سوال
کیا کہتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلے کے بارے میں مسئلہ یہ ہے کہ ایک کاروبار ہے جس کے اوپر بہت زیادہ قرضہ ہے وہ ادا کرنے ہیں اور اس کاروبار کے کسٹمرز کے اوپر بھی اس کاروبار کا قرضہ ہے یعنی جو لوگوں سے لینے ہیں
تو جو چیزیں قرضے پردی ہوئی ہیں ان کو شمار کیا جائے گا؟ یا نہیں اس کی زکوۃ کا کیا حکم ہے؟ نیز یہ بھی بتائیں کے ادھار کا حساب لگار کر جو رقم لینی ہے اس سے ذمہ والے قرضے کو مائنس کردیا جائے اس کے بعد لی ہوی رقم نصاب تک پہنچتی ہے لیکن ابھی مالک کے پاس موجود نہیں ہے نہ گھر میں نہ جیب میں تو ایسی صورت میں زکوۃ کس طرح ادا کی جائے?
سائل: سیف اللہ سندھی
الجواب وباللہ التوفیق
باسمہ سبحانہ وتعالی
مسئولہ صورت میں کاروبار میں جتنی اشیاء یا رقم قرضے میں دے رکھی ہے سامنے والا دینے کا اقرار کرے یا انکار کریں لیکن اس کے پاس ثابت کرنے کے لئے گواہ موجود ہے تو اس رقم کو بھی زکوۃ میں ملایا جائے گا اور ان سب کی زکوۃ ادا کرنا واجب ہوگا۔
اور کاروبار میں جتنا قرضہ لیا ہے ان سب کو شمار کرکے زکوۃ کے حساب سے مائنس کردیا جائے گا اس کے بعد جو رقم بچ جائے اس کی زکوۃ ادا کرنا واجب ہے۔
اگر کسی پر زکوۃ واجب ہے لیکن اس کے پاس پیسے نہیں ہے تو شریعت میں زکوة پیسوں ہی سے ادا کرنا ضروری نہیں کاروباری اشیاء میں سے زکوۃ کی رقم کے برابر کچھ اشیاء بھی غریبوں میں تقسیم کرسکتے ہیں۔
البتہ زیادہ بہتر یہ ہے کہ زکوۃ کی ادائیگی میں فقراء ومساکین کو نقد رقم دیں تاکہ وہ سہولت سے اپنی ضرورت کے مطابق اشیاء خرید سکیں اس لیے زکوۃ کی ادائیگی کی افضل صورت یہی ہے کہ نقد دیں البتہ نقد نہیں ہے اور اس کے بجائے اگر کوئی شخص مستحقین کو راشن کپڑے یا دیگر چیزیں مالکانہ طور پر دے دیں تو اس سے بھی زکوۃ دینے والے کی زکوۃ ادا ہوجاتی ہے لہذا اگر وہ نقد نہیں دے سکتے ہیں تو اس کی قیمت کے برابر دوسری اشیاء دینے سے زکوۃ ادا ہوجائے گی۔
البحر الرائق میں ہے
وقيد بالتمليك احترازا عن الإباحة ولهذا ذكر الولوالجي وغيره أنه لو عال يتيما فجعل يكسوه ويطعمه وجعله من زكاة ماله فالكسوة تجوز لوجود ركنه وهو التمليك وأما الإطعام إن دفع الطعام إليه بيده يجوز أيضا لهذه العلة وإن كان لم يدفع إليه ويأكل اليتيم لم يجز لانعدام الركن وهو التمليك۔ (البحر الرائق شرح كنز الدقائق ۲/۲۵۳)
فتح القدیر میں ہے
ومن كان عليه دين يحيط بماله فلا زكاة عليه ) وقال الشافعي : تجب لتحقق السبب وهو ملك نصاب تام ولنا أنه مشغول بحاجته الأصلية فاعتبر معدوما كالماء المستحق بالعطش وثياب البذلة والمهنة ( وإن كان ماله أكثر من دينه زكى الفاضل إذا بلغ نصابا ) لفراغه عن الحاجة الأصلية ، والمراد به دين له مطالب من جهة العباد حتى لا يمنع دين النذر والكفارة۔ (فتح القدير لكمال بن الهمام - ٣/٤٧۵)
واللہ أعلم بالصواب والیہ المرجع والمآب
العارض مفتی آصف بن محمد گودھروی