اتوار، 16 جون، 2024

بکرا چھ مہینے کا ہو لیکن اتنی موٹا تازہ ہو کہ وہ ایک سال کا محسوس ہو تو اس کی قربانی جائز ہے؟ سوال نمبر ٤٨٣

 سوال

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ 

مسئلہ یہ ہے کہ بکرا ایک سال کے لیے کا ضروری ہے اور کوئی چھ مہینے کا ہی بکرا ہے لیکن نظر آرہا ہے کہ ایک سال کا ہے لیکن چھ ہی مہینے کا ہے تو کیا اس کی قربانی کر سکتے ہیں کسی عالم نے ہم سے کہا کہ کر سکتے ہیں اگر وہ ایک سال کا نظر ارہا ہے دکھنے میں چھ سے سات مہینے کا ہی ہے  توکیا قربانی کر سکتے ہیں تو جواب مطلوب ہے

سائل عبدالحی سالک اورنگ آباد


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی


بکرا، بکری کے لئے قربانی کی عمر ایک سال ہے اس سے کم کی ہو تو قربانی درست نہیں ہے یہ حکم صرف (مینڈھا، بھیڑ، دنبہ، دنبی،) کا ہے ان میں بھی اصل ایک سال ہے لیکن اگر چھ ماہ کے ہو اور وہ صحت اور فربہ ہونے میں سال بھر کے معلوم ہوتے ہو تو اس کی بھی قربانی  درست ہے اور ان کے علاوہ کسی اور جانور میں یہ حکم نہیں ہے۔


اس عالم صاحب سے دوبارہ رجوع فرمائیں شاید آپ کے سمجھنے میں غلطی ہوگی۔


فتاوی شامی میں ہے

قید بہ لأنہ لا یجوز الجذع من المعز وغیرہ بلا خلاف کما في المبسوط ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وصح (الثني) فصاعداً من الثلاثة والثني هو ابن خمس من الإبل، وحولين من البقر والجاموس، وحول من الشاة والمعز والمتولد بين الأهل والوحشي يتبع الأم. قاله المصنف ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وفي البدائع تقدير هذه الأسنان بما ذكر لمنع النقصان لا الزيادة فلو ضحى بسن أقل لا يجوز، وبأكبر يجوز وهو أفضل۔ (فتاوی شامی ٩/ ٤٦۵ ۔ ٤٦٦ مکتبہ دار عالم الکتب)


واللہ أعلم بالثواب والیہ المرجع والمآب 

العارض مفتی آصف بن محمد گودھروی

قربانی کا جانور خریدا اور ایام نحر سے دو دن پہلے مرگیا تو کیا حکم ہے سوال ٤٨٢

 سوال

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ 

مسئلہ یہ ہے کہ کسی بندے نے قربانی کا جانور لیا اور وہ ایک دو دن پہلے مرگیا تو دوسرا لینا جائز ہے یا نہیں؟

سائل: عبدالحی سالک اورنگ آباد


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی


اس صورت میں دیکھا جائے گا کہ قربانی کرنے والا آدمی صاحب نصاب ہے یا نہیں؟ اگر صاحب نصاب ہے تو شریعت کی طرف سے اس پر قربانی واجب ہوگئی اب اس آدمی نے قربانی کے لئے جانور خریدا اور جانور قربانی سے پہلے مرگیا یا گم ہوگیا تو اس صورت میں اس شخص پر دوسرا جانور خرید کر یا کسی بڑے جانور میں حصہ دیکر قربانی کرنا واجب ہے کیوں کہ اس کو شریعت کی طرف سے مکلف قرار دیا گیا ہے۔

اور اگر قربانی کرنے والا آدمی صاحب نصاب نہیں ہے  تو چونکہ شریعت کی طرف سے اس پر قربانی واجب نہیں کی گئی وہ اپنی طرف سے کررہاہے ایسی صورت میں اگر اسکا جانور قربانی سے پہلے مرگیا یا گم ہوگیا تو اس پر دوسرا جانور خرید کر قربانی کرنا واجب نہیں ہے۔


البتہ وہ دوسرا خرید کر قربانی کرنا چاہے تو وہ اس کی چاہت پر ہے شریعت کی طرف سے اس پر لازم نہیں ہے۔

بدائع الصنائع میں ہے

وعلى هذا يخرج ما إذا اشترى شاة للأضحية وهو موسر، ثم إنها ماتت .... أو ضلت .... أنه يجب عليه أن يضحّي بشاة أخرى ..... وإن كان معسراً ...... ليس عليه شيء آخر الخ (بدائع الصنائع ٤/٢٠٠)


مجمع الأنہر میں ہے 

وعن ہذا الأصل قالوا إذا ماتت المشتراة للتضحیة علی موسر تجب مکانہا أخری ولا شیء علی الفقیر۔ (مجمع الأنہر فی شرح ملتقی الأبحر ٤/١٧٤ ط دارالکتب العلمیة بیروت)


فتاوی عالمگیری میں ہے

ولو اشترى أضحية وهي صحيحة العين، ثم اعورت عنده وهو موسر أو قطعت أذنها كلها أو أليتها أو ذنبها أو انكسرت رجلها فلم تستطع أن تمشي لا تجزي عنه، وعليه مكانها أخرى بخلاف الفقير، وكذلك لو ماتت عنده أو سرقت۔ (فتاوی عالمگیری ۵/۲۹۹)


واللہ أعلم بالثواب والیہ المرجع والمآب 

العارض مفتی آصف بن محمد گودھروی


ہفتہ، 15 جون، 2024

قربانی کا جانور بیچ کر کسی کی بیماری کے علاج میں وہ پیسے لگادینا کیسا ہے؟ سوال نمبر ٤٨١

 سوال

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ 

مسئلہ یہ ہے کہ کسی بندے نے قربانی کے لیے جانور لیا تھا لیکن اس کو بیچ کر کے کسی کے  بیماری کے علاج کے لیے اس نے پیسہ دے دیا کیا ایسا کرنا جائز ہے؟

سائل عبدالحی سالک اورنگ آباد


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی 


شریعت مطہرہ نے جو عبادت جس طریقے سے ادا کرنے کا حکم دیا ہے اس عبادت کو کسی اور طریقہ سے ادا کرنے سے وہ مفروضہ عبادت ادا نہیں ہوگی مثلاً شریعت نے پانچ نمازیں فرض کی ہے اب کوئی یہ سوچے کہ نماز پڑھنے کے بجائے میں کسی غریب کی تیمار داری کرلوں یا نماز چھوڑ کر والدین کی خدمت کروں تو یہ درست نہیں ہے اس لئے کہ ایک عبادت کو بنیاد بنا کر کسی دوسری عبادت کو چھوڑنا غیر معقول  بات ہے اور یہ دونوں عبادتیں الگ الگ ہے تیمار داری یا والدین کی خدمت یہ مستقل الگ عبادت ہے فریضۂ نماز مستقل الگ عبادت ہے اسے ادا کرنا اس پر مستقل باقی رہے گا جب تک کہ وہ اس کو ادا نہ کرلیں۔


اسی طرح قربانی یہ ایک مستقل الگ عبادت ہے اور یہ عبادت قربانی کے ایام میں جانور ذبح کرنے سے ہی ادا ہو تی ہے قربانی کا جانور بیچ کر قربانی کی رقم کسی کی بیماری کے علاج کے لئے دے دینا شرعاً درست نہیں ہے اس طرح کرنے سے قربانی ادا نہیں ہوگی اور ایسے شخص کو صدقہ کرنے کا ثواب تو مل جائے گا لیکن واجب قربانی چھوڑنے پر وہ گناہ گار ہوگا اس لئے کہ قربانی کرنا یہ ایک مستقل عبادت ہے اور غریب کی مدد ایک دوسری عبادت ہے۔


لہذا صورت مسئولہ میں اگر اس پر قربانی واجب تھی اور اس نے جانور بیچ کر کسی کی بیماری میں پیسے دے دئے ہے تو اس کو دوبارہ جانور خرید کر یا کسی جگہ قربانی کا حصہ دے کر اپنا فریضہ ادا کرنا ہوگا ورنہ وجوب اس کے ذمہ باقی رہے گا اور وہ قربانی کی عبادت کو چھوڑنے کی وجہ سے گنہگار ہوگا۔


سنن ابن ماجہ میں ہے

عَنْ اَبیْ ھُریرہ قال قال رسول اللہ مَنْ کَان لَهُ سِعَة فَلَمْ یضح فَلا یقربن مصلانا۔ (ابن ماجة باب الاضاحی واجبة ام لا ۲۷۱/۲)


فتاوی عالمگیری میں ہے

وهي واجبة على الحر المسلم المالك لمقدار النصاب فاضلاً عن حوائجه الأصلية، كذا في الاختيار شرح المختار، ولايعتبر فيه وصف النماء، ويتعلق بهذا النصاب وجوب الأضحية، ووجوب نفقة الأقارب، هكذا في فتاوى قاضي خان۔ (الفتاوى الهندية ۱/۱۹۱)


بدائع الصنائع میں ہے

وأما الذي يجب على الغني دون الفقير فما يجب من غير نذر ولا شراء للأضحية بل شكرا لنعمة الحياة وإحياء لميراث الخليل عليه الصلاة والسلام حين أمره الله تعالى عز اسمه بذبح الكبش في هذه الأيام فداء عن ولده ومطية على الصراط ومغفرة للذنوب وتكفيرا للخطايا على ما نطقت بذلك الأحاديث وهذا قول أبي حنيفة ومحمد وزفر والحسن بن زياد وإحدى الروايتين عن أبي يوسف رحمهم الله۔ (بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع ۵/٦٢)


واللہ أعلم بالثواب والیہ المرجع والمآب 

العارض مفتی آصف بن محمد گودھروی

سعودی میں دس ذو الحجہ کا دن ہو اور ہندوستان پاکستان میں عرفہ کا دن ہو تو روزہ رکھیں یا نہیں؟ سوال نمبر ٤٨٠

 سوال

حضرات مفتیان کرام جیسا کہ ایک مسئلہ پر منجھارا ھو رھا ہے وہ یہ کہ سعودی عرب میں یوم عرفہ کا دن پہلے ہوتا ہے اور باقی کچھ ممالک نویں ذوالحجہ ایک دن بعد ہوتا ہے تو نویں ذوالحجہ کے روزے کی جو فضیلت بتلائی جاتی تو صائم کو تھوڑی پریشانی ہوتی ہے اس مسئلہ کو سمجہنے پر براء کرم وضاحت فرمائیے 

سائل: سیف اللہ پاکستانی 


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی 


شریعت مطہرہ نے روزہ  رکھنے نہ رکھنے اور عید کرنے نہ کرنے کا دارومدار چاند دیکھنے پر رکھا ہے، رؤیت کے سلسلے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی بات کی تلقین فرمائی ہے کہ  چاند دیکھ کر روزہ رکھا جائے اور چاند دیکھ کر ہی عید کی جائے، آپ کا ارشاد گرامی ہے، صُومُوا لِرُؤْيَتِهِ وَأَفْطِرُوا لِرُؤْيَتِهِ فَإِنْ غُبِّيَ عَلَيْكُمْ فَأَكْمِلُوا عِدَّةَ شَعْبَانَ ثَلَاثِينَ  (چاند دیکھ کر روزہ رکھو اور چاند دیکھ کر روزوں کا اختتام کرو اور اگر تم پر چاند مخفی ہو جائے تو پھر تم شعبان کے ۳۰ دن پورے کرلو۔ صحیح بخاری ، کتاب الصوم)

لہذا صورت مسئولہ میں سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ سعودی عرب کی رؤیت دیگر ممالک کے حق میں معتبرہے یا نہیں؟ تو اس بارے میں احناف کا راجح قول یہی ہے کہ بلادِ بعیدہ جن کےطلوع وغروب میں کافی فرق پایاجاتا ہے ان کی رؤیت ایک دوسرے کے حق میں معتبر نہیں ہے، اور سعودی عرب اور دیگر ممالک کے مطلع میں کافی فرق ہونا بار بار کے مشاہدہ سے ثابت ہے، جس کی وجہ سے عید روزہ اور قربانی میں ہر ملک کی اپنی اپنی رؤیت کا اعتبارہوگا اور عرفہ کے روزہ کے بارے میں بھی ہر ملک کی اپنی رؤیت معتبر ہوگی لہذا جس دن دیگر ممالک  کے حساب سے ذی الحجہ کی نویں تاریخ ہوگی اسی دن روزہ رکھنے سے یومِ عرفہ کے روزے کی فضیلت حاصل ہوگی اگرچہ اس دن مکہ مکرمہ میں عید کا دن ہو۔

اگر سعودی عرب کی رؤیت سارے ممالک میں معتبر مان لیں تو بعض ممالک ایسے بھی ہیں جب سعودیہ میں دن ہوتا ہے تو وہاں رات ہوتی ہے، اگر ان ممالک کے لوگ حجاج کرام کے وقوفِ عرفات کے وقت روزہ رکھیں تو کیا وہ لوگ بھی جن کے یہاں رات ہے وہ رات کا روزہ رکھیں گے؟ اسی طرح ہندوستان پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان تقریباً دھائی گھنٹے کا فرق ہے تو کیا وہ لوگ جب افتاری کریں گے تو ہندوستان پاکستان والے بھی کریں گے؟ اسی طرح کچھ ایسے ممالک بھی ہونگے جہاں سعودیہ سے بھی پہلے چاند نظر آجاتا ہے تو کیا وہ لوگ ۱۰ ذوالحجہ یعنی عید کے دن عرفہ کا روزہ رکھیں گے؟ ہرگز نہیں۔

اسی طرح اگر چاند سب کا ایک ہو سعودی کے ساتھ تو ہر چیز میں یکسانیت ہونی چاہئے، جیسے کہ سورج کے اوقات میں بھی یکسانیت ہونا چاہیے، مثلاً افطار و سحری کے اوقات بھی وہی ہونا چاہئے جو مکہ مدینہ کے اوقات ہوں، نمازوں کے اوقات بھی وہی ہونا چاہئے جو مکہ مدینہ کی نمازوں کے اوقات ہوں، اگر یہ ممکن نہیں تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ چاند کا مختلف ہونا نمازوں اور افطار و سحر کے معاملے میں تو معتبر ہے لیکن رمضان کے روزوں اور یومِ عرفہ کے روزے میں معتبر نہیں؟ یہ سوچ تو درست نہیں ہے، اس لئے کہ ہماری سوچ کے ساتھ اوقات کا تعلق نہیں ہے بلکہ صاحب شریعت نے جو اصول بیان کیا ہے اسی اعتبار سے شریعت کا حکم جاری ہوتا ہے،

خلاصہ

خلاصہ کلام یہ ہوکہ دنیا کے دیگرممالک کے مسلمان سعودی عرب کی رؤیت کے پابند نہیں ہے سارے ممالک اپنے اپنے ملک کی رؤیت کے پابند ہوں گے، ترمذی شریف کی ایک روایت سے بھی اسی طرف رہنمائی ہوتی ہے  روایت میں ہے کہ حضرت کریب فرماتے ہیں کہ حضرت امِ فضل بنتِ حارث نے مجھ کو حضرت امیر معاویہ کے پاس شام بھیجا حضرت کریب فرماتے ہیں میں شام گیا اور ان کا کام پورا کیا اسی اثنا میں رمضان آگیا پس ہم نے جمعہ کی شب چاند دیکھا پھر میں رمضان کے آخر میں مدینہ واپس آیا تو حضرت ابن عباس نے مجھ سے چاند کا ذکر کیا اور پوچھا کہ تم نے کب چاند دیکھا تھا؟  میں نے کہا  جمعہ کی شب کو حضرت ابن عباس نے فرمایا تم نے خود دیکھا تھا؟  میں نے کہا لوگوں نے دیکھا اور روزہ رکھا امیر معاویہ نے بھی روزہ رکھا حضرت ابن عباس نے فرمایا ہم نے تو ہفتے کی رات چاند دیکھا تھا لہذ اہم تیس روزے رکھیں گے یا یہ کہ عیدالفطر کا چاند نظر آجائے۔  حضرت کریب فرماتے ہیں میں نے کہا کیا آپ کے  لئے امیر معاویہ کاچاند دیکھنا اور روزہ رکھنا کافی نہیں؟ حضرت ابن عباس نے فرمایا نہیں ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسی طرح حکم دیا ہے، لہذا اس سے بھی معلوم ہوا کہ اپنے ملک کی رؤیت کا اعتبار ہوگا یعنی اپنے ملک میں جب چاند نظر آئے گا تو اسی چاند کے حساب سے عرفہ کا روزہ رکھیں گے نہ کہ سعودیہ میں جب عرفہ ہو تب روزہ رکھیں گے۔


سنن ترمذی میں ہے

حدثنا محمد بن أبي حرملة قال أخبرني كريب أن أم الفضل بنت الحارث بعثته إلى معاوية بالشام قال فقدمت الشام فقضيت حاجتها واستهل علي هلال رمضان وأنا بالشام فرأينا الهلال ليلة الجمعة ثم قدمت المدينة في آخر الشهر فسألني ابن عباس ثم ذكر الهلال فقال متى رأيتم الهلال فقلت رأيناه ليلة الجمعة فقال أأنت رأيته ليلة الجمعة؟ فقلت: رآه الناس وصاموا وصام معاوية قال لكن رأيناه ليلة السبت، فلا نزال نصوم حتى نكمل ثلاثين يوما أو نراه فقلت ألا تكتفي برؤية معاوية وصيامه قال لا هكذا أمرنا رسول الله صلى الله عليه وسلم حديث ابن عباس حديث حسن صحيح غريب والعمل على هذا الحديث عند أهل العلم أن لكل أهل بلد رؤيتهم۔ (سنن الترمذي ۲٦٧ باب ما جاء لکل اھل بلد رؤیتھم مکتبہ رحمانیہ)


تبيين الحقائق میں ہے

وأكثر المشايخ على أنه لا يعتبر حتى إذا صام أهل بلدة ثلاثين يوماً وأهل بلدة أخرى تسعة وعشرين يوماً يجب عليهم قضاء يوم، والأشبه أن يعتبر؛ لأن كل قوم مخاطبون بما عندهم، وانفصال الهلال عن شعاع الشمس يختلف باختلاف الأقطار، كما أن دخول الوقت وخروجه يختلف باختلاف الأقطار، حتى إذا زالت الشمس في المشرق لا يلزم منه أن تزول في المغرب۔ (تبيين الحقائق وحاشية الشلبي قدیم ۱/۳۲۱)


بدائع الصنائع میں ہے

هذا إذا كانت المسافة بين البلدين قريبة لا تختلف فيها المطالع، فأما إذا كانت بعيدة فلا يلزم أحد البلدين حكم الآخر لأن مطالع البلاد عند المسافة الفاحشة تختلف فيعتبر في أهل كل بلد مطالع بلدهم دون البلد الآخر۔ (بدائع الصنائع قدیم ۲/۸۳)


فتاوی شامی میں ہے

(واختلاف المطالع) ورؤيته نهارا قبل الزوال وبعده (غير معتبر على) ظاهر (المذهب) وعليه أكثر المشايخ وعليه الفتوى بحر عن الخلاصة(فيلزم أهل المشرق برؤية أهل المغرب) إذا ثبت عندهم رؤية أولئك بطريق موجب كما مر وقال الزيلعي الأشبه أنه يعتبر لكن قال الكمال الأخذ بظاهر الرواية أحوط.

(قوله واختلاف المطالع) جمع مطلع بكسر اللام موضع الطلوع بحر عن ضياء الحلوم (قوله ورؤيته نهارا إلخ) مرفوع عطفا على اختلاف ومعنى عدم اعتبارها أنه لا يثبت بها حكم من وجوب صوم أو فطر فلذا قال في الخانية فلا يصام له ولا يفطر وأعاده وإن علم مما قبله ليفيد أن قوله لليلة الآتية لم يثبت بهذه الرؤية بل ثبت ضرورة إكمال العدة كما قررناه فافهم (قوله على ظاهر المذهب) اعلم أن نفس اختلاف المطالع لا نزاع فيه … وإنما الخلاف في اعتبار اختلاف المطالع بمعنى أنه هل يجب على كل قوم اعتبار مطلعهم، ولا يلزم أحد العمل بمطلع غيره أم لا يعتبر اختلافها بل يجب العمل بالأسبق رؤية حتى لو رئي في المشرق ليلة الجمعة، وفي المغرب ليلة السبت وجب على أهل المغرب العمل بما رآه أهل المشرق فقيل بالأول واعتمده الزيلعي وصاحب الفيض وهو الصحيح عند الشافعية لأن كل قوم مخاطبون بما عندهم كما في أوقات الصلاة وأيده في الدرر بما مر من عدم وجوب العشاء والوتر على فاقد وقتهما وظاهر الرواية الثاني وهو المعتمد عندنا وعند المالكية والحنابلة لتعلق الخطاب عملا بمطلق الرؤية في حديث صوموا لرؤيته بخلاف أوقات الصلوات وتمام تقريره في رسالتنا المذكورة۔ (رد المحتار مطلب في اختلاف المطالع ٣/٣٦٣ مکتبہ دار عالم الکتب)


 فتاوی تاتار خانیہ میں ہے:

وفی الظهيرة وعن ابن عباس انه یعتبر فی حق کل بلدۃرؤیة اهلها۔وفی القدوری اذا کان بین البلدتین تفاوت لایختلف المطالع لزم حکم اهل احدی البلدتین البلدۃالاخریٰ، فاما اذا کان تفاوت یختلف المطالع لم یلزم حکم احدی البلدتین البللدۃالاخری۔ (کتاب الصوم ٣/٣۵٦ ط مکتبه زکریا دیوبند)


واللہ أعلم بالثواب والیہ المرجع والمآب 

العارض مفتی آصف بن محمد گودھروی

جمعرات، 13 جون، 2024

جانوروں میں وہ عیوب جس کی وجہ سے قربانی درست نہیں ہے سوال نمبر ٤٧٩

 سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ کے بارے میں کہ شبکور (یعنی جس کو دن میں نظر آئے اور رات میں نظر نہ آئے) جانور کی قربانی جائز ہے یا نہیں؟ اسی طرح اور کونسے عیوب ہے جس کی وجہ سے قربانی درست نہیں ہے؟

سائل: حافظ عبدالمتین ایم پی


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی


قربانی کے جانور کا بے عيب ہونا شرعا ضروری ہے لہذا قربانی کے جانور میں اصولی بات یہ ہے کہ ہر وہ عیب جو غیر معمولی ہو اورجانور کی منفعت کو ختم کردے پیدائشی ہو یا قربانی سے پہلے پیدا ہوا ہو قربانی درست ہونے میں مانع ہے، لہذا قربانی کے جانوروں کے وہ عیوب جس کی وجہ سے قربانی درست نہیں ہے وہ ملاحظہ فرمائیں۔ 


جن جانوروں کے سینگ ٹوٹ جائے 

وہ جانور جن کے سینگ ٹوٹ جائے لیکن پورے نہ ٹوٹے اور ٹوٹنے کا اثر دماغ تک نہ پہنچے اور وہ جانور جن کے سینگ قدرتی طور پر نہ نکلے ہوں یا کسی کیمیکل کے ذریعے سینگ نکلنے کے عمل کو روک دیا گیا ہو، یا وہ جانور جن کے سینگ تراشے گئے ہوں جڑ سے نکالے نہ گئے ہوں ان سب کی قربانی شرعاً جائز ہے۔

 اور جن جانوروں کے سینگ جڑ سے نکل جائے اور اس کا اثر ان کے دماغ تک پہنچ جائے تو اس حالت میں ان کی قربانی شرعاً جائز نہیں ہوگی، اور اگر جڑ سے ٹوٹے سینگ والے جانور  کے زخم کا اثر دماغ تک نہ پہنچا ہو اور زخم درست ہوکر جانور صحت مند ہوجائے تو اس جانور کی قربانی درست ہوجائےگی۔


مجنون جانور

ایسا مجنون جانور جو جنون کی وجہ سے چارہ نہ کھا سکتاہو تو قربانی جائز نہیں ہے اور اگر چارہ اچھی طرح کھالے تو پھر ایسے مجنون جانور کی قربانی درست ہوجائے گی 


شب کور جانور 

شب کور جانور (یعنی ایسا جانور جس کو دن میں نظر آئے اور رات میں نظر نہ آئے) اگر دن میں مکمل طور پر صحیح دیکھتا ہے، اور گھاس وغیرہ  چرسکتاہے تو اس کی قربانی جائز ہے صرف رات میں نظر نہ آنا ایسا واضح و فاحش عیب نہیں جس کی وجہ سے قربانی ناجائز ہو۔


آنکھ کی بنائی کم یا ختم ہوجائے

قربانی کے جانور کے آنکھ کی روشنی ختم ہوجائے تو اندازہ سے اندازہ سے آنکھ کی روشنی کے تین حصے کریں جدید ڈاکٹری آلات سے یہ ممکن ہے اب اگر بنائی تیسرے حصے سے کم ختم ہوئی ہو تو اس کی قربانی جائز ہے اگر تیسرے حصے کی مقدار یا اس سے زیادہ ختم ہوئی ہو تو قربانی درست نہیں۔ لہذا جو جانور اندھا یا کانا ہو یاایک آنکھ کی تہائی روشنی یا اس سے زیادہ جاتی رہی ہو تو اس کی قربانی جائز نہیں اور کم بینائی ختم ہوئی ہے تو اس کی قربانی جائز ہے


کان کٹا جانور

قربانی کے جانور کے کان کٹ جائے تو اندازہ سے کان کے تین حصے کریں اگر کٹاہوا حصہ تیسرے حصے سے کم کٹاہوا ہو تو اس کی قربانی جائز ہے اگر تیسرے حصے کی مقدار یا اس سے زیادہ کٹاہوا ہو یا ایسا جانور جس کے پیدائشی کان ہی نہ ہوں تو ایسے جانور کی قربانی درست نہیں۔


ناک کٹا جانور

جس جانور کی نکیل کھنیچنے سے رسی نتھنوں کو چیر کر باہر نکل آۓ تو دیکھا جائے گا کہ اس جانور کے نتھنے پھٹنے کی وجہ سے اس کا جمال  مکمل ختم ہو گیا ہے تو اس صورت میں اس کی قربانی جائز نہ ہوگی اور اگر اس جانور کا جمال  مکمل ختم نہیں ہواہے تو قربانی جائز ہوگی۔


کٹی ہوئی زبان والا جانور 

جس جانور کی زبان کٹی ہوئی ہو یا چیری ہوئی ہو جس کی وجہ سے وہ چارہ گھاس وغیرہ نہ کھاسکے  تو اس جانور کی قربانی درست نہیں اور اگر گھاس وغیرہ کھا سکتا  ہے تو جائز ہے۔


وہ جانور جس کے دانت ٹوٹ جائے 

کسی جانور کے اکثر دانت ٹوٹ چکے ہوں یا اکثر دانت ابھی تک آئے ہی نہ ہوں جس کی وجہ سے وہ چارہ نہ کھاسکے تو ایسے جانور کی قربانی درست نہیں ہوگی اور اگر اتنے دانت موجود ہو کہ وہ چارہ اچھی طرح کھالے تو قربانی جائز ہے۔


کٹی ہوئی دم والا جانور 

جس  جانور  کی دم کا تہائی حصہ یا تہائی سے زیادہ حصہ کٹ گیا ہو، یا ایسا جانور جس کے پیدائشی دم نہ ہوں اس کی قربانی جائز نہیں ہے۔ اسی طرح  جس  جانور  کی پیدائش سے ہی دم نہیں اس کی قربانی بھی جائز نہیں ہے۔  


خارش زدہ جانور 

خارش والا جانور جب موٹا تازہ ہو اور اس کا اثر کھال تک ہی رہے تو اس کی قربانی درست ہے، لیکن اگر خارش کی وجہ سے جانور بالکل کمزور ہوگیاہو یاخارش کھال سے گذر کر گوشت تک پہنچ گئی ہو تواس کی قربانی درست نہیں ہے۔


انتہائی دبلا پتلا اور کمزور جانور 

دبلے پتلے اور کمزور جانور کی قربانی درست ہے، البتہ ایسا دُبلا اور لاغر جانور جس کی ہڈیوں میں گودا نہ ہو یا وہ خود چل کر ذبح کی جگہ تک نہ جاسکتا ہو تو ایسے کمزور اور لاغر جانور کی قربانی جائز نہیں ہے۔


لنگڑا جانور

لنگڑا جانور  اگر چلتے وقت ٹوٹی ہوئی  ٹانگ زمین پر بالکل نہ رکھے اٹھا کر چلے اور چلنے میں صرف تین ٹانگوں کا سہارا لے تو یہ قربانی میں عیب ہے، اس کی موجودگی میں قربانی درست نہیں ہوگی اور اگر جانور چلنے میں اس ٹوٹی ہوئی ٹانگ کا بھی سہارا لے اور زمیں پر رکھ کر چلے تو اس جانور کی قربانی درست ہوگی۔


ایسا جانور جس کے تھنوں کا سرا کٹا ہوا ہو

چھوٹے جانور میں اگر ایک تھن کٹ جائے یا خشک ہوجائے تو قربانی درست نہیں ہوگی جیسے بکری وغیرہ اور بڑے جانور کے چار   تھنوں میں  سے دو تھن کٹ جائے یا خشک ہوجائے تو قربانی درست نہیں ہوگی جیسے گائے، بھینس وغیرہ اور اگر چار میں سے صرف ایک تھن نہ ہوں یا خشک ہوگیا ہو تو اس جانور کی قربانی جائز ہوجائےگی۔


خنثی جانور 

جو جانور پیدائشی طور پر خنثی ہو اس کی قربانی جائز نہیں ہے اور خنثی جانور میں نر اور مادہ دونوں کے جنسی اعضاء پائے جاتے ہے یا دونوں ہی اعضاء نہیں ہوتے، پیشاب کے لئے فقط ایک سوراخ ہوتا ہے اس جانور کی قربانی جائز  نہیں ہے ۔


جلالہ یعنی صرف گندگی کھانے والے جانور 

وہ جانور جو نجاست کھاتے ہوں اور نجاست کا اثر ان کے جسم و گوشت میں سرایت کرگیا ہو انہیں شریعت کی اصطلاح میں جلالہ کہاجاتا ہے، ایسے جانور کی قربانی درست نہیں ہے۔

ایسے جانور کا حکم یہ ہے کہ قربانی سے چند دن پہلے باندھ دیا جائے اور اسے پاک خوراک دی جائے، یہاں تک کہ اس کے جسم سے بدبو ختم ہوجائے،اس طرح کرنے سے اس جانور کےگوشت میں کراہت ختم ہوجاتی ہے اس کے بعد اس کی قربانی درست ہے۔


فتاوی شامی میں ہے

ويضحي بالجماء والخصي والثولاء) أي المجنونة (إذا لم يمنعها من السوم والرعي) (، وإن منعها لا) تجوز التضحية بها (والجرباء السمينة) فلو مهزولة لم يجز، لأن الجرب في اللحم نقص (لا) (بالعمياء والعوراء والعجفاء) المهزولة التي لا مخ في عظامها (والعرجاء التي لا تمشي إلى المنسك) أي المذبح، والمريضة البين مرضها (ومقطوع أكثر الأذن أو الذنب أو العين) أي التي ذهب أكثر نور عينها فأطلق القطع على الذهاب مجازا، وإنما يعرف بتقريب العلف (أو) أكثر (الألية) لأن للأكثر حكم الكل بقاء وذهابا فيكفي بقاء الأكثر، وعليه الفتوى مجتبى (ولا) (بالهتماء) التي لا أسنان لها، ويكفي بقاء الأكثر، وقيل ما تعتلف به (والسكاء) التي لا أذن لها خلقة فلو لها أذن صغيرة خلقة أجزأت زيلعي (والجذاء) مقطوعة رءوس ضرعها أو يابستها، ولا الجدعاء: مقطوعة الأنف، ولا المصرمة أطباؤها: وهي التي عولجت حتى انقطع لبنها، ولا التي لا ألية لها خلقة مجتبى، ولا بالخنثى لأن لحمها لا ينضج شرح وهبانية، وتمامه فيه (و) لا (الجلالة) التي تأكل العذرة ولا تأكل غيرها۔

ایضاً 

الجلالۃ المکروھۃ التی إذا قربت و جدت منھا رائحۃ فلا تؤکل ولا یشرب لبنھا و لا یحمل علیھا و تلک حالھا و یکرہ بیعھا و ھبتھا و تلک حالھا ، و ذکر البقالی أن عرقھا نجس۔ (۹/٤۹۱فتاوی شامی کتاب الاضحیہ ٩/٤٦٧ ۔۔۔ ۹/٤۹۱)


محیط برہانی میں ہے

ومن المشايخ من يذكر هذا الفصل أصلاً، ويقول: كل عيب ‌يزيل ‌المنفعة ‌على ‌الكمال، ‌أو ‌الجمال على الكمال يمنع الأضحية، وما لا يكون بهذه الصفة لا يمنع۔ (كتاب الأضحية، الفصل الخامس في بيان ما يجوز في الضحايا وما لا يجوز، وفي بيان المستحب والأفضل منها ٦/٩٣ ط دارالکتب العلمیة)


فتوی عالمگیری میں ہے

وفي اليتيمة كتبت إلى أبي الحسن علي المرغيناني، ولو كانت الشاة مقطوعة اللسان هل تجوز التضحية بها؟ فقال نعم إن كان لا يخل بالاعتلاف وإن كان يخل به لا تجوز التضحية بها كذا في التتارخانية ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ والشطور لا تجزئ وهي من الشاة ما انقطع اللبن عن إحدى ضرعيها، ومن الإبل والبقر ما انقطع اللبن من ضرعيهما؛ لأن لكل واحد منهما أربع أضرع، كذا في التتارخانية ومن المشايخ من يذكر لهذا الفصل أصلا ويقول كل عيب يزيل المنفعة على الكمال أو الجمال على الكمال يمنع الأضحية وما لا يكون بهذه الصفة لا يمنع ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  لا تجوز التضحية بالشاة الخنثى؛ لأن لحمها لا ينضج، تناثر شعر الأضحية في غير وقته يجوز إذا كان لها نقي أي مخ كذا في القنية۔ (كتاب الأضحية، الباب الخامس في بيان محل إقامة الواجب۔ ۵ /۲۹۸ ٢٩٩)


العزیز شرح الوجیز المعروف بشرح الکبیر میں ہے

وفي ‌العشواء وهي التي تبصر بالنهار دون الليل وجهان أصحهما الجواز لأنها تبصر في وقت الرعي (كتاب الضحايا الركن الأول الذبح ۱۲/٦٦ ط:دار الكتب العلمية)


واللہ أعلم بالثواب والیہ المرجع والمآب 

العارض مفتی آصف بن محمد گودھروی

جمعہ، 7 جون، 2024

قربانی کے جانوروں اور ان حصص کے متعلق تفصیلات سوال نمبر ٤٧۸

 سوال 

حضرت مفتی صاحب کونسے جانوروں کی قربانی کرنا درست ہے اور  کونسے جانوروں کی درست نہیں؟ اور ان کی عمریں کیا ہونی چاہئے؟ یعنی کس جانور کی کتنی عمر ہو تو قربانی درست ہیں؟ اور اگر عمر تو اس کی مکمل ہو لیکن دانت نہ نکلے ہو تو اس کا کیا حکم ہے؟ ایک جانور میں کتنے حصے کر سکتے ہیں؟

کتابوں میں پڑھا ہے کہ اگر کسی حصے دار نے گوشت کی نیت سے حصہ لیا تو اس کی قربانی درست نہیں ہوگی ساتھ میں دوسرے حصے داروں کی بھی قربانی درست نہیں ہے تو ہمیں معلوم کیسے ہوگا کہ سامنے والے نے کس نیت سے حصہ لیا ہے؟

سائل: محمد اظہار الحق پٹیل


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی


قربانی کے جانور

شریعت مطہرہ نے قربانی کی جانوروں کی تعیین فرمائی ہے ہر جانور قربانی میں ذبح کرنا درست نہیں ہے، شریعت مقدسہ سے صرف تین قسم کے جانوروں کی قربانی ثابت ہے۔

(۱) بکرا، بکری، مینڈھا، بھیڑ، دنبہ، دنبی

(۲)  گائے، بیل، بھینس، بھینسا

(۳) اونٹ، اونٹنی 

 ان جانوروں کے علاوہ کسی اور جانور کی قربانی درست نہیں ہے۔


قربانی کے جانوروں کی عمریں

جس طرح قربانی کے جانوروں کی شریعت نے تعیین فرمائی ہے اسی طرح شریعت نے قربانی درست ہونے کے لئے ان کے لئے ایک خاص عمر کی تعیین بھی فرمائی ہے۔

(۱) (بکرا، بکری) کی عمر ایک سال

(مینڈھا، بھیڑ، دنبہ، دنبی،) ان میں بھی ایک سال ہے لیکن اگر چھ ماہ  کے ہو اور وہ صحت اور فربہ ہونے میں سال بھر کے معلوم ہوتے ہو تو اس کی بھی قربانی  درست ہے۔

(۲) (گائے، بیل، بھینس، بھینسا) دو سال پورا ہونا ضروری ہے۔

(۳) (اونٹ، اونٹنی) پانچ سال پورا ہونا ضروری ہے۔  


قربانی کے جانور کا دارومدار عمر پر یا دانتوں پر

قربانی کے صحیح ہونے کا دارومدار جانور کی عمر کا پورا ہونا ہے، دانت نکلنا ضروری نہیں، اگر کسی جانور کی عمر پوری ہوچکی ہے اور ابھی تک دانت نہ نکلے ہوں تب بھی قربانی صحیح ہوگی، لیکن اس کا اعتبار دوہی صورتوں میں ہوگا

(۱)جانور سامنے پلا ہو اور یقین ہو کہ اس کی عمر مکمل ہوچکی ہے

(۲) بیچنے والا دیانت دار اور ایسا قابلِ اعتماد ہو جو جھوٹ نہ کہتاہو تو اس کی بات کا اعتبار کیا جاسکتاہے

البتہ آج کل چوں کہ فساد کا غلبہ ہے اس لئے صرف بیوپاروی کی بات پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا، لہٰذا احتیاطاً دانت کو عمر معلوم کرنے کے لیے علامت کے طور پر مقرر کیا گیا ہے، دانتوں کی علامت ایسی ہے کہ اس میں کم عمر کا جانور نہیں آسکتا، ہاں زیادہ عمر کا آنا ممکن ہے، یعنی تجربے سے یہ بات ثابت ہے کہ مطلوبہ عمر سے پہلے جانور کے دو دانت نہیں نکلتے، واللہ اعلم بالصواب۔


قربانی کے جانوروں میں حصوں کی تعداد 

(۱) {بکرا، بکری، مینڈھا، بھیڑ، دنبہ، دنبی} اس میں صرف ایک ہی حصہ ہوگا یعنی ایک شخص کی طرف سے ہی قربانی ہوگی کسی اور کو اس میں شامل کرنا درست نہیں ہے۔

(۲) {گائے، بیل، بھینس، بھینسا، اونٹ، اونٹنی} اس میں زیادہ سے زیادہ سات حصے ہوں گے یعنی ان میں سے کسی بھی ایک جانور میں زیادہ سے زیادہ سات آدمی شریک ہوسکتے ہیں سات سے زیادہ حصے کرنا جائز نہیں ہیں، البتہ اگر بڑے جانور میں شرکاء سات سے کم ہوں یعنی چار یا پانچ ہوں تو کوئی حرج نہیں۔


اجتمائی قربانی میں نیيتوں كا علم كیسے ہو

قربانی ایک عبادت ہے، اور عبادت میں نیت کا خالص ہونا ضروری ہے، اللہ رب العزت کی بارگاہ میں قربانی وہی مقبول ہوتی ہے، جس کا مقصد خالص اللہ تعالی کی رضا و خوشنودی اور اس کا قرب حاصل کرنا ہو، جب قربانی ایک قربت ہے اور ایک ہی قربت دو حصوں میں نہیں بٹ سکتی، اس لیے قربانی کے جانور میں جتنے شرکاء ہیں سب کی نیت قربت ہی کی ہونی چاہیے تاکہ تقسیم لازم نہ آئے۔

البتہ کس کی کیا نیت ہے اس کا علم تو خالص اللہ ہی کو ہے اس لئے کسی کے متعلق بلاوجہ بدگمان ہونے کی اجازت نہیں، ہم تو ظاہر کے مکلف ہیں، جب سارے شرکاء مسلمان ہی ہیں اور کسی کی طرف سے ایسی کوئی صراحت بھی نہیں کہ وہ صرف گوشت کے لیے حصہ لے رہا ہے تو مسلمانوں کے معاملہ کو صحیح نیت پر ہی محمول کیا جائے گا اور حسن ظن یہی رکھا جائے گا کہ قربانی کے دنوں میں مسلمان قربانی ہی کی نیت سے جانور ذبح کرتا ہے یا شرکت کرتا ہے۔


فتاوی عالمگیری میں ہے

واما جنسہ فہو أن یکون من الأجناس الثلاثۃ الغنم أو الابل أو البقر ۔ ویدخل في کل جنس نوعہ والذکر والأنثی منہ والخصي والفحل لانطلاق إسم الجنس علی ذلک ، والمعز نوع من الغنم ، والجاموس نوع من البقر (وأما سنه) فلايجوز شيء مما ذكرنا من الإبل والبقر والغنم عن الأضحية إلا الثني من كل جنس وإلا الجذع من الضأن خاصةً إذا كان عظيماً، وأما معاني هذه الأسماء فقد ذكر القدوري: أن الفقهاء قالوا: الجذع من الغنم ابن ستة أشهر، والثني ابن سنة۔ والجذع من البقر ابن سنة، والثني منه ابن سنتين. والجذع من الإبل ابن أربع سنين، والثني ابن خمس. وتقدير هذه الأسنان بما قلنا يمنع النقصان، ولايمنع الزيادة، حتى لو ضحى بأقل من ذلك شيئاً لايجوز، ولو ضحى بأكثر من ذلك شيئاً يجوز ويكون أفضل۔ (فتاوی عالمگیری کتاب الاضحیۃ، الباب الخامس فی بیان محل اقامۃ الواجب،۵/۲۹۷)


بدائع الصنائع میں ہے

فلا يجوز الشاة والمعز إلا عن واحد وإن كانت عظيمة سمينة تساوي شاتين مما يجوز أن يضحى بهما؛ لأن القياس في الإبل والبقر أن لا يجوز فيهما الاشتراك؛ لأن القربة في هذا الباب إراقة الدم وأنها لا تحتمل التجزئة؛ لأنها ذبح واحد وإنما عرفنا جواز ذلك بالخبر فبقي الأمر في الغنم على أصل القياس ۔۔۔۔۔۔۔ ولا يجوز بعير واحد ولا بقرة واحدة عن أكثر من سبعة، ويجوز ذلك عن سبعة أو أقل من ذلك، وهذا قول عامة العلماء ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ والصحيح قول العامة؛ لما روي عن رسول الله صلى الله عليه وسلم البدنة تجزي عن سبعة والبقرة تجزي عن سبعة وعن جابر رضي الله عنه قال نحرنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم البدنة عن سبعة والبقرة عن سبعة۔ لأن البقرة بمنزلة سبع شياه، ثم جازت التضحية بسبع شياه عن سبعة سواء كانوا من أهل بيت أو بيتين فكذا البقرة ۔۔۔۔۔۔ ولا شك في جواز بدنة أو بقرة عن أقل من سبعة بأن اشترك اثنان أو ثلاثة أو أربعة أو خمسة أو ستة في بدنة أو بقرة۔ (بدائع الصنائع میں ہے في ترتيب الشرائع ۵/۷۰)


واللہ أعلم بالثواب والیہ المرجع والمآب 

العارض مفتی آصف بن محمد گودھروی

منگل، 4 جون، 2024

جس پر قربانی واجب ہے ان کے لئے قربانی ہونے تک بال ناخن کاٹنا کیسا ہے؟ سوال نمبر ٤٧٨

 سوال 

حضرت مفتی صاحب جس شخص پر قربانی واجب ہے اس کے لئے عشرۂ ذی الحجہ کا چاند نظر آنے کے بعد بال اور ناخن کاٹنے کا کیا حکم ہے؟ کیا ان کے لئے بال اور ناخن کاٹنا جائز ہے؟ سناہے حدیث میں منع کا گیا ہے، اور اس سے قربانی میں کوئی فرق آئے گا مفصل جواب مرحمت فرمائیں اللہ پاک آپ کو دارین میں بہترین بدلہ عطا فرمائے۔

سائلہ: اللہ کی بندی گودھرا 


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی


جس شخص کا قربانی کرنے کا ارادہ ہو اُس کے لئے ماہ ذی الحجہ کا چاند نظر آنے کے بعد سے قربانی کرنے تک اپنے بال اور ناخن نہ کاٹنا مستحب ہے جہاں تک حدیث میں ممانعت کی بات ہے تو احناف کے نزدیک یہ ممانعت مکروہ تنزیہی پر محمول ہے، یعنی کاٹنا خلاف اولی ہے البتہ اس کا قربانی سے کوئی تعلق نہیں ہے بال کٹوائے یا نہ کٹوائے قربانی درست ہوجائے گی۔

اور جو شخص غریب و فقیر ہے اور قربانی کا ارادہ نہیں رکھتا ہے تو اس کے لئے تو یہ مستحب بھی نہیں اس کے لئے بال وغیرہ کٹوانا درست ہے۔


اعلاء السنن میں ہے

عن سلمة رضي اللّٰہ عنہا أن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: اذا دخلت العشر، وأراد أحدکم أن یضحي، فلا یمس من شعرہ و بشرہ شیئاً۔۔۔ قال العثماني التھانوي: نہی النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم من أراد التضحیة عن قلم الأظفار وقص الشعر في العشر الأول، والنہي محمول عندنا علی خلاف الأولی لما روي عن عائشة رضي اللّٰہ عنہا أن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم کان یبعث بہدیة، ولا یحرم علیہ شیء أحلہ اللّٰہ لہ حتی ینحر ہدیہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (إعلاء السنن، باب ما يندب للمضحي في عشر ذي الحجة دار الكتب العلمية بيروت ۲۹۱/۱۷ )


فتاوی شامی میں ہے

خاتمة: قال في شرح المنية وفي المضمرات عن ابن المبارك في تقليم الأظفار وحلق الرأس في العشر أي عشر ذي الحجة قال لا تؤخر السنة وقد ورد ذلك ولا يجب التأخير اهـ. ومما ورد في صحيح مسلم قال رسول الله إِذَا دَخَلَ العَشْرُ وَأَرَادَ بَعْضُكُمْ أَنْ يُضَحَى فَلَا يَأْخُذَنَّ شَعْراً وَلَا يُقَلِّمَنَّ ظُفْراً فهذا محمول على الندب دون الوجوب بالإجماع،  (شامی، باب العيدين، مطلب في إزالة الشعر والظفر في ذي ط: دار عالم الکتب ٦٦/٣)

واللہ أعلم بالثواب والیہ المرجع والمآب 

العارض مفتی آصف بن محمد گودھروی

پیر، 3 جون، 2024

قربانی کے شرائط ونصاب قربانی سوال نمبر ٤۷۷

 سوال 

قربانی کس پر واجب ہے؟ کیا بالغ نابالغ سب پر واجب ہے؟ اور مرد و عورت دونوں پر واجب ہے؟ یا صرف مرد پر واجب ہے؟ نابالغ نصاب کا مالک ہو تو اس کا کیا حکم ہے؟ اور اس کے نصاب کی مقدار کیا ہے؟ زکوۃ اور قربانی کے نصاب میں کیا فرق ہے؟

سائل محمد زاہد ایم پی


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی


قربانی کے شرائط 

قربانی ایک عبادت ہے، جو ہر مسلمان، عاقل، بالغ، مقیم اور صاحبِ نصاب پر واجب ہے، چاہے مرد ہو یا عورت، نابالغ پر قربانی واجب نہیں ہے، نابالغ مال دار اور صاحب نصاب ہو تب بھی اس پر قربانی واجب نہیں ہوگی اور نہ ہی اس کے والد پر اپنے نابالغ بچہ کی طرف سے قربانی کرنا لازم ہوگا۔


نصاب قربانی 

قربانی کا نصاب یہ ہے کہ جس کی ملکیت میں حاجت اصلیہ سے زائد اور ذمہ پر جو قرض ہے اس کو کم کرنے کے بعد نیچے دئے گئے مال میں سے کسی ایک کا مالک ہو،

(ا) سونا جبکہ ساڑھے سات تولہ(۸۷/٤٨ 87.48 گرام) یا اس سے زیادہ ہو۔

(۲) چاندی جبکہ ساڑھے باون تولہ ہو(٦١٢/٣٦ 612.36 گرام) یا اس سے زیادہ ہو۔

(۳) روپیہ، پیسہ، جبکہ وہ ساڑھے سات تولہ سونا (۸۷/٤٨ 87.48 گرام) یا ساڑھے باون تولہ چاندی (٦١٢/٣٦ 612.36 گرام) کی بقدر ہو.

(٤) مالِ تجارت جبکہ اس کی مالیت ساڑھےسات تولہ سونا (۸۷/٤٨ 87.48 گرام) یا ساڑھے باون تولہ چاندی(٦١٢/٣٦ 612.36 گرام) کی مالیت کے برابر ہو۔

(۵) ضرورت سے زائد سامان جیسے کہ رہائش کے مکان سے زائد مکان یا جائیداد وغیرہ ہو، یا استعمال سے زائد گھریلو سامان ہو جب کہ اس کی قیمت اوپر کے دئے گئے نصابوں میں سے کسی ایک کے برابر ہوجائے۔


زکوۃ اور قربانی کے نصاب میں یہ فرق ہے۔

(۱) قربانی اور زکوۃ کے واجب ہونے کے نصاب میں فرق یہ ہے  کہ زکوۃ صرف اس مال پر فرض ہوتی ہے جو عادۃً بڑھتا ہے، جیسے مالِ تجارت، یا مویشی، یا سونا چاندی اور نقدی اس کے علاوہ ذاتی مکان، دکان، برتن، فرنیچر، اور دوسرے گھریلو سامان، ملوں، کارخانوں کی مشینری ، جواہرات خواہ کتنے ہی قیمتی ہوں اگر تجارت کے لیے نہ ہوں تو ان پر زکوۃ فرض نہیں ہے۔

جب کہ قربانی کے  نصاب میں ان چیزوں کے ساتھ ضرورت سے زائد سامان کو بھی ملایا جاتا ہے، جیسے مکان، دکان، برتن، فرنیچر، اور دوسرے گھریلو سامان، ملوں، کارخانوں کی مشینری ، جواہرات اگر استعمال میں نہ ہو تو قربانی کے نصاب میں شامل کیا جائے گا، چاہے وہ تجارت کے لئے ہویا نہ ہو اسی طرح اس کے علاوہ ضرورت سے زائد جو بھی سامان ہوگا اس کو بھی قربانی کے نصاب میں ملایا جائے گا۔

(۲) زکوۃ میں نصاب پر سال کا گذرنا ضروری ہے جب کہ قربانی میں سال کا گذرنا ضروری نہیں ہے اگر کوئی آدمی قربانی کے تین دنوں میں سے یعنی دس ذی الحجہ کی صبح صادق سے لیکر بارہ ذی الحجہ کی غروب سے پہلے پہلے صاحبِ  نصاب ہوگیا تو اس پر قربانی واجب ہوجائے گی۔


فتاوی شامی میں ہے

و شرائطها الإسلام والإقامة و الیسار الذي یتعلق به وجوب ( صدقة الفطر ) ... (لا الذکورۃ فتجب علی الأنثى) …… (قوله: و شرائطها) أي شرائط وجوبھا، ولم یذکر الحریة ... و لا العقل والبلوغ لما فیھما من الخلاف ... (قوله: والیسار) بأن ملك مائتي درهم أو عرضًا یساویها غیر مسکنه و ثیاب اللبس أو متاع یحتاجه إلى أن یذبح الأضحیة و لو له عقار یستغله فقیل: تلزم لو قیمته نصابًا ... فمتى فضل نصاب تلزمه و لو العقار وقفًا، فإن واجب له فی أیامھا نصاب تلزم و صاحب الثیاب الأربعة لو ساوی الرابع نصابًا غنی و ثلاثة فلا، والمرأۃ موسرۃ بالمعجل لو الزوج ملیًّا وبالمؤجل لا (فتاوی شامی ۹/٤۵۲ ط: دار عالم الکتب)


محیط برھانی میں ہے 

وشرط وجوبها اليسار عند أصحابنا رحمهم الله والموسر في ظاهر الرواية من له مائتا درهم أو عشرون ديناراً أو شيء يبلغ ذلك سوى مسكنه ومتاع مسكنه ومتاعه ومركوبه وخادمه في حاجته التي لا يستغني عنها فأما ما عدا ذلك من متاعه أو رقيقه أو ... أو متاع.... أو لغيرها فإنها.... في داره. وفي الأجناس إن جاء يوم الأضحى وله مائتا درهم أو أكثر ولا مال غيره فهلك ذلك لم تجب عليه الأضحية وكذلك لو نقص عن المائتين ولو جاء يوم الأضحى ولا مال له ثم استفاد مائتي درهم فعليه الأضحية (المحیط البرھانی ٦/٨٦ ط دار الکتب العلمیة)


واللہ أعلم بالثواب والیہ المرجع والمآب 

العارض مفتی آصف بن محمد گودھروی