سوال
ایک مسئلہ درپیش ہے جس کی تفصیل مطلوب ہے
زید نے 1948 سے پہلے اپنی زمین ایک آدمی کو کرایہ کے طور پر دی تقسیم پاکستان کے بعد وہ آدمی ہندوستان سے پاکستان چلا گیا اس کی کچھ اولاد ہندوستان میں اور کچھ پاکستان میں مقیم ہوگئی اب یہ جو زمین ہے اس پر ہندوستانی حکومت نے قبضہ کرلیا پھر بعد میں کرایہ پر دینے والے کی جو اولاد ہے اس میں سے ایک لڑکے نے اس زمیں کو خرید لیا بعد میں وہ اور اس کی اولاد سب پاکستان چلاگئے اب جن کو کرایہ پر زمین دی تھی اس کی اولاد میں دو لڑکے اس زمین کے قابض ہیں جو اس کو خالی کرنے کے لئے تیار نہیں ہے تو اس کے لئے شریعت کی روشنی میں کیا حکم ہے؟ واضح فرمائیں۔
سائل: قاسم حاجی گودھروی
الجواب وباللہ التوفیق
باسمہ سبحانہ وتعالی
تقسیم پاکستان کے بعد جو مسلمان اپنی مملوکہ زمینیں ہندوستان میں چھوڑکرہجرت کرکے پاکستان چلے گئے اور ان کی زمینوں پر حکومت ہند کا قبضہ ہوگیا تو وہ حکومت کی ملک شمار ہوگی اور اصل مالک کی ملکیت سے وہ نکل جائے گی چاہے تقسیم پاکستان کے فوراً بعد ہندوستان چھوڑا ہو یا بعد میں کسی وقت ہندوستان سے چلاگیا ہو اس لئے کہ حکومت ہند کا یہ قاعدہ ہے کہ جس کسی کی ناگرکتہ ختم ہوجائے اور اس کی ملک میں زمین جائداد ہو تو وہ زمین جائداد حکومت ہند کی شمار ہو گی،
اور فقہی قاعدہ ہے کہ استیلاء یعنی غلبہ اور تسلط یہ موجب ملک ہے یعنی تسلط اور غلبہ کے بعد وہ مالک بن جائیں گے اب ہندوستان کی حکومت وہ زمینیں جن کو دیں وہی اس کے مالک ہیں،
لہذا صورت مسؤلہ میں فی الحال وہ زمیں حکومت ہند کی شمار ہوگی اس میں وارثائی حق کسی کا نہیں ہوگا حکومت جس کو دیں وہی اس کا مالک ہوگا۔
اور جو فی الحال قابض ہے ان کا قبضہ غیر شرعی قبضہ ہے جو درست نہیں ہے کسی کی زمین پر ناجائز قبضہ کرنا ظلم اور زیادتی ہے، اور ظلم حرام اور ناجائز کام ہے وہ اس وعید میں آجائیں گے جو حدیث مبارکہ میں ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کا ارشاد ہے کہ " جو شخص کسی کی بالشت برابر زمین بھی ظلم وزیادتی سے لے گا تو (قیامت کے دن) سات زمینوں کا طوق اس کے گلے میں ڈال دیا جائے گا۔
امداد الفتاوی میں ہے
ایسے ہی ایک سوال کے جواب کے بارے میں حضرت مولانا اشرف علی تھانوی تحریر بقلم ہے کہ: استیلاء سرکار سے اس سڑک کی زمین اصلی مالک کی ملک سے خارج ہو گئی، جب باجازت سرکار کسی نے اس میں درخت لگایا، اس کا پھل بھی مملوک اس ہی لگانے والے شخص کا ہے، اس لئے اس پھل کا فروخت کرنا جائز ہے، جبکہ پھل نمودار ہوگیا ہو، اور کام میں لانے کے قابل ہوگیا ہو۔ (امداد الفتاوی جدید ٦/١٥)
صحیح بخاری میں ہے
حدثنا أبو معمر، حدثنا عبد الوارث، حدثنا حسين، عن يحيى بن أبي كثير، قال: حدثني محمد بن إبراهيم، أن أبا سلمة، حدثه أنه، كانت بينه وبين أناس خصومة فذكر لعائشة رضي الله عنها، فقالت: يا أبا سلمة اجتنب الأرض، فإن النبي صلى الله عليه وسلم قال: من ظلم قيد شبر من الأرض طوقه من سبع أرضين۔
فتاوی عالمگیری میں ہے
ولو استولى أهل الحرب على أموالنا وأحرزوها بدارهم ملكوها عندنا، فإن ظهر المسلمون عليهم بعد ذلك، فوجده المالك القديم قبل القسمة أخذه بغير شيء، وإن وجده بعد القسمة في يد من وقع في سهمه إن كان من ذوات القيم أخذه بقيمته إن شاء، وإن كان مثلياً لايأخذه بعد القسمة، كذا في فتاوى قاضي خان (الفتاوى الهندية ۲/ ۲۲٤)
ہدایہ میں ہے
إذا غلب الترک علی الروم فسبوہم وأخذوا أموالہم ملکوہا؛ لأن الاستیلاء قد تحقق۔ (ہدایۃ، کتاب السیر، باب استیلاء الکفار، أشرفیہ دیوبند ۲/ ۵۸۰)
فتاوی شامی میں ہے
لو استولی کفار الترک والہند علی الروم وأحرزوہا بالہند ثبت الملک لکفار الترک ککفار الہند۔ (شامي، کتاب الجہاد، باب استیلاء الکفار، زکریا ٦/ ٢٦٦)
النہر الفائق میں ہے
سبی الترک الروم وأخذوا أموالہم ملکوہا وملکنا ما نجدہ من ذلک إن غلبنا علیہم، وفي النہر: لوجود الاستیلاء علی مال مباح۔ (النہر الفائق، کتاب الجہاد، باب استیلاء الکفار، زکریا ۳/ ۲۲۳)
واللہ اعلم بالصواب
العارض:۔ مفتی آصف گودھروی
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں