سوال
السلام علیکم و رحمة اللہ وبرکاتہ
مفتی صاحب امید ہے کہ آپ خیریت سے ہوگے
ایک مسلہ معلوم کرنا ہے وہ یہ کہ زید کا انتقال ہوگیا ہے اور اس کے والد زندہ ہے زید کی وراثت میں اس کے والد کا حصہ ہے یہ تو طے شدہ بات ہے ۔لیکن زید کے والد نے خود زید کی اولادوں کو کچھ مال ہبہ کیا ہے۔اور اپنے حصے کے مال کا مطالبہ بھی نہیں کیا اپنے پوتوں سے اور نا ہی زید کی اولادوں نے دادا کو ان کا حصہ دیا اور اب دادا کا بھی انتقال ہوگیا تو ان کے حصے کے مال کا کیا ؟؟؟ وہ مال پوتوں کا ہی ہوگیا نا اس بات پر قیاس کرتے ہوۓ کہ دادا نے اپنی حیاتی میں مال کا مطالبہ نہیں کیا بلکہ خود ہی اور مال ہبہ کر دیا !!
سائل: محمد مدثر عبدالواحد مالیگاؤں
الجواب وباللہ التوفیق
باسمہ سبحانہ وتعالی
سب سے پہلے اس بات کا خیال رہے کہ حق وراثت یہ ایک اضطراری حق ہے جو ساقط کرنے سے ساقط نہیں ہوتا اسی طرح وصول کرنے سے پہلے معاف بھی نہیں ہوتا اور مطالبہ نہ کرنے سے وہ حصہ بدستور برقرار رہتاہے ہاں اس سے دستبرداری کی یہ صورت اختیار کی جاسکتی ہے کہ اپنا حصہ وصول کریں پھر اس کو باقی ورثاء میں خود تقسیم کردیں یا پھر ورثہ کے مال میں سے کچھ حصہ لے کر اس کے عوض باقی حصہ چھوڑ دیں
لہذا صورت مسئولہ میں دادا نے اپنے پوتوں کو جو مال ہبہ کیا تھا وہ ان کے مالک ہوں گے البتہ دادا کے حصے کی جو وراثت ہے چونکہ وہ دادا نے وصول نہیں کی تھی اس لئے وہ ان کے حصے میں بدستور باقی رہے گی اور وہ حصہ دادا کی وفات کے بعد دادا کے ورثاء میں تقسیم ہوگی وہ پوتوں کی ملکیت شمار نہیں ہوگی۔
لہذا مرحوم بیٹے کی جائداد میں سے والد کو سدس (چھٹا حصہ) ملے گا وہ حصہ اب ان کے انتقال کے بعد ان کے ورثاء میں تقسیم ہوگا۔
قرآن مجید میں ہے
وَلأَبَوَيْهِ لِكُلِّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا السُّدُسُ مِمَّا تَرَكَ إِن كَانَ لَهُ وَلَد ... الخ
تکملہ رد المحتار میں ہے
لو قال ترکت حقي من المیراث أو برئت منہا ومن حصتي لا یصح وہو علی حقہ لأن الإرث جبري لا یصح ترکہ․ (تکملہ رد المحتار: ۱۲/ ۱۱٦، کتاب الدعوی باب دعوة النسب ط زکریا دیوبند)
الأشباه والنظائر میں ہے:
لو قال الوارث تركت حقي لم يبطل حقه؛ إذ الملك لا يبطل بالترك (الفن الثالث، ما یقبل الاسقاط من الحقوق ص نمبر ۲۷۲، دار الکتب العلمیۃ)
فتاوی ہندیہ میں ہے
ومن صالح من الغرماء أو الورثة على شيء من التركة فاطرحه كأن لم يكن ثم اقسم الباقي على سهام الباقين (کتاب الفرائض ،باب سادس عشر ٦/٤٧٤ دار الفکر)
واللہ أعلم بالثواب والیہ المرجع والمآب
العارض مفتی آصف بن محمد گودھروی
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں