سوال
مفتی صاحب ایک مسئلہ ہے کہ اگر کسی عورت کو کورٹ سے طلاق ہوئی اور جج نے اس کے لئے اور اولاد کے لئے خرچ متعین کیا تو ان کو وہ خرچ سودی رقم سے ادا کرسکتے ہیں؟ شرعی نقطۂ نظر سے اس کا کیا حکم ہے؟
محمد دانش بملا گودھروی
الجواب وباللہ التوفیق
باسمہ سبحانہ وتعالی
سودی رقم مال حرام میں سے ہے اور حرام مال کا مالک معلوم ہو تو مالک کو لوٹانا شرعاً ضروری ہے اور اگر مالک تک پہنچانا ممکن نہ ہو تو اس گناہ سے اپنے آپ کو پاک کرنے کے لیے مستحق زکاۃ شخص کو ثواب کی نیت کے بغیر صدقہ کرنا واجب ہوگا۔
صورت مسئولہ میں اولاد کے لئے کورٹ سے جو خرچ متعین ہوتاہے وہ باپ پر لازمی حق ہے اور جس طرح اپنے حقوق ادا کرنے میں زکوۃ کی رقم استعمال کرنا جائز نہیں ہے اسی طرح سود کی رقم بھی اپنے حقوق ادا کرنے میں خرچ کرنا درست نہیں ہے لهذا اولاد کے لئے کورٹ سے جو خرچ متعین ہوتاہے ان کے خرچ میں سودی رقم دینا درست نہیں ہے۔
البتہ اگر عورت نے اپنے لئے بھی خرچ متعین کرنے کی اپیل کی ہے تو چونکہ طلاق اور عدت کی مدت پوری ہونے کے بعد اب مرد پر اس کا کوئی حق نہیں رہتا اس لئے اگر عورت نے اپنے حق کا دعویٰ کیا ہو اور وہ مالدار نہ ہو بلکہ مستحق زکوۃ ہو تو اس کے خرچ میں سودی رقم دینا چاہے تو دے سکتے ہیں اور اگر وہ مالدار ہے تو اس کو بھی سودی رقم دینا درست نہیں ہے۔
فتاوی شامی میں ہے
ویردونہا علی أربابہا إن عرفوہم، وإلا تصدقوا بہا؛ لأن سبیل الکسب الخبیث التصدق إذا تعذر الرد علی صاحبہ (رد المحتار، کتاب الحظر والإباحة، باب الاستبراء وغیرہ ، فصل فی البیع ۹/ ۵۵۳ ط مکتبة زکریا دیوبند)
معارف السنن میں ہے
قال شیخنا: ویستفاد من کتب فقہائنا کالہدایة وغیرہا: أن من ملک بملک خبیث، ولم یمکنہ الرد إلی المالک، فسبیلہ التصدقُ علی الفقراء قال: والظاھر إن المتصدق بمثلہ ینبغي أن ینوي بہ فراغ ذمتہ، ولا یرجو بہ المثوبة (معارف السنن، أبواب الطہارة، باب ما جاء: لا تقبل صلاة بغیر طہور، ۱/٣٤ ط: المکتبة الأشرفیة دیوبند)
إعلاء السنن میں ہے
أفتی بعض أکابرنا أن للمسلم أن یاخذ الربا من أصحاب البنک أہل الحرب في دارہم، ثم یتصدق بہ علی الفقراء ولا یصرفہ إلی حوائج نفسہ (إعلاء السنن/٤/۳۷۲ ط ادارة القرآن والعلوم الاسلامیة کراتشي)
واللہ أعلم بالثواب والیہ المرجع والمآب
العارض مفتی آصف بن محمد گودھروی
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں