سوال
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
مسئلہ یہ ہے کہ کسی بندے نے قربانی کے لیے جانور لیا تھا لیکن اس کو بیچ کر کے کسی کے بیماری کے علاج کے لیے اس نے پیسہ دے دیا کیا ایسا کرنا جائز ہے؟
سائل عبدالحی سالک اورنگ آباد
الجواب وباللہ التوفیق
باسمہ سبحانہ وتعالی
شریعت مطہرہ نے جو عبادت جس طریقے سے ادا کرنے کا حکم دیا ہے اس عبادت کو کسی اور طریقہ سے ادا کرنے سے وہ مفروضہ عبادت ادا نہیں ہوگی مثلاً شریعت نے پانچ نمازیں فرض کی ہے اب کوئی یہ سوچے کہ نماز پڑھنے کے بجائے میں کسی غریب کی تیمار داری کرلوں یا نماز چھوڑ کر والدین کی خدمت کروں تو یہ درست نہیں ہے اس لئے کہ ایک عبادت کو بنیاد بنا کر کسی دوسری عبادت کو چھوڑنا غیر معقول بات ہے اور یہ دونوں عبادتیں الگ الگ ہے تیمار داری یا والدین کی خدمت یہ مستقل الگ عبادت ہے فریضۂ نماز مستقل الگ عبادت ہے اسے ادا کرنا اس پر مستقل باقی رہے گا جب تک کہ وہ اس کو ادا نہ کرلیں۔
اسی طرح قربانی یہ ایک مستقل الگ عبادت ہے اور یہ عبادت قربانی کے ایام میں جانور ذبح کرنے سے ہی ادا ہو تی ہے قربانی کا جانور بیچ کر قربانی کی رقم کسی کی بیماری کے علاج کے لئے دے دینا شرعاً درست نہیں ہے اس طرح کرنے سے قربانی ادا نہیں ہوگی اور ایسے شخص کو صدقہ کرنے کا ثواب تو مل جائے گا لیکن واجب قربانی چھوڑنے پر وہ گناہ گار ہوگا اس لئے کہ قربانی کرنا یہ ایک مستقل عبادت ہے اور غریب کی مدد ایک دوسری عبادت ہے۔
لہذا صورت مسئولہ میں اگر اس پر قربانی واجب تھی اور اس نے جانور بیچ کر کسی کی بیماری میں پیسے دے دئے ہے تو اس کو دوبارہ جانور خرید کر یا کسی جگہ قربانی کا حصہ دے کر اپنا فریضہ ادا کرنا ہوگا ورنہ وجوب اس کے ذمہ باقی رہے گا اور وہ قربانی کی عبادت کو چھوڑنے کی وجہ سے گنہگار ہوگا۔
سنن ابن ماجہ میں ہے
عَنْ اَبیْ ھُریرہ قال قال رسول اللہ مَنْ کَان لَهُ سِعَة فَلَمْ یضح فَلا یقربن مصلانا۔ (ابن ماجة باب الاضاحی واجبة ام لا ۲۷۱/۲)
فتاوی عالمگیری میں ہے
وهي واجبة على الحر المسلم المالك لمقدار النصاب فاضلاً عن حوائجه الأصلية، كذا في الاختيار شرح المختار، ولايعتبر فيه وصف النماء، ويتعلق بهذا النصاب وجوب الأضحية، ووجوب نفقة الأقارب، هكذا في فتاوى قاضي خان۔ (الفتاوى الهندية ۱/۱۹۱)
بدائع الصنائع میں ہے
وأما الذي يجب على الغني دون الفقير فما يجب من غير نذر ولا شراء للأضحية بل شكرا لنعمة الحياة وإحياء لميراث الخليل عليه الصلاة والسلام حين أمره الله تعالى عز اسمه بذبح الكبش في هذه الأيام فداء عن ولده ومطية على الصراط ومغفرة للذنوب وتكفيرا للخطايا على ما نطقت بذلك الأحاديث وهذا قول أبي حنيفة ومحمد وزفر والحسن بن زياد وإحدى الروايتين عن أبي يوسف رحمهم الله۔ (بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع ۵/٦٢)
واللہ أعلم بالثواب والیہ المرجع والمآب
العارض مفتی آصف بن محمد گودھروی
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں