سوال
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
مسئلہ یہ ہے کہ کسی بندے نے قربانی کا جانور لیا اور وہ ایک دو دن پہلے مرگیا تو دوسرا لینا جائز ہے یا نہیں؟
سائل: عبدالحی سالک اورنگ آباد
الجواب وباللہ التوفیق
باسمہ سبحانہ وتعالی
اس صورت میں دیکھا جائے گا کہ قربانی کرنے والا آدمی صاحب نصاب ہے یا نہیں؟ اگر صاحب نصاب ہے تو شریعت کی طرف سے اس پر قربانی واجب ہوگئی اب اس آدمی نے قربانی کے لئے جانور خریدا اور جانور قربانی سے پہلے مرگیا یا گم ہوگیا تو اس صورت میں اس شخص پر دوسرا جانور خرید کر یا کسی بڑے جانور میں حصہ دیکر قربانی کرنا واجب ہے کیوں کہ اس کو شریعت کی طرف سے مکلف قرار دیا گیا ہے۔
اور اگر قربانی کرنے والا آدمی صاحب نصاب نہیں ہے تو چونکہ شریعت کی طرف سے اس پر قربانی واجب نہیں کی گئی وہ اپنی طرف سے کررہاہے ایسی صورت میں اگر اسکا جانور قربانی سے پہلے مرگیا یا گم ہوگیا تو اس پر دوسرا جانور خرید کر قربانی کرنا واجب نہیں ہے۔
البتہ وہ دوسرا خرید کر قربانی کرنا چاہے تو وہ اس کی چاہت پر ہے شریعت کی طرف سے اس پر لازم نہیں ہے۔
بدائع الصنائع میں ہے
وعلى هذا يخرج ما إذا اشترى شاة للأضحية وهو موسر، ثم إنها ماتت .... أو ضلت .... أنه يجب عليه أن يضحّي بشاة أخرى ..... وإن كان معسراً ...... ليس عليه شيء آخر الخ (بدائع الصنائع ٤/٢٠٠)
مجمع الأنہر میں ہے
وعن ہذا الأصل قالوا إذا ماتت المشتراة للتضحیة علی موسر تجب مکانہا أخری ولا شیء علی الفقیر۔ (مجمع الأنہر فی شرح ملتقی الأبحر ٤/١٧٤ ط دارالکتب العلمیة بیروت)
فتاوی عالمگیری میں ہے
ولو اشترى أضحية وهي صحيحة العين، ثم اعورت عنده وهو موسر أو قطعت أذنها كلها أو أليتها أو ذنبها أو انكسرت رجلها فلم تستطع أن تمشي لا تجزي عنه، وعليه مكانها أخرى بخلاف الفقير، وكذلك لو ماتت عنده أو سرقت۔ (فتاوی عالمگیری ۵/۲۹۹)
واللہ أعلم بالثواب والیہ المرجع والمآب
العارض مفتی آصف بن محمد گودھروی
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں