جمعہ، 20 اکتوبر، 2023

تقسیم وراثت سی پہلے کسی کو مالک بنادینا سوال نمبر ٤٣٤

 سوال 

السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ

مفتی صاحب ایک مسئلہ معلوم کرنا ہے ایک شخص کا انتقال ہوگیا ہے تقریباً چھ سال پہلے اس کے تین بیٹے ہے اور تینوں مدرسہ میں پڑھتے ہیں انہوں نے والد کے انتقال کے بعد وراثت باقاعدہ شرعی طور پر تقسیم نہیں کی تھی اور وہ وراثت اتنی ہے کہ اگر ہر شخص پر تقسیم کی جائے تو صاحب نصاب ہوجائے اور تقریباً چھ سال سے مدرسہ سے ہی کھانا کھاتے ہیں یعنی زکوٰۃ صدقہ وغیرہ سے ملا ہوا مشترکہ مال جس سے عام طور پر مدرسہ کے طلباء کو کھانا کھلایا جاتا ہے اور انہوں نے اپنی والدہ کو پورا مال سونپ رکھا ہے صراحتاً تو مالک نہیں بنایا ہے لیکن  ان کی اجازت ہی سے وہ تصرف کرتے ہیں اور سب اکھٹے رہتے ہیں تو کیا اس طرح سے مالک بنانا عملی طور معتبر ہوگا اور وہ لڑکے صاحب نصاب ہو گے یا صرف ان کی والدہ اب ان کو اس مسئلہ میں کچھ تذبذب ہوا تو انہوں نے اپنی والدہ کو صراحتاً قولی طور پر مالک بنادیا ہے بعض حضرات کا کہنا ہے کہ مال کی چونکہ تقسیم نہیں ہوئ اور ہر شخص کے قبضے میں نہیں آیا لہذا مالک بنانا معتبر نہیں؟ لہذا آپ سے درخواست ہے مسئلہ کی شرعی طور پر مکمل رہنمائی فرمائیں۔

عملاً جو مالک بنا رکھا تھا اس کا کیا حکم ہے اور قولا کا کیا حکم ہے؟ جزاک اللہ خیرا

سائل: عبد السلام خالد بلیل پوری


باسمہ سبحانہ وتعالی 

الجواب وباللہ التوفیق 


مرحوم کا چھوڑا ہوا مال اتنا ہو کہ تمام ورثاء میں ان کے شرعی حصوں کے مطابق تقسیم کریں تو ہر ایک وارث صاحبِ نصاب ہوجاتاہے تو اموال زکوۃ کا استعمال کرنا ان کے لئے جائزنہیں؟ اسی طرح حق وراثت یہ ایک اضطراری حق ہے جو ساقط کرنے سے ساقط نہیں ہوتا اسی طرح وصول کرنے سے پہلے معاف بھی نہیں ہوتا وہ حصہ بدستور برقرار رہتاہے اور جب تک وہ مالک ہے زکوۃ استعمال نہیں کرسکتے۔


ہاں اگر بعد التقسیم کسی کو مالک بنادے تو پھر ان کے لئے مال زکوۃ کا استعمال درست ہے مالک بنانے کا مطلب یہ ہے کہ اسے مکمل طور پر مالکانہ تصرفات کا حق حاصل ہو جائے، جس طرح چاہے وہ اسے استعمال کرسکے، مثلاََ: اس کو بیچنا چاہے یا کسی کو ہدیہ کرنا چاہے، تو بلا روک ٹوک وہ کرسکے، اتنا کافی ہے باقی سرکاری کاغذات میں اس کے نام کرانا وغیرہ، قانونی تقاضے کی بناء پر ہے، شرعا قبضہ ثابت ہونے کیلئے یہ ضروری نہیں ہے۔


صورت مسئولہ میں میراث میں جائیداد کی تقسیم سے پہلے کسی وارث کا اپنے شرعی حصہ سے بلا عوض دست بردار ہوجانا یا کسی کو مالک بنادینا شرعاً معتبر نہیں ہے "ہاں صرف یہ تین بیٹے ہی وارث ہو تو قبل التقسیم بھی کسی کو ہبہ کرنا چاہے تو کرسکتے ہیں جائز ہے" البتہ ترکہ تقسیم ہوجانے کے بعد اپنے حصہ پر قبضہ کرکے پھر کسی کو دینا چاہے تو یہ شرعاً جائز اور معتبر ہوگا، لہذا بعد التقسیم زبانی اعتبار سے اس طور پر مالک بنادیا کہ مکمل قبضہ اور تصرف کا حق ماں کو دے دیا ہے تو شرعاً ماں مالک بن جائے گی۔


لہذا عملاً مالک بنا رکھا تھا صراحتاً مالک نہیں بنایا ہے تو وہ وکالت شمار ہوگی ملکیت نہیں اور قولا کی صورت میں اگر وہ بالغ اولاد ہے اور مکمل قبضہ اور تصرف کا حق دے دیا ہے تو وہ شرعی روسے مالک ہوجائے گی۔


 البحر الرائق میں ہے:

(قوله: وملك نصاب حوليّ فارغ عن الدين وحوائجه الأصلية نامٍ ولو تقديراً) لأنّه - عليه الصّلاة والسّلام - قدّر السبب به، وقد جعله المصنف شرطاً للوجوب مع قولهم: إنّ سببها ملك مالٍ مُعدّ ‌مُرصد للنماء والزيادةِ فاضلٍ عن الحاجة كذا في المحيط وغيره۔ (البحر الرائق،کتاب الزکوۃ، شروط وجوب الزکوۃ، ۲/۲۱۸ ط:دار الکتاب الاسلامی)


 العقود الدریۃ في تنقيح الفتاوى الحامدیہ ميں ہے

(سئل) في أحد الورثة إذا أشهد عليه قبل قسمة التركة المشتملة على أعيان معلومة أنه ترك حقه من الإرث وأسقطه وأبرأ ذمة بقية الورثة منها ويريد الآن مطالبة حقه من الإرث فهل له ذلك؟

(الجواب) : ‌الإرث ‌جبري لا يسقط بالإسقاط وقد أفتى به العلامة الرملي كما هو محرر في فتاواه من الإقرار نقلا عن الفصولين وغيره فراجعه إن شئت۔ (العقود الدریہ في تنقيح الفتاوى الحامدیہ ٢/٢٦ کتاب الدعوی)


بدائع الصنائع میں ہے 

فالتسليم، والقبض عندنا هو التخلية، والتخلي وهو أن يخلي البائع بين المبيع وبين المشتري برفع الحائل بينهما على وجه يتمكن المشتري من التصرف فيه فيجعل البائع مسلما للمبيع، والمشتري قابضا له، وكذا تسليم الثمن من المشتري إلى البائع. (بدائع الصنائع  ۵/٢٤٤ ط: دار الکتب العلمیۃ)


تکملہ ردالمحتار میں ہے

لو قال ترکت حقي من المیراث أو برئت منہا ومن حصتي لا یصح وہو علی حقہ لأن الإرث جبري لا یصح ترکہ․ (تکملہ رد المحتار: ۱۲/۱۱٦ کتاب الدعوی باب دعوة النسب ط زکریا دیوبند)


فتاوی شامی میں ہے 

وھب اثنان دارا لواحد صح لعدم الشیوع، وبقلبہ لکبیرین لا عندہ للشیوع فیما یحتمل القسمة (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الھبة، ۸/۵۰۲ ط: مکتبة زکری دیوبند)


واللہ أعلم بالثواب والیہ المرجع والمآب 

العارض مفتی آصف بن محمد گودھروی 

کوئی تبصرے نہیں: