ہفتہ، 15 مارچ، 2025

مقروض آدمی پر زکوۃ کا حکم سوال نمبر ۵۰۲

 سوال 

السلام علیکم و رحمۃاللہ وبرکاتہ 

مسئلہ یہ ہے کہ ایک بندے کے پاس ایک پلاٹ ہے جو بیچنے کی نیت سے لیا ہوا ہے اور دو سال ہو چکے ہے 

اور گھر کی مستورات کے کچھ زیورات ایک آدھ لاکھ کے ہیں اور ہر سال وہ زکوۃ نکالتا تھا لیکن اب اس نے ایک Ashok Leyland کمپنی کی گاڑی دوسروں سے قرض لیکر نقد لی ہوئی ہے اب اس گاڑی میں آدھی رقم تو قرض کی ہیں اور وہ دینا باقی ہے، تو کیا اس پر زکوۃ ہوگی یا نہیں؟ شریعت کی روشنی میں جواب مطلوب ہے 

سائل: عبدالحی سالک اورنگ آباد مہاراشٹر


الجواب وباللہ التوفیق 

باسمہ سبحانہ وتعالی 


اگر کسی شخص کے پاس اموال زکوۃ موجود ہے اور اس پر قرضے بھی ہے، تو اس کی تین صورتیں ہوگی

پہلی صورت یہ ہے کہ اس کے پاس جتنا مال موجود ہے اتنی ہی مقدار میں اس شخص پر قرض بھی ہے، یا مال کم ہے اور قرض زیادہ ہے تو ایسی صورت میں اس شخص پر زکوۃ فرض نہیں ہے۔

دوسری صورت یہ ہے کہ مقروض کے پاس اتنا مال ہے کہ قرض اداکرنے کے بعد بقیہ مال نصاب کو نہیں پہنچتا بلکہ نصاب سے کم ہے تو اس صورت میں بھی چوںکہ وہ نصاب سے کم مال کا مالک ہے اس لئے اس پر زکوۃ واجب نہیں ہوگی۔

تیسری صورت یہ ہے کہ مقروض کے پاس اتنا مال ہے کہ قرض اداکرنے کے بعد بقیہ مال نصاب کو پہنچ جاتاہے اور اس پر سال بھی گزرچکا ہو اس صورت میں ایسے شخص پر قرض کے پیسے الگ کرنے کے بعد جو مال باقی رہے گا اس مال کی زکوۃ اس کے حصاب سے ادا کرنا لازم ہے۔

صورت مسئولہ میں سوال میں مذکور مقروض شخص کے پاس دیکھا جائے گا کہ پلاٹ کی قیمت کیا ہے اور قرضہ کتنا ہے اگر قرض کی ادائیگی کے بعد باقی مال نصاب کے برابر یا نصاب سے زائد باقی بچتا ہے اور سال گزرچکا ہو تو اس بقیہ مال کی زکوۃ اس کے حصاب سے ادا کرنا اس پر لازم ہے۔

اور اگر اس مقروض کے پاس پلاٹ کی قیمت صرف قرض کے برابر ہو یا قرض اد اکرنے کے بعد اس کے پاس کچھ نہ بچتا ہو اس صورت میں زکوۃ لازم نہ ہوگی۔


فتح القدیر میں ہے 

ومن كان عليه دين يحيط بماله فلا زكاة عليه ) وقال الشافعي : تجب لتحقق السبب وهو ملك نصاب تام ولنا أنه مشغول بحاجته الأصلية فاعتبر معدوما كالماء المستحق بالعطش وثياب البذلة والمهنة ( وإن كان ماله أكثر من دينه زكى الفاضل إذا بلغ نصابا ) لفراغه عن الحاجة الأصلية ، والمراد به دين له مطالب من جهة العباد حتى لا يمنع دين النذر والكفارة۔ (فتح القدير لكمال بن الهمام - ٣/٤٧۵) فقط و الله أعلم


واللہ أعلم بالصواب والیہ المرجع والمآب 

العارض مفتی آصف بن محمد گودھروی 

کوئی تبصرے نہیں: