سوال
حضرت مفتی صاحب کونسے جانوروں کی قربانی کرنا درست ہے اور کونسے جانوروں کی درست نہیں؟ اور ان کی عمریں کیا ہونی چاہئے؟ یعنی کس جانور کی کتنی عمر ہو تو قربانی درست ہیں؟ اور اگر عمر تو اس کی مکمل ہو لیکن دانت نہ نکلے ہو تو اس کا کیا حکم ہے؟ ایک جانور میں کتنے حصے کر سکتے ہیں؟
کتابوں میں پڑھا ہے کہ اگر کسی حصے دار نے گوشت کی نیت سے حصہ لیا تو اس کی قربانی درست نہیں ہوگی ساتھ میں دوسرے حصے داروں کی بھی قربانی درست نہیں ہے تو ہمیں معلوم کیسے ہوگا کہ سامنے والے نے کس نیت سے حصہ لیا ہے؟
سائل: محمد اظہار الحق پٹیل
الجواب وباللہ التوفیق
باسمہ سبحانہ وتعالی
قربانی کے جانور
شریعت مطہرہ نے قربانی کی جانوروں کی تعیین فرمائی ہے ہر جانور قربانی میں ذبح کرنا درست نہیں ہے، شریعت مقدسہ سے صرف تین قسم کے جانوروں کی قربانی ثابت ہے۔
(۱) بکرا، بکری، مینڈھا، بھیڑ، دنبہ، دنبی
(۲) گائے، بیل، بھینس، بھینسا
(۳) اونٹ، اونٹنی
ان جانوروں کے علاوہ کسی اور جانور کی قربانی درست نہیں ہے۔
قربانی کے جانوروں کی عمریں
جس طرح قربانی کے جانوروں کی شریعت نے تعیین فرمائی ہے اسی طرح شریعت نے قربانی درست ہونے کے لئے ان کے لئے ایک خاص عمر کی تعیین بھی فرمائی ہے۔
(۱) (بکرا، بکری) کی عمر ایک سال
(مینڈھا، بھیڑ، دنبہ، دنبی،) ان میں بھی ایک سال ہے لیکن اگر چھ ماہ کے ہو اور وہ صحت اور فربہ ہونے میں سال بھر کے معلوم ہوتے ہو تو اس کی بھی قربانی درست ہے۔
(۲) (گائے، بیل، بھینس، بھینسا) دو سال پورا ہونا ضروری ہے۔
(۳) (اونٹ، اونٹنی) پانچ سال پورا ہونا ضروری ہے۔
قربانی کے جانور کا دارومدار عمر پر یا دانتوں پر
قربانی کے صحیح ہونے کا دارومدار جانور کی عمر کا پورا ہونا ہے، دانت نکلنا ضروری نہیں، اگر کسی جانور کی عمر پوری ہوچکی ہے اور ابھی تک دانت نہ نکلے ہوں تب بھی قربانی صحیح ہوگی، لیکن اس کا اعتبار دوہی صورتوں میں ہوگا
(۱)جانور سامنے پلا ہو اور یقین ہو کہ اس کی عمر مکمل ہوچکی ہے
(۲) بیچنے والا دیانت دار اور ایسا قابلِ اعتماد ہو جو جھوٹ نہ کہتاہو تو اس کی بات کا اعتبار کیا جاسکتاہے
البتہ آج کل چوں کہ فساد کا غلبہ ہے اس لئے صرف بیوپاروی کی بات پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا، لہٰذا احتیاطاً دانت کو عمر معلوم کرنے کے لیے علامت کے طور پر مقرر کیا گیا ہے، دانتوں کی علامت ایسی ہے کہ اس میں کم عمر کا جانور نہیں آسکتا، ہاں زیادہ عمر کا آنا ممکن ہے، یعنی تجربے سے یہ بات ثابت ہے کہ مطلوبہ عمر سے پہلے جانور کے دو دانت نہیں نکلتے، واللہ اعلم بالصواب۔
قربانی کے جانوروں میں حصوں کی تعداد
(۱) {بکرا، بکری، مینڈھا، بھیڑ، دنبہ، دنبی} اس میں صرف ایک ہی حصہ ہوگا یعنی ایک شخص کی طرف سے ہی قربانی ہوگی کسی اور کو اس میں شامل کرنا درست نہیں ہے۔
(۲) {گائے، بیل، بھینس، بھینسا، اونٹ، اونٹنی} اس میں زیادہ سے زیادہ سات حصے ہوں گے یعنی ان میں سے کسی بھی ایک جانور میں زیادہ سے زیادہ سات آدمی شریک ہوسکتے ہیں سات سے زیادہ حصے کرنا جائز نہیں ہیں، البتہ اگر بڑے جانور میں شرکاء سات سے کم ہوں یعنی چار یا پانچ ہوں تو کوئی حرج نہیں۔
اجتمائی قربانی میں نیيتوں كا علم كیسے ہو
قربانی ایک عبادت ہے، اور عبادت میں نیت کا خالص ہونا ضروری ہے، اللہ رب العزت کی بارگاہ میں قربانی وہی مقبول ہوتی ہے، جس کا مقصد خالص اللہ تعالی کی رضا و خوشنودی اور اس کا قرب حاصل کرنا ہو، جب قربانی ایک قربت ہے اور ایک ہی قربت دو حصوں میں نہیں بٹ سکتی، اس لیے قربانی کے جانور میں جتنے شرکاء ہیں سب کی نیت قربت ہی کی ہونی چاہیے تاکہ تقسیم لازم نہ آئے۔
البتہ کس کی کیا نیت ہے اس کا علم تو خالص اللہ ہی کو ہے اس لئے کسی کے متعلق بلاوجہ بدگمان ہونے کی اجازت نہیں، ہم تو ظاہر کے مکلف ہیں، جب سارے شرکاء مسلمان ہی ہیں اور کسی کی طرف سے ایسی کوئی صراحت بھی نہیں کہ وہ صرف گوشت کے لیے حصہ لے رہا ہے تو مسلمانوں کے معاملہ کو صحیح نیت پر ہی محمول کیا جائے گا اور حسن ظن یہی رکھا جائے گا کہ قربانی کے دنوں میں مسلمان قربانی ہی کی نیت سے جانور ذبح کرتا ہے یا شرکت کرتا ہے۔
فتاوی عالمگیری میں ہے
واما جنسہ فہو أن یکون من الأجناس الثلاثۃ الغنم أو الابل أو البقر ۔ ویدخل في کل جنس نوعہ والذکر والأنثی منہ والخصي والفحل لانطلاق إسم الجنس علی ذلک ، والمعز نوع من الغنم ، والجاموس نوع من البقر (وأما سنه) فلايجوز شيء مما ذكرنا من الإبل والبقر والغنم عن الأضحية إلا الثني من كل جنس وإلا الجذع من الضأن خاصةً إذا كان عظيماً، وأما معاني هذه الأسماء فقد ذكر القدوري: أن الفقهاء قالوا: الجذع من الغنم ابن ستة أشهر، والثني ابن سنة۔ والجذع من البقر ابن سنة، والثني منه ابن سنتين. والجذع من الإبل ابن أربع سنين، والثني ابن خمس. وتقدير هذه الأسنان بما قلنا يمنع النقصان، ولايمنع الزيادة، حتى لو ضحى بأقل من ذلك شيئاً لايجوز، ولو ضحى بأكثر من ذلك شيئاً يجوز ويكون أفضل۔ (فتاوی عالمگیری کتاب الاضحیۃ، الباب الخامس فی بیان محل اقامۃ الواجب،۵/۲۹۷)
بدائع الصنائع میں ہے
فلا يجوز الشاة والمعز إلا عن واحد وإن كانت عظيمة سمينة تساوي شاتين مما يجوز أن يضحى بهما؛ لأن القياس في الإبل والبقر أن لا يجوز فيهما الاشتراك؛ لأن القربة في هذا الباب إراقة الدم وأنها لا تحتمل التجزئة؛ لأنها ذبح واحد وإنما عرفنا جواز ذلك بالخبر فبقي الأمر في الغنم على أصل القياس ۔۔۔۔۔۔۔ ولا يجوز بعير واحد ولا بقرة واحدة عن أكثر من سبعة، ويجوز ذلك عن سبعة أو أقل من ذلك، وهذا قول عامة العلماء ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ والصحيح قول العامة؛ لما روي عن رسول الله صلى الله عليه وسلم البدنة تجزي عن سبعة والبقرة تجزي عن سبعة وعن جابر رضي الله عنه قال نحرنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم البدنة عن سبعة والبقرة عن سبعة۔ لأن البقرة بمنزلة سبع شياه، ثم جازت التضحية بسبع شياه عن سبعة سواء كانوا من أهل بيت أو بيتين فكذا البقرة ۔۔۔۔۔۔ ولا شك في جواز بدنة أو بقرة عن أقل من سبعة بأن اشترك اثنان أو ثلاثة أو أربعة أو خمسة أو ستة في بدنة أو بقرة۔ (بدائع الصنائع میں ہے في ترتيب الشرائع ۵/۷۰)
واللہ أعلم بالثواب والیہ المرجع والمآب
العارض مفتی آصف بن محمد گودھروی
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں