پیر، 28 اگست، 2023

فال کھلوانے کی شرعی حیثیت سوال نمبر ٤١٥

 سوال 

السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ 

 امید ہے کہ آپ خیریت کے ساتھ ھونگے عرض یہ ہے کہ میری کوئی چیز گم ھوگئی ھے تو اس کے لیے پھال ڈلوائی جاتی ھے تو شریعت کے اعتبار سے اس کا کیا حکم ہے؟ حضرت اسکی نوعیت یہ ہے کہ بعض لوگ ہاتھ دیکھتے ہیں پہر ھر کسی کے پاس مختلف طریقہ ہوتے ہیں کوئی تو اپنی موبائل میں وہ ایپ رکھے ہوے ہیں بعض قرآن پڑھ کر کرتے ہیں اور بعض دوسرے طریقوں سے کرتے ہیں  تو شرعا اسکا کیا حکم ہے؟ جزاکم اللہ خیرا

السائل: سیف اللہ صاحب  


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی


فال نکالنا کوئی شرعی چیز نہیں، اس پر یقین کرنا درست نہیں علمِ غیب صرف اللہ تعالی ہی کے پاس ہے، اور کائنات کی تمام چیزوں میں تصرف کرنے والی ذات صرف اللہ تعالیٰ کی ہے، اور اس کی مرضی کے بغیر کسی کو نہ کوئی خیر پہنچ سکتی ہے اور نہ ہی شر، لہذا فال نکالنا اور اس پر یقین یا عمل کرنا ناجائز ہے چاہے فال نکالنا کسی بھی اعتبار سے ہو اس لئے کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فال نکالنے والوں کے پاس جانے اور ان سے مستقبل کے بارے میں دریافت کرنے سے بھی منع فرمایا، البتہ کسی عالم یا ذی علم سے بطور مشورہ معلوم کرنا جائز ہے 

بدفالیاں بدشگونیاں اور توہمات کتاب میں مولانا عبدالروف سکھروی تحریر فرماتے ہیں کہ جب کسی شخص کی چوری ہو جاتی ہے تو بعض عالموں اور بعض مسجد کے اماموں کے ذریعے ایک خاص انداز اور خاص طریقے سے فال کھلوائی جاتی ہے اور اس کے سچ ہونے پر پورا عقیدہ ہوتا ہے اور فال میں جس شخص کا تعین ہوتا ہے آنکھیں بند کر کے اسی کو مجرم قرار دے کر مال مسروقہ اسی سے طلب کیا جاتا ہے جس میں بدنظمی اور بد گمانی یقینی ہو جاتی ہے اور آگے بڑھ کر الزامات تک نوبت پہنچ جاتے ہے اور باہم لڑائی جھگڑا علیحدہ رہا، جسمانی، ذہنی اور مالی پریشانی جدائی بھی درپیش ہوتی ہے۔

البتہ شریعت نے نیک فال لینے سے منع نہیں کیا ہے بلکہ نیک فال لینا پسندیدہ ہے اور سنت ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کثرت سے نیک فال لیا کرتے تھے خصوصاً آدمیوں کے ناموں سے اور ان کی جگہوں سے۔ اور نیک فال اس طرح لی جاتی ہے کہ مثلاً کوئی بیمار جب بیماری میں یہ خیال کرنے لگے کہ معلوم نہیں کہ مجھے صحت یابی ہوگی یا نہیں، پھر وہ کسی کو کہتا سنے کہ اے تندرست! تو مریض یہ سن کر خوش ہو جائے اور یہ سمجھے کہ اب مجھے شفا ہو جائے گی اور صحت ہو جائے گی یا کسی شخص کی کوئی شے گم ہو گئی ہو اور وہ اس کی تلاش و جستجو میں لگا ہوا ہو، اسی دوران کسی کو اپنے متعلق کہتا ہوا سنے کہ اے پانے والے! تو یہ شخص خوش ہو جائے اور یہ سمجھے کہ اب گمشدہ چیز مجھے مل جائے گی یا کوئی شخص راستہ بھول گیا اور وہ راستہ تلاش کر رہا تھا کہ اتنے میں کوئی شخص اس کو کہے کہ اے راستہ پانے والے! تو یہ شخص یہ گمان کرے کہ اب اس کو راستہ مل جائے گا تو اس کو نیک فال کہتے ہیں۔ (اشعۃ اللمعات) (مستفاد بدفالیاں بدشگونیاں اور توہمات ص ۳۱ ۔ ۳۸)


کتاب الفتاوی میں ہے کہ اللہ تعالی نے ہر انسان کی تقدیر لکھ دی ہے اور لکھ کر فرشتوں کے حوالہ بھی کی ہے، یہ قسمت انسان کے ہاتھ یا جسم پر نہیں لکھی جاتی ہے؛ اس لئے ہاتھ دیکھ کر لکیروں سے قسمت کا حال معلوم کرنا اور اس پر اعتماد کرنا سخت گناہ اور ناپسندیدہ ہے نہ شرعا ایسا کرنا درست ہے۔ ( کتاب الفتاوی ۱/۲٣٩)


شرح النووي میں ہے

والعراف هو الذي يدعي معرفة الشيء المسروق ومكان الضالة ونحوهما من الأمور، هكذا ذكره الخطابي في معالم السنن في كتاب البيوع، ثم ذكره في آخر الكتاب أبسط من هذا فقال: إن الكاهن هو الذي يدعي مطالعة علم الغيب ويخبر الناس عن الكوائن، قال: وكان في العرب كهنة يدعون أنهم يعرفون كثيراً من الأمور، فمنهم من يزعم أن له رفقاء من الجن وتابعة تلقي إليه الأخبار، ومنهم من كان يدعي أنه يستدرك الأمور بفهم أعطيه، وكان منهم من يسمى عرافاً وهو الذي يزعم أنه يعرف الأمور بمقدمات أسباب يستدل بها على مواقعها كالشيء يسرق، فيعرف المظنون به السرقة، وتتهم المرأة بالريبة، فيعرف من صاحبها ونحو ذلك من الأمور، ومنهم من كان يسمي المنجم كاهناً، قال: وحديث النهي عن إتيان الكهان يشتمل على النهي عن هؤلاء كلهم وعلى النهي عن تصديقهم والرجوع إلى قولهم، ومنهم من كان يدعو الطبيب كاهناً، وربما سموه عرافاً، فهذا غير داخل في النهي. هذا آخر كلام الخطابي. قال الإمام أبو الحسن الماوردي من أصحابنا في آخر كتابه الأحكام السلطانية: ويمنع المحتسب من يكتسب بالكهانة واللهو، ويؤدب عليه الآخذ والمعطي، والله أعلم. (شرح النووي ١٠ / ٢٣٢، ط: داراحیاء التراث العربی) 

العارض مفتی آصف بن محمد گودھروی 

منگل، 22 اگست، 2023

سجدۂ سہو واجب ہونے کی صورتیں سوال نمبر ٤١٤

سوال

السلام عليكم و رحمۃاللہ و برکاتہ

مفتی صاحب  سوال یہ ہے کہ ظہر کی نماز میں امام صاحب دو رکعت پر بیٹھنا بھول گئے اور تیسری رکعت پر قصداً بیٹھ گئے یہ سمجھ کر کہ دو رکعت پر نہیں بیٹھا تھا پھر چوٹھی رکعت پر قاعدہ اخیرہ کیا تو نماز کا کیا حکم ہے؟؟؟ جزاکم اللہ خیرا بحوالہ جواب مطلوب ہے

سائل: سہیل جےپوری


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی 


سب سے پہلے یہ یاد رکھیں کہ ان مذکورہ پانچ صورتوں میں سجدۂ سہو  واجب ہوتا ہے اگر ان میں سے کوئی چیز پیش آئے تو سجدۂ سہو سے نماز کی تلافی ہوجائے گی البتہ اگر سجدۂ سہو کرنا بھی بھول جائے تو نماز واجب الاعادہ ہوگی یعنی وقت کے اندر اندر لوٹانا ضروری ہے اگر وقت ختم ہوجائے تو توبہ و استغفار لازم ہوگا۔

(١) بھولے سے کسی واجب کو چھوڑ دینا 

(٢) بھولے سے کسی واجب کو آگے پیچھے کردینا

(٣) بھولے سے کسی فرض کو آگے پیچھے کردینا 

(٤) بھولے سے کسی فرض یا واجب کو تکرار کے ساتھ ادا کرنا یعنی دو دو بار اد کرنا

(٥) بھولے سے کسی واجب کو بدل دینا مثلاً جہر کی جگہ سر اور سر کی جگہ جہر ہوجانا۔


صورت مسئولہ میں امام نے تین غلطیاں کی ایک تو یہ کہ قاعدہ اولی چھوڑ دیا دوسرے یہ کہ تیسری رکعت کے قاعدے میں اس کا اعادہ کیا اور تیسرے نمبر پر اس نے سجدۂ سہو بھی نہیں کیا اس لئے اس پر نماز کا اعادہ واجب ہے۔ ہاں اگر قعدہ اولی میں بیٹھنا بھول جانے کے بعد اگر قعده اخیره میں سجدہ سہو کرلیا ہوتا تو نماز ہوجاتی، لوٹانے کی  ضرورت نہ ہوتی۔


فتاوی ہندیہ میں ہے

ولايجب السجود إلا بترك واجب أو تأخيره أو تأخير ركن أو تقديمه أو تكراره أو تغيير واجب بأن يجهر فيما يخافت، وفي الحقيقة وجوبه بشيء واحد وهو ترك الواجب، كذا في الكافي۔ (فتاوی ہندیہ ٤/١٠٢)


المحیط البرہانی میں ہے:

نوع في بيان ما يجب به سجود السهو وما لايجب، تكلم المشايخ رحمهم الله في هذا وأكثرهم على أنه يجب بستة أشياء: بتقديم ركن، وبتأخير ركن، وتكرار ركن، وبتغيير واجب، وبترك واجب، وبترك سنّة تضاف إلى جميع الصلاة. أما تقديم الركن؛ فهو أن يركع قبل أن يقرأ، أو يسجد قبل أن يركع. وتأخير الركن أن يترك سجدة صلبية سهواً فيتذكرها في الركعة الثانية، فيجسدها، أو يؤخر القيام إلى الثالثة بالزيادة على قدر التشهد. وتكرار ركن: أن يركع ركوعين أو يسجد ثلاث سجدات. وتغيير الواجب: أن يجهر فيما يخافت، أو يخافت فيما يجهر. وترك الواجب: نحو أن يترك القعدة الأولى في الفرائض. وترك السنّة المضافة إلى جميع الصلاة: نحو أن يترك التشهد في القعدة الأولى، وكان القاضي الإمام صدر الإسلام رحمه الله يقول: وجوبه شيء واحد، وهو ترك الواجب، وهذا أجمع ما قيل فيه. فإن هذه الوجوه الستة تخرج على هذا، أما التقديم والتأخير؛ فلأن مراعاة الترتيب واجبة عند أصحابنا الثلاثة رحمهم الله: وإن لم يكن فرضاً كما قاله زفر رحمة الله عليه، فإذا ترك الترتيب فقد ترك واجباً، وإذا كرر ركناً فقد أخر الركن الذي بعده، والركن واجب من غير تأخير، والجهر في محله واجب، والمخافتة كذلك، فأما التشهد في القعدة الأولى فإنه كان يقول: إنه واجب، وعليه المحققون من أصحابنا، وهو واضح۔ (٢/٢٤٧ المحیط البرہانی )


حاشية الطحطاوي میں ہے

وإعادتها بتركه عمدا أي ما دام الوقت باقياً وكذا في السهو إن لم يسجد له، وإن لم يعدها حتى  خرج الوقت تسقط مع النقصان وكراهة التحريم، ويكون فاسقاً آثماً، وكذا الحكم في كل صلاة أديت مع كراهة التحريم، والمختار أن المعادة لترك واجب نفل جابر والفرض سقط بالأولى؛ لأن الفرض لايتكرر، كما في الدر وغيره. ويندب إعادتها لترك السنة". (حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح ص: ٢٤٧ دار الكتب العلمية بيروت)

ایضاً 

كل صلاة أديت مع كراهة التحريم تعاد أي وجوباً في الوقت، وأما بعده فندب۔ (حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح شرح نور الإيضاح دار الكتب العلمية بيروت ص ٤٤٠)

العارض مفتی آصف بن محمد گودھروی

اتوار، 20 اگست، 2023

تیسری رکعت میں بیٹھنے کی صورت میں نماز کا حکم سوال نمبر ٤١٣

 سوال 

حضرت مفتی صاحب ایک مسئلہ کی وضاحت مطلوب ہے، فرض کی چوتھی رکعت کے لئے امام کھڑے ہونے کے بجائے بیٹھ جائے اور پھر فوراً کھرا ہوجائے تو اس پر سجدۂ سہو لازم ہوگا یا نہیں؟ اسی طرح اگر کوئی ایسی غلطی کردیں تو کتنی مقدار بیٹھنے سے سجدۂ سہو لازم ہوگا؟ کیا اس طرح بیٹھنے سے سجدۂ سہو واجب ہوگا؟ اس لئے کہ ہم نے سنا ہے کہ اللہ کے رسول نے تیسری رکعت کے بعد چوتھی رکعت سے اٹھنے سے پہلے جلسہ کیا ہے تو اس کی کیا حقیقت ہے؟ 

سائل: حاجی التمش اُجّینی


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی


کسی بھی رکن کی تاخیر کے سلسلہ میں فقہاء نے یہ اصول بیان کیا ہے کہ اگر تین مرتبہ سبحان اللہ پڑھ سکے اتنی تاخیر ہوجائے تو سجدۂ سہو لازم ہوگا۔


البتہ چونکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے جلسۂ استراحت (یعنی پہلی اور تیسری رکعت کے بعد تھوڑی دیر بیٹھنا)ثابت ہے اس لئے تیسری رکعت میں بیٹھنےمیں فقہاء کا اختلاف ہے بعض فقہاء قعدۂ طویلہ کی صورت میں سجدۂ سہو لازم قرار دیتے ہیں جیسے کہ علامہ شامی نے وضاحت کی ہے کہ

(وهذا إذا كانت القعدة طويلة، أما الجلسة الخفيفة التي استحبها الشافعي فتركها غير واجب عندنا) 

علامہ شامی رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ اگر زیادہ دیر تک بیٹھ جائے، تو سجدہ سہو واجب ہوگا،اور اگر تھوڑی دیر بیٹھ جائے جیسے تین بار سبحان اللہ یا اس سے کم مقدار تو سجدہ سہو واجب نہ ہوگا۔


اسی طرح فتاوی دارالعلوم میں ہے: طویل قعدہ سے سجدہ سہو لازم آتا ہے، جیسے بہ قدر التحیات پڑھنے کے مثلاً، یا اس سے قریب ہو، باقی جلسہ خفیفہ سے سجدۂ سہو لازم نہیں آتا۔ (فتاویٰ دار العلوم مکمل و مدلل ٤/٢٧٧)


اور بعض فقہاء کے نزدیک تین تسبیح کے بقدر بیٹھے رہ جانے سے سجدہ سہو کے واجب ہوجاتا ہےجیسا کہ 

غنیة المستملی میں ہے کہ (او قعد بعد رفعہ من الرکعۃ الاولی فی جمیع الصلوات یجب علیہ سجود السہو ۔۔۔ و بمجرد القعود فی صورۃ لتاخیر الواجب۔۔۔ و تاخیر الرکن و ھو القیام فی صورۃ القعود) تیسری رکعت کے بعد خالص بیٹھنے سے ہی سجدۂ سہو لازم ہوجائے گا


پہلی صورت میں قعدۂ خفیفہ کریں اور سجدۂ سہو نہ کریں تو بھی نماز درست ہوجائے گی گویا صورت مسئولہ میں پہلی توجیہ کے اعتبار سے سجدۂ سہو لازم نہیں ہوگا۔

اور دوسری توجیہ کے اعتبار سے امام ایک رکن (تین تسبیحات) کی ادائیگی کی مقدار بیٹھا ہو چاہے کچھ بھی نہ پڑھا ہو تو اس پر سجدہ سہو کرنا واجب ہوگا، اگر سجدہ سہو نہیں کیا تو نماز وقت کے اندر واجب الاعادہ ہوگی۔ اور اگر فوراً کھڑا ہوجائے کہ تین مرتبہ سبحان اللہ سبحان اللہ سبحان اللہ کی مقدار تاخیر نہ ہوئی ہو تو سجدہ واجب نہ ہوا تھا، اس لیے بغیر سجدہ سہو کیے نماز درست ہوگئی۔

سجدۂ سہو نہ کرنے کی صورت میں پہلا قول عدم اعادۂ صلوٰۃ کا ہے اور دوسرا اعادۂ صلوٰۃ کا ہے بندے نے ہمیشہ پہلے قول پر عمل کیا ہے واللہ اعلم بالصواب۔

جلسۂ استراحت کا حکم

 پہلی اور تیسری رکعت کے دوسرے سجدے کے بعد کچھ دیر بیٹھنے کو "جلسہ استراحت" کہتے ہیں، جلسہ استراحت صحیح حدیث سے ثابت ہے، البتہ جلسہ استراحت سنت ہے یا نہیں؟ توحضرت امام شافعی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ کے نزدیک جلسہ استراحت سنت ہے اور اس کا طریقہ وہی ہے جو پہلے قعدہ میں بیٹھنے کا ہے


امام ابوحنیفہ اور جمہور کے نزدیک رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا جلسہ استراحت کرنا عذر (بڑھاپے) کی بنا پر تھا، نہ کہ یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مستقل معمول تھا، لہذا عذر (مثلا بڑھاپے یا جوڑوں کے درد) کی بناء پر جلسہ استراحت کرنے کی اجازت ہے، اورجس آدمی کو جلسہ استراحت کی حاجت نہ ہو اس کے لئے یہ سنت نہیں ہے۔


رد المحتار میں ہے

وكذا القعدة في آخر الركعة الأولى أو الثالثة فيجب تركها، ويلزم من فعلها أيضا تأخير القيام إلى الثانية أو الرابعة عن محله، وهذا إذا كانت القعدة طويلة، أما الجلسة الخفيفة التي استحبها الشافعي فتركها غير واجب عندنا، بل هو الأفضل كما سيأتي وهكذا كل زيادة بين فرضين يكون فيها ترك واجب بسبب تلك الزيادة؛ ويلزم منها ترك واجب آخر وهو تأخير الفرض الثاني عن محله.(رد المحتار علی الدر المختار ٢/١٦٤ کتاب الصلاۃ، باب صفۃ الصلاۃ دار عالم الكتاب)


غنیة المستملی میں ہے

و لو قام فی الصلوٰۃ الرباعیۃ الی الرکعۃ الخامسۃ او قعد بعد رفع راسہ من السجود فی الرکعۃ الثالثۃ او قام الی الرابعۃ فی المغرب، او الثالثۃ فیہ او فی الفجر او قعد بعد رفعہ من الرکعۃ الاولی فی جمیع الصلوات یجب علیہ سجود السہو بمجرد القیام فی صورۃ و بمجرد القعود فی صورۃ لتاخیر الواجب و ھو التشھد او السلام فی صورۃ القیام و تاخیر الرکن و ھو القیام فی صورۃ القعود۔ (غنیة المستملی فصل فی السجود ص: ٤٥٨ ط سہیل اکیدمی، لاھور)



حاشیة الطحطاوی میں ہے

ولم یبینوا قدر الرکن وعلی قیاس ما تقدم ان یعتبر الرکن مع سنتہ وھو مقدر بثلاث تسبیحات (طحطاوی علی مراقی الفلاح،ص ۲۵۸)

 

فتح القدیر میں ہے

عن أبي ہریرة وعن ابن مسعود: أنہ کان ینہض في الصلاة علی صدور قدمیہ ولم یجلس أخرجہ ابن أبي شیبہ وأخرج نحوہ عن علي وکذا عن ابن عمر وابن الزبیر، وفي فتح القدیر: فقد اتفق أکابر الصحابة الذین کانوا أقرب إلی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم أشد اقتفاء لأثرہ من مالک بن الحویرث علی خلاف ما قال فوجب تقدیمہ فیحمل ما رواہ علی حالة الکبر․ (فتح القدیر: ۱/ ۳۱٤ ۳۱۵، زکریا)

العارض مفتی آصف بن محمد گودھروی 

جمعہ، 18 اگست، 2023

جمعہ کے دن اور رمضان میں وفات پانے والوں کے لئے فضیلت سوال نمبر ٤١٢

 سوال

کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ: کسی مسلمان کا جمعہ کے دن یا رمضان المبارک میں انتقال ہوا تو سنا ہے کہ اس سے منکر نکیر سوال وجواب نہیں کرتے؟ تو کیا یہ بات صحیح ہے کہ جمعہ کے دن یا رمضان المبارک میں مرنے والوں کو قبر کا عذاب اور سوال وجواب نہیں ہوتا ؟ اور یہ حکم نیک اور فاجر فاسق سب کو شامل ہے یا صرف نیک لوگوں کے لئے ہے؟ اسی طرح کافر جمعہ یا رمضان میں انتقال کرجائے تو کیا حکم ہے؟ دوسری بات یہ ہے کہ یہ حکم صرف اسی دن کے لئے ہے یا قیامت تک کے لئے ان سے عذاب ہٹا دیا جاتا ہے؟ بالتفصیل جواب مطلوب ہے۔

سائل: مولوی عبدالحق راجستھانی 


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی


احادیث میں یہ بات تو مُسَلَّمۡ ہے کہ جمعہ کے دن یا رمضان المبارک میں جو مومن وفات پاجائے اس سے عذاب قبر اٹھالیا جاتا ہے، اگرچہ روایات میں ضعف ہے لیکن متعدد طرق کی وجہ سے اس کو تقویت حاصل ہے۔

حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلي الله عليه وسلم نے فرمایا کہ جو مسلمان جمعہ کے دن یا جمعہ کی شب انتقال فرماجائے اللہ تعالیٰ قبر کی آزمائش سے اس کی حفاظت فرماتے ہیں۔

نیز حضرت انس رضی اللہ کی روایت میں ہے کہ آپ نے فرمایا جمعہ کے دن جس کی موت ہوگی وہ عذاب قبر سے محفوظ رہے گا۔

اسی طرح رمضان المبارک میں وفات پانے والے کے متعلق بھی ضعیف حدیث وارد ہے کہ اس کو قبر میں سوال وجواب اور عذاب نہ ہوگا۔

اب یہ عذاب صرف رمضان المبارک اور جمعہ کے دن ہٹایا جاتا ہے یا تاقیامت، تو اس کے بارے میں دو قول ہے۔

(۱) بعض علماء فرماتے ہیں صرف ماہ رمضان المبارک اور جمعہ کے دن یہ عذاب اٹھادیا جاتا ہے۔

(۲) بعض علماء فرماتے ہیں تا قیامت ان سے قبر کا عذاب ہٹادیا جاتا ہے اور  یہ قبر میں راحت و آرام کے ساتھ رہتے ہیں۔

البتہ راجح بات یہی معلوم ہوتی ہے کہ مسلمانوں کے حق میں یہ حکم عمومی ہے کہ  اگر کسی مسلمان کا انتقال رمضان المبارک یا جمعہ کے دن ہوجائے تو تا قیامت عذابِ قبر  سے محفوظ رہے گا، اور اللہ کی بے پناہ رحمتوں سے یہی امید رکھنی چاہیے کہ ہمیشہ کے لیے اس سے عذاب قبر اٹھالیا جاتا ہے۔

اسی طرح جمعہ کے دن یا رمضان میں مرنے والوں کے عذاب قبر سے محفوظ رہنے کے بارے میں جو روایات مروی ہے اس میں صرف مسلم کی قید ہے اور بظاہر اس میں صالح وفاسق دونوں شامل ہیں، اس لئے امید رکھنی چاہئے کہ بلا امتیاز ہر مسلمان اس بشارت کا مستحق ہوگا، لیکن اس بشارت کا تعلق صرف اَحوالِ قبر سے ہے، یہ آخرت میں حساب وکتاب اور عذاب سے محفوظ ہونے کی دلیل نہیں ہے البتہ احکام الحاکمین اگر عفو و درگزر کا معاملہ فرمائے تو وہ اور بات ہے۔

جہاں تک غیر مسلم کی بات ہے تو رمضان المبارک میں انتقال کرجانے کی وجہ سے صرف جمعہ اور ماہ مبارک کے احترام میں جمعہ یا رمضان المبارک تک عذاب قبر سے محفوظ رہے گا، اور جمعہ یا رمضان کے بعد پھر اسے عذاب ہوگا۔

سنن الترمذي میں ہے

عن عبد اللّٰہ بن عمرو ص قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ما من مسلم یموت یوم الجمعۃ أو لیلۃ الجمعۃ إلا وقاہ اللّٰہ فتنۃ القبر۔ (سنن الترمذي أبواب الجنائز/ باب ما جاء فیمن یموت یوم الجمعۃ ۱/۲۰۵، وقال: ہذا حدیث غریب و لیس اسنادہ بمتصل)

مصنف عبد الرزاق میں ہے

عن ابن شہاب موقوفا: أن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: من مات لیلۃ الجمعۃ أو یوم الجمعۃ برئ من فتنۃ القبر وکتب شہیداً۔ (مصنف عبد الرزاق ۳/۲٦۹)

شرح الصدور للسیوطي میں ہے

عن أنس بن مالک رضي اللّٰہ عنہ أن عذاب القبر یرفع عن الموتی في شہر رمضان۔ (شرح الصدور للسیوطي ۲۵٤ مکتبۃ دار التراث بیروت)

شرح الفقہ الأکبر میں ہے

ویرفع العذاب یوم الجمعۃ وشہر رمضان بحرمۃ النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم لأنہ ما دام في الأحیاء لا یعذبہم اللّٰہ تعالیٰ بحرمتہ۔ فکذلک في القبر یرفع عنہم العذاب یوم الجمعۃ وکل رمضان بحرمتہ۔ (شرح الفقہ الأکبر ۱۷۲ بیروت)

فتاوی شامی میں ہے

قال أهل السنة والجماعة: عذاب القبر حق وسؤال منكر ونكير وضغطة القبر حق، لكن إن كان كافراً فعذابه يدوم إلى يوم القيامة ويرفع عنه يوم الجمعة وشهر رمضان، فيعذب اللحم متصلاً بالروح والروح متصلاً بالجسم فيتألم الروح مع الجسد، وإن كان خارجاً عنه، والمؤمن المطيع لا يعذب بل له ضغطة يجد هول ذلك وخوفه، والعاصي يعذب ويضغط لكن ينقطع عنه العذاب يوم الجمعة وليلتها، ثم لا يعود وإن مات يومها أو ليلتها يكون العذاب ساعةً واحدةً وضغطة القبر ثم يقطع، كذا في المعتقدات للشيخ أبي المعين النسفي الحنفي من حاشية الحنفي ملخصاً  (فتاوی شامی / باب الجمعۃ، مطلب ما اختص بہ یوم الجمعۃ ٣/٤٤ زکریا)

العارض: مفتی آصف بن محمد گودھروی

بدھ، 16 اگست، 2023

حمل کی حالت میں سورۂ مریم سورۂ یوسف اور سورۂ نور پڑھنے کا حکم سوال نمبر ٤١١

 سوال

مفتی صاحب حمل کی حالت میں لڑکی کی خواہش ہونے پر سورہ مریم پرھنا اور اس لڑکی کی خوبصورتی کے لئے سورہ یوسف اور سورہ نور پر سکتے ہیں ؟

سائل: اللہ کی ایک بندی گودھرا 


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ تعالی


حمل کے دوران سورہ مریم سورہ یوسف اور سورۂ نور پڑھنے کا کوئی حکم قرآن و حدیث میں نہیں ہے۔ اور نہ ہی اس وقت ان سورتوں کے پڑھنے کی کوئی فضیلت قرآن و حدیث سے ثابت ہے۔ بلکہ یہ مجربات کی قبیل سے ہے،

لہذا عورت حالت حمل میں کسی بھی مقصد کے لئے قرآن شریف کی کسی خاص آیت یا سورة کی تلاوت کرنا چاہے تو کرسکتی ہے، البتہ قرآن چھونے کے لیے باوضو ہونا ضروری ہے پس سورہ مریم سورہ یوسف یا سورۂ نور کی تلاوت بھی کسی خاص مقصد کے لئے کرنا چاہے تو کرسکتی ہے اور اگر کسی خاص مقصد کے لیے پڑھنا ہے تو جس نے پڑھنے کے لیے بتایا ہے اسی سے طریقہ بھی پوچھ لیا جائے۔


العارض: مفتی آصف گودھروی 

اتوار، 13 اگست، 2023

بچوں میں بھاگیداری کی شرط کے ساتھ جانور کو پالنے کے لئے دینا سوال نمبر ٤١٠

 سوال

کسی کو بکری بھاگ میں رکھنے کو دی پھر بولا کہ اس کے بچے ہم دونوں بانٹ لیں گے تو اس کا کیا حکم ہے جواب بھیجے اور ناجائز ہے تو اس کی جائز صورت کیا ہوگی؟

سائل: اللہ کی ایک بندی گودھرا 


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی 


کسی کو بکری شرکت پر یعنی بھاگیداری کے طور پر دی اس طور پر کہ سامنے والا پرورش چارہ وغیرہ کھلائے اور دیکھ ریکھ کریں اور یہ شرط کی کہ بکری کے جو بچے پیدا ہوں گے وہ دونوں آپس میں بانٹ لیں گے تو اس طرح سے معاملہ کرنا درست نہیں ہے کیوں کہ یہ شرکت فاسدہ کی صورت ہے، اور ایسا معاملہ فسخ کردینا ضروری ہے، اور اگر معاملہ فسخ کرنے سے پہلے ایک یا کئی بچے ہوگئے تو وہ بچہ یا بچے اصل مالک کے ہوں گے اور پرورش کرنے والے کو اجرت مثل ملے گی اور اگر اس نے چارہ وغیرہ خرید کر یا اپنی ملکیت کا کھلایا تو اس کی قیمت بھی واجب ہوگی، اور اگر مباح چراگاہ میں چرایا تو اس کی کوئی قیمت واجب نہ ہوگی۔


اس کی جائز اور متبادل صورتیں

(۱) جانور کو کرایہ پر پالنے کے لیے دے دے، اور پالنے والے کی اجرت طے کرلے، اس صورت میں دودھ، بچے وغیرہ سب مالک کے ہوں گے۔


(۲) جانور خرید کر پالنے پر دینے سے پہلے اس کے آدھے حصے، یا ایک تہائی حصے کا پالنے والے کو مالک بنا دیا جائے (خواہ مالک بنانا قیمتا ہو، یا بلا قیمت) ایسی صورت میں وہ جانور دونوں میں مشترک ہو جائے گا، پھر جانور کے پالنے کے اخراجات اور اس سے حاصل ہونے والے منافع حسب حصہ مشترک ہوں گے اور اگر باہمی رضامندی سے کوئی ایک فریق جانور کو پالنے کی ذمہ داری لے لے اور ساتھ ساتھ اس جانور سے نفع (مثلا: دودھ وغیرہ) بھی حاصل کرتا رہے تو اس کی اجازت ہے، نیز جانور فروخت کرنے کے بعد اس کے ذریعے حاصل ہونے والا نفع حسب حصہ یا حسب معاہدہ تقسیم ہوگا اور نقصان حسب ملکیت دونوں برداشت کریں گے۔


(۳) زید اور عمرو دونوں پیسے ملا کرجانور خریدیں، اس میں ہر ایک اپنی مالیت کے بقدر شریک ہوگا، اوراسی طرح  مالیت کے تناسب سے دونوں اس کے دودھ ، اور ہر ہر بچے میں بھی  شریک ہوں گے، البتہ اس صورت میں اس طرح طے کرنا کہ پہلا بچہ ایک کا ہوگا اور دوسرا بچہ دوسرے کا ہوگا یہ شرعاً غلط ہے، دونوں ہر ہر بچے میں اپنے اپنے حصے کے بقدر شریک ہوں گے ۔


فتاوی شامی میں ہے

وعلی ھذا دفع البقرة بالعلف لیکون الحادث بینھما نصفین، فما حدث لصاحب البقرة وللآخر مثل علفہ وأجر مثلہ، تاترخانیة اھ، (کتاب الشرکة، فصل فی الشرکة الفاسدة ٦/٤٠٥ ط: مکتبة زکریا دیوبند)


خلاصۃ الفتاوی ہے

رجل دفع بقرةً إلى رجل بالعلف مناصفةً، وهي التي تسمى بالفارسية "كاونيم سوو" بأن دفع على أن ما يحصل من اللبن والسمن بينهما نصفان، فهذا فاسد، والحادث كله لصاحب البقرة، والإجارة فاسدة (خلاصة الفتاوی ۳/۱۱٤ کتاب الإجارة، الجنس الثالث في الدواب ... ومایتصل بها، ط/قدیمی)


فتاویٰ ھندیہ میں ہے

وعلی هذا إذا دفع البقرة إلی إنسان بالعلف لیکون الحادث بینهما نصفین، فما حدث فهو لصاحب البقرة، ولذلک الرجل مثل العلف الذي علفها وأجر مثله فیما قام علیها، والحیلة في ذلک أن یبیع نصف البقرة من ذلک الرجل بثمن معلوم حتی تصیر البقرة وأجناسها مشترکة بینهما فیکون الحادث منها علی الشرکة۔ (الفتاوى الهندية،کتاب الشرکة، الباب الخامس في الشرکة الفاسدة، ۲/ ۳۳۵)


العارض مفتی آصف گودھروی 

جمعہ، 11 اگست، 2023

شادی کی پہلی رات کے آداب و مستحبات سوال نمبر ٤٠٩

 سوال 

حضرت مفتی صاحب شب زفاف کا کیا مطلب ہے؟ کیا شب زفاف یعنی نکاح کی پہلی رات کی مستقل کوئی حیثیت ہے؟ اور اس کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ اسی طرح اس کے آداب و طریقہ اسلامی نقطۂ نظر سے واضح فرمائیں؟

سائل: محمد غفران لنڈن


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی


زندگی کے دو رخ ہے ایک رخ تو پیدائش سے لے کر نکاح تک ہے دوسرا رخ نکاح سے لے کر موت تک ہے جس طرح پہلے رخ میں ابدائی ایام خصوصاً دنیا کی پہلی ملاقات سب کے لئے خوشیوں کا پیغام ہوتی ہے اسی طرح زندگی کا دوسرا رخ جس میں نکاح کے بعد پہلی رات ازدواجی زندگی میں بڑی اہمیت اور خوشیوں کا پیغام رکھتی ہے،

یہی رات ایک نئی زندگی کا آغاز بھی ہے، ایک نئے ولولہ کا نام ہے۔ زندگی کی خوشیوں کا مرکزی نکتہ یہی شب زفاف ہے، اسی رات ایک اجنبی لڑکا اجنبی لڑکی سے شناسائی کے بعد میاں بیوی کے بندھن میں بندھ جاتےہیں، اور ایک نیا گھر تشکیل پاتا ہے۔

اب یہ رات کیسے گزاری جائے تو جب شادی اور رخصتی ہوگئی اور دلہن کو شوہر اپنے مکان پر لے آیا تو اب یقینا ان میں خلوت اور تنہائی ہوگی، چوں کہ اس کی ایک خاص اہمیت ہے اس لئے اس سلسلے میں کچھ آداب و اصول اور کچھ باتیں ذہن نشین ہونی چاہئیں۔


ملاقات سے پہلے آرام کا وقت نکالنا

دولہا اور دلہن کو چاہیے کہ اس رات سے پہلے کچھ وقت نکال کر تھوڑا بہت آرام کرلینا چاہیے تاکہ دونوں کی ملاقات کے وقت دل و دماغ  طبیعت اور بدن میں تازگی رہے۔


کمرے میں کھانے پینے کی اشیاء کا انتظام ہونا

کچھ کھانے پینے کی اشیاء مثلاً: پھل فروٹ یا مٹھائی وغیرہ رکھ لینی چاہئے، خوش بو اور کمرے کی کسی قدر زینت ہو تو بہتر ہے البتہ بعض جگہوں پر اس میں بہت ہی مبالغہ کیا جاتا ہے اور حجرۂ عروسی کو سنوارنے کے لیے ہزاروں روپے خرچ کیے جاتے ہیں۔ یہ اسراف اور فضول خرچی ہے، جس سے (اِنَّ الْمُبَذِّرِیْنَ كَانُوْۤا اِخْوَانَ الشَّیٰطِیْنِ یعنی بیشک فضول خرچی کرنے والے شیطانوں کے بھائی ہیں) اس آیت کے زمرے میں آکر گناہگار ہوگا۔ کیوں کہ فضول خرچی شیطان کا عمل ہے۔


تنہا دورکعت پڑھ کر دعا مانگنا 

ملاقات سے پہلے وضو کرے پھر دو رکعت صلوٰۃ الحاجت پڑھ کر خیروبرکت اور توافق و محبت اور پاکیزگی کے ساتھ دوام و بقاء نیز صالح اولاد کے حصول کی دعا کی جائے، سلف صالحین اور بزرگوں کا یہی عمل ملتا ہے کہ وہ دوچار رکعت پڑھ کر اللہ تعالیٰ سے دعا بھی کرتے پھر موقع کے مناسب اپنی دلہن کے سامنے دنیا کی بے وقعتی اور مال و دولت کے بے قیمت ہونے کا تذکرہ کرتے تاکہ مال کی محبت کم ہو اور دینی رخ پیدا ہو۔


بیوی سے سلام کلام کے بعد ساتھ میں دورکعت صلوٰۃ شکر ادا کرنا

بیوی سے پہلی ملاقات میں بات چیت سے پہلے سلام کرے، پھر دو رکعت شکرانہ کی نماز پڑھیں، مرد آگے کھڑا رہے عورت پیچھے، نماز کے بعد خوشگوار ازدواجی زندگی اور خیر وبرکت، مودت ومحبت، آپسی میل ملاپ کی دعا کریں۔ 

حضرت عبد اللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ایک شخص عبد اللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور کہا کہ میں نے ایک باکرہ عورت سے نکاح کیا ہے اور مجھے ڈر ہے کہ وہ مجھے پسند نہ کرے اور دشمن تصور کرے، حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے اس سے فرمایا محبت اللہ کی طرف سے ہے اور دشمنی شیطان کافعل ہے، جب عورت تیرے گھر میں آوے تو تو اس سے کہہ کہ تیرے پیچھے کھڑی ہوکر دو رکعت نماز پڑھے، اور یہ دعا پڑھ: اَللّٰہُمَّ بَارِکْ لِیْ فِیْ اَہْلِیْ وَبَارِکْ لَہُمْ فِیَّ، اَللّٰہُمَّ اجْمَعْ بَیْنَنَا مَا جَمَعْتَ بِخَیْرٍ وَفَرِّقْ بَیْنَنَا إِذَا فَرَّقْتَ بِخَیْرٍ۔


عورت کی پیشانی پر ہاتھ رکھ کر دعا پڑھنا

اس کے بعد عورت کی پیشانی اور اس کے بالوں پر ہاتھ رکھ کر یہ دعا پڑھنا چاہیے: اَللّٰھُمَّ إِنِّيْ أَسْأَلُکَ مِنْ خَیْرِھَا وَخَیْرِ مَا فِیْھَا وَخَیْرِ مَا جَبَلْتَھَا عَلَیْہِ وَأَعْوَذُ بِکَ مِنْ شَرِّھَا وَشَرِّ مَا فِیْھَا وَشَرِّ مَا جَبَلْتھَا عَلَیْہِ۔ ترجمہ اے اللہ! میں اس عورت کی خیرو بھلائی کا اور جو خیر آپ نے اس میں رکھی ہے اور جس چیز پر آپ نے اسے پیدا فرمایا ہے ان سب کا سوال کرتا ہوں اور عورت کے شر سے اور جو شر اور برائی اس میں رکھی اور جس شر پر آپ نے اسے پید فرمایا ہے اس سے آپ کی پناہ چاہتا ہوں۔ 


عورت سے دلجمعی اور محبت کی باتیں کرنا

یہ بات بھی دھیان میں رہے کہ شادی سے پہلے میاں بیوی اجنبی اور غیر مانوس تھے آپس میں کسی قسم کا تعلق نہیں تھا، اب جب نکاح کے ذریعے تعلق پیدا ہوا ہے تو ظاہر ہے کہ ایک دم سے وہ پوری طرح مانوس نہیں ہوسکتی نہ کھل کر سامنے آسکتی ہے، اس لئے شوہر ابتداء میں تلطف ومحبت سے پیش آئے، اپنے تعلق اور محبت اور نکاح سے پہلے ہر طرح کی بے گانگیت اور نکاح کے بعد کے بے تکلف رشتہ و تعلق کا تذکرہ اور محبت کی باتیں کرے، اپنا سکہ اور رعب جمانے کی فکر نہ کرے، اور ہرطرح اس کی دلجوئی کرے کہ عورت کو مکمل سکون اور قلبی راحت حاصل ہو اور ایک دوسرے میں انسیت و قربت پیدا ہو۔


جماع کرنے کا طرقہ

جب جماع  کا ارادہ ہوتو آہستہ آہستہ بیوی کو اپنی طرف مائل و قریب کرے جلد بازی ہرگز نہ کرنی چاہیے بلکہ شب کی پہلی پہر تو اس سے فقط انسیت و محبت اور خوش طبعی کی باتیں ہوں پھر آہستہ آہستہ اسے اپنی طرف مائل اور اپنے قریب کرے کیوں کہ عورت فطرتاً باحیا ہوتی ہے، اس لئے صحبت سے پہلے بیوی کو جماع کے لیے مکمل طور پر تیار کرلیا جائے، مخصوص اعضاء پر بوسہ لے کر اور سہلاکر جب وہ گہری سانسیں لینے لگے اور آپ کو اپنی طرف کھینچنے لگے تب دخول کیا جائے، بے قابو ہوکر جلد بازی میں دخول کردینے کی صورت میں آپ جلد فارغ ہوجائیں گے اور بیوی کو انزال نہ ہونے سے اس کی خواہش باقی رہ جائے گی، جس کی وجہ سے ازدواجی زندگی میں مسائل پیدا ہوتے ہیں، لہٰذا اس کا خوب خیال رکھیں،

تاہم اگر آپ بیوی سے پہلے فارغ ہوجائیں تو اس کے فارغ ہونے تک برابر مشغول رہیں، فوراً عضو نکال کر نہ ہٹیں۔ ایسا کرلینے سے قوی امید ہے کہ بیوی کو جنسی طور پر اطمینان حاصل ہوگا۔ نیز ابتدائی ایام میں عضو مخصوص پر تیل لگاکر دخول کیا جائے تاکہ بیوی کو تکلیف نہ ہو۔ اسی طرح اگر بیوی کی شرم گاہ سے خون نہ نکلے تو کسی قسم کے وسوسہ کو دل میں قطعاً جگہ نہ دیں کیونکہ پردۂ بکارت کھیل کود میں بھی زائل ہوجاتا ہے، اورہمبستری کے وقت اپنے اوپر کپڑا اوڑھ لینا چاہیئے، مکمل برہنہ ہوکر ہمبستری نہ کریں نیز جماع کے وقت قبلہ رُخ نہ ہوں کہ یہ احترام قبلہ کے خلاف ہے۔


جماع سے پہلے دعا پڑھنا

اسی طرح یہ بات بھی ملحوظ رہے کہ عورت گھر کی ملکہ اور فطری طور سے محبوبہ بھی ہے اور آپ کی رفیقۂ حیات اور دکھ درد میں معاون و مددگار بھی، اس لئے محبت و الفت کا اظہار کرنے کے ساتھ ساتھ اپنا وقار اور مقام کا خیال رکھا جائے۔ جماع سے قبل یہ دعا پڑھنا مسنون ہے: بِسْمِ اللّٰهِ اللّٰهُمَّ جَنِّبْنِي الشَّيْطَانَ وَجَنِّبِ الشَّيْطَانَ مَا رَزَقْتَنَا ترجمہ : ہم مدد چاہتے ہیں اللہ کے نام کے ساتھ، اے اللہ تو ہمیں جو اولاد نصیب کرے اِس کو شیطان سے اور شیطان کو اس سے دور رکھ۔


جماع مکمل پردے میں ہو

اور جتنا ہوسکے پردے کے ساتھ صحبت کرے کسی کے سامنے حتی کہ بالکل ناسمجھ بچے کے سامنے بھی صحبت نہ کرے اور بوقت صحبت بقدر ضرورت ستر کھولے، انزال کے وقت دل میں یہ دعا پڑھے: اللَّھُمَّ لَا تَجْعَلْ لِلشَّیْطَانِ فِیمَا رَزَقْتنَا نَصِیبًا۔ صحبت کے بعد یہ دعا پرھے: الْحَمْدُ لِلّٰہ الَّذِي خَلَقَ مِنَ الْمَاءِ بَشَرًا فَجَعَلَہُ نَسَبًا وَصِھْرًا۔ شب زفاف اور صحبت کے سلسلے کی آپس کی جو باتیں پوشیدہ ہوں کسی سے ان کا تذکرہ نہ کرے یہ بے حیائی اور بے مروتی کی بات ہے۔


جماع سے پہلے نیت درست کرنا

اسی طرح اس بات کا بھی خیال رہے کہ جماع نفس کی خواہش پورا کرنے کی نیت سے نہ ہو، بلکہ اچھی نیت سے کیا جائے۔ مثلاً: عفت و پاکدامنی کا حصول، بیوی کا حق ادا کرنا اور اولاد صالح پیدا ہو اور داعی الی اللہ بنے وغیرہ وغیرہ امور کی نیت کرے تاکہ لطف ولذت کے ساتھ ساتھ یہ عمل اجر وثواب کا باعث بھی بنے، میاں بیوی رات کی باتیں اپنے دوست واحباب کے سامنے بیان کرنے سے اجتناب کریں کہ یہ بے شرمی اور سخت گناہ کی بات ہے۔


صحبت کے بعد پیشاب سے فراغت حاصل کرنا 

صحبت کے بعد دونوں کو پیشاب بھی کرلینا چاہیے تاکہ اگر منی کا کوئی قطرہ سوراخ میں رہ گیا ہو تو وہ خارج ہوجائے ورنہ اس کی وجہ سے موذی بیماری پیدا ہونے کا اندیشہ ہے۔ بہتر یہ ہے کہ غسل یا وضو کرکے سویا جائے۔ غسلِ جنابت میں فجر کی نماز کے وقت تک تاخیرجائز ہے، لیکن فجر کی نماز ترک کرکے ناپاکی کی حالت میں سوئے رہنا اور سورج طلوع ہوجانے کے بعد اٹھنا سخت معصیت ہونے کے ساتھ ساتھ رزق میں بے برکتی کا سبب بھی ہے۔


شب زفاف کے بارے میں ایک غلط فہمی کا ازالہ 

بعض لوگ شب زفاف کو شب قدر کے برابر باعظمت اور قبولیت دعا کی رات سمجھتے ہیں بلکہ اس سے بھی بڑھ کر، یہ خیال قطعاً غلط اور بے اصل ہے۔ شریعت میں اس کی کوئی اصل نہیں،

شریعت میں شب زفاف میں نماز اور دعا سے متعلق    جو ہدایات ملتی ہیں وہ یہ ہیں کہ میاں بیوی  ازدواجی تعلق قائم کرنے سے پہلے دو رکعت نفل  پڑھیں  اور  باہمی الفت و محبت کی دعا کریں  ،یہ مستحب عمل ہے ، اس کا ثبوت احادیث سے ملتا ہے، اس کے علاوہ اس رات دعا کی قبولیت کی کسی خصوصیت کاثبوت نہیں ملتا۔

اسی طرح بعض یہ سمجھتے ہیں کہ مہر کے پیسے بالکل پاک ہیں اور یہ بھی مشہور ہے کہ بیماری کے موقع پر اس سے علاج کرنا چاہیے تاکہ جلد شفا حاصل ہو تو اس میں کوئی شک نہیں کہ مہر کا پیسہ عورت کے لیے حلال اور پاکیزہ ہے جیسے اور حلال طریقے سے کمایا ہوا مال ہوتا ہے، لیکن اس سے علاج کرنے سے جلد شفا ہوتی ہے، کہیں لکھا ہوا نہیں دیکھا، اللہ تعالٰی ہم سب کو زندگی کے ہر شعبے میں سنت و شریعت کے مطابق کام کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمیں خوشگوار ازدواجی زندگی عطا فرمائے۔ آمین


مستفاد

(فتاویٰ رحیمیہ (۸/ ۲٤٤ تا ٢٤٨) مفتی سید عبدالرحیم صاحب لاجپوری


(غنیة الطالبین مترجم فصل فی آداب النکاح) حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؒ


(آدابِ مباشرت) جناب ڈاکٹر آفتاب صاحب

(آداب الزفاف فی السنة المطھرۃ) شیخ ناصر الدین البانی 


(تحفۃ العروس) شیخ محمود مہدی استنبولی  

(شادی کی پہلی رات) مولانا عبدالهادی عبدالخالق مدنی 


سنن ابی داؤد میں ہے

حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، ‏‏‏‏‏‏وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَا:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ يَعْنِي سُلَيْمَانَ بْنَ حَيَّانَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ عَجْلَانَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ،‏‏‏‏عَنْ أَبِيهِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ جَدِّهِ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ إِذَا تَزَوَّجَ أَحَدُكُمُ امْرَأَةً أَوِ اشْتَرَى خَادِمًا، ‏‏‏‏‏‏فَلْيَقُلْ:‏‏‏‏ اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ خَيْرَهَا وَخَيْرَ مَا جَبَلْتَهَا عَلَيْهِ، ‏‏‏‏‏‏وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِّهَا وَ شَرِّ مَا جَبَلْتَهَا عَلَيْهِ، ‏‏‏‏‏‏وَإِذَا اشْتَرَى بَعِيرًا فَلْيَأْخُذْ بِذِرْوَةِ سَنَامِهِ وَلْيَقُلْ مِثْلَ ذَلِكَ. (سنن ابی داؤد باب فی جامع النکاح)


سنن ابی داؤد میں ہے

عليه وسلم فيهم ابن مسعود وأبوذر وحذيفة، قال: وأقيمت الصلاة، قال: فذهب أبو ذر ليتقدم، فقالوا: إليك، قال: أو كذلك؟ قالوا: نعم قال: فتقدمت إليهم وأنا عبد مملوك وعلموني، فقالوا: إذا أدخل عليك أهلك فصل عليك ركعتين، ثم سل الله تعالى من خير ما دخل عليك، وتعوذ به من شره، ثم شأنك وشأن أهلك۔ (سنن ابی داؤد کتاب النکاح، ما يؤمر به الرجل إذا دخل على أهله؟)


غنیة الطالبین میں ہے

ویستحب لہا الملاعبة لہا قبل الجماع والانتظار لہا بعد قضاء حاجتہ حتی تقضي حاجتہا فإن ترک ذلک مضرة علیہا ربما أفضی إلی البغضاء والمفارقة (غنیة الطالبین ص۹۸)


صحيح البخاري میں ہے

عن ‌ابن عباس، يبلغ النبي صلى الله عليه وسلم قال: لو أن أحدكم إذا أتى أهله قال: باسم الله، اللهم ‌جنبنا ‌الشيطان، وجنب الشيطان ما رزقتنا، فقضي بينهما ولد لم يضره۔ (صحيح البخاري باب التسمية على كل حال و عند الوقاع)


صحيح مسلم میں ہے

عبد الرحمن بن سعد، قال: سمعت أبا سعيد الخدري، يقول: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «إن من أشر الناس عند الله منزلة يوم القيامة، الرجل ‌يفضي إلى امرأته، وتفضي إليه، ثم ‌ينشر ‌سرها۔ (صحيح مسلم باب تحريم إفشاء سر المرأة)


مصنف عبد الرزاق میں ہے

عبد الرزاق عن معمر عن الأعمش عن أبي وائل قال: جاء رجل إلى بن مسعود، فقال: إني تزوجت امرأةً وإني أخاف أن تفركني، فقال عبد الله: إن الألف من الله، وإن الفرك من الشيطان؛ ليكره إليه ما أحل الله، فإذا أدخلت عليك فمرها فلتصل خلفك ركعتين.قال الأعمش: فذكرته لإبراهيم، قال: وقال عبد الله: وقل: اللهم بارك لي في أهلي وبارك لهم في، وارزقني منهم وارزقهم مني، الله اجمع بيننا ما جمعت إلى خير وفرق بيننا إذا فرقت إلى خير۔ (کتاب النکاح،باب ما يبدأ الرجل الذي يدخل على أهله)

العارض: مفتی آصف بن محمد گودھروی