھر دیکھ بھال کا انتظام نہ ہو تومجبوری میں دوسری جگہ عدت گذارنا جائز ہے۔

ساس سسر کے ساتھ رہتی ہو دیور وغیرہ کا آنا جانا رہتا ہو جس کی وجہ سے عزت وآبرو کا خطرہ ہو اور پردے کا صحیح نظم نہ ہو تو دوسری جگہ عدت گذارنا جائز ہے۔

شوہر کے انتقال کے بعد ورثہ نے گھر تقسیم کردیا اور معتدہ کے حصے میں اتنا حصہ نہیں آیا کہ جس میں وہ عدت گذارسکے اور ورثہ نے ان کو مابقیہ حصے میں عدت گذارنے سے انکار کردیا تو دوسری جگہ عدت گذارنا جائز ہے۔

گھر کرایہ کا ہے اور کرایہ دینے کی طاقت نہیں ہے تو دوسری جگہ عدت گذارنا جائز ہے۔

گھر بہت زیادہ پرانا ہے اور گرنے کا خطرہ ہے تو دوسری جگہ عدت گذارنا جائز ہے۔

ایسی جگہ پر گھر ہے جہاں جان یا مال کے ضائع ہونے کا خطرہ ہے تو دوسری جگہ عدت گذارنا جائز ہے۔

ہدایہ اور فتاوی عالمگیری میں ہے۔

وعلی المعتدۃ ان تعتد فی المنزل الذی یضاف الیھا بالسکنی حال وقوع الفرقۃ والموت لقولہ تعالیٰ ولا تخرجوھن من بیوتھن ، والبیت المضاف الیھا ھو البیت الذی تسکنہ وقال علیہ السلام للتی قتل زوجھا اسکنی فی بیتک حتی یبلغ الکتاب اجل‘ وان کان نصیبھا من دارالمیت لا یکفیھا فاخرجھا الورثۃ عن نصیبھم انتقلت لان ھذا انتقال بعذر (ہدایہ ٢/٤٠٨ )فصل فی الحداد فتاویٰ عالمگیری ١/٥٣٥)


بدائع الصنائع میں ہے۔ 

وأما في حالة الضرورة فإن اضطرت إلى الخروج من بيتها بأن خافت سقوط منزلها أو خافت على متاعها أو كان المنزل بأجرة و لاتجد ما تؤديه في أجرته في عدة الوفاة فلا بأس عند ذلك أن تنتقل، وإن كانت تقدر على الأجرة لاتنتقل، وإن كان المنزل لزوجها و قد مات عنها فلها أن تسكن في نصيبها إن كان نصيبها من ذلك ما تكتفي به في السكنى وتستتر عن سائر الورثة ممن ليس بمحرم لها، و إن كان نصيبها لايكفيها أو خافت على متاعها منهم فلا بأس أن تنتقل، وإنما كان كذلك؛ لأن السكنى وجبت بطريق العبادة حقًّا لله تعالى عليها، والعبادات تسقط بالأعذار، وقد روي أنه لما قتل عمر - رضي الله عنه - نقل علي - رضي الله عنه - أم كلثوم - رضي الله عنها - لأنها كانت في دار الإجارة، وقد روي أن عائشة - رضي الله عنها - نقلت أختها أم كلثوم بنت أبي بكر - رضي الله عنه - لما قتل طلحة - رضي الله عنه - فدلّ ذلك على جواز الانتقال للعذر، وإذا كانت تقدر على أجرة البيت في عدة الوفاة فلا عذر، فلا تسقط عنها العبادة كالمتيمم إذا قدر على شراء الماء بأن وجد ثمنه وجب عليه الشراء وإن لم يقدر لايجب لعذر العدم. كذا ههنا، وإذا انتقلت لعذر يكون سكناها في البيت الذي انتقلت إليه بمنزلة كونها في المنزل الذي انتقلت منه في حرمة الخروج عنه؛ لأن الانتقال من الأول إليه كان لعذر فصار المنزل الذي انتقلت إليه كأنه منزلها من الأصل فلزمها المقام فيه حتى تنقضي العدۃ۔ (بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع مطبوعہ: دار الکتاب العلمیه ٤/٤۵۱)


فتاویٰ شامی میں ہے

(طلقت) أو مات وهي زائرة (في غير مسكنها عادت إليه فورا) لوجوبه عليها(وتعتدان) أي معتدة طلاق وموت (في بيت وجبت فيه) ولا يخرجان منه (إلا أن تخرج أو يتهدم المنزل، أو تخاف) انهدامه، أو (تلف مالها، أو لاتجد كراء البيت) ونحو ذلك من الضرورات فتخرج لأقرب موضع إليه۔ (فتاویٰ شامی كتاب العدة، ۵/۲۲۵ مطبوعة:مكتبة زكريا، ديوبند

واللہ اعلم بالصواب والیہ المرجع والمآب

العارض مفتی آصف بن محمد گودھروي