سوال
مفتی صاحب ۔۔۔ سوال یہ تھا کہ کھیت ہوتا ہے اس کے ارد گرد جو گھانس اگتی ہے قدرتی اس کو پیسوں سے کسی کو بیچ سکتے ہیں ؟ حالانکہ اس میں عشر بھی نکالا جاتا ہے ؟
سائل: مولوی احمد اسلامپوری
الجواب وباللہ التوفیق
باسمہ سبحانہ وتعالی
جو گھاس خود رو ہوتی ہے یعنی خود بخود بغیر بیج بوئے اور بغیرکھاد و پانی دئے اپنے آپ زمین میں اُگتی ہے وہ اصلاًمباح ہے چاہے اپنی خود کی زمین میں اُگے یا کسی کی زمین میں اُگے اس کو جو چاہے کاٹ سکتاہے البتہ اگر مباح الأصل گھاس کی خریدو فروخت کرنا ہے تو اسے کاٹ کر پہلے اپنی تحویل میں اور اپنے قبضے میں لینا ضروری ہے اس کے بعد فروخت کرنا جائز ہے۔
صورت مسئولہ میں خود رو گھاس کو کاٹ کر اپنے قبضے میں لے لیا ہے تو اس کی خرید وفروخت جائز ہے اور اگر کاٹ کر اپنے قبضے میں نہیں لیا ہے تو وہ مباح الأصل ہے اس کو کوئی بھی کاٹ سکتا ہے اور جو کاٹ کر اپنے قبضے میں لے لیگا وہ اس کا مالک ہوجائے گا۔
سنن ابن ماجہ میں ہے
قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " المسلمون شركاء في ثلاث في الماء، والكلإ، والنار، وثمنه حرام۔ (كتاب الرهون،باب المسلمون شركاء في ثلاث ۲/۸۲٦ ط:دار إحياء الكتب العربية)
بدائع الصنائع میں ہے
وأما الكلأ الذي ينبت في أرض مملوكة، فهو مباح، غير مملوك، إلا إذا قطعه صاحب الأرض، وأخرج فيملكه، هذا جواب ظاهر الرواية عن أصحابنا.
وقال بعض المتأخرين من مشايخنا رحمهم الله : أنه إذا سقاه ،وقام عليه، ملكه ،والصحيح جواب ظاهر الرواية؛ لأن الأصل فيه هو الإباحة ،لقوله صلی اللہ علیہ و سلم :الناس شركاء في ثلاث :الماء ،والكلأ ،والنار. والكلأ :اسم لحشيش ينبت من غير صنع العبد، والشركة العامة هي الإباحة، إلا إذا قطعه وأحرزه ؛لأنه استولى على مال مباح غير مملوك فيملكه كالماء المحرز في الأواني ،والظروف ،وسائر المباحات التي هي غير مملوكة لأحد.(بدائع الصنائع ٦/١٩٣)
فتاوی شامی میں ہے
ثم الكلام في الكلأ على أوجه، أعمها :ما نبت في موضع غير مملوك لأحد. فالناس شركاء في الرعي والاحتشاش منه كالشركة في ماء البحار، وأخص منه: وهو ما نبت في أرض مملوكة بلا إنبات صاحبها، وهو كذلك إلا أن لرب الأرض المنع من الدخول في أرضه، وأخص من ذلك كله :وهو أن يحتش الكلأ أو أنبته في أرضه، فهو ملك له، وليس لأحد أخذه بوجه لحصوله بكسبه .(الدر المختار مع رد المحتار ۱۰/۱۵)
فتح القدیر میں ہے
أما إذا أحرز الماء بالاستقاء في آنية والكلأ بقطعه جاز حينئذ بيعه؛ لأنه بذلك ملكه۔ (كتاب البيوع،باب البيع الفاسد ٦/٤١٨ ط:دار الفكر)
واللہ أعلم بالثواب والیہ المرجع والمآب
العارض مفتی آصف بن محمد گودھروی
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں