سوال
حضرت مفتی صاحب جس شخص پر قربانی واجب ہے اس کے لئے عشرۂ ذی الحجہ کا چاند نظر آنے کے بعد بال اور ناخن کاٹنے کا کیا حکم ہے؟ کیا ان کے لئے بال اور ناخن کاٹنا جائز ہے؟ سناہے حدیث میں منع کا گیا ہے، اور اس سے قربانی میں کوئی فرق آئے گا مفصل جواب مرحمت فرمائیں اللہ پاک آپ کو دارین میں بہترین بدلہ عطا فرمائے۔
سائلہ: اللہ کی بندی گودھرا
الجواب وباللہ التوفیق
باسمہ سبحانہ وتعالی
جس شخص کا قربانی کرنے کا ارادہ ہو اُس کے لئے ماہ ذی الحجہ کا چاند نظر آنے کے بعد سے قربانی کرنے تک اپنے بال اور ناخن نہ کاٹنا مستحب ہے جہاں تک حدیث میں ممانعت کی بات ہے تو احناف کے نزدیک یہ ممانعت مکروہ تنزیہی پر محمول ہے، یعنی کاٹنا خلاف اولی ہے البتہ اس کا قربانی سے کوئی تعلق نہیں ہے بال کٹوائے یا نہ کٹوائے قربانی درست ہوجائے گی۔
اور جو شخص غریب و فقیر ہے اور قربانی کا ارادہ نہیں رکھتا ہے تو اس کے لئے تو یہ مستحب بھی نہیں اس کے لئے بال وغیرہ کٹوانا درست ہے۔
اعلاء السنن میں ہے
عن سلمة رضي اللّٰہ عنہا أن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: اذا دخلت العشر، وأراد أحدکم أن یضحي، فلا یمس من شعرہ و بشرہ شیئاً۔۔۔ قال العثماني التھانوي: نہی النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم من أراد التضحیة عن قلم الأظفار وقص الشعر في العشر الأول، والنہي محمول عندنا علی خلاف الأولی لما روي عن عائشة رضي اللّٰہ عنہا أن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم کان یبعث بہدیة، ولا یحرم علیہ شیء أحلہ اللّٰہ لہ حتی ینحر ہدیہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (إعلاء السنن، باب ما يندب للمضحي في عشر ذي الحجة دار الكتب العلمية بيروت ۲۹۱/۱۷ )
فتاوی شامی میں ہے
خاتمة: قال في شرح المنية وفي المضمرات عن ابن المبارك في تقليم الأظفار وحلق الرأس في العشر أي عشر ذي الحجة قال لا تؤخر السنة وقد ورد ذلك ولا يجب التأخير اهـ. ومما ورد في صحيح مسلم قال رسول الله إِذَا دَخَلَ العَشْرُ وَأَرَادَ بَعْضُكُمْ أَنْ يُضَحَى فَلَا يَأْخُذَنَّ شَعْراً وَلَا يُقَلِّمَنَّ ظُفْراً فهذا محمول على الندب دون الوجوب بالإجماع، (شامی، باب العيدين، مطلب في إزالة الشعر والظفر في ذي ط: دار عالم الکتب ٦٦/٣)
واللہ أعلم بالثواب والیہ المرجع والمآب
العارض مفتی آصف بن محمد گودھروی
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں