اتوار، 9 مارچ، 2025

اموال زکوۃ میں اداء کا وجوب کب ہوگا سوال نمبر ۵۰۰

 سوال

بنتِ حوا کے پاس پچھلے 5 مہینوں سے نصاب کے برابر یا اس سے زیادہ مال موجود ہے، جس پر ابھی سال مکمل نہیں ہوا۔

تو کیا اس رقم پر زکوٰۃ فرض ہوگی یا سال مکمل ہونے کے بعد زکوٰۃ نکالنی ہوگی؟


سائل: عنایت اللہ پالنپوری


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی


نصاب زکوۃ میں حاصل ہونے والے مال کی دو حالتیں ہوتی ہے۔

ایک حالت یہ ہے کہ حاصل ہونے والا مال، مال مبتدی ہو یعنی جس وقت وہ مال حاصل ہوا تو حصول کے وقت اس کے پاس پہلے سے اتنا مال نہیں تھا کہ وہ شرعی نصاب کا مالک ہو جائے تو ایسی صورت میں اس مال پر زکوۃ کی ادائیگی اس وقت لازم ہوگی جب اس مال پر سال گزر جائے۔


شرعی نصاب یہ ہے

ا۔۔۔ سونا جبکہ ساڑھے سات تولہ(۸۷/٤٨ 87.48 گرام) یا اس سے زیادہ ہو۔

۲۔۔۔ چاندی جبکہ ساڑھے باون تولہ ہو(٦١٢/٣٦ 612.36 گرام) یا اس سے زیادہ ہو۔

۳۔۔۔ روپیہ، پیسہ، جبکہ اس کی مالیت ساڑھےسات تولہ سونا (۸۷/٤٨ 87.48 گرام) یا ساڑھے باون تولہ چاندی(٦١٢/٣٦ 612.36 گرام) کی مالیت کے بقدر ہو.

٤۔۔۔ مالِ تجارت جبکہ اس کی مالیت ساڑھےسات تولہ سونا (۸۷/٤٨ 87.48 گرام) یا ساڑھے باون تولہ چاندی(٦١٢/٣٦ 612.36 گرام) کی مالیت کے برابر ہو۔


دوسری حالت مال مستفاد کی ہے یعنی کوئی شخص پہلے سے شرعی نصاب کا مالک تھا اور اس پر زکوۃ واجب تھی پھر درمیان سال میں کچھ مال حاصل ہوا تو یہ مال مال مستفاد کی قبیل سے ہیں اور مال مستفاد یعنی درمیان سال میں جو مال کسی بھی اعتبار سے حاصل ہو اس کا حکم یہ ہے کہ اس کو بھی اسی نصاب سے ملا کر زکوۃ نکالنا لازم ہوگی لہذا مزکی ( زکوۃ دینے والا اپنی زکوۃ دینے کی تاریخ اور مہینہ متعین کر لے اسکے بعد سال کے درمیان جتنا بھی مال حاصل ہوتا رہے سونا چاندی یا نقد رقم سے یا مال تجارت سے ان سب کو ملا کر زکوۃ اپنی متعینہ تاریخ میں نکالے گا یہ مال مستفاد کا حکم ہے۔


مسؤلہ صورت میں اگر وہ پہلے سے صاحب نصاب تھی تو اس کو ماقبل نصاب کے ساتھ ملاکر اس پہلے نصاب کا سال مکمل ہوجائے تو دونوں مالوں کی زکوۃ ایک ساتھ واجب ہوگی چاہے دوسرے مال پر سال پورا ہوا ہو یا نہ ہوا ہو۔

اور اگر وہ پہلے سے صاحب نصاب نہیں تھی تو اس پر زکوۃ کی ادائیگی اس وقت لازم ہوگی جب اس مال پر سال گزر جائے۔

 

الھدایة کتاب الزکوة میں ہے۔

وفی الھدایة الزکوة واجبة علی الحر العاقل البالغ المسلم اذا ملک نصابا ملکا تاما و حال علیہ الحول، (الھدایة کتاب الزکوة ١/٢٠٠)


فتاوی عالمگیری میں ہے۔

ومن كان له نصاب فاستفاد في اثناء الحول مالا من جنسه ضمه الى ماله وزكـاه المستفاد من نمائه اولا وبأى وجه استفاد ضمہ۔ (فتاوی عالمگیری ١/١٧٥)۔


واللہ اعلم باالصواب والیہ المرجع والمآب 

العارض: مفتی آصف بن محمد گودھروی


کوئی تبصرے نہیں: