سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ کے بارے میں کہ شبکور (یعنی جس کو دن میں نظر آئے اور رات میں نظر نہ آئے) جانور کی قربانی جائز ہے یا نہیں؟ اسی طرح اور کونسے عیوب ہے جس کی وجہ سے قربانی درست نہیں ہے؟
سائل: حافظ عبدالمتین ایم پی
الجواب وباللہ التوفیق
باسمہ سبحانہ وتعالی
قربانی کے جانور کا بے عيب ہونا شرعا ضروری ہے لہذا قربانی کے جانور میں اصولی بات یہ ہے کہ ہر وہ عیب جو غیر معمولی ہو اورجانور کی منفعت کو ختم کردے پیدائشی ہو یا قربانی سے پہلے پیدا ہوا ہو قربانی درست ہونے میں مانع ہے، لہذا قربانی کے جانوروں کے وہ عیوب جس کی وجہ سے قربانی درست نہیں ہے وہ ملاحظہ فرمائیں۔
جن جانوروں کے سینگ ٹوٹ جائے
وہ جانور جن کے سینگ ٹوٹ جائے لیکن پورے نہ ٹوٹے اور ٹوٹنے کا اثر دماغ تک نہ پہنچے اور وہ جانور جن کے سینگ قدرتی طور پر نہ نکلے ہوں یا کسی کیمیکل کے ذریعے سینگ نکلنے کے عمل کو روک دیا گیا ہو، یا وہ جانور جن کے سینگ تراشے گئے ہوں جڑ سے نکالے نہ گئے ہوں ان سب کی قربانی شرعاً جائز ہے۔
اور جن جانوروں کے سینگ جڑ سے نکل جائے اور اس کا اثر ان کے دماغ تک پہنچ جائے تو اس حالت میں ان کی قربانی شرعاً جائز نہیں ہوگی، اور اگر جڑ سے ٹوٹے سینگ والے جانور کے زخم کا اثر دماغ تک نہ پہنچا ہو اور زخم درست ہوکر جانور صحت مند ہوجائے تو اس جانور کی قربانی درست ہوجائےگی۔
مجنون جانور
ایسا مجنون جانور جو جنون کی وجہ سے چارہ نہ کھا سکتاہو تو قربانی جائز نہیں ہے اور اگر چارہ اچھی طرح کھالے تو پھر ایسے مجنون جانور کی قربانی درست ہوجائے گی
شب کور جانور
شب کور جانور (یعنی ایسا جانور جس کو دن میں نظر آئے اور رات میں نظر نہ آئے) اگر دن میں مکمل طور پر صحیح دیکھتا ہے، اور گھاس وغیرہ چرسکتاہے تو اس کی قربانی جائز ہے صرف رات میں نظر نہ آنا ایسا واضح و فاحش عیب نہیں جس کی وجہ سے قربانی ناجائز ہو۔
آنکھ کی بنائی کم یا ختم ہوجائے
قربانی کے جانور کے آنکھ کی روشنی ختم ہوجائے تو اندازہ سے اندازہ سے آنکھ کی روشنی کے تین حصے کریں جدید ڈاکٹری آلات سے یہ ممکن ہے اب اگر بنائی تیسرے حصے سے کم ختم ہوئی ہو تو اس کی قربانی جائز ہے اگر تیسرے حصے کی مقدار یا اس سے زیادہ ختم ہوئی ہو تو قربانی درست نہیں۔ لہذا جو جانور اندھا یا کانا ہو یاایک آنکھ کی تہائی روشنی یا اس سے زیادہ جاتی رہی ہو تو اس کی قربانی جائز نہیں اور کم بینائی ختم ہوئی ہے تو اس کی قربانی جائز ہے
کان کٹا جانور
قربانی کے جانور کے کان کٹ جائے تو اندازہ سے کان کے تین حصے کریں اگر کٹاہوا حصہ تیسرے حصے سے کم کٹاہوا ہو تو اس کی قربانی جائز ہے اگر تیسرے حصے کی مقدار یا اس سے زیادہ کٹاہوا ہو یا ایسا جانور جس کے پیدائشی کان ہی نہ ہوں تو ایسے جانور کی قربانی درست نہیں۔
ناک کٹا جانور
جس جانور کی نکیل کھنیچنے سے رسی نتھنوں کو چیر کر باہر نکل آۓ تو دیکھا جائے گا کہ اس جانور کے نتھنے پھٹنے کی وجہ سے اس کا جمال مکمل ختم ہو گیا ہے تو اس صورت میں اس کی قربانی جائز نہ ہوگی اور اگر اس جانور کا جمال مکمل ختم نہیں ہواہے تو قربانی جائز ہوگی۔
کٹی ہوئی زبان والا جانور
جس جانور کی زبان کٹی ہوئی ہو یا چیری ہوئی ہو جس کی وجہ سے وہ چارہ گھاس وغیرہ نہ کھاسکے تو اس جانور کی قربانی درست نہیں اور اگر گھاس وغیرہ کھا سکتا ہے تو جائز ہے۔
وہ جانور جس کے دانت ٹوٹ جائے
کسی جانور کے اکثر دانت ٹوٹ چکے ہوں یا اکثر دانت ابھی تک آئے ہی نہ ہوں جس کی وجہ سے وہ چارہ نہ کھاسکے تو ایسے جانور کی قربانی درست نہیں ہوگی اور اگر اتنے دانت موجود ہو کہ وہ چارہ اچھی طرح کھالے تو قربانی جائز ہے۔
کٹی ہوئی دم والا جانور
جس جانور کی دم کا تہائی حصہ یا تہائی سے زیادہ حصہ کٹ گیا ہو، یا ایسا جانور جس کے پیدائشی دم نہ ہوں اس کی قربانی جائز نہیں ہے۔ اسی طرح جس جانور کی پیدائش سے ہی دم نہیں اس کی قربانی بھی جائز نہیں ہے۔
خارش زدہ جانور
خارش والا جانور جب موٹا تازہ ہو اور اس کا اثر کھال تک ہی رہے تو اس کی قربانی درست ہے، لیکن اگر خارش کی وجہ سے جانور بالکل کمزور ہوگیاہو یاخارش کھال سے گذر کر گوشت تک پہنچ گئی ہو تواس کی قربانی درست نہیں ہے۔
انتہائی دبلا پتلا اور کمزور جانور
دبلے پتلے اور کمزور جانور کی قربانی درست ہے، البتہ ایسا دُبلا اور لاغر جانور جس کی ہڈیوں میں گودا نہ ہو یا وہ خود چل کر ذبح کی جگہ تک نہ جاسکتا ہو تو ایسے کمزور اور لاغر جانور کی قربانی جائز نہیں ہے۔
لنگڑا جانور
لنگڑا جانور اگر چلتے وقت ٹوٹی ہوئی ٹانگ زمین پر بالکل نہ رکھے اٹھا کر چلے اور چلنے میں صرف تین ٹانگوں کا سہارا لے تو یہ قربانی میں عیب ہے، اس کی موجودگی میں قربانی درست نہیں ہوگی اور اگر جانور چلنے میں اس ٹوٹی ہوئی ٹانگ کا بھی سہارا لے اور زمیں پر رکھ کر چلے تو اس جانور کی قربانی درست ہوگی۔
ایسا جانور جس کے تھنوں کا سرا کٹا ہوا ہو
چھوٹے جانور میں اگر ایک تھن کٹ جائے یا خشک ہوجائے تو قربانی درست نہیں ہوگی جیسے بکری وغیرہ اور بڑے جانور کے چار تھنوں میں سے دو تھن کٹ جائے یا خشک ہوجائے تو قربانی درست نہیں ہوگی جیسے گائے، بھینس وغیرہ اور اگر چار میں سے صرف ایک تھن نہ ہوں یا خشک ہوگیا ہو تو اس جانور کی قربانی جائز ہوجائےگی۔
خنثی جانور
جو جانور پیدائشی طور پر خنثی ہو اس کی قربانی جائز نہیں ہے اور خنثی جانور میں نر اور مادہ دونوں کے جنسی اعضاء پائے جاتے ہے یا دونوں ہی اعضاء نہیں ہوتے، پیشاب کے لئے فقط ایک سوراخ ہوتا ہے اس جانور کی قربانی جائز نہیں ہے ۔
جلالہ یعنی صرف گندگی کھانے والے جانور
وہ جانور جو نجاست کھاتے ہوں اور نجاست کا اثر ان کے جسم و گوشت میں سرایت کرگیا ہو انہیں شریعت کی اصطلاح میں جلالہ کہاجاتا ہے، ایسے جانور کی قربانی درست نہیں ہے۔
ایسے جانور کا حکم یہ ہے کہ قربانی سے چند دن پہلے باندھ دیا جائے اور اسے پاک خوراک دی جائے، یہاں تک کہ اس کے جسم سے بدبو ختم ہوجائے،اس طرح کرنے سے اس جانور کےگوشت میں کراہت ختم ہوجاتی ہے اس کے بعد اس کی قربانی درست ہے۔
فتاوی شامی میں ہے
ويضحي بالجماء والخصي والثولاء) أي المجنونة (إذا لم يمنعها من السوم والرعي) (، وإن منعها لا) تجوز التضحية بها (والجرباء السمينة) فلو مهزولة لم يجز، لأن الجرب في اللحم نقص (لا) (بالعمياء والعوراء والعجفاء) المهزولة التي لا مخ في عظامها (والعرجاء التي لا تمشي إلى المنسك) أي المذبح، والمريضة البين مرضها (ومقطوع أكثر الأذن أو الذنب أو العين) أي التي ذهب أكثر نور عينها فأطلق القطع على الذهاب مجازا، وإنما يعرف بتقريب العلف (أو) أكثر (الألية) لأن للأكثر حكم الكل بقاء وذهابا فيكفي بقاء الأكثر، وعليه الفتوى مجتبى (ولا) (بالهتماء) التي لا أسنان لها، ويكفي بقاء الأكثر، وقيل ما تعتلف به (والسكاء) التي لا أذن لها خلقة فلو لها أذن صغيرة خلقة أجزأت زيلعي (والجذاء) مقطوعة رءوس ضرعها أو يابستها، ولا الجدعاء: مقطوعة الأنف، ولا المصرمة أطباؤها: وهي التي عولجت حتى انقطع لبنها، ولا التي لا ألية لها خلقة مجتبى، ولا بالخنثى لأن لحمها لا ينضج شرح وهبانية، وتمامه فيه (و) لا (الجلالة) التي تأكل العذرة ولا تأكل غيرها۔
ایضاً
الجلالۃ المکروھۃ التی إذا قربت و جدت منھا رائحۃ فلا تؤکل ولا یشرب لبنھا و لا یحمل علیھا و تلک حالھا و یکرہ بیعھا و ھبتھا و تلک حالھا ، و ذکر البقالی أن عرقھا نجس۔ (۹/٤۹۱فتاوی شامی کتاب الاضحیہ ٩/٤٦٧ ۔۔۔ ۹/٤۹۱)
محیط برہانی میں ہے
ومن المشايخ من يذكر هذا الفصل أصلاً، ويقول: كل عيب يزيل المنفعة على الكمال، أو الجمال على الكمال يمنع الأضحية، وما لا يكون بهذه الصفة لا يمنع۔ (كتاب الأضحية، الفصل الخامس في بيان ما يجوز في الضحايا وما لا يجوز، وفي بيان المستحب والأفضل منها ٦/٩٣ ط دارالکتب العلمیة)
فتوی عالمگیری میں ہے
وفي اليتيمة كتبت إلى أبي الحسن علي المرغيناني، ولو كانت الشاة مقطوعة اللسان هل تجوز التضحية بها؟ فقال نعم إن كان لا يخل بالاعتلاف وإن كان يخل به لا تجوز التضحية بها كذا في التتارخانية ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ والشطور لا تجزئ وهي من الشاة ما انقطع اللبن عن إحدى ضرعيها، ومن الإبل والبقر ما انقطع اللبن من ضرعيهما؛ لأن لكل واحد منهما أربع أضرع، كذا في التتارخانية ومن المشايخ من يذكر لهذا الفصل أصلا ويقول كل عيب يزيل المنفعة على الكمال أو الجمال على الكمال يمنع الأضحية وما لا يكون بهذه الصفة لا يمنع ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لا تجوز التضحية بالشاة الخنثى؛ لأن لحمها لا ينضج، تناثر شعر الأضحية في غير وقته يجوز إذا كان لها نقي أي مخ كذا في القنية۔ (كتاب الأضحية، الباب الخامس في بيان محل إقامة الواجب۔ ۵ /۲۹۸ ٢٩٩)
العزیز شرح الوجیز المعروف بشرح الکبیر میں ہے
وفي العشواء وهي التي تبصر بالنهار دون الليل وجهان أصحهما الجواز لأنها تبصر في وقت الرعي (كتاب الضحايا الركن الأول الذبح ۱۲/٦٦ ط:دار الكتب العلمية)
واللہ أعلم بالثواب والیہ المرجع والمآب
العارض مفتی آصف بن محمد گودھروی
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں