سوال
السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ
مفتی صاحب مسٔلہ یہ ہے کہ (قبرستان میں تدفین کے بعد دعاء کرنا) 1۔۔۔۔۔ قبرستان میں تدفین کے بعد اجتماعی ھاتھ اٹھا کر دعاء کرنا کیسا ہے؟ 2۔۔۔۔۔ کیا بغیر ھاتھ اٹھا کر اجتماعی طور پر دعاء کر سکتے ہیں ؟ 3۔۔۔۔۔ بعض جگہ تدفین کے بعد ھاتھ اٹھا کر اجتماعی دعاء کرتے ہیں اور بعض جگہ سورہ الفاتحہ+ سورہ بقرہ پڑھکر بخشتے ہیں ،کیا کرنا چاہیے ؟
مفتی صاحب بعض آبادی میں ایک ہی خیال (تبلیغی) کے رہتے ہیں ،
اور بعض آبادی میں دونوں جماعتیں ( بدعت والے اور تبلیغی) کے خیال والے بھی رہتے ہیں ۔ تو ان کو تدفین کے بعد کون سا عمل کرنا چاہئے؟
~مفتی صاحب ذرا حوالہ کے ساتھ رہنمائی فرمائیں آپ کی مہربانی بانی ھوگی ،
سائل: عنایت اللہ ابن عبداللہ
الجواب وباللہ التوفیق
باسمہ سبحانہ وتعالی
قبرستان میں میت کی تدفین سے فارغ ہوکر قبلہ رو ہوکر اور ہاتھ اٹھاکر میت کے لیے دعائے مغفرت وغیرہ کرنا جائز اور درست ہے بلکہ فقہاء نے مستحب لکھا ہے اس لئے کہ میت کی تدفین کے بعد جو عمل احادیث میں وارد ہے وہ یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم جب تدفین سے فارغ ہوتے تو قبر پر کھڑے رہتے اور فرماتے کہ اپنے بھائی کے لیے استغفار کرو اور اس کے لیے ثابت قدمی کی دعا کرو کیوں کہ اس سے اب سوال کیا جائے گا۔
اسی طرح بعض مواقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے قبر پر ہاتھ اٹھا کر دعا کرنا ثابت ہے، لیکن ان مواقع پر بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قبلہ رو ہو کر دعا فرماتے تھے۔ قبر کی طرف رخ کر کے دعا مانگنے میں صاحبِ قبر سے مانگنے کا شبہ ہو سکتا ہے اس لیے قبر کے پاس دعا کرنی ہو تو ہاتھ اٹھائے بغیر ہی دعا کرلے اور اگر ہاتھ اٹھاکر دعا کرنی ہو تو قبلہ کی طرف رخ کرکے ہاتھ اٹھاکر دعا کرلی جائے تاکہ قبر یا صاحبِ قبر سے مانگنے کا شبہ نہ ہو۔
اور یہ دعا انفرادًا بھی کی جاسکتی ہے، اور اجتماعًا بھی کی جاسکتی ہے لیکن قبر پر اجتماعی دعا ثابت نہیں ہے لہذا اجتماعی دعا کو شریعت کا حکم سمجھ کر کرنا یا اس کا ایک خاص طریقہ پر التزام کرنا اور نہ کرنے والے کو ملامت کرنا یہ اجتماعی دعا کو بدعت بنا دے گا اور ایسی صورت میں اس کا ترک لازم ہوگا اسی طرح سرًّا اور جہرًا دونوں طرح کرسکتے ہیں البتہ بہتر یہ ہے کہ یہ دعا سرًّا ہو لیکن دعا میں کوئی ایسی ہیئت یا طریقہ اختیار نہ کیا جائے کہ کسی دیکھنے والے کو صاحب قبر سے مانگنے کا شبہ ہو۔
میت پر سورہ بقرہ کی ابتدائی اور آخری آیات کا پڑھنا
میت کو قبر میں دفن کرنے کے بعد اس کے سرہانے سورہ بقرہ کی ابتدائی آیات اورپائنتی جانب سورہ بقرہ کی آخری آیات پڑھنا مسنون ہے، یہ آیات جہراً اور سراً دونوں طرح پڑھ سکتے ہیں۔
احسن الفتاوی میں ہے کہ فقہاء نے فرمایا مستحب ہے کہ تدفین سے فارغ ہوکر قبر کے پاس ( کم از کم) اتنی دیر ٹھہرا جائے کہ ایک اونٹ ذبح کرکے اس کا گوشت تقسیم کیا جاسکے اور اس دوران میت کے لیے منکر نکیر کے سوالات کے جواب میں ثبات قدمی اور مغفرت کی دعا کی جائے اور قرآن پاک پڑھا جائے، جیسے: میت کے سرہانے سور بقرہ کی ابتدائی آیتیں اور پائینتی جانب سورہ بقرہ کی آخری آیتیں پڑھی جائیں۔ اور اس موقع پر جب دعا کی جائے تو اس میں ہاتھ اٹھاکر دعا کرسکتے ہیں؛ بلکہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس موقع پر قبلہ رو ہوکر اور ہاتھ اٹھاکر دعا فرمائی ہے؛ اس لیے اس موقع پر ہاتھ اٹھاکر قبلہ رو ہوکر دعا کرنا نہ صرف جائز؛ بلکہ مستحب ہے (احسن الفتاوی٤/ ۲۳۳، ۲۳۴، مطبوعہ: ایچ ایم سعید کمپنی کراچی)
فتاوی دارالعلوم دیوبند میں اس طرح کے سوال کے جواب میں تحریر فرماتے ہیں کہ
میت کی تدفین کے بعد میت کے سرہانے کھڑے ہوکر سورہٴ بقرہ کی ابتدائی آیات ”المّ“ سے ”مفلحون“ تک پڑھنا اور پیر کی جانب سورہٴ بقرہ کی آخری آیات ”آمن الرسول سے اخیر آیت تک پڑھنا حدیث سے ثابت ہے، حدیث میں کچھ ضعف ہے لیکن فضائل اعمال میں معتبر ہے، بیہقی اور طبرانی کی روایت میں فاتحة الکتاب کی صراحت ہے؛ البتہ مشکاة میں یہی روایت بحوالہ بیہقی ”فاتحة البقرة“ کے ساتھ مذکور ہے اور ملا علی قاری نے اس کی وضاحت کرتے ہوئے الم سے مفلحون تک پڑھنا لکھا ہے اور علامہ طیبی کے حوالے سے اس کی وجہ اور حکمت بھی لکھی ہے، اس لیے ممکن ہے کہ بیہقی اور طبرانی کی روایت میں مذکور ”فاتحة الکتاب“ سے ”فاتحة البقرة“ ہی مراد ہو، ویسے ایصالِ ثواب کی غرض سے سورہٴ فاتحہ کی تلاوت کرنے میں بھی مضایقہ نہیں ہے۔ عن عبد ا للہ بن عمر -رضي اللہ عنہما- سمعت النبی -صلی اللہ علیہ وسلم- یقول: إذا مات أحدکم فلا تحبسوہ وأسرعوا بہ إلی قبرہ ولیقرأ عند رأسہ بفاتحة الکتاب، وعند رجلیہ بخاتمة البقرة في قبرہ (رواہ البیہقي في شعب الإیمان رقم: ۹۷۹۴، والطبراني في الکبیر، رقم: ۱۳۶۱۳، قال الہیثمی في المجمع (۴۴۱۳) وفیہ یحی ابن عبد اللہ الباہلی وہو ضعیف وفی المرقاة: ولیقرأعند رأسہ فاتحة البقرة أي: إلی المفلحون․ وعند رجلیہ بخاتمة البقرة أي من آمن الرسول الخ قال الطیبي: لعل تخصیص فاتحتہا لاشتمالہا علی مدح کتاب اللہ، وأنہ ہدی للمتقین، الموصوفین بالخلال الحمیدة من الإیمان بالغیب، وإقامة الصلاة، وإیتاء الزکاة، وخاتمتہا لاحتوائہا علی الإیمان باللہ وملائکتہ وکتبہ ورسلہ، وإظہار الاستکانة، وطلب الغفران والرحمة، والتولی إلی کنف اللہ تعالی وحمایتہ قال النووی فی الأذکار: قال محمد بن أحمد المروزی: سمعت أحمد بن حنبل یقول: إذا دخلتم المقابر فاقروٴا بفاتحة الکتاب والمعوذتین، وقل ہو اللہ أحد، واجعلوا ثواب ذلک لأہل المقابر، فإنہ یصل إلیہم (مرقاة: ۴/ ۸۱باب دفن المیت) (دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند جواب نمبر ١٤٥٤٣٥)
مسؤلہ صورت میں تدفین کے بعد قبر پر اجتماعی اور انفرادی دعاء کرنا اسی طرح سرًّا اور جہرًا دعاء کرنا جائز ہے اور میت کو قبر میں دفن کرنے کے بعد اس کے سرہانے سورہ بقرہ کی ابتدائی آیات اورپائنتی جانب سورہ بقرہ کی آخری آیات پڑھنا مسنون ہے، یہ آیات جہراً اور سراً دونوں طرح پڑھ سکتے ہیں اور جن علاقوں میں قبر پرستی ہو تو وہاں پر ہاتھ اٹھاکر دعاء کرنا درست نہیں ہوگا کیونکہ ناظرین کے فتنے میں مبتلا ہونے کا اندیشہ ہے اس لئے جہاں دونوں قسم کے عقیدے سے تعلق رکھنے والے لوگ ہو تو وہاں بغیر ہاتھ اٹھائے انفرادی دعاء کرنا ہی بہتر ہے تاکہ فتنے کا خوف باقی نہ رہے البتہ میت کے سرہانے سور بقرہ کی ابتدائی آیتیں اور پائینتی جانب سورہ بقرہ کی آخری آیتیں دونوں صورتوں میں پڑھنا درست ہے۔
مشکاة المصابیح میں ہے
عن عثمان قال: کان النبی صلی اللہ علیہ وسلم إذا فرغ من دفن المیت وقف علیہ فقال: استغفروا لأخیکم ثم سلوا لہ بالتثبیت فإنہ الآن یسأل، رواہ أبو داود (مشکاة المصابیح، کتاب الإیمان، باب إثبات عذاب القبر الفصل الثانی ص٢٦ ط المکتبة الأشرفیة دیوبند)
فتح الباری میں ہے
وفی حدیث ابن مسعود:رأیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فی قبر عبدالله ذی البجادین الحدیث، و فیه: فلما فرغ من دفنہ استقبل القبلة رافعاً یدیہ ، أخرجہ أبو عوانة فی صحیحہ (فتح الباری، کتاب الدعوات، باب الدعاء مستقبل القبلة، ۱۱/۱۷۳ ط دار السلام الریاض)
فتاوى هنديہ میں ہے:
وإذا أراد الدعاء يقوم مستقبل القبلة، كذا في خزانة الفتاوى۔ (فتاوى هنديہ كتاب الكراهية الباب السادس عشر في زيارة القبور و قراءة القرآن في المقابر، ٥/٣٥٠ ط دار الفکر)
مشکاة المصابیح میں ہے
وعن عبد اللہ بن عمر قال سمعت النبي صلی اللہ علیہ وسلم یقول إذا مات أحدکم فلا تحبسوہ وأسرعوا بہ إلی قبرہ ولیقرأ عند رأسہ فاتحة البقرة وعند رجلیہ بخاتمة البقرة رواہ البیھقي فی شعب الإیمان وقال والصحیح أنہ موقوف (مشکاة المصابیح کتاب الجنائز باب دفن المیت الفصل الثالث ص١٤٩)
فتاوی شامی میں ہے
ویستحب ……بعد دفنہ لدعاء وقراءة بقدر ما ینحر الجزور ویفرق لحمہ (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الصلاة، باب صلاة الجنازة، ٣/١٤٣ ط مکتبة زکریا دیوبند)
المعجم الكبير میں ہے
عبد الرحمن بن العلاء بن اللجلاج، عن أبيه، قال: قال لي أبي:"يا بني، إذا أنا مت فألحدني، فإذا وضعتني في لحدي، فقل: بسم الله وعلى ملة رسول الله، ثم سن علي الثرى سنا، ثم اقرأ عند رأسي بفاتحة البقرة، وخاتمتها، فإني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول ذلك". (المعجم الكبير للطبراني، من اسمه لجلاج ١٩/٢٢١ ط: مكتبة ابن تيمية)
المعجم الكبير میں ہے
ابن عمر يقول: سمعت النبي صلى الله عليه وسلم يقول إذا مات أحدكم فلا تحبسو هو أسرعوا به إلى قبره وليقرأ عند رأسه بفاتحة الكتاب وعند رجليه بخاتمة البقرة في قبره۔ (المعجم الكبير للطبراني، عبد الله بن عمر ١٢/٤٤ ط: مكتبة ابن تيمية)
واللہ أعلم بالثواب والیہ المرجع والمآب
العارض مفتی آصف بن محمد گودھروی