اتوار، 29 اکتوبر، 2023

خود بخود اگنے والی گھاس کی خریدو فروخت کا شرعی حکم سوال نمبر ٤٣٨

 سوال

مفتی صاحب ۔۔۔ سوال یہ تھا کہ کھیت ہوتا ہے اس کے ارد گرد جو گھانس اگتی ہے قدرتی اس کو پیسوں سے کسی کو بیچ سکتے ہیں ؟ حالانکہ اس میں عشر بھی نکالا جاتا ہے ؟

سائل: مولوی احمد اسلامپوری


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی


جو گھاس خود رو ہوتی ہے یعنی خود بخود بغیر بیج بوئے اور بغیرکھاد و پانی دئے اپنے آپ زمین میں اُگتی ہے وہ اصلاًمباح ہے چاہے اپنی خود کی زمین میں اُگے یا کسی کی زمین میں اُگے اس کو جو چاہے کاٹ سکتاہے البتہ اگر مباح الأصل گھاس کی خریدو فروخت کرنا ہے تو اسے کاٹ کر پہلے اپنی تحویل میں اور اپنے قبضے میں لینا ضروری ہے اس کے بعد فروخت کرنا جائز ہے۔

 

صورت مسئولہ میں خود رو گھاس کو کاٹ کر اپنے قبضے میں لے لیا ہے تو اس کی خرید وفروخت جائز ہے اور اگر کاٹ کر اپنے قبضے میں نہیں لیا ہے تو وہ مباح الأصل ہے اس کو کوئی بھی کاٹ سکتا ہے اور جو کاٹ کر اپنے قبضے میں لے لیگا وہ اس کا مالک ہوجائے گا۔


سنن ابن ماجہ میں ہے 

قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " المسلمون شركاء في ثلاث ‌في ‌الماء، ‌والكلإ، والنار، وثمنه حرام۔ (كتاب الرهون،باب المسلمون شركاء في ثلاث ۲/۸۲٦  ط:دار إحياء الكتب العربية)


بدائع الصنائع میں ہے

وأما الكلأ الذي ينبت في أرض مملوكة، فهو مباح، غير مملوك، إلا إذا قطعه صاحب الأرض، وأخرج فيملكه، هذا جواب ظاهر الرواية عن أصحابنا.

وقال بعض المتأخرين من مشايخنا  رحمهم الله : أنه إذا سقاه ،وقام عليه، ملكه ،والصحيح جواب ظاهر الرواية؛ لأن الأصل فيه هو الإباحة ،لقوله  صلی اللہ علیہ و سلم :الناس شركاء في ثلاث :الماء ،والكلأ ،والنار. والكلأ :اسم لحشيش ينبت من غير صنع العبد، والشركة العامة هي الإباحة، إلا إذا قطعه وأحرزه ؛لأنه استولى على مال مباح غير مملوك فيملكه كالماء المحرز في الأواني ،والظروف ،وسائر المباحات التي هي غير مملوكة لأحد.(بدائع الصنائع ٦/١٩٣)


فتاوی شامی میں ہے

ثم الكلام في الكلأ على أوجه، أعمها :ما نبت في موضع غير مملوك لأحد. فالناس شركاء في الرعي والاحتشاش منه كالشركة في ماء البحار، وأخص منه: وهو ما نبت في أرض مملوكة بلا إنبات صاحبها، وهو كذلك إلا أن لرب الأرض المنع من الدخول في أرضه، وأخص من ذلك كله :وهو أن يحتش الكلأ أو أنبته في أرضه، فهو ملك له، وليس لأحد أخذه بوجه لحصوله بكسبه .(الدر المختار مع رد المحتار ۱۰/۱۵)


 فتح القدیر میں ہے

أما إذا أحرز الماء بالاستقاء في آنية والكلأ بقطعه جاز حينئذ بيعه؛ لأنه بذلك ملكه۔ (‌‌كتاب البيوع،باب البيع الفاسد ٦/٤١٨ ط:دار الفكر)


واللہ أعلم بالثواب والیہ المرجع والمآب 

العارض مفتی آصف بن محمد گودھروی

جمعہ، 27 اکتوبر، 2023

"میں تجھکو طلاق دونگا" کہنے سے طلاق کا حکم سوال نمبر ٤٣٧

 سوال 

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

بعد سلام ومسنون عرض اینکہ زید نے سات سال پہلے اپنی بیوی سے کہا دو مرتبہ طلاق طلاق اسکے بعد دونوں سات سال ساتھ رہںے ابھی تین مہینے سے زید کی بیوی اپنے ماں کے یہاں ہںے تو زید نے ڈرانے کے لئے کہا میں تجھکو طلاق دونگا اب اسکا کیا مسئلہ ہے؟ جواب عنایت فرماے۔

سائل: محمد صادق رشیدی مہاراشٹر


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی


مذکورہ صورت میں جب بیوی کو دو مرتبہ "طلاق طلاق" کہا تو اس سے شرعا سائل کی بیوی پر دو طلاق رجعی واقع ہوگئی، اور آئندہ کے لئے سائل کو صرف ایک طلاق دینے کا حق باقی رہے گا جب کبھی اس نے ایک اور طلاق دےدی تو پھر وہ مغلظہ ہوجائے گی اور اس کو رجوع کا بھی حق حاصل نہیں ہوگا۔


اسی طرح "میں تجھے طلاق دونگا" یہ دھمکی آمیز جملے ہیں اور مستقبل میں طلاق دینے کے وعدے پر مشتمل ہیں ان جملوں سے کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی اس لئے وہ اپنی بیوی کے ساتھ رہ سکتاہے۔


فتاوی ہندیہ میں ہے

متى كرر لفظ الطلاق بحرف الواو أو بغير حرف الواو يتعدد الطلاق وإن عنى بالثاني الأول لم يصدق في القضاء كقوله يا مطلقة أنت طالق أو طلقتك أنت طالق (کتاب الطلاق الفصل الاول فی الطلاق الصریح ١/٣٥٦ ط دار الفکر)

ایضاً 

فقال الزوج أطلق (طلاق می کنم) فکررہ ثلاثاً طلقت ثلاثاً بخلاف قولہ: سأطلق (طلاق می کنم) لأنہ استقبالٌ فلم یکن تحقیقا بالشک․ (الہندیة: ۱/۳۸٤، الطلاق بالألفاظ الفارسیة ط: رشیدیہ)


فتاویٰ تاتارخانیہ میں ہے:

وفي الظهيرية: ومتى كرر لفظ الطلاق بحرف الواو أو بغير حرف الواو يتعدد وإن عنى بالثاني الأول لم يصدق في القضاء كقوله يا مطلقة أنت طالق ... وفي الحاوي: ولو قال ترا يك طلاق يك طلاق يك طلاق! بغير العطف وهي مدخول بها تقع ثلاث تطليقات۔ (كتاب الطلاق، الفصل الرابع، فيما يرجع إلى صريح الطلاق ٤/ ٤٢٧-٤٢٩ ط: مكتبة زكريا، ديوبند هند)


بدائع الصنائع میں ہے:

وأما الطلقات الثلاث فحكمها الأصلي هو زوال الملك، وزوال حل المحلية أيضًا حتى لايجوز له نكاحها قبل التزوج بزوج آخر۔ (كتاب الطلاق، فصل في حكم الطلاق البائن ٣/١٨٧ ط سعيد)


واللہ أعلم بالثواب والیہ المرجع والمآب 

العارض مفتی آصف بن محمد گودھروی

بدھ، 25 اکتوبر، 2023

مسجد میں زمین کی قیمت دینے کا وعدہ کرنا سوال نمبر ٤٣٦

سوال 

مفتی صاحب ایک سوال تھا کسی نے یوں اقرار  کیا کہ گاؤں کی نئی مسجد کی جب تعمیر ہوگی اس وقت ایک اکڑ زمین کی قیمت مسجد کے واسطے ادا کرونگا اور اس وقت زمین کی قیمت آٹھ لاکھ تھی تو کونسے وقت کی قیمت ادا کرنی ہوگی اقرار کیا اس وقت کی یا فی الحال جو قیمت چل رہی ہے؟ 

سائل: مولوی احمد اسلامپوری 


باسمہ سبحانہ وتعالی 

الجواب وباللہ التوفیق


جب کوئی شخص اپنی کسی چیز کو وقف کرے تو حنفیہ کے نزدیک مفتی بہ قول یہ ہے کہ زبان سے کہتے ہی وقف تام ہوجاتا ہے البتہ اگر وعدۂ وقف ہے تو وہ وقف تام نہ ہونے کی وجہ سے اس کو پورا کرنا ضروری نہیں ہوگا لیکن چونکہ دینے کا وعدہ کیا ہے وعدہ کرکے اس کو پورا نہ کرنا شریعت میں بڑا گناہ ہے اور قرآنِ مجید احادیثِ نبویہ میں وعدہ پورا کرنے کی بہت تاکید آئی ہے، حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ نے بہت کم ایسا خطبہ دیا ہوگا جس میں یہ ارشاد نہ فرمایا ہو کہ اس شخص کا کوئی ایمان نہیں جس میں امانت نہیں، اور اس شخص کا کوئی دین نہیں جس میں وعدہ کی پاس داری نہیں۔ 


لہذا صورت مسئولہ میں چونکہ زید نے گاؤں کی نئی مسجد کی جب تعمیر ہوگی اس وقت ایک ایکڑ زمین کی قیمت مسجد کے واسطے ادا کرنے کا وعدہ کیا ہے  یہ بظاہر وقف نہیں بلکہ وعدہ وقف ہے اس لئے اس کے حق میں یہ اختیار رہے گا کہ وہ وعدے کے وقت کی قیمت ادا کرے یا فی الحال جو قیمت ہو اس کو ادا کرے لیکن ایک مسلمان کو وعدہ کرنے کے بعد پورا کرنا چاہئیے وعدہ پورا نہ کرنا منافقین کی علامت ہے؛ اس لئے زید کے حق میں بہتر یہ ہے کہ جس دن زمین خریدے اس وقت کی رقم مسجد کے ذمہ داروں کے حوالہ کریں۔ واللہ اعلم بالصواب۔


قرآن کریم میں ہے 

قال الله تعالى: ﴿لَّيْسَ الْبِرَّ أَن تُوَلُّوا وُجُوهَكُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ وَلَٰكِنَّ الْبِرَّ مَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَالْمَلَائِكَةِ وَالْكِتَابِ وَالنَّبِيِّينَ وَآتَى الْمَالَ عَلَىٰ حُبِّهِ ذَوِي الْقُرْبَىٰ وَالْيَتَامَىٰ وَالْمَسَاكِينَ وَابْنَ السَّبِيلِ وَالسَّائِلِينَ وَفِي الرِّقَابِ وَأَقَامَ الصَّلَاةَ وَآتَى الزَّكَاةَ وَالْمُوفُونَ بِعَهْدِهِمْ إِذَا عَاهَدُوا ۖ وَالصَّابِرِينَ فِي الْبَأْسَاءِ وَالضَّرَّاءِ وَحِينَ الْبَأْسِ ۗ أُولَٰئِكَ الَّذِينَ صَدَقُوا ۖ وَأُولَٰئِكَ هُمُ الْمُتَّقُونَ﴾ (البقرة: ۱۷۷)


صحيح البخاري مسلم میں ہے

عن أبي هريرة رضي الله عنه قال: قال رسول الله آية المنافق ثلاث: إذا حدَّث كذب، وإذا وعد أخلف، وإذا اؤتمن خان متفق عليه. (صحيح البخاري كتاب الْإِيمَانُ/ بَابُ عَلَامَةِ الْمُنَافِقِ. رقم الحديث ۳۳) (صحيح مسلم، كِتَابٌ الْإِيمَانُ/ بَابٌ بَيَانُ خِصَالِ الْمُنَافِقِ، رقم الحديث ۵۹)


رد المحتار میں ہے

ثم إن أبا یوسف یقول یصیر وقفا بمجرد الْقول لأنہ بمنزلة الإعتاق عندہ وعلیہ الفتوی۔ ( رد المحتار: ۳۳۸/۴)


البحر الرائق میں ہے

فالحاصل أن الترجیح قد اختلف والأخذ بقول أبی یوسف أحوط وأسہل ولذا قال فی المحیط ومشایخنا أخذوا بقول أبی یوسف ترغیبا للناس فی الوقف۔ ( البحر الرائق ۲۱۲/۵)


واللہ أعلم بالثواب والیہ المرجع والمآب 

العارض مفتی آصف بن محمد گودھروی


اتوار، 22 اکتوبر، 2023

عورت کے رکوع اور سجدہ کرنے کا مکمل طریقہ کیا ہے؟ سوال نمبر ٤٣٥

 سوال 

السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ

مفتی صاحب عورت کے رکوع اور سجدہ کرنے کا مکمل طریقہ کیا ہے؟

سائل: مستقیم راجپورا


باسمہ سبحانہ وتعالی 

الجواب وباللہ التوفیق


عورت کے رکوع کرنے کا طریقہ

عورت جب تکبیر کہتے ہوئے رکوع کے لئے  جھکے تو رکوع میں پہنچ کر تکبیر ختم کرے رکوع میں پوری طرح نہ جھکے بلکہ تھوڑا سا جھک جائے، وہ بھی صرف اس قدر کہ ہاتھ گھٹنوں تک پہنچ جائیں،اور خوب سمٹ کر رکوع کرے کہ بازؤوں کو پہلوؤں (یعنی کہنیوں کو پسلیوں) سے مِلا لے، گھٹنوں کو سیدھا نہ رکھے بلکہ تھوڑا سا آگے جھکا لے (یعنی ذرا سا خم دے دے)، ہاتھوں سے گھٹنے نہ پکڑے بلکہ ہاتھ گھٹنوں پر رکھ لے اور انگلیاں آپس میں مِلالے، نظر پاؤں کی طرف رکھے، اور دونوں پاؤں آپس میں ملا لے۔ رکوع خوب اطمینان سےکرے کہ کم از کم تین بار سُبْحَانَ رَبِّي الْعَظِيم اطمینان سے پڑھ سکے یہ رکوع مکمل طریقہ ہے  پھر سَمِعَ اللهُ لِمَنْ حَمِدَهُ اس طرح کہے کہ رکوع سے اٹھتے ہوئے شروع کرے اور کھڑے ہوتے ہی ختم کرے۔


عورت کے سجدہ کرنے کا طریقہ

تکبیر کہتے ہوئے سجدے کے لئے جائے سجدے میں جاتے ہوئے سینہ آگے کو جھکاتے ہوئے جائے، زمین پر پہلے اپنے گھٹنے رکھے، پھر ہاتھ، پھر ناک اور پھر پیشانی رکھے، اور ہاتھوں کی انگلیاں مِلاکر قبلہ رخ رکھے، اور خوب سمٹ کر اور دَب کر سجدہ کرے کہ پیٹ رانوں سے مل جائے، کہنیاں زمین پر بچھا دے اور سینے (یعنی پہلو) سے بھی لگا دے، دونوں پاؤں کو دائیں طرف نکال کر زمین پر بچھا دے، اور جتنا ہوسکے پاؤں کی انگلیوں کو قبلہ رخ رکھے۔سجدہ خوب اچھی طرح کرے جس میں اطمینان سے کم از کم تین بار سُبْحَانَ رَبِّي الْأَعْلٰى پڑھ سکے یہ عورت کا مکمل سجدہ کا طریقہ ہے۔


مصنف عبدالرزاق میں ہے

عن الحسن وقتادة قالا: إذا سجدت المرأة؛ فإنها تنضم ما استطاعت ولاتتجافي لكي لاترفع عجيزتها". (مصنف عبدالرزاق ۳/٤٩ باب تکبیرة المرأة بیدیها وقیام المرأة ورکوعها وسجودها)

ایضاً 

عن عطاء قال: ... إذا سجدت فلتضم يديها إليها، وتضم بطنها وصدرها إلى فخذيها، وتجتمع ما استطاعت". (مصنف عبدالرزاق۳/۵۰ رقم ۵۹۸۳)


الکامل لابن عدی میں ہے

عَبْدِاللّٰہِ بْنِ عُمَرَ رضی اللہ عنہ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم اِذَاجَلَسَتِ الْمَرْاَۃُ فِی الصَّلٰوۃِ وَضَعَتْ فَخِذَھَا عَلٰی فَخِذِھَا الْاُخْریٰ فَاِذَا سَجَدَتْ اَلْصَقَتْ بَطْنَھَا فِیْ فَخِذِھَاکَاَسْتَرِمَا یَکُوْنُ لَھَا فَاِنَّ اللّٰہَ یَنْظُرُ اِلَیْھَا وَ یَقُوْلُ یَا مَلَائِکَتِیْ اُشْھِدُکُمْ اَنِّیْ قَدْغَفَرْتُ لَھَا. (الکامل لابن عدی ۲/۵۰۱)


السنن الكبرى للبيهقي میں ہے

عَنْ أَبِى سَعِيدٍ الْخُدْرِىِّ صَاحِبِ رَسُولِ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم أَنَّهُ قَالَ خَيْرُ صُفُوفِ الرِّجَالِ الأُوَلُ وَخَيْرُ صُفُوفِ النِّسَاءِ الصَّفُّ الْمُؤَخَّرُ وَكَانَ يَأْمُرُ الرِّجَالَ أَنْ يَتَجَافُوا فِى سُجُودِهِمْ وَيَأْمُرُ النِّسَاءَ يَنْخَفِضْنَ فِى سُجُودِهِنَّ وَكَانَ يَأْمُرُ الرِّجَالَ أَنْ يَفْرِشُوا الْيُسْرَى وَيَنْصِبُوا الْيُمْنَى فِى التَّشَهُّدِ وَيَأْمُرُ النِّسَاءَ أَنْ يَتَرَبَّعْنَ۔ (السنن الكبرى للبيهقي، باب ما يستحب للمراة،ْ۔۔۔ ۳/٧٤)

 

فتاویٰ ہندیہ میں ہے:

والمرأة تنحني في الرکوع يسيراً ولاتعتمد ولاتفرج أصابعها ولکن تضم يديها وتضع علي رکبتيها وضعاً وتنحني رکبتيها ولاتجافي عضدتيها (الفتاویٰ الهندیة ١/٧٤)


حاشية الطحطاوي میں ہے

قوله ويسن وضع المرأة يديها الخ المرأة تخالف الرجل في مسائل منها هذه ومنها أنها لا تخرج كفيها من كميها عند التكبير وترفع يديها حذاء منكبيها ولا تفرج أصابعها في الركوع وتنحني في الركوع قليلا بحيث تبلغ حد الركوع فلا تزيد على ذلك لأنه أستر لها وتلزم مرفقيها بجنبيها فيه وتلزق بطنها بفخذيها في السجود وتجلس متوركة في كل قعود بأن تجلس على أليتها اليسرى وتخرج كلتا رجليها من الجانب الأيمن وتضع فخذيها على بعضهما وتجعل الساق الأيمن على الساق الأيسر كما في مجمع الأنهر۔ (حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح ،كتاب الصلاة،فصل في بيان سننها ص۲۵۹)


واللہ أعلم بالثواب والیہ المرجع والمآب 

العارض مفتی آصف بن محمد گودھروی

جمعہ، 20 اکتوبر، 2023

تقسیم وراثت سی پہلے کسی کو مالک بنادینا سوال نمبر ٤٣٤

 سوال 

السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ

مفتی صاحب ایک مسئلہ معلوم کرنا ہے ایک شخص کا انتقال ہوگیا ہے تقریباً چھ سال پہلے اس کے تین بیٹے ہے اور تینوں مدرسہ میں پڑھتے ہیں انہوں نے والد کے انتقال کے بعد وراثت باقاعدہ شرعی طور پر تقسیم نہیں کی تھی اور وہ وراثت اتنی ہے کہ اگر ہر شخص پر تقسیم کی جائے تو صاحب نصاب ہوجائے اور تقریباً چھ سال سے مدرسہ سے ہی کھانا کھاتے ہیں یعنی زکوٰۃ صدقہ وغیرہ سے ملا ہوا مشترکہ مال جس سے عام طور پر مدرسہ کے طلباء کو کھانا کھلایا جاتا ہے اور انہوں نے اپنی والدہ کو پورا مال سونپ رکھا ہے صراحتاً تو مالک نہیں بنایا ہے لیکن  ان کی اجازت ہی سے وہ تصرف کرتے ہیں اور سب اکھٹے رہتے ہیں تو کیا اس طرح سے مالک بنانا عملی طور معتبر ہوگا اور وہ لڑکے صاحب نصاب ہو گے یا صرف ان کی والدہ اب ان کو اس مسئلہ میں کچھ تذبذب ہوا تو انہوں نے اپنی والدہ کو صراحتاً قولی طور پر مالک بنادیا ہے بعض حضرات کا کہنا ہے کہ مال کی چونکہ تقسیم نہیں ہوئ اور ہر شخص کے قبضے میں نہیں آیا لہذا مالک بنانا معتبر نہیں؟ لہذا آپ سے درخواست ہے مسئلہ کی شرعی طور پر مکمل رہنمائی فرمائیں۔

عملاً جو مالک بنا رکھا تھا اس کا کیا حکم ہے اور قولا کا کیا حکم ہے؟ جزاک اللہ خیرا

سائل: عبد السلام خالد بلیل پوری


باسمہ سبحانہ وتعالی 

الجواب وباللہ التوفیق 


مرحوم کا چھوڑا ہوا مال اتنا ہو کہ تمام ورثاء میں ان کے شرعی حصوں کے مطابق تقسیم کریں تو ہر ایک وارث صاحبِ نصاب ہوجاتاہے تو اموال زکوۃ کا استعمال کرنا ان کے لئے جائزنہیں؟ اسی طرح حق وراثت یہ ایک اضطراری حق ہے جو ساقط کرنے سے ساقط نہیں ہوتا اسی طرح وصول کرنے سے پہلے معاف بھی نہیں ہوتا وہ حصہ بدستور برقرار رہتاہے اور جب تک وہ مالک ہے زکوۃ استعمال نہیں کرسکتے۔


ہاں اگر بعد التقسیم کسی کو مالک بنادے تو پھر ان کے لئے مال زکوۃ کا استعمال درست ہے مالک بنانے کا مطلب یہ ہے کہ اسے مکمل طور پر مالکانہ تصرفات کا حق حاصل ہو جائے، جس طرح چاہے وہ اسے استعمال کرسکے، مثلاََ: اس کو بیچنا چاہے یا کسی کو ہدیہ کرنا چاہے، تو بلا روک ٹوک وہ کرسکے، اتنا کافی ہے باقی سرکاری کاغذات میں اس کے نام کرانا وغیرہ، قانونی تقاضے کی بناء پر ہے، شرعا قبضہ ثابت ہونے کیلئے یہ ضروری نہیں ہے۔


صورت مسئولہ میں میراث میں جائیداد کی تقسیم سے پہلے کسی وارث کا اپنے شرعی حصہ سے بلا عوض دست بردار ہوجانا یا کسی کو مالک بنادینا شرعاً معتبر نہیں ہے "ہاں صرف یہ تین بیٹے ہی وارث ہو تو قبل التقسیم بھی کسی کو ہبہ کرنا چاہے تو کرسکتے ہیں جائز ہے" البتہ ترکہ تقسیم ہوجانے کے بعد اپنے حصہ پر قبضہ کرکے پھر کسی کو دینا چاہے تو یہ شرعاً جائز اور معتبر ہوگا، لہذا بعد التقسیم زبانی اعتبار سے اس طور پر مالک بنادیا کہ مکمل قبضہ اور تصرف کا حق ماں کو دے دیا ہے تو شرعاً ماں مالک بن جائے گی۔


لہذا عملاً مالک بنا رکھا تھا صراحتاً مالک نہیں بنایا ہے تو وہ وکالت شمار ہوگی ملکیت نہیں اور قولا کی صورت میں اگر وہ بالغ اولاد ہے اور مکمل قبضہ اور تصرف کا حق دے دیا ہے تو وہ شرعی روسے مالک ہوجائے گی۔


 البحر الرائق میں ہے:

(قوله: وملك نصاب حوليّ فارغ عن الدين وحوائجه الأصلية نامٍ ولو تقديراً) لأنّه - عليه الصّلاة والسّلام - قدّر السبب به، وقد جعله المصنف شرطاً للوجوب مع قولهم: إنّ سببها ملك مالٍ مُعدّ ‌مُرصد للنماء والزيادةِ فاضلٍ عن الحاجة كذا في المحيط وغيره۔ (البحر الرائق،کتاب الزکوۃ، شروط وجوب الزکوۃ، ۲/۲۱۸ ط:دار الکتاب الاسلامی)


 العقود الدریۃ في تنقيح الفتاوى الحامدیہ ميں ہے

(سئل) في أحد الورثة إذا أشهد عليه قبل قسمة التركة المشتملة على أعيان معلومة أنه ترك حقه من الإرث وأسقطه وأبرأ ذمة بقية الورثة منها ويريد الآن مطالبة حقه من الإرث فهل له ذلك؟

(الجواب) : ‌الإرث ‌جبري لا يسقط بالإسقاط وقد أفتى به العلامة الرملي كما هو محرر في فتاواه من الإقرار نقلا عن الفصولين وغيره فراجعه إن شئت۔ (العقود الدریہ في تنقيح الفتاوى الحامدیہ ٢/٢٦ کتاب الدعوی)


بدائع الصنائع میں ہے 

فالتسليم، والقبض عندنا هو التخلية، والتخلي وهو أن يخلي البائع بين المبيع وبين المشتري برفع الحائل بينهما على وجه يتمكن المشتري من التصرف فيه فيجعل البائع مسلما للمبيع، والمشتري قابضا له، وكذا تسليم الثمن من المشتري إلى البائع. (بدائع الصنائع  ۵/٢٤٤ ط: دار الکتب العلمیۃ)


تکملہ ردالمحتار میں ہے

لو قال ترکت حقي من المیراث أو برئت منہا ومن حصتي لا یصح وہو علی حقہ لأن الإرث جبري لا یصح ترکہ․ (تکملہ رد المحتار: ۱۲/۱۱٦ کتاب الدعوی باب دعوة النسب ط زکریا دیوبند)


فتاوی شامی میں ہے 

وھب اثنان دارا لواحد صح لعدم الشیوع، وبقلبہ لکبیرین لا عندہ للشیوع فیما یحتمل القسمة (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الھبة، ۸/۵۰۲ ط: مکتبة زکری دیوبند)


واللہ أعلم بالثواب والیہ المرجع والمآب 

العارض مفتی آصف بن محمد گودھروی 

پیر، 9 اکتوبر، 2023

تدفین کے بعد ہاتھ اٹھاکر دعاء کرنا اور سورہ بقرہ کی ابتدائی اور آخری آیات کی تلاوت کرنا کیسا ہے؟ سوال نمبر ٤٣٣

 سوال 

السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ

مفتی صاحب مسٔلہ یہ ہے کہ (قبرستان میں تدفین کے بعد دعاء کرنا)   1۔۔۔۔۔ قبرستان میں تدفین کے بعد اجتماعی ھاتھ اٹھا کر دعاء کرنا کیسا ہے؟   2۔۔۔۔۔ کیا بغیر ھاتھ اٹھا کر اجتماعی طور پر دعاء کر سکتے ہیں ؟   3۔۔۔۔۔ بعض جگہ تدفین کے بعد ھاتھ اٹھا کر اجتماعی دعاء کرتے ہیں اور بعض جگہ سورہ الفاتحہ+ سورہ بقرہ پڑھکر  بخشتے ہیں ،کیا کرنا چاہیے ؟

مفتی صاحب بعض آبادی میں ایک ہی خیال (تبلیغی) کے رہتے ہیں ،

اور بعض آبادی میں دونوں جماعتیں ( بدعت والے اور تبلیغی) کے خیال والے بھی رہتے ہیں ۔  تو ان کو تدفین کے بعد کون سا عمل کرنا چاہئے؟ 

~مفتی صاحب ذرا حوالہ کے ساتھ رہنمائی فرمائیں آپ کی مہربانی بانی ھوگی ، 

سائل: عنایت اللہ ابن عبداللہ


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی


قبرستان میں میت کی تدفین سے فارغ ہوکر قبلہ رو ہوکر اور ہاتھ اٹھاکر میت کے لیے دعائے مغفرت وغیرہ کرنا جائز اور درست ہے بلکہ فقہاء نے مستحب لکھا ہے اس لئے کہ میت  کی تدفین  کے بعد  جو  عمل احادیث میں  وارد ہے وہ یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم جب تدفین سے فارغ ہوتے تو قبر پر  کھڑے رہتے اور فرماتے کہ اپنے بھائی کے لیے استغفار کرو اور اس کے لیے ثابت قدمی کی دعا کرو کیوں کہ اس سے اب سوال کیا جائے گا۔


اسی طرح بعض مواقع  پر  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے قبر پر  ہاتھ اٹھا کر دعا کرنا ثابت ہے، لیکن ان مواقع پر بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قبلہ رو ہو کر دعا فرماتے تھے۔  قبر کی طرف رخ کر کے دعا مانگنے میں صاحبِ قبر سے مانگنے کا شبہ ہو سکتا ہے اس لیے  قبر کے پاس دعا کرنی ہو تو ہاتھ اٹھائے بغیر ہی دعا کرلے اور اگر ہاتھ اٹھاکر دعا کرنی ہو تو قبلہ کی طرف رخ کرکے ہاتھ اٹھاکر دعا کرلی جائے تاکہ قبر یا صاحبِ قبر سے مانگنے کا شبہ نہ ہو۔


اور یہ دعا انفرادًا بھی کی جاسکتی ہے، اور اجتماعًا بھی کی جاسکتی ہے لیکن قبر پر اجتماعی دعا ثابت نہیں ہے لہذا  اجتماعی دعا کو شریعت کا حکم سمجھ کر کرنا یا اس کا ایک خاص طریقہ پر التزام کرنا اور نہ کرنے والے کو ملامت کرنا یہ اجتماعی دعا کو بدعت بنا دے گا اور ایسی صورت میں اس کا ترک لازم ہوگا اسی طرح سرًّا اور جہرًا دونوں طرح کرسکتے ہیں البتہ بہتر یہ ہے کہ یہ دعا سرًّا ہو لیکن دعا میں کوئی ایسی ہیئت یا طریقہ اختیار نہ کیا جائے کہ کسی دیکھنے والے کو صاحب قبر سے مانگنے کا شبہ ہو۔


میت پر سورہ بقرہ کی ابتدائی اور آخری آیات کا پڑھنا

میت کو قبر میں دفن کرنے کے بعد  اس کے سرہانے سورہ بقرہ کی ابتدائی آیات اورپائنتی جانب سورہ بقرہ کی آخری آیات پڑھنا مسنون ہے، یہ آیات جہراً  اور سراً دونوں طرح پڑھ سکتے ہیں۔


احسن الفتاوی میں ہے کہ فقہاء نے فرمایا مستحب ہے کہ تدفین سے فارغ ہوکر قبر کے پاس ( کم از کم) اتنی دیر ٹھہرا جائے کہ ایک اونٹ ذبح کرکے اس کا گوشت تقسیم کیا جاسکے اور اس دوران میت کے لیے منکر نکیر کے سوالات کے جواب میں ثبات قدمی اور مغفرت کی دعا کی جائے اور قرآن پاک پڑھا جائے، جیسے: میت کے سرہانے سور بقرہ کی ابتدائی آیتیں اور پائینتی جانب سورہ بقرہ کی آخری آیتیں پڑھی جائیں۔ اور اس موقع پر جب دعا کی جائے تو اس میں ہاتھ اٹھاکر دعا کرسکتے ہیں؛ بلکہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس موقع پر قبلہ رو ہوکر اور ہاتھ اٹھاکر دعا فرمائی ہے؛ اس لیے اس موقع پر ہاتھ اٹھاکر قبلہ رو ہوکر دعا کرنا نہ صرف جائز؛ بلکہ مستحب ہے (احسن الفتاوی٤/ ۲۳۳، ۲۳۴، مطبوعہ: ایچ ایم سعید کمپنی کراچی)


فتاوی دارالعلوم دیوبند میں اس طرح کے سوال کے جواب میں تحریر فرماتے ہیں کہ

میت کی تدفین کے بعد میت کے سرہانے کھڑے ہوکر سورہٴ بقرہ کی ابتدائی آیات ”المّ“ سے ”مفلحون“ تک پڑھنا اور پیر کی جانب سورہٴ بقرہ کی آخری آیات ”آمن الرسول سے اخیر آیت تک پڑھنا حدیث سے ثابت ہے، حدیث میں کچھ ضعف ہے لیکن فضائل اعمال میں معتبر ہے، بیہقی اور طبرانی کی روایت میں فاتحة الکتاب کی صراحت ہے؛ البتہ مشکاة میں یہی روایت بحوالہ بیہقی ”فاتحة البقرة“ کے ساتھ مذکور ہے اور ملا علی قاری نے اس کی وضاحت کرتے ہوئے الم سے مفلحون تک پڑھنا لکھا ہے اور علامہ طیبی کے حوالے سے اس کی وجہ اور حکمت بھی لکھی ہے، اس لیے ممکن ہے کہ بیہقی اور طبرانی کی روایت میں مذکور ”فاتحة الکتاب“ سے ”فاتحة البقرة“ ہی مراد ہو، ویسے ایصالِ ثواب کی غرض سے سورہٴ فاتحہ کی تلاوت کرنے میں بھی مضایقہ نہیں ہے۔ عن عبد ا للہ بن عمر -رضي اللہ عنہما- سمعت النبی -صلی اللہ علیہ وسلم- یقول: إذا مات أحدکم فلا تحبسوہ وأسرعوا بہ إلی قبرہ ولیقرأ عند رأسہ بفاتحة الکتاب، وعند رجلیہ بخاتمة البقرة في قبرہ (رواہ البیہقي في شعب الإیمان رقم: ۹۷۹۴، والطبراني في الکبیر، رقم: ۱۳۶۱۳، قال الہیثمی في المجمع (۴۴۱۳) وفیہ یحی ابن عبد اللہ الباہلی وہو ضعیف وفی المرقاة: ولیقرأعند رأسہ فاتحة البقرة أي: إلی المفلحون․ وعند رجلیہ بخاتمة البقرة أي من آمن الرسول الخ قال الطیبي: لعل تخصیص فاتحتہا لاشتمالہا علی مدح کتاب اللہ، وأنہ ہدی للمتقین، الموصوفین بالخلال الحمیدة من الإیمان بالغیب، وإقامة الصلاة، وإیتاء الزکاة، وخاتمتہا لاحتوائہا علی الإیمان باللہ وملائکتہ وکتبہ ورسلہ، وإظہار الاستکانة، وطلب الغفران والرحمة، والتولی إلی کنف اللہ تعالی وحمایتہ قال النووی فی الأذکار: قال محمد بن أحمد المروزی: سمعت أحمد بن حنبل یقول: إذا دخلتم المقابر فاقروٴا بفاتحة الکتاب والمعوذتین، وقل ہو اللہ أحد، واجعلوا ثواب ذلک لأہل المقابر، فإنہ یصل إلیہم (مرقاة: ۴/ ۸۱باب دفن المیت) (دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند جواب نمبر ١٤٥٤٣٥)


مسؤلہ صورت میں تدفین کے بعد قبر پر اجتماعی اور انفرادی دعاء کرنا اسی طرح سرًّا اور جہرًا دعاء کرنا جائز ہے اور میت کو قبر میں دفن کرنے کے بعد  اس کے سرہانے سورہ بقرہ کی ابتدائی آیات اورپائنتی جانب سورہ بقرہ کی آخری آیات پڑھنا مسنون ہے، یہ آیات جہراً  اور سراً دونوں طرح پڑھ سکتے ہیں اور جن علاقوں میں قبر پرستی ہو تو وہاں پر ہاتھ اٹھاکر دعاء کرنا درست نہیں ہوگا کیونکہ ناظرین کے فتنے میں مبتلا ہونے کا اندیشہ ہے اس لئے جہاں دونوں قسم کے عقیدے سے تعلق رکھنے والے لوگ ہو تو وہاں بغیر ہاتھ اٹھائے انفرادی دعاء کرنا ہی بہتر ہے تاکہ فتنے کا خوف باقی نہ رہے البتہ میت کے سرہانے سور بقرہ کی ابتدائی آیتیں اور پائینتی جانب سورہ بقرہ کی آخری آیتیں دونوں صورتوں میں پڑھنا درست ہے۔


مشکاة المصابیح میں ہے 

عن عثمان قال: کان النبی صلی اللہ علیہ وسلم إذا فرغ من دفن المیت وقف علیہ فقال: استغفروا لأخیکم ثم سلوا لہ بالتثبیت فإنہ الآن یسأل، رواہ أبو داود (مشکاة المصابیح، کتاب الإیمان، باب إثبات عذاب القبر الفصل الثانی ص٢٦ ط المکتبة الأشرفیة دیوبند)


فتح الباری میں ہے

وفی حدیث ابن مسعود:رأیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فی قبر عبدالله ذی البجادین الحدیث، و فیه: فلما فرغ من دفنہ استقبل القبلة رافعاً یدیہ ، أخرجہ أبو عوانة فی صحیحہ (فتح الباری، کتاب الدعوات، باب الدعاء مستقبل القبلة، ۱۱/۱۷۳ ط دار السلام الریاض)


فتاوى هنديہ میں ہے:

وإذا أراد الدعاء يقوم مستقبل القبلة، كذا في خزانة الفتاوى۔ (فتاوى هنديہ كتاب الكراهية الباب السادس عشر في زيارة القبور و قراءة القرآن في المقابر، ٥/٣٥٠ ط دار الفکر)


مشکاة المصابیح میں ہے 

وعن عبد اللہ بن عمر قال سمعت النبي صلی اللہ علیہ وسلم یقول إذا مات أحدکم فلا تحبسوہ وأسرعوا بہ إلی قبرہ ولیقرأ عند رأسہ فاتحة البقرة وعند رجلیہ بخاتمة البقرة رواہ البیھقي فی شعب الإیمان وقال والصحیح أنہ موقوف (مشکاة المصابیح کتاب الجنائز باب دفن المیت الفصل الثالث ص١٤٩)


فتاوی شامی میں ہے 

ویستحب ……بعد دفنہ لدعاء وقراءة بقدر ما ینحر الجزور ویفرق لحمہ (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الصلاة، باب صلاة الجنازة، ٣/١٤٣ ط مکتبة زکریا دیوبند)


المعجم الكبير میں ہے 

عبد الرحمن بن العلاء بن اللجلاج، عن أبيه، قال: قال لي أبي:"يا بني، إذا أنا مت فألحدني، فإذا وضعتني في لحدي، فقل: بسم الله وعلى ملة رسول الله، ثم سن علي الثرى سنا، ثم اقرأ عند رأسي بفاتحة البقرة، وخاتمتها، فإني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول ذلك". (المعجم الكبير للطبراني، من اسمه لجلاج ١٩/٢٢١ ط: مكتبة ابن تيمية)


المعجم الكبير میں ہے 

ابن عمر يقول: سمعت النبي صلى الله عليه وسلم يقول إذا مات أحدكم فلا تحبسو هو أسرعوا به إلى قبره وليقرأ عند رأسه بفاتحة الكتاب وعند رجليه بخاتمة البقرة في قبره۔ (المعجم الكبير للطبراني، عبد الله بن عمر ١٢/٤٤ ط: مكتبة ابن تيمية)


واللہ أعلم بالثواب والیہ المرجع والمآب 

العارض مفتی آصف بن محمد گودھروی

ہفتہ، 7 اکتوبر، 2023

باپ نے بیٹے کی موت کے بعد اس کے مال سے وراثت کا حصہ طلب نہ کیا ہو تو کیا وہ حصہ پوتوں کا ہوگا؟ ‌‌‍ سوال نمبر ٤٣٢

 سوال

السلام علیکم و رحمة اللہ وبرکاتہ

مفتی صاحب امید ہے کہ آپ خیریت سے ہوگے 

ایک مسلہ معلوم کرنا ہے وہ یہ کہ زید کا انتقال ہوگیا ہے اور اس کے والد زندہ ہے زید کی وراثت میں اس کے والد کا حصہ ہے یہ تو طے شدہ بات ہے ۔لیکن زید کے والد نے خود زید کی اولادوں کو کچھ مال ہبہ کیا ہے۔اور اپنے حصے کے مال کا مطالبہ بھی نہیں کیا اپنے پوتوں سے اور نا ہی زید کی اولادوں نے دادا کو ان کا حصہ دیا اور اب دادا کا بھی انتقال ہوگیا تو ان کے حصے کے مال کا کیا ؟؟؟ وہ مال پوتوں کا ہی ہوگیا نا اس بات پر قیاس کرتے ہوۓ کہ دادا نے اپنی حیاتی میں مال کا مطالبہ نہیں کیا بلکہ خود ہی اور مال ہبہ کر دیا !!

سائل: محمد مدثر عبدالواحد مالیگاؤں


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی


سب سے پہلے اس بات کا خیال رہے کہ حق وراثت یہ ایک اضطراری حق ہے جو ساقط کرنے سے ساقط نہیں ہوتا اسی طرح وصول کرنے سے پہلے معاف بھی نہیں ہوتا اور مطالبہ نہ کرنے سے وہ حصہ بدستور برقرار رہتاہے ہاں اس سے دستبرداری کی یہ صورت اختیار کی جاسکتی ہے کہ اپنا حصہ وصول کریں پھر اس کو باقی ورثاء میں خود تقسیم کردیں یا پھر ورثہ کے مال میں سے کچھ حصہ لے کر اس کے عوض  باقی حصہ چھوڑ دیں


لہذا صورت مسئولہ میں دادا نے اپنے پوتوں کو جو مال ہبہ کیا تھا وہ ان کے مالک ہوں گے البتہ دادا کے حصے کی جو وراثت ہے چونکہ وہ دادا نے وصول نہیں کی تھی اس لئے وہ ان کے حصے میں بدستور باقی رہے گی اور وہ حصہ دادا کی وفات کے بعد دادا کے ورثاء میں تقسیم ہوگی وہ پوتوں کی ملکیت شمار نہیں ہوگی۔


لہذا مرحوم بیٹے کی جائداد میں سے والد کو سدس (چھٹا حصہ) ملے گا وہ حصہ اب ان کے انتقال کے بعد ان کے ورثاء میں تقسیم ہوگا۔


قرآن مجید میں ہے 

وَلأَبَوَيْهِ لِكُلِّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا السُّدُسُ مِمَّا تَرَكَ إِن كَانَ لَهُ وَلَد ... الخ


تکملہ رد المحتار میں ہے

لو قال ترکت حقي من المیراث أو برئت منہا ومن حصتي لا یصح وہو علی حقہ لأن الإرث جبري لا یصح ترکہ․ (تکملہ رد المحتار: ۱۲/ ۱۱٦، کتاب الدعوی باب دعوة النسب ط زکریا دیوبند)


الأشباه والنظائر  میں ہے:

لو قال الوارث تركت حقي لم يبطل حقه؛ إذ الملك لا يبطل بالترك (الفن الثالث، ما یقبل الاسقاط من الحقوق ص نمبر ۲۷۲، دار الکتب العلمیۃ)


فتاوی ہندیہ میں ہے

ومن صالح من الغرماء أو الورثة على شيء من التركة فاطرحه كأن لم يكن ثم اقسم الباقي على سهام الباقين (کتاب الفرائض ،باب سادس عشر  ٦/٤٧٤ دار الفکر)


واللہ أعلم بالثواب والیہ المرجع والمآب 

العارض مفتی آصف بن محمد گودھروی

منگل، 3 اکتوبر، 2023

فرض نماز لائٹ بند کرکے ادا کرنا کیسا ہے؟ سوال نمبر ٤٣١

 سوال 

اسلام علیکم و رحمۃاللہ و برکاتہ 

کیا فرض نماز میں لایٹ بند اور اندھیرا کر کے نماز پرھ سکتےہیں؟ 

سائل حافظ قاسم گودھروی 


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی


روشنی یا اندھیرے دونوں  میں نماز پڑھنا بلاکراہت درست اور جائز ہے بشرطیکہ قبلہ کا رخ صحیح ہو، اس لئے کہ خود حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم سے اندھیرے میں نماز پڑھنا منقول ہے۔

البتہ روشنی میں پڑھنا زیادہ بہتر ہے تا کہ قیام کے وقت سجدہ کی جگہ پر رکوع میں قدموں پر اور سجدے میں ناک کے سرے پر اور بیٹھنے کی حالت میں گود پر نظر ہو۔


بخاری شریف میں ہے

عن عائشة زوج النبي صلی اللہ علیہ وسلم أنہا قالت: کنت أنام بین یدي رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، ورجلاي في قبلتہ، فغذا سجد غمزني فقبضتُ رجليَّ فإذا قام بسطتُھا قالت: والبیوت یومئذ لیس فیہا مصابیح (بخاري: ۱/۷۳ باب التطوع خلف المرأة)

 

فتاوی شامی میں ہے

ولها آداب تركه لا يوجب إساءة ولا عتابا كترك سنة الزوائد، لكن فعله أفضل نظره إلى ‌موضع ‌سجوده حال قيامه، وإلى ظهر قدميه حال ركوعه وإلى أرنبة أنفه حال سجوده، وإلى حجره حال قعوده. وإلى منكبه الأيمن والأيسر عند التسليمة الأولى والثانية لتحصيل الخشوع....الخ (كتاب الصلاة، باب صفة الصلاة،‌‌ آداب الصلاة، ٢/١٢٥ طبع: دار کتاب العلم)


واللہ أعلم بالثواب والیہ المرجع والمآب 

العارض مفتی آصف بن محمد گودھروی


پیر، 2 اکتوبر، 2023

کورٹ سے متعین کئے گئے خرچ میں سودی رقم استعمال کرنا کیسا ہے؟ سوال نمبر ٤۳۰

 سوال 

مفتی صاحب ایک مسئلہ ہے کہ اگر کسی عورت کو کورٹ سے طلاق ہوئی اور جج نے اس کے لئے اور اولاد کے لئے خرچ متعین  کیا تو ان کو وہ خرچ  سودی رقم سے ادا کرسکتے ہیں؟ شرعی نقطۂ نظر سے اس کا کیا حکم ہے؟

محمد دانش بملا گودھروی


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی


سودی رقم مال حرام میں سے ہے اور حرام مال کا مالک معلوم ہو تو مالک کو لوٹانا شرعاً ضروری ہے اور اگر مالک تک پہنچانا ممکن نہ ہو تو اس گناہ سے اپنے آپ کو پاک کرنے کے لیے مستحق زکاۃ شخص کو ثواب کی نیت کے بغیر صدقہ کرنا واجب ہوگا۔


صورت مسئولہ میں اولاد کے لئے کورٹ سے جو خرچ متعین ہوتاہے وہ باپ پر لازمی حق ہے اور جس طرح اپنے حقوق ادا کرنے میں زکوۃ کی رقم استعمال کرنا جائز نہیں ہے اسی طرح سود کی رقم بھی اپنے حقوق ادا کرنے میں خرچ کرنا درست نہیں ہے لهذا اولاد کے لئے کورٹ سے جو خرچ متعین ہوتاہے ان کے خرچ میں سودی رقم دینا درست نہیں ہے۔


البتہ اگر عورت نے اپنے لئے بھی خرچ متعین کرنے کی اپیل کی ہے تو چونکہ طلاق اور عدت کی مدت پوری ہونے کے بعد اب مرد پر اس کا کوئی حق نہیں رہتا اس لئے اگر عورت نے اپنے حق کا دعویٰ کیا ہو اور وہ مالدار نہ ہو بلکہ مستحق زکوۃ ہو تو اس کے خرچ میں سودی رقم دینا چاہے تو دے سکتے ہیں اور اگر وہ مالدار ہے تو اس کو بھی سودی رقم دینا درست نہیں ہے۔


فتاوی شامی میں ہے 

ویردونہا علی أربابہا إن عرفوہم، وإلا تصدقوا بہا؛ لأن سبیل الکسب الخبیث التصدق إذا تعذر الرد علی صاحبہ (رد المحتار، کتاب الحظر والإباحة، باب الاستبراء وغیرہ ، فصل فی البیع ۹/ ۵۵۳ ط مکتبة زکریا دیوبند)


معارف السنن میں ہے 

قال شیخنا: ویستفاد من کتب فقہائنا کالہدایة وغیرہا: أن من ملک بملک خبیث، ولم یمکنہ الرد إلی المالک، فسبیلہ التصدقُ علی الفقراء قال: والظاھر إن المتصدق بمثلہ ینبغي أن ینوي بہ فراغ ذمتہ، ولا یرجو بہ المثوبة (معارف السنن، أبواب الطہارة، باب ما جاء: لا تقبل صلاة بغیر طہور، ۱/٣٤ ط: المکتبة الأشرفیة دیوبند)


إعلاء السنن میں ہے 

أفتی بعض أکابرنا أن للمسلم أن یاخذ الربا من أصحاب البنک أہل الحرب في دارہم، ثم یتصدق بہ علی الفقراء ولا یصرفہ إلی حوائج نفسہ (إعلاء السنن/٤/۳۷۲ ط ادارة القرآن والعلوم الاسلامیة کراتشي)


واللہ أعلم بالثواب والیہ المرجع والمآب 

العارض مفتی آصف بن محمد گودھروی