اتوار، 9 مارچ، 2025

قرض پر دی ہوئی رقم پر زکوۃ کا حکم سوال نمبر ٤٩٩

 سوال

زید نے حارث کو 1.6 لاکھ بطورِ قرض دیے ہیں۔ اب حارث اس حالت میں نہیں ہے کہ قرض واپس کر سکے، لیکن اس کی نیت ہے کہ وہ قرض واپس کرے گا، مگر اس نے ابھی کوئی وقت مقرر نہیں کیا اور فی الحال وہ قرض واپس کرنے کی پوزیشن میں بھی نہیں ہے۔ زید کے پاس اس قرض کے علاوہ کوئی اور رقم بھی موجود نہیں ہے کہ کسی دوسری رقم میں سے اس قرض کی زکوٰۃ ادا کر سکے۔

تو اس حالت میں زکوٰۃ کیسے ادا کرنی ہوگی؟ یا زکوٰۃ قرض واپس ملنے کے بعد ادا کرنی ہوگی؟

سائل عنایت اللہ پالنپوری 


الجواب وباللہ التوفیق 

باسمہ سبحانہ وتعالی 


کسی صاحب نصاب شخص کا مال دوسرے شخص کے پاس بطور قرض موجود ہو، اور وہ مقروض اس کا اقرار بھی کر رہا ہو، اور اس سے ملنے کی امید بھی ہو، چاہے ابھی اس کے پاس اتنی حیثیت نہیں ہے کہ وہ ابھی ادا کرسکے اس کے باوجود اس مال پر سال گزرنے کی صورت میں قرض دینے والے پر زکوۃ واجب ہوگی، البتہ زکوۃ کی ادائیگی قرض وصول کرنے کے بعد واجب ہوگی، جتنا قرض وصول ہوگا اتنے پر واجب ہوگی، البتہ جب قرض وصول ہوگا تواس کی گزشتہ سالوں کی زکاۃ بھی اس پر واجب ہوگی ۔


صورت مسئولہ میں چونکہ قرض لینے والا دینے کا اقرار کرتا ہے تو اس پر زکوۃ واجب ہوگی البتہ ادائگی کا حکم وصولیابی کے بعد ہوگا۔


فتاویٰ شامی میں ہے 

( تجب) زكاتها إذا تم نصابا وحال الحول، لكن لا فورا بل (عند قبض أربعين درهما من الدين) القوي كقرض (وبدل مال تجارة) فكلما قبض أربعين درهما يلزمه درهم ( الدرالمختار على صدر ردالمحتار، كتاب الزكوة ، باب زكوة المال ١/٢٣٦ دارالكتب العلمية)


واللہ أعلم بالصواب والیہ المرجع والمآب 

العارض مفتی آصف بن محمد گودھروی

کوئی تبصرے نہیں: