سوال
کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ: کسی مسلمان کا جمعہ کے دن یا رمضان المبارک میں انتقال ہوا تو سنا ہے کہ اس سے منکر نکیر سوال وجواب نہیں کرتے؟ تو کیا یہ بات صحیح ہے کہ جمعہ کے دن یا رمضان المبارک میں مرنے والوں کو قبر کا عذاب اور سوال وجواب نہیں ہوتا ؟ اور یہ حکم نیک اور فاجر فاسق سب کو شامل ہے یا صرف نیک لوگوں کے لئے ہے؟ اسی طرح کافر جمعہ یا رمضان میں انتقال کرجائے تو کیا حکم ہے؟ دوسری بات یہ ہے کہ یہ حکم صرف اسی دن کے لئے ہے یا قیامت تک کے لئے ان سے عذاب ہٹا دیا جاتا ہے؟ بالتفصیل جواب مطلوب ہے۔
سائل: مولوی عبدالحق راجستھانی
الجواب وباللہ التوفیق
باسمہ سبحانہ وتعالی
احادیث میں یہ بات تو مُسَلَّمۡ ہے کہ جمعہ کے دن یا رمضان المبارک میں جو مومن وفات پاجائے اس سے عذاب قبر اٹھالیا جاتا ہے، اگرچہ روایات میں ضعف ہے لیکن متعدد طرق کی وجہ سے اس کو تقویت حاصل ہے۔
حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلي الله عليه وسلم نے فرمایا کہ جو مسلمان جمعہ کے دن یا جمعہ کی شب انتقال فرماجائے اللہ تعالیٰ قبر کی آزمائش سے اس کی حفاظت فرماتے ہیں۔
نیز حضرت انس رضی اللہ کی روایت میں ہے کہ آپ نے فرمایا جمعہ کے دن جس کی موت ہوگی وہ عذاب قبر سے محفوظ رہے گا۔
اسی طرح رمضان المبارک میں وفات پانے والے کے متعلق بھی ضعیف حدیث وارد ہے کہ اس کو قبر میں سوال وجواب اور عذاب نہ ہوگا۔
اب یہ عذاب صرف رمضان المبارک اور جمعہ کے دن ہٹایا جاتا ہے یا تاقیامت، تو اس کے بارے میں دو قول ہے۔
(۱) بعض علماء فرماتے ہیں صرف ماہ رمضان المبارک اور جمعہ کے دن یہ عذاب اٹھادیا جاتا ہے۔
(۲) بعض علماء فرماتے ہیں تا قیامت ان سے قبر کا عذاب ہٹادیا جاتا ہے اور یہ قبر میں راحت و آرام کے ساتھ رہتے ہیں۔
البتہ راجح بات یہی معلوم ہوتی ہے کہ مسلمانوں کے حق میں یہ حکم عمومی ہے کہ اگر کسی مسلمان کا انتقال رمضان المبارک یا جمعہ کے دن ہوجائے تو تا قیامت عذابِ قبر سے محفوظ رہے گا، اور اللہ کی بے پناہ رحمتوں سے یہی امید رکھنی چاہیے کہ ہمیشہ کے لیے اس سے عذاب قبر اٹھالیا جاتا ہے۔
اسی طرح جمعہ کے دن یا رمضان میں مرنے والوں کے عذاب قبر سے محفوظ رہنے کے بارے میں جو روایات مروی ہے اس میں صرف مسلم کی قید ہے اور بظاہر اس میں صالح وفاسق دونوں شامل ہیں، اس لئے امید رکھنی چاہئے کہ بلا امتیاز ہر مسلمان اس بشارت کا مستحق ہوگا، لیکن اس بشارت کا تعلق صرف اَحوالِ قبر سے ہے، یہ آخرت میں حساب وکتاب اور عذاب سے محفوظ ہونے کی دلیل نہیں ہے البتہ احکام الحاکمین اگر عفو و درگزر کا معاملہ فرمائے تو وہ اور بات ہے۔
جہاں تک غیر مسلم کی بات ہے تو رمضان المبارک میں انتقال کرجانے کی وجہ سے صرف جمعہ اور ماہ مبارک کے احترام میں جمعہ یا رمضان المبارک تک عذاب قبر سے محفوظ رہے گا، اور جمعہ یا رمضان کے بعد پھر اسے عذاب ہوگا۔
سنن الترمذي میں ہے
عن عبد اللّٰہ بن عمرو ص قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ما من مسلم یموت یوم الجمعۃ أو لیلۃ الجمعۃ إلا وقاہ اللّٰہ فتنۃ القبر۔ (سنن الترمذي أبواب الجنائز/ باب ما جاء فیمن یموت یوم الجمعۃ ۱/۲۰۵، وقال: ہذا حدیث غریب و لیس اسنادہ بمتصل)
مصنف عبد الرزاق میں ہے
عن ابن شہاب موقوفا: أن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: من مات لیلۃ الجمعۃ أو یوم الجمعۃ برئ من فتنۃ القبر وکتب شہیداً۔ (مصنف عبد الرزاق ۳/۲٦۹)
شرح الصدور للسیوطي میں ہے
عن أنس بن مالک رضي اللّٰہ عنہ أن عذاب القبر یرفع عن الموتی في شہر رمضان۔ (شرح الصدور للسیوطي ۲۵٤ مکتبۃ دار التراث بیروت)
شرح الفقہ الأکبر میں ہے
ویرفع العذاب یوم الجمعۃ وشہر رمضان بحرمۃ النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم لأنہ ما دام في الأحیاء لا یعذبہم اللّٰہ تعالیٰ بحرمتہ۔ فکذلک في القبر یرفع عنہم العذاب یوم الجمعۃ وکل رمضان بحرمتہ۔ (شرح الفقہ الأکبر ۱۷۲ بیروت)
فتاوی شامی میں ہے
قال أهل السنة والجماعة: عذاب القبر حق وسؤال منكر ونكير وضغطة القبر حق، لكن إن كان كافراً فعذابه يدوم إلى يوم القيامة ويرفع عنه يوم الجمعة وشهر رمضان، فيعذب اللحم متصلاً بالروح والروح متصلاً بالجسم فيتألم الروح مع الجسد، وإن كان خارجاً عنه، والمؤمن المطيع لا يعذب بل له ضغطة يجد هول ذلك وخوفه، والعاصي يعذب ويضغط لكن ينقطع عنه العذاب يوم الجمعة وليلتها، ثم لا يعود وإن مات يومها أو ليلتها يكون العذاب ساعةً واحدةً وضغطة القبر ثم يقطع، كذا في المعتقدات للشيخ أبي المعين النسفي الحنفي من حاشية الحنفي ملخصاً (فتاوی شامی / باب الجمعۃ، مطلب ما اختص بہ یوم الجمعۃ ٣/٤٤ زکریا)
العارض: مفتی آصف بن محمد گودھروی
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں