پیر، 28 اگست، 2023

فال کھلوانے کی شرعی حیثیت سوال نمبر ٤١٥

 سوال 

السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ 

 امید ہے کہ آپ خیریت کے ساتھ ھونگے عرض یہ ہے کہ میری کوئی چیز گم ھوگئی ھے تو اس کے لیے پھال ڈلوائی جاتی ھے تو شریعت کے اعتبار سے اس کا کیا حکم ہے؟ حضرت اسکی نوعیت یہ ہے کہ بعض لوگ ہاتھ دیکھتے ہیں پہر ھر کسی کے پاس مختلف طریقہ ہوتے ہیں کوئی تو اپنی موبائل میں وہ ایپ رکھے ہوے ہیں بعض قرآن پڑھ کر کرتے ہیں اور بعض دوسرے طریقوں سے کرتے ہیں  تو شرعا اسکا کیا حکم ہے؟ جزاکم اللہ خیرا

السائل: سیف اللہ صاحب  


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی


فال نکالنا کوئی شرعی چیز نہیں، اس پر یقین کرنا درست نہیں علمِ غیب صرف اللہ تعالی ہی کے پاس ہے، اور کائنات کی تمام چیزوں میں تصرف کرنے والی ذات صرف اللہ تعالیٰ کی ہے، اور اس کی مرضی کے بغیر کسی کو نہ کوئی خیر پہنچ سکتی ہے اور نہ ہی شر، لہذا فال نکالنا اور اس پر یقین یا عمل کرنا ناجائز ہے چاہے فال نکالنا کسی بھی اعتبار سے ہو اس لئے کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فال نکالنے والوں کے پاس جانے اور ان سے مستقبل کے بارے میں دریافت کرنے سے بھی منع فرمایا، البتہ کسی عالم یا ذی علم سے بطور مشورہ معلوم کرنا جائز ہے 

بدفالیاں بدشگونیاں اور توہمات کتاب میں مولانا عبدالروف سکھروی تحریر فرماتے ہیں کہ جب کسی شخص کی چوری ہو جاتی ہے تو بعض عالموں اور بعض مسجد کے اماموں کے ذریعے ایک خاص انداز اور خاص طریقے سے فال کھلوائی جاتی ہے اور اس کے سچ ہونے پر پورا عقیدہ ہوتا ہے اور فال میں جس شخص کا تعین ہوتا ہے آنکھیں بند کر کے اسی کو مجرم قرار دے کر مال مسروقہ اسی سے طلب کیا جاتا ہے جس میں بدنظمی اور بد گمانی یقینی ہو جاتی ہے اور آگے بڑھ کر الزامات تک نوبت پہنچ جاتے ہے اور باہم لڑائی جھگڑا علیحدہ رہا، جسمانی، ذہنی اور مالی پریشانی جدائی بھی درپیش ہوتی ہے۔

البتہ شریعت نے نیک فال لینے سے منع نہیں کیا ہے بلکہ نیک فال لینا پسندیدہ ہے اور سنت ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کثرت سے نیک فال لیا کرتے تھے خصوصاً آدمیوں کے ناموں سے اور ان کی جگہوں سے۔ اور نیک فال اس طرح لی جاتی ہے کہ مثلاً کوئی بیمار جب بیماری میں یہ خیال کرنے لگے کہ معلوم نہیں کہ مجھے صحت یابی ہوگی یا نہیں، پھر وہ کسی کو کہتا سنے کہ اے تندرست! تو مریض یہ سن کر خوش ہو جائے اور یہ سمجھے کہ اب مجھے شفا ہو جائے گی اور صحت ہو جائے گی یا کسی شخص کی کوئی شے گم ہو گئی ہو اور وہ اس کی تلاش و جستجو میں لگا ہوا ہو، اسی دوران کسی کو اپنے متعلق کہتا ہوا سنے کہ اے پانے والے! تو یہ شخص خوش ہو جائے اور یہ سمجھے کہ اب گمشدہ چیز مجھے مل جائے گی یا کوئی شخص راستہ بھول گیا اور وہ راستہ تلاش کر رہا تھا کہ اتنے میں کوئی شخص اس کو کہے کہ اے راستہ پانے والے! تو یہ شخص یہ گمان کرے کہ اب اس کو راستہ مل جائے گا تو اس کو نیک فال کہتے ہیں۔ (اشعۃ اللمعات) (مستفاد بدفالیاں بدشگونیاں اور توہمات ص ۳۱ ۔ ۳۸)


کتاب الفتاوی میں ہے کہ اللہ تعالی نے ہر انسان کی تقدیر لکھ دی ہے اور لکھ کر فرشتوں کے حوالہ بھی کی ہے، یہ قسمت انسان کے ہاتھ یا جسم پر نہیں لکھی جاتی ہے؛ اس لئے ہاتھ دیکھ کر لکیروں سے قسمت کا حال معلوم کرنا اور اس پر اعتماد کرنا سخت گناہ اور ناپسندیدہ ہے نہ شرعا ایسا کرنا درست ہے۔ ( کتاب الفتاوی ۱/۲٣٩)


شرح النووي میں ہے

والعراف هو الذي يدعي معرفة الشيء المسروق ومكان الضالة ونحوهما من الأمور، هكذا ذكره الخطابي في معالم السنن في كتاب البيوع، ثم ذكره في آخر الكتاب أبسط من هذا فقال: إن الكاهن هو الذي يدعي مطالعة علم الغيب ويخبر الناس عن الكوائن، قال: وكان في العرب كهنة يدعون أنهم يعرفون كثيراً من الأمور، فمنهم من يزعم أن له رفقاء من الجن وتابعة تلقي إليه الأخبار، ومنهم من كان يدعي أنه يستدرك الأمور بفهم أعطيه، وكان منهم من يسمى عرافاً وهو الذي يزعم أنه يعرف الأمور بمقدمات أسباب يستدل بها على مواقعها كالشيء يسرق، فيعرف المظنون به السرقة، وتتهم المرأة بالريبة، فيعرف من صاحبها ونحو ذلك من الأمور، ومنهم من كان يسمي المنجم كاهناً، قال: وحديث النهي عن إتيان الكهان يشتمل على النهي عن هؤلاء كلهم وعلى النهي عن تصديقهم والرجوع إلى قولهم، ومنهم من كان يدعو الطبيب كاهناً، وربما سموه عرافاً، فهذا غير داخل في النهي. هذا آخر كلام الخطابي. قال الإمام أبو الحسن الماوردي من أصحابنا في آخر كتابه الأحكام السلطانية: ويمنع المحتسب من يكتسب بالكهانة واللهو، ويؤدب عليه الآخذ والمعطي، والله أعلم. (شرح النووي ١٠ / ٢٣٢، ط: داراحیاء التراث العربی) 

العارض مفتی آصف بن محمد گودھروی 

کوئی تبصرے نہیں: