جمعہ، 7 مارچ، 2025

معتدہ اپنی عدت کہا گزارے سوال نمبر ٤٩٨

سوال 

السلام علیکم ورحمت اللہ وبرکاتہ

بعد سلام بخیر رہ کر طالبِ خیر ہیں۔ حضرت مفتی صاحب ایک عورت عدت گذارنے کا حق کہاں رکھتی ہے ؟؟ شوہر کے گھر میں یا کسی اور جگہ؟ جواب دیکر شکریہ کا موقع فراہم کیجئے ۔جزاکم اللہ خیراً ۔فقط والسلام۔

العارض: مولانامحمد یاسین صاحب


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی


شوہر کے انتقال کے بعد شرعی اعتبار سے عورت کو اسی گھر میں عدت گزارنے کا حکم ہے جہاں بیوی اپنے شوہر کے ساتھ اس کے انتقال سے پہلے رہا کرتی تھی لہذا خاوند کی وفات کے وقت جس مکان میں عورت سکونت پذیر ہو اسی مکان میں اس کو عدت پوری کرنا لازم ہے۔

البتہ کچھ اعذار کی وجہ سے شریعت نے اس کو دوسری جگہ منتقل ہونے کی اجازت دی ہے۔

وہ اعذار یہ ہے۔

طبیعت زیادہ خراب ہوجائے اور شوہر کے گھر دیکھ بھال کا انتظام نہ ہو تومجبوری میں دوسری جگہ عدت گذارنا جائز ہے۔

ساس سسر کے ساتھ رہتی ہو دیور وغیرہ کا آنا جانا رہتا ہو جس کی وجہ سے عزت وآبرو کا خطرہ ہو اور پردے کا صحیح نظم نہ ہو تو دوسری جگہ عدت گذارنا جائز ہے۔

شوہر کے انتقال کے بعد ورثہ نے گھر تقسیم کردیا اور معتدہ کے حصے میں اتنا حصہ نہیں آیا کہ جس میں وہ عدت گذارسکے اور ورثہ نے ان کو مابقیہ حصے میں عدت گذارنے سے انکار کردیا تو دوسری جگہ عدت گذارنا جائز ہے۔

گھر کرایہ کا ہے اور کرایہ دینے کی طاقت نہیں ہے تو دوسری جگہ عدت گذارنا جائز ہے۔

گھر بہت زیادہ پرانا ہے اور گرنے کا خطرہ ہے تو دوسری جگہ عدت گذارنا جائز ہے۔

ایسی جگہ پر گھر ہے جہاں جان یا مال کے ضائع ہونے کا خطرہ ہے تو دوسری جگہ عدت گذارنا جائز ہے۔

ہدایہ اور فتاوی عالمگیری میں ہے۔

وعلی المعتدۃ ان تعتد فی المنزل الذی یضاف الیھا بالسکنی حال وقوع الفرقۃ والموت لقولہ تعالیٰ ولا تخرجوھن من بیوتھن ، والبیت المضاف الیھا ھو البیت الذی تسکنہ وقال علیہ السلام للتی قتل زوجھا اسکنی فی بیتک حتی یبلغ الکتاب اجل‘ وان کان نصیبھا من دارالمیت لا یکفیھا فاخرجھا الورثۃ عن نصیبھم انتقلت لان ھذا انتقال بعذر (ہدایہ ٢/٤٠٨ )فصل فی الحداد فتاویٰ عالمگیری ١/٥٣٥)


بدائع الصنائع میں ہے۔ 

وأما في حالة الضرورة فإن اضطرت إلى الخروج من بيتها بأن خافت سقوط منزلها أو خافت على متاعها أو كان المنزل بأجرة و لاتجد ما تؤديه في أجرته في عدة الوفاة فلا بأس عند ذلك أن تنتقل، وإن كانت تقدر على الأجرة لاتنتقل، وإن كان المنزل لزوجها و قد مات عنها فلها أن تسكن في نصيبها إن كان نصيبها من ذلك ما تكتفي به في السكنى وتستتر عن سائر الورثة ممن ليس بمحرم لها، و إن كان نصيبها لايكفيها أو خافت على متاعها منهم فلا بأس أن تنتقل، وإنما كان كذلك؛ لأن السكنى وجبت بطريق العبادة حقًّا لله تعالى عليها، والعبادات تسقط بالأعذار، وقد روي أنه لما قتل عمر - رضي الله عنه - نقل علي - رضي الله عنه - أم كلثوم - رضي الله عنها - لأنها كانت في دار الإجارة، وقد روي أن عائشة - رضي الله عنها - نقلت أختها أم كلثوم بنت أبي بكر - رضي الله عنه - لما قتل طلحة - رضي الله عنه - فدلّ ذلك على جواز الانتقال للعذر، وإذا كانت تقدر على أجرة البيت في عدة الوفاة فلا عذر، فلا تسقط عنها العبادة كالمتيمم إذا قدر على شراء الماء بأن وجد ثمنه وجب عليه الشراء وإن لم يقدر لايجب لعذر العدم. كذا ههنا، وإذا انتقلت لعذر يكون سكناها في البيت الذي انتقلت إليه بمنزلة كونها في المنزل الذي انتقلت منه في حرمة الخروج عنه؛ لأن الانتقال من الأول إليه كان لعذر فصار المنزل الذي انتقلت إليه كأنه منزلها من الأصل فلزمها المقام فيه حتى تنقضي العدۃ۔ (بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع مطبوعہ: دار الکتاب العلمیه ٤/٤۵۱)


فتاویٰ شامی میں ہے

(طلقت) أو مات وهي زائرة (في غير مسكنها عادت إليه فورا) لوجوبه عليها(وتعتدان) أي معتدة طلاق وموت (في بيت وجبت فيه) ولا يخرجان منه (إلا أن تخرج أو يتهدم المنزل، أو تخاف) انهدامه، أو (تلف مالها، أو لاتجد كراء البيت) ونحو ذلك من الضرورات فتخرج لأقرب موضع إليه۔ (فتاویٰ شامی كتاب العدة، ۵/۲۲۵ مطبوعة:مكتبة زكريا، ديوبند

واللہ اعلم بالصواب والیہ المرجع والمآب

العارض مفتی آصف بن محمد گودھروي

کوئی تبصرے نہیں: