سوال
السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام مسئلہ ذيل کے با رے میں
کرایہ کے کمروں کی زكوة کس اعتبار سے ادا کی جائے گی پورے سال کا کرایہ کے حساب سے یا کمرے کی زمین کے اعتبار سے مثلا کمرے کا ماہانہ کرایہ ٢٠٠٠ روپیے ہے اور کمرے کی قیمت دو لاکھ ہے تو کس حساب سے زكوة ادا کی جائے گی برائے مہربانی مدلل جواب عنایت فرمائیں
سائل: مولوی طیب پانی پت ہریانہ
الجواب وباللہ التوفیق
باسمہ سبحانہ وتعالی
کسی بھی چیز میں زکوۃ کے وجوب کی شرطِ اول مال نامی یعنی تجارت کے لئے ہونا ہے اگر وہ چیز مال تجارت کے لئے نہیں ہے تو اس پر زکوۃ واجب نہیں ہوگی۔
مسؤلہ صورت میں کمرے کرایہ پر دئے ہوئے ہے تجارت کے لئے نہیں ہے تو کرایہ پر زکوۃ واجب ہوگی جب وہ نصاب تک پہنچ جائے اور اس پر سال گزر جائے کمروں اور اس کی زمیں کی قیمت پر زکات واجب نہیں ہوگی، اسی طرح اگر کرایہ سال بھر محفوظ نہ رہتا ہو، استعمال میں آجاتا ہو تو اس صورت میں استعمال شدہ کرایہ کی رقم پر بھی زکوۃ لازم نہیں ہوگی۔
البتہ اگر پہلے سے صاحبِ نصاب ہو اور ہر سال زکوۃ ادا کرتا ہو تو اس صورت میں جس دن اس کی زکوۃ کا سال مکمل ہو رہا ہو، اس دن تک جتنا کرایہ اس کے پاس موجود ہو استعمال میں نہ آیا ہو اسے کل مال کے ساتھ ملاکر زکوۃ ادا کرنا لازم ہوگا، اسی طرح اگر کرایہ کی رقم جمع کرکے وہ صاحبِ نصاب ہوجائے تو سال پورا ہونے پر زکوۃ ادا کرنی ہوگی
امدادالفتاوی میں ہے
پس مواضع اگر واسطے تجارت کے ہیں تو بعد حولان حول ان کی قیمت و منافع پر زکوۃ لازم ہوگی ۔ اور اگر اجارہ کے لیے ہیں یا اپنے مصارف کے لیے ہیں پس خود ان میں تو زکوۃ واجب نہیں ۔۔۔اور ایسے ہی اگر منافع یا کرایہ جنس غلات سے ہو، البتہ اگر زر کرایہ یا منافع نقود میں سے ہو اور اس پر سال بھر گزر جاوے اس میں زکوۃ واجب ہے۔ (امدادالفتاوی، ۲/۵٤ ،کتاب الزکوۃ و الصدقات ط مکتبہ دارالعلوم کراچی )
فتاوی قاضی خان میں ہے
ولو اشترى الرجل داراً أو عبداً للتجارة، ثم أجره يخرج من أن يكون للتجارة؛ لأنه لما أجر فقد قصد المنفعة، ولو اشترى قدوراً من صفر يمسكها أو يؤاجرها لا تجب فيها الزكاة كما لا تجب في بيوت الغلة، ولو دخل من أرضه حنطة يبلغ قيمتها قيمة نصاب ونوى أن يمسكها ويبيعها فأمسكها حولاً لا تجب فيها الزكاة كما في الميراث۔ (الفتاوی قاضی خان ۱/۲۲۲ کتاب الزکوۃ فصل في مال التجارۃ، ط مکتبة دار الکتب العلمیہ)
فتاوی عالمگیری میں ہے
ومنہا فراغ المال عن حاجتہ الأصلیۃ فلیس في دور السکنیٰ وثیاب البدن وأثاث المنزل ودواب الرکوب وعبید الخدمۃ وسلاح الاستعمال زکاۃ وکذا طعام أہلہ۔ (الفتاوی عالمگیری قدیم ۱/۱۷۲ کتاب الزکاۃ)
واللہ أعلم بالصواب والیہ المرجع والمآب
العارض مفتی آصف بن محمد گودھروی
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں