سوال
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
مسئلہ یہ ہے کہ ایک گاؤں میں مسجد کے امام صاحب کا مکان تعمیر کرنا ہے جو کہ بہت ہی خستہ اور پرانا ہو چکا ہے رہنے کے لائق بھی نہیں ہے
مسجد کے امام کے لیے ہی وہ وقف کیا گیا ہے اب اس کو بنوانا ہے تو بستی والے اس کو بنوانے سے قاصر ہے
تو کیا زکوۃ کی رقم جمع کر کے اس کو بنوا سکتے ہیں؟ یا نہیں شریعت کی روشنی میں جواب مطلوب ہے
سائل: عبدالحی سالک اور نگ آباد
الجواب وباللہ التوفیق
باسمہ سبحانہ وتعالیٰ
زکوۃ اور دیگر صدقاتِ واجبہ کے مصارف فقراء ومساکین وغیرہ ہیں جن پر تملیکاً خرچ کرنا ضروری ہے، نیز حسبِ تصریح فقہائے حنفیہ اموالِ زکوٰۃ میں تملیک شرط ہے یعنی اس مال کو کسی اہل مصرفِ زکوٰۃ کی ملکیت میں بحیثیتِ تملیک کہ دینا ضروری ہے۔
صاحب بدائع نے بدائع الصنائع میں تحریر فرمایاہے کہ، اللہ تعالیٰ نے آتواالزکوٰۃ کا حکم فرمایا، اور ایتاء میں تملیک کے معنیٰ پائے جاتے ہیں، اور اسی وجہ سے اللہ نے زکوٰۃ کو صدقہ سے تعبیر کیا ہے اور تصدق میں تملیک ہے۔
اسی طرح صاحب ہدایہ صاحب فتح القدیر صاحب بنایہ صاحب بحر زکوٰۃ کے مال کومسجد اور کفن دفن میں خرچ کرنے کے عدمِ جواز کے پورے مسئلے کو بیان کرنے کے بعد اس کی وجہ تحریر فرماتے ہیں کہ زکوٰۃ میں تملیک یہ جزو لاینفک ہے بغیر تملیک کہ زکوۃ ادا نہیں ہوگی۔
الخلاصۃ الفقہیہ میں تو تملیک کو اصل کا درجہ دیتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں کہ، زکوٰۃ بلا تملیکِ مال درست نہیں ہے، پھر ایک قاعدہ بیان کیا ہے کہ ہر ایسی عبادت جو تملیک سے خالی ہو وہاں زکوۃ دینادرست نہیں ہے۔
لہذا صورت مسئولہ میں وقف شدہ عمارت پر زکوۃ کی رقم ادا کرنا درست نہیں ہے
حیلۂ تملیک
البتہ حیلۂ تملیک سے زکوۃ کی رقم اس عمارت میں صرف کرنا درست ہے اس کا طریقہ یہ ہے کہ کسی مستحق زکوٰۃ شخص کو کسی عوض کے بغیر زکوٰۃ کی رقم کا مالک بنادے یا امام صاحب اگر مستحق زکوۃ ہے تو اس کو مالک بناکر اس کو اس بات کی ترغیب دی جائے کہ وہ اس کی تعمیر کردے اس لئے کہ فقہاء نے حیلۂ تملیک کی جو تعریف بیان کی ہے وہ اس طرح ہے کہ کسی مستحق زکوٰۃ شخص کو مالک بناکر اس کے واسطے سے کسی ایسے دینی یا رفاہی کام میں خرچ کرنا جہاں زکوٰۃ کی رقم کا شرعا استعمال کرنا درست نہ ہو حیلۂ تملیک کہا جاتا ہے۔
بدائع الصنائع میں ہے
وقد أمراللہ تعالی الملاک بإیتاء الزکوٰۃ لقولہ عزوجل وآتواالزکوٰۃ والایتاء ھو التملیک ولذاسمیٰ اللہ تعالیٰ الزکوٰۃ صدقۃ بقولہ عزوجل إنما الصدقات للفقرآء والتصدق تملیک (بدائع ۲/ ۴۵۶)
ہدایہ میں پ
لإنعدام الملک وھوالرکن۔ (ہدایہ جلد۱/ ۲۲۲)
فتح القدیر میں ہے
لإنعدام التملیک وھوالرکن: فإن اللہ تعالیٰ سماھا صدقۃ،وحقیقۃ الصدقۃ تملیک المال من الفقیر (فتح القدیر۲/۲۷۲)
البانیہ میں ہے
لأن الرکن فی الزکوٰۃ التملیک من الفقیر۔ (البنایہ ۳/ ۴۶۲)
البحر الرائق میں ہے
وعدم الجواز لإنعدام التملیک الذی ھو الرکن۔ (البحرالرئق۲/۲۷۲)
الخلاصۃ الفقہیہ میں ہے
والأصل فیہ أن الواجب فیہ فعل الإیتاء فی جزء من المال، ولا یحصل الإیتاء إلا بالتملیک، فکل قربۃ خلت عن التملیک لایجزیٔ عن الزکوٰۃ۔ (الخلاصۃ الفقہیہ ص۴۵۳)
التاتارخانیہ میں ہے
والحیلۃ لمن أراد ذالک أن یتصدق ینوی الزکوٰۃ علی فقیر،ثم یأمرہ بعد ذالک بالصرف إلی ھذہ الوجوہ،فیکون لصاحب المال ثواب الصدقۃ ولذلک الفقیر ثواب ھذاالصرف۔ التاتارخانیہ جدید ۳/۲۰۸
واللہ اعلم باالصواب والیہ المرجع والمآب
العارض: مفتی آصف بن محمد گودھروی
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں