سوال
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
کچھ سوالات ہے اس کی وضاحت مطلوب ہے۔
سخت ضرورت پر والدین بچوں کے پیسے استعمال کر سکتے ہیں؟ بچوں کے پیسے بزنس میں والدین دے سکتے ہیں؟ کسی سے قرضہ لینے کا اختیار ہے پھر بھی بچے کے پیسے قرضہ لے کر والدین استعمال کر سکتے ہیں؟ ان کے جوابات مطلوب ہے۔
سائل: اللہ کی ایک بندی گودھرا
الجواب وباللہ التوفیق
باسمہ سبحانہ وتعالی
شریعت مطہرہ نے بچوں کی ملکیت کی حفاظت کے خاطر ان کے اشیاء کے استعمال کے لئے یہ حطمی اصول مقرر کیا ہے کہ جہاں ان کی ملکیت کو خطرہ ہو وہاں اس کو استعمال کی اجازت کسی اور کو نہیں دی ہے بلکہ اس کے اشیاء کا حکم یہ ہے کہ اسی بچہ کی ضروریات میں صرف کرنا ضروری ہے، والدین نہ دیگر اولاد پر خرچ کرسکتے ہیں، اور نہ ہی کسی دوسرے کو دے سکتے ہیں، بلکہ خود والدین بھی اپنی ضروریات میں استعمال نہیں کرسکتے یہ اصولی بات ہے
والدین اور بچوں کے تصرف کی نوعیت بچوں کے مال میں
نابالغ کی ملکیت میں تصرف کی تین صورتیں ہے۔
(۱) نفع محض یعنی اس میں بچے کا فائدہ ہی فائدہ ہو جیسے کسی نے ان کو کوئی چیز ہدیہ میں دی یا ان کو کھلایا پلایا۔
(۲) ضرر محض یعنی اس میں بچے کا نقصان ہی نقصان ہو فائدہ بالکل نہ ہو جیسے بچوں کی چیز کسی اور کو دیدینا یا خود بلا ضرورت اس کا استعمال کرنا۔
(۳) احتمال نفع و نقصان یعنی نفع بھی ہوسکتا ہے اور نقصان بھی ہوسکتا ہے جیسے ان کی رقم تجارت کے لئے دینا یا خود اس سے تجارت کرنا۔
پہلی صورت کا تو بچے اور والدین کے تصرف میں کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے البتہ دوسری صورت کسی کے لئے بھی جائز نہیں ہے یہاں تک کہ والدین بھی اس میں تصرف نہیں کرسکتے جہاں بچوں کا محض نقصان ہو اور تیسری صورت میں تصرف میں والدین نفع کی صورت کو ترجیح دیں گے۔
اب بچوں کو جو رقم ملتی ہیں اس کی بھی تین صورتیں ہیں۔
(۱) وہ رقم جو نابالغ بچوں کی سطح کی ہوتی ہیں جیسے کسی نے دس بیس روپیے دیئے، وہ ان کی ملکیت شمار ہوگی،
(۲) وہ رقم جو بچوں نے اپنے استعمالی پیسوں میں سے تھوڑے تھوڑے جمع کررکھے ہیں وہ بھی بچے کی ملک شمار ہوگی۔
(۳) وہ رقم جو بچوں کی سطح کے اوپر ہوتی ہیں، جیسے دعوت وغیرہ میں بچہ کے ہاتھوں میں پانچسو یا ہزار دوہزار ہاتھ میں دینا اسی طرح کوئی اور ایسی چیز دینا جو عام طور پر عادتاً بچوں کو نہیں دی جاتی تو اس میں عرف ورواج کا اعتبار ہوگا، اگر عرف یہ ہے کہ یہ تحفے تحائف ماں باپ کو دینا مقصود ہوتے ہیں، صرف ظاہراً بچوں کے ہاتھ میں دیے جاتے ہوں تو وہ ماں باپ کے ہوں گے وہ اس میں جو چاہیں تصرف کرسکیں گے، اور اگر عرف میں بچوں کو دینا مقصود ہو تو وہ بچوں کی ملک شمار ہوگی،
اور اگر کسی موقع پر ہدیہ دینے والے صراحت کردیں کہ یہ بچہ کے لیے یا اس کی والدہ یا والد کے لیے ہے تو جس کی صراحت کریں گے وہی اس کا مالک ہوگا۔
والدین کا ضرورت کے وقت بچوں کے پیسے قرض لینا
شریعت مطہرہ نے مختلف مواقع پر استعمالی اشیاء میں مختلف حقوق سے آشنا کیا ہے اور ان میں جائز ناجائز کے احکام مقرر فرماکر کچھ حدود قائم کی ہے لیکن جہاں کہی ان حدود سے ضرورت کا تصادم ہوا ہے وہی شریعت نے یہ واضح کردیا کہ الضرورات تبیح المحظورات یعنی جہاں کہی ممنوع اشیاء ہو اور اس کے استعمال میں مجبوری ہو تو شریعت بقدر ضرورت اس کے استعمال کی اجازت دیتی ہے۔
لہذا صورت مسئولہ میں نابالغ بچوں کا پیسہ ضرورت کے وقت والدین بطورِ قرض استعمال کرنا چاہے تو کرسکتے ہیں، اور والدین اس کی رقم استعمال کرلیں تو والدین پر اس کا قرضہ شمار ہوگا۔ البتہ تجارت میں خطر ہے اس لئے اس کی رقم کسی کو تجارت میں دینا درست نہیں ہے ۔
بہشتی زیور میں ہے
بہشتی زیور میں حضرت مولانا اشرف علی تھانوی صاحب نے اولاد کو دینے کے باب میں یہ وضاحت کے ساتھ یہ بات نقل کی ہے
البتہ اگر ماں باپ کو نہوت یعنی مفلسی کی وجہ سے نہایت ضرورت ہے وہ چیز کہیں اور سے ا ن کو نہ مل سکے تو مجبوری اور لا چاری کے وقت اپنی اولاد کی چیز لے لینا درست ہے۔ (بہشتی زیور باب نمبر پانچ صفحہ ۲٦٥ بچوں کو دینے کا بیان)
فتاوی شامی میں ہے
ولا يجوز أن يهب شيئاً من مال طفله ولو بعوض (درمختار مع رد المختار ٧٠٧/٤، كتاب الهبة، قبيل باب الرجوع في الهبة)
فتاوی ہندیہ میں ہے:
وذكر في مأذون شرح الطحاوي يجوز إذن الأب والجد ووصيهما وإذن القاضي ووصيه للصغير في التجارة وعبد الصغير، ولا يجوز إذن الأم للصغير وأخيه وعمه وخاله، كذا في الفصول العمادية في الفصل السابع والعشرين. ( ٥ / ٥٤، ط: رشيديه)
الاشباہ والنظائر میں ہے
المشقۃ تجلب التیسیر ویتخرج علی ھذہ القاعدۃ جمیع رخص الشرع وتخفیفاتہ الأشباہ ج۱/۱۴۵۔ الضرر یزال … وتتعلق بھا قواعد،الاولیٰ الضرورات تبیح المحظورات۔ومن ثم جاز اکل المیتۃ عند المخمصۃ وإساغۃ اللقمۃبالخمروالتلفظ بکلمۃ الکفر للإکراہ۔ (الأشباہ ج۱/۲۷۵)
العارض مفتی آصف گودھروی
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں