سوال
حضرت مفتی صاحب ایک مسئلہ کی وضاحت مطلوب ہے، فرض کی چوتھی رکعت کے لئے امام کھڑے ہونے کے بجائے بیٹھ جائے اور پھر فوراً کھرا ہوجائے تو اس پر سجدۂ سہو لازم ہوگا یا نہیں؟ اسی طرح اگر کوئی ایسی غلطی کردیں تو کتنی مقدار بیٹھنے سے سجدۂ سہو لازم ہوگا؟ کیا اس طرح بیٹھنے سے سجدۂ سہو واجب ہوگا؟ اس لئے کہ ہم نے سنا ہے کہ اللہ کے رسول نے تیسری رکعت کے بعد چوتھی رکعت سے اٹھنے سے پہلے جلسہ کیا ہے تو اس کی کیا حقیقت ہے؟
سائل: حاجی التمش اُجّینی
الجواب وباللہ التوفیق
باسمہ سبحانہ وتعالی
کسی بھی رکن کی تاخیر کے سلسلہ میں فقہاء نے یہ اصول بیان کیا ہے کہ اگر تین مرتبہ سبحان اللہ پڑھ سکے اتنی تاخیر ہوجائے تو سجدۂ سہو لازم ہوگا۔
البتہ چونکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے جلسۂ استراحت (یعنی پہلی اور تیسری رکعت کے بعد تھوڑی دیر بیٹھنا)ثابت ہے اس لئے تیسری رکعت میں بیٹھنےمیں فقہاء کا اختلاف ہے بعض فقہاء قعدۂ طویلہ کی صورت میں سجدۂ سہو لازم قرار دیتے ہیں جیسے کہ علامہ شامی نے وضاحت کی ہے کہ
(وهذا إذا كانت القعدة طويلة، أما الجلسة الخفيفة التي استحبها الشافعي فتركها غير واجب عندنا)
علامہ شامی رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ اگر زیادہ دیر تک بیٹھ جائے، تو سجدہ سہو واجب ہوگا،اور اگر تھوڑی دیر بیٹھ جائے جیسے تین بار سبحان اللہ یا اس سے کم مقدار تو سجدہ سہو واجب نہ ہوگا۔
اسی طرح فتاوی دارالعلوم میں ہے: طویل قعدہ سے سجدہ سہو لازم آتا ہے، جیسے بہ قدر التحیات پڑھنے کے مثلاً، یا اس سے قریب ہو، باقی جلسہ خفیفہ سے سجدۂ سہو لازم نہیں آتا۔ (فتاویٰ دار العلوم مکمل و مدلل ٤/٢٧٧)
اور بعض فقہاء کے نزدیک تین تسبیح کے بقدر بیٹھے رہ جانے سے سجدہ سہو کے واجب ہوجاتا ہےجیسا کہ
غنیة المستملی میں ہے کہ (او قعد بعد رفعہ من الرکعۃ الاولی فی جمیع الصلوات یجب علیہ سجود السہو ۔۔۔ و بمجرد القعود فی صورۃ لتاخیر الواجب۔۔۔ و تاخیر الرکن و ھو القیام فی صورۃ القعود) تیسری رکعت کے بعد خالص بیٹھنے سے ہی سجدۂ سہو لازم ہوجائے گا
پہلی صورت میں قعدۂ خفیفہ کریں اور سجدۂ سہو نہ کریں تو بھی نماز درست ہوجائے گی گویا صورت مسئولہ میں پہلی توجیہ کے اعتبار سے سجدۂ سہو لازم نہیں ہوگا۔
اور دوسری توجیہ کے اعتبار سے امام ایک رکن (تین تسبیحات) کی ادائیگی کی مقدار بیٹھا ہو چاہے کچھ بھی نہ پڑھا ہو تو اس پر سجدہ سہو کرنا واجب ہوگا، اگر سجدہ سہو نہیں کیا تو نماز وقت کے اندر واجب الاعادہ ہوگی۔ اور اگر فوراً کھڑا ہوجائے کہ تین مرتبہ سبحان اللہ سبحان اللہ سبحان اللہ کی مقدار تاخیر نہ ہوئی ہو تو سجدہ واجب نہ ہوا تھا، اس لیے بغیر سجدہ سہو کیے نماز درست ہوگئی۔
سجدۂ سہو نہ کرنے کی صورت میں پہلا قول عدم اعادۂ صلوٰۃ کا ہے اور دوسرا اعادۂ صلوٰۃ کا ہے بندے نے ہمیشہ پہلے قول پر عمل کیا ہے واللہ اعلم بالصواب۔
جلسۂ استراحت کا حکم
پہلی اور تیسری رکعت کے دوسرے سجدے کے بعد کچھ دیر بیٹھنے کو "جلسہ استراحت" کہتے ہیں، جلسہ استراحت صحیح حدیث سے ثابت ہے، البتہ جلسہ استراحت سنت ہے یا نہیں؟ توحضرت امام شافعی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ کے نزدیک جلسہ استراحت سنت ہے اور اس کا طریقہ وہی ہے جو پہلے قعدہ میں بیٹھنے کا ہے
امام ابوحنیفہ اور جمہور کے نزدیک رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا جلسہ استراحت کرنا عذر (بڑھاپے) کی بنا پر تھا، نہ کہ یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مستقل معمول تھا، لہذا عذر (مثلا بڑھاپے یا جوڑوں کے درد) کی بناء پر جلسہ استراحت کرنے کی اجازت ہے، اورجس آدمی کو جلسہ استراحت کی حاجت نہ ہو اس کے لئے یہ سنت نہیں ہے۔
رد المحتار میں ہے
وكذا القعدة في آخر الركعة الأولى أو الثالثة فيجب تركها، ويلزم من فعلها أيضا تأخير القيام إلى الثانية أو الرابعة عن محله، وهذا إذا كانت القعدة طويلة، أما الجلسة الخفيفة التي استحبها الشافعي فتركها غير واجب عندنا، بل هو الأفضل كما سيأتي وهكذا كل زيادة بين فرضين يكون فيها ترك واجب بسبب تلك الزيادة؛ ويلزم منها ترك واجب آخر وهو تأخير الفرض الثاني عن محله.(رد المحتار علی الدر المختار ٢/١٦٤ کتاب الصلاۃ، باب صفۃ الصلاۃ دار عالم الكتاب)
غنیة المستملی میں ہے
و لو قام فی الصلوٰۃ الرباعیۃ الی الرکعۃ الخامسۃ او قعد بعد رفع راسہ من السجود فی الرکعۃ الثالثۃ او قام الی الرابعۃ فی المغرب، او الثالثۃ فیہ او فی الفجر او قعد بعد رفعہ من الرکعۃ الاولی فی جمیع الصلوات یجب علیہ سجود السہو بمجرد القیام فی صورۃ و بمجرد القعود فی صورۃ لتاخیر الواجب و ھو التشھد او السلام فی صورۃ القیام و تاخیر الرکن و ھو القیام فی صورۃ القعود۔ (غنیة المستملی فصل فی السجود ص: ٤٥٨ ط سہیل اکیدمی، لاھور)
حاشیة الطحطاوی میں ہے
ولم یبینوا قدر الرکن وعلی قیاس ما تقدم ان یعتبر الرکن مع سنتہ وھو مقدر بثلاث تسبیحات (طحطاوی علی مراقی الفلاح،ص ۲۵۸)
فتح القدیر میں ہے
عن أبي ہریرة وعن ابن مسعود: أنہ کان ینہض في الصلاة علی صدور قدمیہ ولم یجلس أخرجہ ابن أبي شیبہ وأخرج نحوہ عن علي وکذا عن ابن عمر وابن الزبیر، وفي فتح القدیر: فقد اتفق أکابر الصحابة الذین کانوا أقرب إلی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم أشد اقتفاء لأثرہ من مالک بن الحویرث علی خلاف ما قال فوجب تقدیمہ فیحمل ما رواہ علی حالة الکبر․ (فتح القدیر: ۱/ ۳۱٤ ۳۱۵، زکریا)
العارض مفتی آصف بن محمد گودھروی
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں