سوال
مفتی صاحب ایک سوال تھا کسی نے یوں اقرار کیا کہ گاؤں کی نئی مسجد کی جب تعمیر ہوگی اس وقت ایک اکڑ زمین کی قیمت مسجد کے واسطے ادا کرونگا اور اس وقت زمین کی قیمت آٹھ لاکھ تھی تو کونسے وقت کی قیمت ادا کرنی ہوگی اقرار کیا اس وقت کی یا فی الحال جو قیمت چل رہی ہے؟
سائل: مولوی احمد اسلامپوری
باسمہ سبحانہ وتعالی
الجواب وباللہ التوفیق
جب کوئی شخص اپنی کسی چیز کو وقف کرے تو حنفیہ کے نزدیک مفتی بہ قول یہ ہے کہ زبان سے کہتے ہی وقف تام ہوجاتا ہے البتہ اگر وعدۂ وقف ہے تو وہ وقف تام نہ ہونے کی وجہ سے اس کو پورا کرنا ضروری نہیں ہوگا لیکن چونکہ دینے کا وعدہ کیا ہے وعدہ کرکے اس کو پورا نہ کرنا شریعت میں بڑا گناہ ہے اور قرآنِ مجید احادیثِ نبویہ میں وعدہ پورا کرنے کی بہت تاکید آئی ہے، حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ نے بہت کم ایسا خطبہ دیا ہوگا جس میں یہ ارشاد نہ فرمایا ہو کہ اس شخص کا کوئی ایمان نہیں جس میں امانت نہیں، اور اس شخص کا کوئی دین نہیں جس میں وعدہ کی پاس داری نہیں۔
لہذا صورت مسئولہ میں چونکہ زید نے گاؤں کی نئی مسجد کی جب تعمیر ہوگی اس وقت ایک ایکڑ زمین کی قیمت مسجد کے واسطے ادا کرنے کا وعدہ کیا ہے یہ بظاہر وقف نہیں بلکہ وعدہ وقف ہے اس لئے اس کے حق میں یہ اختیار رہے گا کہ وہ وعدے کے وقت کی قیمت ادا کرے یا فی الحال جو قیمت ہو اس کو ادا کرے لیکن ایک مسلمان کو وعدہ کرنے کے بعد پورا کرنا چاہئیے وعدہ پورا نہ کرنا منافقین کی علامت ہے؛ اس لئے زید کے حق میں بہتر یہ ہے کہ جس دن زمین خریدے اس وقت کی رقم مسجد کے ذمہ داروں کے حوالہ کریں۔ واللہ اعلم بالصواب۔
قرآن کریم میں ہے
قال الله تعالى: ﴿لَّيْسَ الْبِرَّ أَن تُوَلُّوا وُجُوهَكُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ وَلَٰكِنَّ الْبِرَّ مَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَالْمَلَائِكَةِ وَالْكِتَابِ وَالنَّبِيِّينَ وَآتَى الْمَالَ عَلَىٰ حُبِّهِ ذَوِي الْقُرْبَىٰ وَالْيَتَامَىٰ وَالْمَسَاكِينَ وَابْنَ السَّبِيلِ وَالسَّائِلِينَ وَفِي الرِّقَابِ وَأَقَامَ الصَّلَاةَ وَآتَى الزَّكَاةَ وَالْمُوفُونَ بِعَهْدِهِمْ إِذَا عَاهَدُوا ۖ وَالصَّابِرِينَ فِي الْبَأْسَاءِ وَالضَّرَّاءِ وَحِينَ الْبَأْسِ ۗ أُولَٰئِكَ الَّذِينَ صَدَقُوا ۖ وَأُولَٰئِكَ هُمُ الْمُتَّقُونَ﴾ (البقرة: ۱۷۷)
صحيح البخاري مسلم میں ہے
عن أبي هريرة رضي الله عنه قال: قال رسول الله آية المنافق ثلاث: إذا حدَّث كذب، وإذا وعد أخلف، وإذا اؤتمن خان متفق عليه. (صحيح البخاري كتاب الْإِيمَانُ/ بَابُ عَلَامَةِ الْمُنَافِقِ. رقم الحديث ۳۳) (صحيح مسلم، كِتَابٌ الْإِيمَانُ/ بَابٌ بَيَانُ خِصَالِ الْمُنَافِقِ، رقم الحديث ۵۹)
رد المحتار میں ہے
ثم إن أبا یوسف یقول یصیر وقفا بمجرد الْقول لأنہ بمنزلة الإعتاق عندہ وعلیہ الفتوی۔ ( رد المحتار: ۳۳۸/۴)
البحر الرائق میں ہے
فالحاصل أن الترجیح قد اختلف والأخذ بقول أبی یوسف أحوط وأسہل ولذا قال فی المحیط ومشایخنا أخذوا بقول أبی یوسف ترغیبا للناس فی الوقف۔ ( البحر الرائق ۲۱۲/۵)
واللہ أعلم بالثواب والیہ المرجع والمآب
العارض مفتی آصف بن محمد گودھروی
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں