جمعہ، 21 مارچ، 2025

صاحب نصاب کے پاس زکوۃ دینے کے لئے روپئے پیسے نہ ہو تو کیا کریں سوال نمبر ۵۰۵

 سوال

کیا کہتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلے کے بارے میں مسئلہ یہ ہے کہ ایک کاروبار ہے جس کے اوپر بہت زیادہ قرضہ ہے وہ ادا کرنے ہیں اور اس کاروبار کے کسٹمرز کے اوپر بھی اس کاروبار کا قرضہ ہے یعنی جو لوگوں سے لینے ہیں  

تو جو چیزیں قرضے پردی ہوئی ہیں ان کو شمار کیا جائے گا؟ یا نہیں اس کی زکوۃ کا کیا حکم ہے؟ نیز یہ بھی بتائیں کے ادھار کا حساب لگار کر جو رقم لینی ہے اس سے ذمہ والے قرضے کو مائنس کردیا جائے اس کے بعد لی ہوی رقم نصاب تک پہنچتی ہے لیکن ابھی مالک کے پاس موجود نہیں ہے نہ گھر میں نہ جیب میں تو ایسی صورت میں زکوۃ کس طرح ادا کی جائے?

سائل: سیف اللہ سندھی



الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی 


مسئولہ صورت میں کاروبار میں جتنی اشیاء یا رقم قرضے میں دے رکھی ہے سامنے والا دینے کا اقرار کرے یا انکار کریں لیکن اس کے پاس ثابت کرنے کے لئے گواہ موجود ہے تو اس رقم کو بھی زکوۃ میں ملایا جائے گا اور ان سب کی زکوۃ ادا کرنا واجب ہوگا۔


اور کاروبار میں جتنا قرضہ لیا ہے ان سب کو شمار کرکے زکوۃ کے حساب سے مائنس کردیا جائے گا اس کے بعد جو رقم بچ جائے اس کی زکوۃ ادا کرنا واجب ہے۔


اگر کسی پر زکوۃ واجب ہے لیکن اس کے پاس پیسے نہیں ہے تو شریعت میں زکوة پیسوں ہی سے ادا کرنا ضروری نہیں کاروباری اشیاء میں سے زکوۃ کی رقم کے برابر کچھ اشیاء بھی غریبوں میں تقسیم کرسکتے ہیں۔


البتہ زیادہ بہتر یہ ہے کہ زکوۃ کی ادائیگی میں فقراء ومساکین کو نقد رقم دیں تاکہ وہ سہولت سے اپنی ضرورت کے مطابق اشیاء خرید سکیں اس لیے زکوۃ کی ادائیگی کی افضل صورت یہی ہے کہ نقد دیں البتہ نقد نہیں ہے اور اس کے بجائے اگر کوئی شخص مستحقین کو راشن کپڑے یا دیگر چیزیں مالکانہ طور پر دے دیں تو اس سے بھی زکوۃ دینے والے کی زکوۃ ادا ہوجاتی ہے لہذا اگر وہ نقد نہیں دے سکتے ہیں تو اس کی قیمت کے برابر دوسری اشیاء دینے سے زکوۃ ادا ہوجائے گی۔


البحر الرائق میں ہے 

 وقيد بالتمليك احترازا عن الإباحة ولهذا ذكر الولوالجي وغيره أنه لو عال يتيما فجعل يكسوه ويطعمه وجعله من زكاة ماله فالكسوة تجوز لوجود ركنه وهو التمليك وأما الإطعام إن دفع الطعام إليه بيده يجوز أيضا لهذه العلة وإن كان لم يدفع إليه ويأكل اليتيم لم يجز لانعدام الركن وهو التمليك۔ (البحر الرائق شرح كنز الدقائق ۲/۲۵۳)


فتح القدیر میں ہے 

ومن كان عليه دين يحيط بماله فلا زكاة عليه ) وقال الشافعي : تجب لتحقق السبب وهو ملك نصاب تام ولنا أنه مشغول بحاجته الأصلية فاعتبر معدوما كالماء المستحق بالعطش وثياب البذلة والمهنة ( وإن كان ماله أكثر من دينه زكى الفاضل إذا بلغ نصابا ) لفراغه عن الحاجة الأصلية ، والمراد به دين له مطالب من جهة العباد حتى لا يمنع دين النذر والكفارة۔ (فتح القدير لكمال بن الهمام - ٣/٤٧۵)


واللہ أعلم بالصواب والیہ المرجع والمآب 

العارض مفتی آصف بن محمد گودھروی 


پیر، 17 مارچ، 2025

چلتے چلتے آیت سجدہ کی تلاوت سے کتنے سجدہ واجب ہوں گے؟ سوال نمبر ۵٠٤

 سوال 

اسلام عليكم ورحمۃ وبرکاتہ میں امید کرتا ہوں بخیریت ہونگے 

اگر کوئی شخص مسجد یا اور کوئی جگہ میں قرآن پڑھیں چلتے چلتے اور سجدہ کی آیت تلاوت کرے تو کتنا سجدہ کرے؟ جواب حوالہ کے ساتھ مطلوب ہے

سائل: مولوی امتیاز انڈمان 


الجواب وباللہ التوفیق 

باسمہ سبحانہ وتعالی 


سجدہ تلاوت میں اصل اعتبار مجلس کا ہے جس جگہ آیت سجدہ تلاوت کی ہے اسی مجلس میں دوبارہ اسی آیتِ سجدہ کو پڑھنے کی صورت میں دوبارہ سجدہ کرنا لازم نہیں ہے البتہ اگر مجلس بدل جائے اور دوسری مرتبہ آیتِ سجدہ پڑھیں یا اس آیت کے علاوہ دوسری آیت سجدہ کی تلاوت کریں تو سجدہ تلاوت دوبارہ کرنا ضروری ہے۔


فقہاء نے تبدل مجلس کی دو صورتیں بیان کی ہے۔

(۱) حقیقی اعتبار سے مجلس بدل جائے، جیسے جس جگہ پر تلاوت کررہا ہے اس جگہ کو چھوڑ کر دوسری جگہ چلا جائے۔

(۲) حکمی اعتبار سے مجلس بدل جائے جیسے اسی جگہ پر بیٹھے بیٹھے کھانا شروع کردینا، یا کوئی اور کام شروع کردینا جو تلاوت کے حکم میں نہ ہو تو اس سے مجلس بدل جائے گی۔


البتہ فقہاء کرام نے عمل قلیل کو ایک ہی مجلس شمار کیا ہے 

جیسے آیت سجدہ کی تلاوت کرنے کے بعد کھڑا ہوجائے یا ایک دو قدم چل پڑے یا ایک دو لقمے کھالے یا ایک گھونٹ پانی پی لے تو ان سب سے مجلس تبدیل نہیں ہوگی


صورت مسئولہ میں اگر وہ جس جگہ تلاوت کررہاہے اسی جگہ پر جیسے کہ مسجد میں تلاوت کررہا ہے تو اس کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک یا روم کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک چہل قدمی کرتے ہوئے آیت سجدہ کا تکرار کرے تو اس پر ایک ہی سجدہ واجب ہوگا اس لئے کہ اتحاد مجلس ہے اور وہ مسجد یا روم میں چہل قدمی کرتے ہوئے اندر اور باہر آتا جاتا رہے اور آیت سجدہ کی تلاوت کا تکرار کریں تو اس پر جتنی بار آیت سجدہ تلاوت کرے گا اتنی بار سجدہ واجب ہوگا کیوں کہ مجلس بدل گئی۔


فتاویٰ شامی میں ہے 

قال الحصکفی: (ولو کررہا فی مجلسین تکررت وفی مجلس) واحد (لا) تتکرر بل کفتہ واحدة۔ وفعلہا بعد الأولی أولی قنیة۔ قال ابن عابدین: بخلاف ما إذا طال جلوسہ أو قرائتہ أو سبح أو ہلل أو أکل لقمة أو شرب شربة أو نام قاعدا أو کان جالسا فقام أو مشی خطوتین أو ثلاثا علی الخلاف أو کان قائما فقعد أو نازلا فرکب فی مکانہ فلا تتکرر حلیة ملخصا (قولہ بل کفتہ واحدة) ولا یندب تکرارہا۔ ( رد المحتار: ۵۹۰/۲، زکریا، دیوبند)


بدائع الصنائع میں ہے

ثم تبدل المجلس قد يكون حقيقة وقد يكون حكما بأن تلا آية السجدة ثم أكل أو نام مضطجعا، أو أرضعت صبيا، أو أخذ في بيع أو شراء أو نكاح أو عمل يعرف أنه قطع لما كان قبل ذلك ثم أعادها فعليه سجدة أخرى؛ لأن المجلس يتبدل بهذه الأعمال.

ألا ترى أن القوم يجلسون لدرس العلم فيكون مجلسهم مجلس الدرس، ثم يشتغلون بالنكاح فيصير مجلسهم مجلس النكاح، ثم بالبيع فيصير مجلسهم مجلس البيع، ثم بالأكل فيصير مجلسهم مجلس الأكل، ثم بالقتال فيصير مجلسهم مجلس القتال فصار تبدل المجلس بهذه الأعمال كتبدله بالذهاب والرجوع لما مر.

ولو نام قاعدا أو أكل لقمة أو شرب شربة أو تكلم بكلمة أو عمل عملا يسيرا ثم أعادها فليس عليه أخرى؛ لأن بهذا القدر لا يتبدل المجلس والقياس فيهما سواء أنه لا يلزمه أخرى لاتحاد المكان حقيقة إلا أنا استحسنا إذا طال العمل اعتبارا بالمخيرة إذا عملت عملا كثيرا خرج الأمر عن يدها وكان قطعا للمجلس بخلاف ما إذا أكل لقمة أو شرب شربة.

ولو قرأ آية السجدة فأطال القراءة بعدها أو أطال الجلوس ثم أعادها ليس عليه سجدة أخرى لأن مجلسه لم يتبدل بقراءة القرآن وطول الجلوس، وكذا لو اشتغل بالتسبيح أو بالتهليل ثم أعادها لا يلزمه أخرى. (كتاب الصلاة,فصل سجدة التلاوة ۱/۱۸۳ مطبوعہ دار الكتب العلمية) 


فتاویٰ عالمگیری میں ہے 

والمجلس واحد وإن طال أو أكل لقمة أو شرب شربة أو قام أو مشى خطوة أو خطوتين أو انتقل من زاوية البيت أو المسجد إلى زاوية إلا إذا كانت الدار كبيرة كدار السلطان وإن انتقل في المسجد الجامع من زاوية إلى زاوية لا يتكرر الوجوب وإن انتقل فيه من دار إلى دار ففي كل موضع يصح الاقتداء يجعل كمكان واحد وسير السفينة لا يقطع المجلس بخلاف سير الدابة إذا لم يكن راكبها في الصلاة، كذا في فتاوى قاضي خان. (فتاویٰ عالمگیری كتاب الصلاة ۱/١٣٤ ط'دار الفكر)


واللہ أعلم بالصواب والیہ المرجع والمآب 

العارض مفتی آصف بن محمد گودھروی

ہفتہ، 15 مارچ، 2025

کرایہ پر دئے ہوئے دکان و مکانات کے زکوۃ کا حکم سوال نمبر ۵۰۳

 سوال 

السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ 

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام مسئلہ ذيل کے با رے میں 

کرایہ کے کمروں کی زكوة کس اعتبار سے ادا کی جائے گی پورے سال کا کرایہ کے حساب سے یا کمرے کی زمین کے اعتبار سے مثلا کمرے کا ماہانہ کرایہ ٢٠٠٠ روپیے ہے اور کمرے کی قیمت دو لاکھ ہے تو کس حساب سے زكوة ادا کی جائے گی برائے مہربانی مدلل جواب عنایت فرمائیں

سائل: مولوی طیب پانی پت ہریانہ 


الجواب وباللہ التوفیق 

باسمہ سبحانہ وتعالی 


کسی بھی چیز میں زکوۃ کے وجوب کی شرطِ اول مال نامی یعنی تجارت کے لئے ہونا ہے اگر وہ چیز مال تجارت کے لئے نہیں ہے تو اس پر زکوۃ واجب نہیں ہوگی۔


مسؤلہ صورت میں کمرے کرایہ پر دئے ہوئے  ہے تجارت کے لئے نہیں ہے تو کرایہ پر زکوۃ واجب ہوگی جب وہ نصاب تک پہنچ جائے اور اس پر سال گزر جائے کمروں اور اس کی زمیں کی قیمت پر زکات واجب نہیں ہوگی، اسی طرح اگر کرایہ سال بھر محفوظ نہ رہتا ہو، استعمال میں آجاتا ہو تو اس صورت میں استعمال شدہ کرایہ کی رقم پر بھی زکوۃ لازم نہیں ہوگی۔


البتہ اگر پہلے سے صاحبِ نصاب ہو اور ہر سال زکوۃ ادا کرتا ہو تو اس صورت میں جس دن اس کی زکوۃ کا سال مکمل ہو رہا ہو، اس دن تک جتنا کرایہ اس کے پاس موجود ہو استعمال میں نہ آیا ہو اسے کل مال کے ساتھ ملاکر زکوۃ ادا کرنا لازم ہوگا، اسی طرح اگر کرایہ کی رقم جمع کرکے وہ صاحبِ نصاب ہوجائے تو سال پورا ہونے پر زکوۃ ادا کرنی ہوگی


امدادالفتاوی میں ہے

پس مواضع اگر واسطے تجارت کے ہیں تو بعد حولان حول ان کی قیمت و منافع پر زکوۃ لازم ہوگی ۔ اور اگر اجارہ کے لیے ہیں یا اپنے مصارف کے لیے ہیں پس خود ان میں تو زکوۃ واجب نہیں ۔۔۔اور ایسے ہی اگر منافع یا کرایہ جنس غلات سے ہو، البتہ اگر زر کرایہ یا منافع نقود میں سے ہو اور اس پر سال بھر گزر جاوے اس میں زکوۃ واجب ہے۔ (امدادالفتاوی، ۲/۵٤ ،کتاب الزکوۃ و الصدقات ط مکتبہ دارالعلوم کراچی )


فتاوی قاضی خان میں ہے

ولو اشترى الرجل داراً أو عبداً للتجارة، ثم أجره يخرج من أن يكون للتجارة؛ لأنه لما أجر فقد قصد المنفعة، ولو اشترى قدوراً من صفر يمسكها أو يؤاجرها لا تجب فيها الزكاة كما لا تجب في بيوت الغلة، ولو دخل من أرضه حنطة يبلغ قيمتها قيمة نصاب ونوى أن يمسكها ويبيعها فأمسكها حولاً لا تجب فيها الزكاة كما في الميراث۔ (الفتاوی قاضی خان ۱/۲۲۲ کتاب الزکوۃ فصل في مال التجارۃ، ط مکتبة دار الکتب العلمیہ)


فتاوی عالمگیری میں ہے 

ومنہا فراغ المال عن حاجتہ الأصلیۃ فلیس في دور السکنیٰ وثیاب البدن وأثاث المنزل ودواب الرکوب وعبید الخدمۃ وسلاح الاستعمال زکاۃ وکذا طعام أہلہ۔ (الفتاوی عالمگیری قدیم ۱/۱۷۲ کتاب الزکاۃ)


واللہ أعلم بالصواب والیہ المرجع والمآب 

العارض مفتی آصف بن محمد گودھروی

مقروض آدمی پر زکوۃ کا حکم سوال نمبر ۵۰۲

 سوال 

السلام علیکم و رحمۃاللہ وبرکاتہ 

مسئلہ یہ ہے کہ ایک بندے کے پاس ایک پلاٹ ہے جو بیچنے کی نیت سے لیا ہوا ہے اور دو سال ہو چکے ہے 

اور گھر کی مستورات کے کچھ زیورات ایک آدھ لاکھ کے ہیں اور ہر سال وہ زکوۃ نکالتا تھا لیکن اب اس نے ایک Ashok Leyland کمپنی کی گاڑی دوسروں سے قرض لیکر نقد لی ہوئی ہے اب اس گاڑی میں آدھی رقم تو قرض کی ہیں اور وہ دینا باقی ہے، تو کیا اس پر زکوۃ ہوگی یا نہیں؟ شریعت کی روشنی میں جواب مطلوب ہے 

سائل: عبدالحی سالک اورنگ آباد مہاراشٹر


الجواب وباللہ التوفیق 

باسمہ سبحانہ وتعالی 


اگر کسی شخص کے پاس اموال زکوۃ موجود ہے اور اس پر قرضے بھی ہے، تو اس کی تین صورتیں ہوگی

پہلی صورت یہ ہے کہ اس کے پاس جتنا مال موجود ہے اتنی ہی مقدار میں اس شخص پر قرض بھی ہے، یا مال کم ہے اور قرض زیادہ ہے تو ایسی صورت میں اس شخص پر زکوۃ فرض نہیں ہے۔

دوسری صورت یہ ہے کہ مقروض کے پاس اتنا مال ہے کہ قرض اداکرنے کے بعد بقیہ مال نصاب کو نہیں پہنچتا بلکہ نصاب سے کم ہے تو اس صورت میں بھی چوںکہ وہ نصاب سے کم مال کا مالک ہے اس لئے اس پر زکوۃ واجب نہیں ہوگی۔

تیسری صورت یہ ہے کہ مقروض کے پاس اتنا مال ہے کہ قرض اداکرنے کے بعد بقیہ مال نصاب کو پہنچ جاتاہے اور اس پر سال بھی گزرچکا ہو اس صورت میں ایسے شخص پر قرض کے پیسے الگ کرنے کے بعد جو مال باقی رہے گا اس مال کی زکوۃ اس کے حصاب سے ادا کرنا لازم ہے۔

صورت مسئولہ میں سوال میں مذکور مقروض شخص کے پاس دیکھا جائے گا کہ پلاٹ کی قیمت کیا ہے اور قرضہ کتنا ہے اگر قرض کی ادائیگی کے بعد باقی مال نصاب کے برابر یا نصاب سے زائد باقی بچتا ہے اور سال گزرچکا ہو تو اس بقیہ مال کی زکوۃ اس کے حصاب سے ادا کرنا اس پر لازم ہے۔

اور اگر اس مقروض کے پاس پلاٹ کی قیمت صرف قرض کے برابر ہو یا قرض اد اکرنے کے بعد اس کے پاس کچھ نہ بچتا ہو اس صورت میں زکوۃ لازم نہ ہوگی۔


فتح القدیر میں ہے 

ومن كان عليه دين يحيط بماله فلا زكاة عليه ) وقال الشافعي : تجب لتحقق السبب وهو ملك نصاب تام ولنا أنه مشغول بحاجته الأصلية فاعتبر معدوما كالماء المستحق بالعطش وثياب البذلة والمهنة ( وإن كان ماله أكثر من دينه زكى الفاضل إذا بلغ نصابا ) لفراغه عن الحاجة الأصلية ، والمراد به دين له مطالب من جهة العباد حتى لا يمنع دين النذر والكفارة۔ (فتح القدير لكمال بن الهمام - ٣/٤٧۵) فقط و الله أعلم


واللہ أعلم بالصواب والیہ المرجع والمآب 

العارض مفتی آصف بن محمد گودھروی 

جمعہ، 14 مارچ، 2025

زکوۃ کے مال کو عمارت کی درستگی کے لئے استعمال کرنا کیسا ہے؟ سوال نمبر ۵۰۱

 سوال 

السلام علیکم ورحمۃ اللہ 

مسئلہ یہ ہے کہ ایک گاؤں میں مسجد کے امام صاحب کا مکان تعمیر کرنا ہے جو کہ بہت ہی خستہ اور پرانا ہو چکا ہے رہنے کے لائق بھی نہیں ہے

مسجد کے امام کے لیے ہی وہ وقف کیا گیا ہے اب اس کو بنوانا ہے تو بستی والے اس کو بنوانے سے قاصر ہے 

تو کیا زکوۃ کی رقم جمع کر کے اس کو بنوا سکتے ہیں؟ یا نہیں شریعت کی روشنی میں جواب مطلوب ہے

سائل: عبدالحی سالک اور نگ آباد


الجواب وباللہ التوفیق 

باسمہ سبحانہ وتعالیٰ 


زکوۃ اور دیگر صدقاتِ واجبہ کے مصارف فقراء ومساکین وغیرہ ہیں جن پر تملیکاً خرچ کرنا ضروری ہے، نیز حسبِ تصریح فقہائے حنفیہ اموالِ زکوٰۃ میں تملیک شرط ہے یعنی اس مال کو کسی اہل مصرفِ زکوٰۃ کی ملکیت میں بحیثیتِ تملیک کہ دینا ضروری ہے۔


صاحب بدائع نے بدائع الصنائع میں تحریر فرمایاہے کہ، اللہ تعالیٰ نے آتواالزکوٰۃ کا حکم فرمایا، اور ایتاء میں تملیک کے معنیٰ پائے جاتے ہیں، اور اسی وجہ سے اللہ نے زکوٰۃ کو صدقہ سے تعبیر کیا ہے اور تصدق میں تملیک ہے۔ 

اسی طرح صاحب ہدایہ صاحب فتح القدیر صاحب بنایہ صاحب بحر زکوٰۃ کے مال کومسجد اور کفن دفن میں خرچ کرنے کے عدمِ جواز کے پورے مسئلے کو بیان کرنے کے بعد اس کی وجہ تحریر فرماتے ہیں کہ زکوٰۃ میں تملیک یہ جزو لاینفک ہے بغیر تملیک کہ زکوۃ ادا نہیں ہوگی۔ 

الخلاصۃ الفقہیہ میں تو تملیک کو اصل کا درجہ دیتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں کہ، زکوٰۃ بلا تملیکِ مال درست نہیں ہے، پھر ایک قاعدہ بیان کیا ہے کہ ہر ایسی عبادت جو تملیک سے خالی ہو وہاں زکوۃ دینادرست نہیں ہے۔

لہذا صورت مسئولہ میں وقف شدہ عمارت پر زکوۃ کی رقم ادا کرنا درست نہیں ہے 


حیلۂ تملیک

البتہ حیلۂ تملیک سے زکوۃ کی رقم اس عمارت میں صرف کرنا درست ہے اس کا طریقہ یہ ہے کہ کسی مستحق زکوٰۃ شخص کو کسی عوض کے بغیر زکوٰۃ کی رقم کا مالک بنادے یا امام صاحب اگر مستحق زکوۃ ہے تو اس کو مالک بناکر اس کو اس بات کی ترغیب دی جائے کہ وہ اس کی تعمیر کردے اس لئے کہ فقہاء نے حیلۂ تملیک کی جو تعریف بیان کی ہے وہ اس طرح ہے کہ کسی مستحق زکوٰۃ شخص کو مالک بناکر اس کے واسطے سے کسی ایسے دینی یا رفاہی کام میں خرچ کرنا جہاں زکوٰۃ کی رقم کا شرعا استعمال کرنا درست نہ ہو حیلۂ تملیک کہا جاتا ہے۔


بدائع الصنائع میں ہے 

وقد أمراللہ تعالی الملاک بإیتاء الزکوٰۃ لقولہ عزوجل وآتواالزکوٰۃ والایتاء ھو التملیک ولذاسمیٰ اللہ تعالیٰ الزکوٰۃ صدقۃ بقولہ عزوجل إنما الصدقات للفقرآء والتصدق تملیک (بدائع ۲/ ۴۵۶)


ہدایہ میں پ

لإنعدام الملک وھوالرکن۔ (ہدایہ جلد۱/ ۲۲۲)


فتح القدیر میں ہے 

لإنعدام التملیک وھوالرکن: فإن اللہ تعالیٰ سماھا صدقۃ،وحقیقۃ الصدقۃ تملیک المال من الفقیر (فتح القدیر۲/۲۷۲)


البانیہ میں ہے

لأن الرکن فی الزکوٰۃ التملیک من الفقیر۔ (البنایہ ۳/ ۴۶۲)


البحر الرائق میں ہے 

وعدم الجواز لإنعدام التملیک الذی ھو الرکن۔ (البحرالرئق۲/۲۷۲)


الخلاصۃ الفقہیہ میں ہے 

والأصل فیہ أن الواجب فیہ فعل الإیتاء فی جزء من المال، ولا یحصل الإیتاء إلا بالتملیک، فکل قربۃ خلت عن التملیک لایجزیٔ عن الزکوٰۃ۔ (الخلاصۃ الفقہیہ ص۴۵۳)


التاتارخانیہ میں ہے

والحیلۃ لمن أراد ذالک أن یتصدق ینوی الزکوٰۃ علی فقیر،ثم یأمرہ بعد ذالک بالصرف إلی ھذہ الوجوہ،فیکون لصاحب المال ثواب الصدقۃ ولذلک الفقیر ثواب ھذاالصرف۔ التاتارخانیہ جدید ۳/۲۰۸


واللہ اعلم باالصواب والیہ المرجع والمآب 

العارض: مفتی آصف بن محمد گودھروی


اتوار، 9 مارچ، 2025

اموال زکوۃ میں اداء کا وجوب کب ہوگا سوال نمبر ۵۰۰

 سوال

بنتِ حوا کے پاس پچھلے 5 مہینوں سے نصاب کے برابر یا اس سے زیادہ مال موجود ہے، جس پر ابھی سال مکمل نہیں ہوا۔

تو کیا اس رقم پر زکوٰۃ فرض ہوگی یا سال مکمل ہونے کے بعد زکوٰۃ نکالنی ہوگی؟


سائل: عنایت اللہ پالنپوری


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی


نصاب زکوۃ میں حاصل ہونے والے مال کی دو حالتیں ہوتی ہے۔

ایک حالت یہ ہے کہ حاصل ہونے والا مال، مال مبتدی ہو یعنی جس وقت وہ مال حاصل ہوا تو حصول کے وقت اس کے پاس پہلے سے اتنا مال نہیں تھا کہ وہ شرعی نصاب کا مالک ہو جائے تو ایسی صورت میں اس مال پر زکوۃ کی ادائیگی اس وقت لازم ہوگی جب اس مال پر سال گزر جائے۔


شرعی نصاب یہ ہے

ا۔۔۔ سونا جبکہ ساڑھے سات تولہ(۸۷/٤٨ 87.48 گرام) یا اس سے زیادہ ہو۔

۲۔۔۔ چاندی جبکہ ساڑھے باون تولہ ہو(٦١٢/٣٦ 612.36 گرام) یا اس سے زیادہ ہو۔

۳۔۔۔ روپیہ، پیسہ، جبکہ اس کی مالیت ساڑھےسات تولہ سونا (۸۷/٤٨ 87.48 گرام) یا ساڑھے باون تولہ چاندی(٦١٢/٣٦ 612.36 گرام) کی مالیت کے بقدر ہو.

٤۔۔۔ مالِ تجارت جبکہ اس کی مالیت ساڑھےسات تولہ سونا (۸۷/٤٨ 87.48 گرام) یا ساڑھے باون تولہ چاندی(٦١٢/٣٦ 612.36 گرام) کی مالیت کے برابر ہو۔


دوسری حالت مال مستفاد کی ہے یعنی کوئی شخص پہلے سے شرعی نصاب کا مالک تھا اور اس پر زکوۃ واجب تھی پھر درمیان سال میں کچھ مال حاصل ہوا تو یہ مال مال مستفاد کی قبیل سے ہیں اور مال مستفاد یعنی درمیان سال میں جو مال کسی بھی اعتبار سے حاصل ہو اس کا حکم یہ ہے کہ اس کو بھی اسی نصاب سے ملا کر زکوۃ نکالنا لازم ہوگی لہذا مزکی ( زکوۃ دینے والا اپنی زکوۃ دینے کی تاریخ اور مہینہ متعین کر لے اسکے بعد سال کے درمیان جتنا بھی مال حاصل ہوتا رہے سونا چاندی یا نقد رقم سے یا مال تجارت سے ان سب کو ملا کر زکوۃ اپنی متعینہ تاریخ میں نکالے گا یہ مال مستفاد کا حکم ہے۔


مسؤلہ صورت میں اگر وہ پہلے سے صاحب نصاب تھی تو اس کو ماقبل نصاب کے ساتھ ملاکر اس پہلے نصاب کا سال مکمل ہوجائے تو دونوں مالوں کی زکوۃ ایک ساتھ واجب ہوگی چاہے دوسرے مال پر سال پورا ہوا ہو یا نہ ہوا ہو۔

اور اگر وہ پہلے سے صاحب نصاب نہیں تھی تو اس پر زکوۃ کی ادائیگی اس وقت لازم ہوگی جب اس مال پر سال گزر جائے۔

 

الھدایة کتاب الزکوة میں ہے۔

وفی الھدایة الزکوة واجبة علی الحر العاقل البالغ المسلم اذا ملک نصابا ملکا تاما و حال علیہ الحول، (الھدایة کتاب الزکوة ١/٢٠٠)


فتاوی عالمگیری میں ہے۔

ومن كان له نصاب فاستفاد في اثناء الحول مالا من جنسه ضمه الى ماله وزكـاه المستفاد من نمائه اولا وبأى وجه استفاد ضمہ۔ (فتاوی عالمگیری ١/١٧٥)۔


واللہ اعلم باالصواب والیہ المرجع والمآب 

العارض: مفتی آصف بن محمد گودھروی


قرض پر دی ہوئی رقم پر زکوۃ کا حکم سوال نمبر ٤٩٩

 سوال

زید نے حارث کو 1.6 لاکھ بطورِ قرض دیے ہیں۔ اب حارث اس حالت میں نہیں ہے کہ قرض واپس کر سکے، لیکن اس کی نیت ہے کہ وہ قرض واپس کرے گا، مگر اس نے ابھی کوئی وقت مقرر نہیں کیا اور فی الحال وہ قرض واپس کرنے کی پوزیشن میں بھی نہیں ہے۔ زید کے پاس اس قرض کے علاوہ کوئی اور رقم بھی موجود نہیں ہے کہ کسی دوسری رقم میں سے اس قرض کی زکوٰۃ ادا کر سکے۔

تو اس حالت میں زکوٰۃ کیسے ادا کرنی ہوگی؟ یا زکوٰۃ قرض واپس ملنے کے بعد ادا کرنی ہوگی؟

سائل عنایت اللہ پالنپوری 


الجواب وباللہ التوفیق 

باسمہ سبحانہ وتعالی 


کسی صاحب نصاب شخص کا مال دوسرے شخص کے پاس بطور قرض موجود ہو، اور وہ مقروض اس کا اقرار بھی کر رہا ہو، اور اس سے ملنے کی امید بھی ہو، چاہے ابھی اس کے پاس اتنی حیثیت نہیں ہے کہ وہ ابھی ادا کرسکے اس کے باوجود اس مال پر سال گزرنے کی صورت میں قرض دینے والے پر زکوۃ واجب ہوگی، البتہ زکوۃ کی ادائیگی قرض وصول کرنے کے بعد واجب ہوگی، جتنا قرض وصول ہوگا اتنے پر واجب ہوگی، البتہ جب قرض وصول ہوگا تواس کی گزشتہ سالوں کی زکاۃ بھی اس پر واجب ہوگی ۔


صورت مسئولہ میں چونکہ قرض لینے والا دینے کا اقرار کرتا ہے تو اس پر زکوۃ واجب ہوگی البتہ ادائگی کا حکم وصولیابی کے بعد ہوگا۔


فتاویٰ شامی میں ہے 

( تجب) زكاتها إذا تم نصابا وحال الحول، لكن لا فورا بل (عند قبض أربعين درهما من الدين) القوي كقرض (وبدل مال تجارة) فكلما قبض أربعين درهما يلزمه درهم ( الدرالمختار على صدر ردالمحتار، كتاب الزكوة ، باب زكوة المال ١/٢٣٦ دارالكتب العلمية)


واللہ أعلم بالصواب والیہ المرجع والمآب 

العارض مفتی آصف بن محمد گودھروی

جمعہ، 7 مارچ، 2025

معتدہ اپنی عدت کہا گزارے سوال نمبر ٤٩٨

سوال 

السلام علیکم ورحمت اللہ وبرکاتہ

بعد سلام بخیر رہ کر طالبِ خیر ہیں۔ حضرت مفتی صاحب ایک عورت عدت گذارنے کا حق کہاں رکھتی ہے ؟؟ شوہر کے گھر میں یا کسی اور جگہ؟ جواب دیکر شکریہ کا موقع فراہم کیجئے ۔جزاکم اللہ خیراً ۔فقط والسلام۔

العارض: مولانامحمد یاسین صاحب


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی


شوہر کے انتقال کے بعد شرعی اعتبار سے عورت کو اسی گھر میں عدت گزارنے کا حکم ہے جہاں بیوی اپنے شوہر کے ساتھ اس کے انتقال سے پہلے رہا کرتی تھی لہذا خاوند کی وفات کے وقت جس مکان میں عورت سکونت پذیر ہو اسی مکان میں اس کو عدت پوری کرنا لازم ہے۔

البتہ کچھ اعذار کی وجہ سے شریعت نے اس کو دوسری جگہ منتقل ہونے کی اجازت دی ہے۔

وہ اعذار یہ ہے۔

طبیعت زیادہ خراب ہوجائے اور شوہر کے گھر دیکھ بھال کا انتظام نہ ہو تومجبوری میں دوسری جگہ عدت گذارنا جائز ہے۔

ساس سسر کے ساتھ رہتی ہو دیور وغیرہ کا آنا جانا رہتا ہو جس کی وجہ سے عزت وآبرو کا خطرہ ہو اور پردے کا صحیح نظم نہ ہو تو دوسری جگہ عدت گذارنا جائز ہے۔

شوہر کے انتقال کے بعد ورثہ نے گھر تقسیم کردیا اور معتدہ کے حصے میں اتنا حصہ نہیں آیا کہ جس میں وہ عدت گذارسکے اور ورثہ نے ان کو مابقیہ حصے میں عدت گذارنے سے انکار کردیا تو دوسری جگہ عدت گذارنا جائز ہے۔

گھر کرایہ کا ہے اور کرایہ دینے کی طاقت نہیں ہے تو دوسری جگہ عدت گذارنا جائز ہے۔

گھر بہت زیادہ پرانا ہے اور گرنے کا خطرہ ہے تو دوسری جگہ عدت گذارنا جائز ہے۔

ایسی جگہ پر گھر ہے جہاں جان یا مال کے ضائع ہونے کا خطرہ ہے تو دوسری جگہ عدت گذارنا جائز ہے۔

ہدایہ اور فتاوی عالمگیری میں ہے۔

وعلی المعتدۃ ان تعتد فی المنزل الذی یضاف الیھا بالسکنی حال وقوع الفرقۃ والموت لقولہ تعالیٰ ولا تخرجوھن من بیوتھن ، والبیت المضاف الیھا ھو البیت الذی تسکنہ وقال علیہ السلام للتی قتل زوجھا اسکنی فی بیتک حتی یبلغ الکتاب اجل‘ وان کان نصیبھا من دارالمیت لا یکفیھا فاخرجھا الورثۃ عن نصیبھم انتقلت لان ھذا انتقال بعذر (ہدایہ ٢/٤٠٨ )فصل فی الحداد فتاویٰ عالمگیری ١/٥٣٥)


بدائع الصنائع میں ہے۔ 

وأما في حالة الضرورة فإن اضطرت إلى الخروج من بيتها بأن خافت سقوط منزلها أو خافت على متاعها أو كان المنزل بأجرة و لاتجد ما تؤديه في أجرته في عدة الوفاة فلا بأس عند ذلك أن تنتقل، وإن كانت تقدر على الأجرة لاتنتقل، وإن كان المنزل لزوجها و قد مات عنها فلها أن تسكن في نصيبها إن كان نصيبها من ذلك ما تكتفي به في السكنى وتستتر عن سائر الورثة ممن ليس بمحرم لها، و إن كان نصيبها لايكفيها أو خافت على متاعها منهم فلا بأس أن تنتقل، وإنما كان كذلك؛ لأن السكنى وجبت بطريق العبادة حقًّا لله تعالى عليها، والعبادات تسقط بالأعذار، وقد روي أنه لما قتل عمر - رضي الله عنه - نقل علي - رضي الله عنه - أم كلثوم - رضي الله عنها - لأنها كانت في دار الإجارة، وقد روي أن عائشة - رضي الله عنها - نقلت أختها أم كلثوم بنت أبي بكر - رضي الله عنه - لما قتل طلحة - رضي الله عنه - فدلّ ذلك على جواز الانتقال للعذر، وإذا كانت تقدر على أجرة البيت في عدة الوفاة فلا عذر، فلا تسقط عنها العبادة كالمتيمم إذا قدر على شراء الماء بأن وجد ثمنه وجب عليه الشراء وإن لم يقدر لايجب لعذر العدم. كذا ههنا، وإذا انتقلت لعذر يكون سكناها في البيت الذي انتقلت إليه بمنزلة كونها في المنزل الذي انتقلت منه في حرمة الخروج عنه؛ لأن الانتقال من الأول إليه كان لعذر فصار المنزل الذي انتقلت إليه كأنه منزلها من الأصل فلزمها المقام فيه حتى تنقضي العدۃ۔ (بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع مطبوعہ: دار الکتاب العلمیه ٤/٤۵۱)


فتاویٰ شامی میں ہے

(طلقت) أو مات وهي زائرة (في غير مسكنها عادت إليه فورا) لوجوبه عليها(وتعتدان) أي معتدة طلاق وموت (في بيت وجبت فيه) ولا يخرجان منه (إلا أن تخرج أو يتهدم المنزل، أو تخاف) انهدامه، أو (تلف مالها، أو لاتجد كراء البيت) ونحو ذلك من الضرورات فتخرج لأقرب موضع إليه۔ (فتاویٰ شامی كتاب العدة، ۵/۲۲۵ مطبوعة:مكتبة زكريا، ديوبند

واللہ اعلم بالصواب والیہ المرجع والمآب

العارض مفتی آصف بن محمد گودھروي

جمعرات، 31 اکتوبر، 2024

بیوی کو ایک دو تین چھوڑ دیا کہنے سے طلاق کاحکم سوال نمبر ٤٩٧

 سوال

بسم الله الرحمن الرحیم 

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام مسئلہ ذیل کے بارے ہیں۔

کہ مورخہ ١٤ اگست ٢٠٢٤ کو بوقت ۱۱ بجے دن میری بات بیوی سے موبائل پر روپے بھیجنے کے سلسلہ میں ہو رہی تھی ۔ میں نے بیوی سے کہا تمہارے اکاؤنٹ پر بھیج دیتا ہوں ۔ اس نے مجھے بچوں کی قسم دے کر کہا کہ آپ اپنے والد کے اکاؤنٹ پر بھیج دیجئے ۔ اور اس کے بعد مجھ سے بحث کرنے لگی ۔

اس پر مجھے غصہ آگیا، اور میں نے اپنی بیوی سے کہا، ایک دو تین چھوڑ دیا " جبکہ اس جملہ سے میری نیت بیوی کو طلاق دینے یا چھوڑنے کی نہیں تھی ۔ تیری ہوئی چونکہ مجھ سے اور میرے گھر والوں سے ہمیشہ لڑائی جھگڑا کرتی رہتی ہے ۔ اس لئے اس کو ڈرانے دھمکانے کے لئے یہ جملہ بولا ہوں ۔ تا کہ وہ آئندہ اپنے منھ کو بند رکھے ۔ چھوڑنے کی نیت سے میں نے نہیں کہا۔ بتایا جائے کہ اس جملہ سے طلاق واقع ہوئی یا نہیں؟ اسی طرح صریح اور کنایہ کا کیا مطلب ہے اس کو بھی بیان کریں اور اس میں طلاق کے وقوع اور عدم وقوع کی کیا تفصیل ہے؟ اس کی بھی وضاحت مطلوب ہے۔

سائل: محمد نوشاد سہرسہ


الجواب وباللہ التوفیق 

باسمہ سبحانہ وتعالی 


مذکورہ سوال میں ذکر کردہ صورت میں "ایک دو تین چھوڑ دیا" اگرچہ اپنی اصل کے اعتبار سے (چھوڑدیا) کنایہ ہیں مگر عرف کی وجہ سے یہ طلاق کے وقوع کے لیے صریح بن چکے ہیں، کیونکہ ہمارے معاشرے میں یہ الفاظ عام طور پر طلاق کے لیے ہی استعمال کیے جاتے ہیں اس لئے ان الفاظ میں طلاق کی نیت کا ہونا ضروری نہیں، لہذا آپ کے یہ الفاظ ایک دو تین کہنے کے بعد چھوڑدیا یہ ماقبل کی وضاحت ہوگئی جس کی وجہ سے آپ کی بیوی پر تین طلاقیں واقع ہوجائے گی۔


طلاق کی دو قسمیں ہے

طلاق صریح: یعنی لفظ طلاق استعمال کرنا اس کا حکم یہ ہے کہ اس میں نیت کا اعتبار نہیں ہوتا طلاقِ صریح بلا نیت وارادہ واقع ہوجاتی ہے۔


طلاق کنایہ: کنایہ کا مطلب یہ ہے کہ ایسے الفاظ استعمال کرنا جو حقیقت میں طلاق کے لئے وضع نہ ہوں بلکہ طلاق اور غیر طلاق دونوں معنوں کا احتمال رکھتے ہوں مثلا کوئی شخص اپنی بیوی سے کہے کہ "تیرا میرا کوئی تعلق نہیں" یا یہ کہے کہ توتیرے باپ کے گھر رہ اب تیری ضرورت نہیں ہے"تو ہمیشہ کے لئے تیرے گھر چلی جا وغیرہ وغیرہ"


کنائی الفاظ کا حکم یہ ہے کہ اس میں شوہر کی نیت کا اعتبار ہوگا یا دلالت حال سے یہ معلوم ہو کہ شوہر نے یہ لفظ طلاق کی نیت سے استعمال کئے ہے جیسے بیوی کہے کہ مجھے طلاق دیدو اور اس کے جواب میں یہ جملے استعمال کرے وغیرہ وغیرہ تو اس سے طلاق بائن واقع ہوجاتی ہے۔


اور اگر کوئی خاص کنائی لفظ طلاق صریح میں بکثرت استعمال ہو تو فقہی عبارات سے اس کی دو صورتیں ہو سکتی ہیں۔


(۱) اس کنائی لفظ میں حرمت یا مکمل علیحدگی کا معنی ہو جیسے لفظِ حرام اس سے طلاق بائن واقع ہوگی کیونکہ اس لفظ کا تقاضہ یہ ہے کہ اس کے بعد جماع یا دواعی جماع دونوں حلال نہ رہیں اور یہ تب ہو سکتا ہے جب طلاق بائن واقع ہو۔


(۲) اوردوسری صورت یہ ہے کہ کوئی کنائی لفظ عُرف کی وجہ سے صرف طلاق ہی میں متعارف ہو لیکن اس میں مکمل علیحدگی اور حرمت کا معنی نہ ہونیز وہ لفظ بولتے وقت ایسا کوئی لفظ یا جملہ بھی نہ بولا جائے جو اس کے معنی میں شدت اور سختی پیدا کرے تو صریح کے ساتھ لاحق ہوکر طلاق صریح کی طرح امس سے بھی ایک اور دو مرتبہ کہنے سے طلاق رجعی واقع ہوگی تیسری مرتبہ میں مغلظہ ہوجائے گی جیسے کہے میں نے تجھے چھوڑ دِیا یا میں نے تجھے آزاد کردیا وغیرہ وغیرہ۔


فتاوی شامی میں ہے

قال فی الشرنبلالیة: وقع السوٴال عن التطلیق بلغة الترک ھل ھو رجعي باعتبار القصد أو بائن باعتبار مدلول ”سن بوش“ أو ”بوش أول“ ؛ لأن معناہ خالیة أو خلیة؟ فینظر۔ قلت: وأفتی الرحمتي تلمیذ الخیر الرملي بأنہ رجعي، وقال: کما أفتی بہ شیخ الإسلام أبو السعود، ونقل مثلہ شیخ مشایخنا الترکماني عن فتاوی علی آفندي مفتی دار السلطنة وعن الحامدیة۔

ایضاً 

فإن ”سرحتک“ کنایة، لکنہ في عرف الفرس غلب استعمالہ فی الصریح، فإذا قال: ”رھا کردم“ أي: ”سرحتک“ یقع بہ الرجعي مع أن أصلہ کنایة أیضاً، وما ذاک إلا لأنہ غلب في عرف الناس استعمالہ فی الطلاق، وقد مر أن الصریح ما لم یستعمل إلا فی الطلاق من أي لغة کانت۔ (فتاوی شامی کتاب الاطلاق باب الصریح ٤/٤۵۸ //باب الکنایات ٤/۵۳۰ مطبوعہ: دار عالم الکتب)

 

فتاوی عالمگیری میں ہے

والاصل الذي عليه الفتوى في زماننا هذا في الطلاق بالفارسية انه اذا كان فيھا لفظ لا يستعمل الافي الطلاق فذلك اللفظ صريح يقع به الطلاق من غيرنية اذا أضيف إلى المرأة وما كان بالفارسية من الالفاظ ما يستعمل في الطلاق وفي غيره فهو من كنايات الفارسية فيكون حكمه حكم كنايات العربية في جميع الاحكام كذا في البدائع۔ (فتاوی عالمگیری ۱/۳۷۹ الفصل السابع في الطلاق بالالفاظ الفارسية مطبوعہ: مکتبہ دار الکتاب دیوبند)


اللباب في شرح الكتاب میں ہے

والكنايات ثلاثة أقسام: قسم منها يصلح جوابا ولا يصلح رداً ولا شتما، وهي ثلاثة ألفاظ: أمرك بيدك، اختاري، اعتدي، ومرادفها، وقسم يصلح جوابا وشتما ولا يصلح رداً، وهي خمسة ألفاظ: خلية، برية، بتة، بائن، حرام، ومرادفها، وقسم يصلح جوابا ورداً ولا يصلح سباً وشتما؛ وهي خمسة أيضا: اخرجي، اذهبي، اغربي، قومي، تقنعي، ومرادفها، ففي حالة الرضا لا يقع الطلاق بشيء منها إلا بالنية، والقول قوله في عدم النية، وفي حالة مذاكرة الطلاق يقع بكل لفظ لا يصلح للرد وهو القسم الأول والثاني، وفي حالة الغضب لا يقع بكل لفظ يصلح للسب والرد وهو القسم الثاني والثالث، ويقع بكل لفظ لا يصلح لهما بل للجواب فقط وهو القسم الأول. كما في الإيضاح۔ (اللباب في شرح الكتاب، كتاب الطلاق ۱/٤٤۵ مطبوعہ المکتبۃ العمریۃ دمشق)

واللہ أعلم بالصواب والیہ المرجع والمآب 

العارض مفتی آصف بن محمد گودھروی

اتوار، 27 اکتوبر، 2024

عورتوں کا سواری پر محارم سے چِمَٹۡ کر بیٹھنا کیسا ہے؟ سوال نمبر ٤٩٦

سوال 

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ 

مفتی صاحب آج کل جوان لڑکیاں اپنے محرم رشتہ داروں کے ساتھ ٹو ویلر یعنی بائیک پر سفر کرتی ہے اور اپنے باپ، بھائی، بیٹے کے ساتھ اس طرح بے جھجک بیٹھ جاتی ہے کے جوان لڑکی کا پورا بدن بلکہ اس کا سینہ(چھاتی)بھی اپنے باپ بھائی بیٹے کے ساتھ لگ جاتا ہے بلکہ اس کے ساتھ چپکا ہوا رہتا ہے تو کیا اس طریقے سے بیٹھنا صحیح ہے ؟کیا لڑکی کے بیٹھنے کی وجہ سے باپ کے نکاح میں کوئی فرق ائے گا ؟قران اور حدیث کی روشنی میں وضاحت فرمائے !

سائل: محمد الیاس شیخ کالول گجرات انڈیا 


الجواب وباللہ التوفیق 

باسمہ سبحانہ وتعالی 


شریعتِ مطہرہ نے عورتوں کو گھروں میں رہنے کا حکم دیا ہے بلاضرورت شدیدہ کہ وہ گھروں سے باہر نہ جائیں جیسے  زمانۂ جاہلیت میں  بلا ضرورت بے پردگی گھومنے پھرنے کا دستور تھا۔


اور فی الحال تو فتنہ و فساد اور بے حیائی عام ہے اور مرد و زن میں دینی بے زاری  کا عنصر غالب ہے عورتوں میں فیشن اور بن سنور  کر باہر نکلنے کا رواج ہے اس لئے عام حالات  میں بلا ضرورت عورت گھر سے نہ  نکلے۔


البتہ شرعی وطبعی ضروریات جس کے بغیر عورت کے لئے چارۂ کار نہ ہو تو عورتوں کو گھر سے محارم کے ساتھ باہر نکلنے کی اجازت ہیں، لیکن وہ بھی اس شرط کے ساتھ مقید ہے کہ عورت مکمل پردہ میں ہو۔


اور فی زماننا ٹو ویلر اور فور ویلر یہ جدید سواریاں ہے جیسے پہلے زمانے میں اونٹ گاڑی گھوڑا گاڑی وغیرہ ہواکرتی تھی عورتیں اپنے محارم کے ساتھ اسی پر سواری کرتیں تھی اسی طرح خواتین کا پردہ کی مکمل رعایت رکھتے ہوئے اپنے محارم یا شوہر کے ساتھ ضرورت کے موقع پر موٹرسائیکل پر بیٹھنا جائز ہے البتہ بیٹھنے کی جو ہئیت زیادہ پردہ والی اور محفوظ ہو اس کو اختیار کرنا ضروری ہے۔


اس لئے اگر ایک طرف دونوں پاؤں کرکے سِمَٹۡ کر بیٹھ سکتی ہو تو زیادہ مناسب ہے، اگر ایک طرف پاؤں کرکے بیٹھنا مشکل ہو تو دونوں طرف پیر رکھ کر بیٹھنا بھی جائزہے بشرطیکہ ان کے اعضاء مستورہ ظاہر نہ ہو جیسے کہ پیر اوپر کرنے میں پنڈلی وغیرہ کا کھل جانا اسی طرح شوہر کے علاوہ دوسرے محارم کے ساتھ اس طرح چِمَٹۡ کر بیٹھنا بھی درست نہیں ہے کہ جس سے مخصوص اعضاء کی حس محسوس ہو فتنے کے اندیشہ کی وجہ سے اور فتنے کا اندیشہ نہ ہو تو بھی احتیاط بہتر ہے اور فتنے کا اندیشہ یا یقین ہو تو جائز نہیں ہے۔


جہاں تک باپ بیٹی کا مسئلہ ہے تو ان میں بھی اس طرح سے چِمَٹۡ کر بیٹھنا کہ مخصوص اعضاء کی حس محسوس ہو خوف فتنہ کی بناء پر احتیاط بہتر ہے البتہ چونکہ اس طرح سے چِمَٹۡ کر بیٹھںے سے نکاح کی حرمت کے جو شرائط ہے وہ نہیں پائے جاتے ہیں اس لئے اس کے نکاح میں کوئی فرق نہیں آئے گا ان کا نکاح برقرار رہے گا


قرآن کریم میں ہے

وَقَرْنَ فِي بُيُوتِكُنَّ وَلَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاهِلِيَّةِ الْأُولَى وَأَقِمْنَ الصَّلَاةَ وَآتِينَ الزَّكَاةَ وَأَطِعْنَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ۔ (الأحزاب: ۳۳)


المحيط البرهاني ميں ہے

وقوله: ولا تركب امرأة مسلمة على سرج بظاهره، نهى النساء عن الركوب على السرج وبه نقول وإنه خرج موافقا لقوله عليه السلام لعن الله الفروج على السروج  والمعنى في النهي من وجهين أحدهما أن هذا تشبه بالرجال وقد نهين عن ذلك الثاني أن فيه إعلان الفتن وإظهارها للرجال وقد أمرن بالستر قالوا وهذا إذا كانت شابة وقد ركبت السرج والفرج فأما إذا كانت عجوزا أو كانت شابة إلا أنها ركبت مع زوجها بعذر بأن ركبت للجهاد وقد وقعت الحاجة إليهن للجهاد أو للحج أو للعمرة فلا بأس إن كانت مستترة فقد صح أن نساء المهاجرين كن يركبن الأفراس ويخرجن للجهاد فكان رسول الله عليه السلام يراهن و لا ينهاهن وكذلك بنات خالد بن الوليد كن يركبن ويخرجن للجهاد يسقين المجاهدين في الصفوف ويداوين الجرحى۔ (المحيط البرهاني فی فقہ النعمانی ۵/٣٨٤ كتاب الاستحسان والكراهية ط دار الكتب العلميه ، بيروت)


فتاوی شامی میں ہے

ولو لحاجۃ غزو … أي بشرط أنہ تکون متسترۃ، وأن تکون مع زوج أو محرم۔ (شامي، کتاب الحظر والإباحۃ / باب الاستبراء ٩/٤٠٤ زکریا)


فتاوی عالمگیری میں ہے

وما حل النظر إليه حل مسه ونظره وغمزه من غير حائل ولكن إنما يباح النظر إذا كان يأمن على نفسه الشهوة، فأما إذا كان يخاف على نفسه الشهوة فلا يحل له النظر، وكذلك المس إنما يباح له إذا أمن على نفسه وعليها الشهوة، وأما إذا خاف على نفسه أو عليها الشهوة فلا يحل المس له، ولا يحل أن ينظر إلى بطنها أو إلى ظهرها، ولا إلى جنبها، ولا يمس شيئا من ذلك، كذا في المحيط. وللابن أن يغمز بطن أمه وظهرها خدمة لها من وراء الثياب كذا في القنية۔ (فتاوی عالمگیری میں ہے ۵/۳۲۸)


واللہ أعلم بالصواب والیہ المرجع والمآب 

العارض مفتی آصف بن محمد گودھروی


اتوار، 29 ستمبر، 2024

بیانات اور نعت خوانی پر اجرت لینا کیسا ہے سوال نمبر ٤٩٥

سوال 

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ 

حضرت مفتی صاحب دامت برکاتہم العالیہ 

مسئلہ یہ معلوم کرنا ہے کہ قاری صاحب اور نعت خواں حضرات کو جلسے میں بلایا جاتا ہے پیسے متعین کرکے یا متعین نہ بھی کریں لیکن عرفا کچھ نہ کچھ رقم دینا متعین ہی ہے تو کیا ان حضرات کا اس پیسے کو لینا جائز ہے اگر جواب ہاں میں ہے تو کس دلیل سے ہیں یہ بھی بتلادیں جزاک اللہ خیرا

سائل: عبدالسلام خالد بلیلپوری


الجواب وباللہ التوفیق 

باسمہ سبحانہ وتعالی 


حنفیہ کا اصل موقف تو یہی ہے کہ کسی بھی طاعت وعبادت کو جو قرب الہٰی اور حصول ثواب کا ذریعہ ہو اس کو کسب معاش کا ذریعہ بنانا اور اس پہ اجرت وصول کرنا جائز نہیں ہے کتاب وسنت میں اس پر سخت وعیدیں وارد ہوئی ہے


البتہ پہلے زمانہ میں خدام دین کے لئے بیت المال سے وظائف کا انتظام تھا جن سے وہ اپنی ضروریات پوری کرلیا کرتے تھے بعد میں جب یہ سلسلہ ختم ہوگیا تو متاخرین علماء نے ضرورت کے پیش نظر اور خدام دین کے طلبِ معاش میں مصروف ہوکر خدمت دین میں غفلت کے خوف سے اور اور دینی شعائر کی حفاظت کے خاطر بتاویل وقت دینی تعلیم، امامت، اذان اور افتاء وغیرہ کی خدمات پہ معاوضہ لینے کی اجازت دی ہے جس کے نتیجہ میں دین اور دینی شعائر کو ضیاع سے محفوظ رکھا جاسکے۔


جہاں تک مقرر و نعت خواں کا مسئلہ ہے تو اس کی دو صورتیں ہیں۔

(۱) مقرر یا نعت خواں کو بطور ہدیہ کچھ لوگ بطِیب خاطر بغیر کسی شرط کے دیں  یا ملازمت کے طور پر مقرر یا نعت خواں کو اگر کچھ دیا جائے اور متعین کردیا جائے کہ مثلاً روزانہ یا ہفتہ میں ایک گھنٹہ وعظ کرنا ہے یا نعت پڑھنا ہے اور اتنے وقت کی یہ تنخواہ ہوگی، تو یہ اجیر خاص کے حکم میں ہوجائے گا لہذا اس طرح کا اجارہ کرکے بقدرِ ضرورت تنخواہ یا ہدایہ لینے میں کچھ مضائقہ نہیں۔


(۲) بلا تعیین کے مقرر یا نعت خواں کہیں تقریر کرکے روپیہ طلب کریں اور اپنے انداز سے کم ہونے پر ناراضگی اور خفگی کا اظہار کرے تو یہ درست نہیں ہے اور یہ طریقہ پسندیدہ بھی نہیں ہے اس لئے کہ اس سے وعظ کا اثر بھی ختم ہوجاتا ہے اور بلانے والے بھی رسم کے طور پر بلاتے ہیں 

اس کا اعلیٰ معیار تو یہ ہے کہ متعین یا غیرمتعین طور پر کچھ بھی نہ لیا جائے بلکہ حسبة للہ وعظ کہا جائے وہ ان شاء اللہ زیادہ موٴثر ہوگا۔


فتاوی محمودیہ میں ہے 

فتاوی محمودیہ میں ایسے ہی ایک سوال کے جواب میں حضرت تحریر بقلم ہے کہ: جس طرح تعلیم و تدریس کی ملازمت درست ہے اسی طرح تذکیر و تقریر کی ملازمت بھی درست ہے، کام متعین کر لیا جائے مثلاً ہر روز ایک گھنٹہ یا ہر جمعہ کو دو گھنٹے تقریر لازم ہوگی اور اتنا معاوضہ دیا جائے گا یا مقرر و مستقل ملازم تقریر کے لئے رکھ لیا جائے کہ جلسوں میں بلانے پر یا بغیر بلائے دیگر مقامات پر جا جا کرتقریر کرے۔

یہ طریقہ پسندیدہ نہیں ہے کہ کسی جگہ وعظ فرمایا اور روپیہ لے لئے پھر اگر اپنے انداز سے کچھ کم ہو جائے تو ناک بھوں چڑھانے لگے اس طرح وعظ کا اثر بھی ختم ہو جاتا ہے اور بلانے والے رسمی طور پر بلاتے ہیں اور بلانے سے پہلے ہی فقرے کسنے شروع کر دیتے ہیں کہ ان کو اتنا دیا گیا تھا اس سے ناخوش ہوئے تھے لہذا جب تک اس سے زیادہ کا انتظام نہ ہو جائے ان کو نہیں بلانا چاہیے وغیرہ وغیرہ:

ويفتى اليوم بصحتها لتعليم القرآن والفقه، والإمامة۔ در مختار ومثله في متن الملتقى و درالبحار وزاد بعضهم الأذان والإقامة والوعظ، اهـ . شامی ٣٤/٥ فقط واللہ اعلم۔ حرر العبد محمود غفر له، دارالعلوم دیو بند ، ۹۲/۶/۷ھ۔(فتاوی محمودیہ جدید ۱۷/۸۵)


فتاوی شامی میں ہے 

لا لأجل الطاعات مثل (الأذان والحج والإمامة وتعلیم القرآن والفقہ) ویفتی الیوم بصحتہا لتعلیم القرآن والفقہ والإمامة والأذان. وزاد بعضہم الأذان والإقامة والوعظ (فتاوی شامی ۹/۷٦ زکریا)


ہاشیہ عالمگیری میں ہے 

قال الإمام الفضلي والمتأخرون على جوازه والحيلة أن يستأجر المعلم مدة معلومة، ثم يأمره بتعليم ولده (الفتاوى البزازية على هامش الفتاوى العالمكيرية۔ ۵/٣۵ نوع في تعليم القرآن والحرف كتاب الإجارة رشيديه) 


مجمع الانہر میں ہے 

وفي المحیط: إذا أخذ المال من غیر شرط یباح له لأنه عن طوع من غیرعقد۔ (مجمع الأنہر، کتاب الإجارۃ، باب الإجارۃ الفاسدۃ، دارالکتب العلمیة بیروت ۳/ ۵۳۳)


فتاوی عالمگیری ہے 

وعلی هذا الحداء وقراءۃ الشعر وغیرہ ولا أجر في ذلك، هذا کله عند أئمتنا الثلاثة۔ (فتاوی عالمگیری جدید کتاب الإجارۃ، الباب السادس عشر في مسائل الشیوع ۔۔۔ ٤/ ۵۰۸ ط دار الکتب العلمیہ)


واللہ أعلم بالصواب والیہ المرجع والمآب 

العارض مفتی آصف بن محمد گودھروی


منگل، 17 ستمبر، 2024

صفوں کے دونوں کناروں پر جگہ چھوڑنا کیسا ہے سوال نمبر ٤٩٤

 سوال 

بسم اللہ الرحمن الرحیم 

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ 

مسجد کی حدود کے دونوں طرف برابر میں جگہ باقی ہے(جو مسجد ہی کے اندر ہے) اس میں الگ صف بھی بچھی ہوئی ہے اس سے متعلق معلوم کرنا ہے کہ صف میں کھڑے ہونے کا جو حکم ہے کہ پہلے اگلی صف مکمل کی جائے اور اگلی صف میں جگہ چھوڑ کر پیچھے صف بناکر کھڑا ہونا مکروہ ہے تو کیا حدود والی جگہ کے پُر ہوجانے کے بعد اس سے ملی ہوئی حدود سے باہر والی جگہ پر صف لگائی جائے گی یا اس کو چھوڑ دیا جائے اور حدود کے اندر ہی پیچھے صف بنائی جائیں گی اس کی وضاحت فرما دیں جزاک اللہ خیرا

سائل عبد السلام خالد بلیل پوری


الجواب وباللہ التوفیق 

باسمہ سبحانہ وتعالی 


مسجد میں بلا وجہ صفوں کے کناروں پر جگہ چھوڑنا درست نہیں ہے البتہ اگر مجبوری ہو تو درست ہے ورنہ دونوں طرف صف کو پورا کرنا ضروری ہے۔

جیسے مسجد میں توسیع کرنے کی وجہ سے مسجد کافی وسیع ہوجائے کہ جس کی وجہ سے باربار صفوں کا اٹھانا اور بچھانا دشوار ہو جس کی بناء پر دونوں کناروں پر جگہ چھوڑی جائے۔


مسجد کی صفوں کے کناروں پر دروازے نہیں ہے اور آگے کی صفوں کے نمازیوں کو بسااوقات ایمرجنسی امور کے لئے نکلنے کی ضرورت میں دشواری کا سامنا ہو جس کی بناء پر دونوں کناروں پر جگہ چھوڑی جائے۔


فرض نماز کے بعد جگہ تبدیل کر کے سنتیں وغیرہ ادا کرنا مستحب ہے اگر مقتدی اس پر عمل کرنا چاہتے ہوں اور وہاں سے ہٹکر کسی اور جگہ نہیں جاسکتے جس کی بناء پر دونوں کناروں پر جگہ چھوڑی جائے۔


ان صورتوں میں انتظامی طور پر اگر صفوں کی ترتیب ایسی رکھی جائے کہ دونوں کناروں میں جگہ خالی رکھی گئی ہو تو ضرورت کی وجہ سے وہ اس حدیث (( ومن قطع صفًّا قطعه الله)) کی خلاف ورزی کرنے والوں میں شامل نہیں ہوگا۔



اس طرح کے سوال کے جواب میں فتاوی قاسمیہ میں حضرات مفتی شبیر احمد مرادآبادی نے جواب تحریر فرمایا ہے۔


سوال [۲۴۸۹] کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ ایک مسجد ہے جس کی توسیع کی گئی ہے، تو کیا اس مسجد کے اندر دائیں بائیں جانب صفوں میں کچھ جگہ چھوڑ دی جائے اور بیچ بیچ میں صفوں کو بچھایا جائے ، کیا ایسا کرنے میں کوئی کراہت وغیرہ تو نہیں ؟

المستفتی: افتخار، ہری دواری


باسمہ سبحانہ وتعالیٰ 

الجواب وبالله التوفيق

دائیں بائیں سے حدود مسجد کے اندر صفوں کی جگہ چھوڑ کر کے بیچ و بیچ صفوں کو بچھا دینا اور دائیں بائیں جگہ کو خالی رکھنا مکروہ ہے یہ ایسا ہے جیسا کہ اگلی صف میں جگہ چھوڑ کر پچھلی صف میں کھڑے ہو کر نیت باندھنا؛ ہاں البتہ مسجد بہت بڑی ہے جیسے کہ دلی کی جامع مسجد کا صحن، بھوپال کی تاج المساجد کا صحن، ایسی مسجدوں میں جمعہ کے علاوہ نمازوں میں دائیں بائیں کی صفوں کا پر کرنا بہت مشکل ہے اس لئے ایسی مسجدوں میں اس بات کی گنجائش ہو سکتی ہے کہ بیچ و بیچ صفیں بچھادی جائیں اور نمازیوں کو اس نمازی کے درجے میں قرار دیا جا سکتا ہے، جو نمازی امام کے رکوع کے وقت صفوں میں پہونچ رہا ہے اور اگر وہ صفوں کے دائیں اور بائیں جانب پہنچ کر نیت باندھے گا تو اس کی رکعت چھوٹ جائے گی ، تو اس کے لئے پیچھے کی صف میں کھڑے ہو کر نیت باندھنا بلا کراہت جائز ہے۔ نیز اتنی بڑی مسجد کی صفوں کو پانچوں وقت کے لئے بچھانا اور پھر صفوں کو اٹھانا خدام مسجد کے لئے بہت ہی دشوار کن ہے؛ اس لئے بیچ کے حصہ میں مشقت سے بچنے کے لئے گنجائش ہو سکتی ہے۔


عن زيد بن وهب، قال: خرجت مع عبد الله یعنی ابن مسعود من داره إلى المسجد، فلما توسطنا المسجد ركع الإمام، فكبر عبد الله وركع وركعت معه ، ثم مشينا راكعين، حتى انتهينا إلى الصف حين رفع القوم رؤوسهم. (السنن الكبرى ٤١١/٢ ، رقم: ٢٦٤١)


روي عنه عليه السلام أنه قال يكتب للذي خلف الإمام بحذائه مأة صلاة وللذي في الجانب الأيمن خمسة وسبعون صلاة وللذي في المحارب الايسر خمسون صلاة وللذي في سائر الصفوف خمسة وعشرون صلاة.(البحر الرائق، كتاب الصلوة، باب الإقامة زكريا ٦١٩/١، کراچی (٣٥٤/١)


لا تذروفرجات للشيطان من وصل صفا وصله الله. الحديث (ابو داؤد، کتاب الصلاة، باب تسوية الصفوف النسخة الهندية ۹۷/۱ ، دار السلام رقم : ٦٦٦ ، بحر، كتاب الصلاة، باب الإمامة زكريا ٦١٨/١ ، كوئنة ٣٥٣/١)


وعن جابر بن سمرة، قال: خرج علينا رسول الله صلى الله عليه وسلم في حديث طويل، فقال ألا تصفون كما تصف الملائكة إلى قوله - يتمون الصفوف الأولى ويتراصون في الصف. (مسلم شريف، كتاب الصلاة، باب الأمر بالسكون في الصلاة، النسخة الهندية ۱۸۱/۱، بيت الأفكار رقم: ٤٣٠) فقط والله سبحانه وتعالى اعلم۔ (فتاوی قاسمیہ ۷/۸۳)


اسی طرح فتاوی بنوریہ میں ہے

سوال: مفتی صاحب بعض مساجد میں یہ دیکھا گیا ہے کہ صف کے دونوں کناروں میں راستہ رکھا جاتا ہے، تاکہ جماعت کی نماز ختم ہونے پر اگر کسی نمازی کو جانا ہو، تو وہ کنارے سےگزر جائے، مسبوق کی وجہ سے انتظار نہ کرنا پڑے، اس طرح کناروں میں کچھ راستہ رکھ کر صف بنانا صحیح ہے ؟

جزاک اللہ خیرا و احسن الجزاء


جواب: واضح رہے کہ فرض نماز کے بعد جگہ تبدیل کر کے سنتیں وغیرہ ادا کرنا مستحب ہے، اگر مقتدی اس پر عمل کرنا چاہتے ہوں، یا اسی طرح بعض اوقات کسی مقتدی کو فرض نماز کے فورا بعد جلدی میں کہیں جانا پڑ جاتا ہے اور مسجد کی تعمیر اس طرح ہوئی ہو کہ صفوں کے کناروں پر دروازے نہ ہوں، تو ایسی صورت میں فرض نماز کی ادائیگی کے بعد نمازیوں کو اپنی جگہ سے ہٹنے کی سہولت کے لیے انتظامی طور پر اگر صفوں کی ترتیب ایسی رکھی جائے کہ دونوں کناروں میں گزرگاہ کے طور پر جگہ خالی رکھی گئی ہو تو اس سے نماز کی ادائیگی پر کوئی اثر نہیں پڑتا ہے، البتہ اس بات کا خیال رکھا جائے کہ امام صفوں کے درمیان میں کھڑا ہو اور صفوں کی دونوں جانب برابر ہوں۔


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دلائل:


سنن أبي داود: (باب مقام الإمام من الصف دار السلام، رقم الحدیث: 681)

عن أبی ہریرۃ ؓ قال: قال رسول الله صلی الله علیہ وسلم: "وسطوا الإمام وسدوا الخلل".


مرقاة المفاتیح: (رقم الحدیث: 953، 757/2، ط: دار الفکر)

وعن عطاء الخراساني، عن المغيرة - رضي الله عنه - قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم " «لا يصلي الإمام في الموضع الذي صلى فيه حتى يتحول» "، رواه أبو داود، وقال: عطاء الخراساني لم يدرك المغيرة.

وقوله: (" حتى يتحول ") ، أي: ينتقل إلى موضع، جاء للتأكيد، فإن قوله: لا يصلي في موضع صلى - فيه أفاد ما أفاده، وقال المظهر: ونهي عن ذلك ليشهد له الموضعان بالطاعة يوم القيامة، ولذلك يستحب تكثير العبادة في مواضع مختلفة.


نیل الاوطار: (235/3، ط: دار الحدیث)

وَالْعِلَّة فِي ذَلِكَ تَكْثِير مَوَاضِع الْعِبَادَة كَمَا قَالَ الْبُخَارِيُّ وَالْبَغَوِيِّ لِأَنَّ مَوَاضِع السُّجُود تَشْهَد لَهُ كَمَا فِي قَوْله تَعَالَى: {يَوْمَئِذٍ تُحَدِّثُ أَخْبَارَهَا} [الزلزلة: 4] أَيْ تُخْبِر بِمَا عُمِلَ عَلَيْهَا. وَوَرَدَ فِي تَفْسِير قَوْله تَعَالَى: {فَمَا بَكَتْ عَلَيْهِمُ السَّمَاءُ وَالأَرْضُ} [الدخان: 29] " إنَّ الْمُؤْمِن إذَا مَاتَ بَكَى عَلَيْهِ مُصَلَّاهُ مِنْ الْأَرْض وَمِصْعَدُ عَمَلِهِ مِنْ السَّمَاءِ " وَهَذِهِ الْعِلَّة تَقْتَضِي أَيْضًا أَنْ يَنْتَقِل إلَى الْفَرْض مِنْ مَوْضِع نَفْلِهِ، وَأَنْ يَنْتَقِل لِكُلِّ صَلَاة يَفْتَتِحهَا مِنْ أَفْرَاد النَّوَافِل، فَإِنْ لَمْ يَنْتَقِل فَيَنْبَغِي أَنْ يَفْصِل بِالْكَلَامِ لِحَدِيثِ النَّهْي عَنْ أَنْ تُوصَل صَلَاة بِصَلَاةٍ حَتَّى يَتَكَلَّم الْمُصَلِّي أَوْ يَخْرُج، أَخْرَجَهُ مُسْلِمٌ وَأَبُو دَاوُد. آن لائن دارالافتاء الاخلاص،کراچی


واللہ أعلم بالصواب والیہ المرجع والمآب 

العارض مفتی آصف بن محمد گودھروی


جمعہ، 13 ستمبر، 2024

ٹوٹے ہوئے برتنوں کو استعمال کرنا کیسا ہے؟ سوال نمبر ٤۹۳

 سوال 

السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ

 کیا فرماتے ہیں علمائے دین اور مفتیان کرام مسئلے ذیل کے بارے میں کہ ٹوٹی ہوئی چیزیں استعمال کرنے کی شریعت میں ہے کیا ہے تو کن چیزوں کی کون سی چیزیں ایسی ہیں ٹوٹی میں جن کا استعمال کرنا ناجائز ہے حدیث اور قران کی روشنی میں جواب عنایت فرمائے۔ 

سائل محمد صادق رشیدی مہاراشٹر


الجواب وباللہ التوفیق 

باسمہ سبحانہ وتعالی 


احادیث مبارکہ میں برتنوں کے علاوہ دوسری ٹوٹی ہوئی اشیاء کے استعمال کی کراہت وارد نہیں ہے صرف ٹوٹے ہوئے برتنوں کی کراہت کی وضاحت ہے یعنی احادیث میں ٹوٹے ہوئے برتنوں کو کھانے پینے میں استعمال کرنا مکروہ فرمایا ہے، البتہ اہلِ علم حضرات اس حدیث کے تحت یہ وضاحت فرماتے ہیں کہ یہ نہی صرف شفقت و مہربانی کے لئے ہے، جس کو نہیٔ ارشادی سے تعبیر کیا جاتا ہے جو امت پر بطور ترحم کے وار ہوئی ہے۔


 جس کی خاص وجوہات یہ ہے کہ ٹوٹی ہوئی جگہ پر منہ لگا کر پانی پینے سے پانی گرنے کا اندیشہ ہے اور ٹوٹی ہوئی جگہ کے استعمال میں منہ یا ہاتھ میں چبھنے کا خطرہ ہے اسی طرح ٹوٹی ہوئی جگہ پر گندگی جم جانے کی وجہ سے منہ میں جانے کا امکان ہے نیز اس کا استعمال طبع سلیم کے بھی خلاف ہے۔


البتہ علماء کی تصریحات کے مطابق ٹوٹے ہوئے برتنوں کا استعمال اس شرط کے ساتھ جائز ہے کہ وہ نقصان دہ نہ ہو اور اپنے مقصد کو پورا کرنے کے قابل ہو جیسے کہ پیالہ یا گلاس یا کوئی بھی برتن ہو اس کا جس طرف کا حصہ ٹوٹا نہیں ہے اس جگہ سے استعمال کرے تو گنجائش ہے۔


یا مجبوری کی صورت میں ہو جیسے کہ ٹوٹے ہوئے برتن کے علاوہ کوئی دوسرا برتن ہی نہ ہو تو اسے استعمال کرنے کی اجازت ہے۔


یا ٹوٹی ہوئی جگہ کے استعمال کی ضرورت نہ ہو جیسے کہ برتن ایسا ہے جسے منہ لگائے بغیر استعمال کیا جاسکتا ہے  تو اس کے استعمال میں کراہت نہیں۔


احسن الفتاوی میں ایک سوال کے جواب میں تحریر فرمایا ہے کہ پیالے کی ٹوٹی ہوئی جگہ پر منہ لگا کر پینا مکروہ ہے۔

وجوہ کراہت یہ ہیں - پانی گرنے کا اندیشہ ہے - منہ میں چھنے کا خطرہ ہے - اس مقام پر میل وغیرہ جما ہوا ہوتا ہے - یہ طبع سلیم کے خلاف ہے۔

عن ابي سعيد الخدري رضى الله تعالى عنه انه قال نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن الشرب من ثلمة القدح وان ينفخ في الشراب۔ (سنن ابی داؤد ۸۳/۲)

عن ابي هريرة رضى الله تعالى عنه انه كره ان يشرب الرجل من كسر القدح او يتوضأ منه (مصنف عبد الرزاق ١٠/٤٢٨) (احسن الفتاوی ۸/۱۲۸)


سنن أبي داؤد میں ہے 

عن أبي سعید الخدري رضي اللّٰہ عنہ أنہ قال: نہی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم عن الشرب من ثلمۃ القدح وأن ینفخ في الشراب۔ (سنن ابی داؤد باب في الشرب من ثلمۃ القدح، رقم الحدیث: ۲/۱٦٧ ط مکتبہ رحمانیہ)


العیون المعبود میں ہے

قال الخطابي إنما نهى عن الشراب من ثلمة القدح لأنه إذا شرب منه تصب الماء وسأل قطره على وجهه وثوبه لأن الثلمة لا يتماسك عليها شفة الشارب كما يتماسك على الموضع الصحيح من الكوز والقدح . وقد قيل إنه مقعد الشيطان فيحتمل أن يكون المعنى في ذلك أن موضع الثلمة لا يناله التنظيف التام إذا غسل الإناء ، فيكون شربه على غير نظافة ، وذلك من فعل الشيطان وتسويله ، وكذلك إذا خرج من الثلمة وأصاب وجهه وثوبه فإنما هو من إعنات الشيطان وإيذائه إياه واللہ أعلم (العیون المعبود ۱۰/۱۸۹)


مرقاۃ المفاتیح میں ہے 

قال نهى رسول الله عن الشرب من ثلمة القدح بضم المثلثة وسكون اللام هي موضع الكسر منه قال الخطابي إنما نهى عن الشرب من ثلمة القدح لأنها لا تتماسك عليها شفة الشارب فإنه إذا شرب منها ينصب الماء ويسيل على وجهه وثوبه زاد ابن الملك أو لأن موضعها لا يناله التنظيف التام عند غسل الإناء۔ (مرقاۃ المفاتیح ٨/١٧٤ ط دار الکتب العلمیہ)


بذل المجہود میں ہے 

نہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عن الشرب من ثلمة القدح) ای عن فرجة منه قال فى المجمع لانه لايتماسك عليها فم الشارب وربما التنظیف الماء على ثوبه وبدنه وقيل لايناله التنظيف التام اذاغسل الاناء وورد انه مقعد الشيطان ولعله اراد به عدم النظافة۔ (بذل المجہود ١٦/۵٤ ط دار الکتب العلمیہ)


واللہ أعلم بالصواب والیہ المرجع والمآب 

العارض مفتی آصف بن محمد گودھروی


جمعہ، 6 ستمبر، 2024

سوتیلے نانا اور سوتیلے ماموں سے پردے کا حکم سوال نمبر ٤٩٢

 سوال 

السلام علیکم و رحمۃاللہ وبرکاتہ 

امید ہے کہ آپ بخیر و عافیت ہونگے ۔ایک مسئلہ تھا کہ مثلا زید کی ایک بیوی تھی عائشہ اور اسکی بیٹی ہے رقیہ زید سے ہی۔اور بعد میں زید نے دوسری شادی کی فاطمہ سے۔اور اسکی اولاد بھی زید سے ہی ہے تو اس صورت میں تو علاتی بھائی بہن کی وجہ سے پردہ نہیں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ رقیہ زید کی دوسری بیوی کے بھائی اور باپ سے پردہ کرےگی؟؟

سائل: مولوی عبد الحسیب اسلام پوری


الجواب وباللہ التوفیق 

باسمہ سبحانہ وتعالی 


شریعت مطہرہ میں جس طرح ماں کے اصول وفروع محرم ہے اسی طرح باپ کی موطوءه (یعنی جس عورت سے باپ نے وطی کی ہے جیسے سوتیلی ماں) کے اصول وفروع محرم شمار ہوں گے لہذا سوتیلی نانی اور سوتیلے نانا سے اگر فتنے کا خوف نہ ہو تو شرعاً پردہ ضروری نہیں ہے۔

صورت مسؤلہ میں رقیہ، زید کی دوسری بیوی کے باپ یعنی اپنے سوتیلے نانا سے (اگر فتنے کا خوف نہ ہو تو) شرعاً پردہ کرنا ضروری نہیں ہے اس لئے کہ وہ اس کے لئے محرم ہے البتہ رقیہ کے لئے زید کی دوسری بیوی کے بھائی یعنی سوتیلے ماموں سے شرعاً پردہ ضروری ہے اس لئے کہ وہ اس کا محرم نہیں ہے۔


قرآن کریم میں ہے

قال اللہ تعالیٰ : {وَ لَا تَنْكِحُوا مَا نَكَحَ آبَاؤُكُمْ مِنَ النِّسَاءِ إِلَّا مَا قَدْ سَلَفَ إِنَّهُ كَانَ فَاحِشَةً وَ مَقْتًا وَ سَاءَ سَبِيلًا} (النساء: ۲۲)


اسی آیت کے تحت تفسير مظہری میں ہے

المراد بالآباء الأصول بعموم المجاز اجماعا حتى يحرم منكوحة الجد و ان علا سواء كان الجد من قبل الأب او من قبل الام اھ


الھدایہ میں ہے

لا یحل للرجل ان یتزوج بامہ، ۔۔۔۔۔۔۔ ولا بامرأۃ ابیہ و اجدادہ، لقولہ تعالیٰ"ولا تنکحوا ما نکاح اٰبائکم۔ (ھدایہ ۲/۳۲۷ ط: مکتبہ رحمانیہ)


فتاوی عالمگیری میں ہے 

و یجوز بین امرأۃ وبنت زوجہا فإن المرأۃ لو فرضت ذکرا حلت لہ تلک البنت بخلاف العکس۔ (فتاوی عالمگیری ۱/۲۷۷ ط رشیدیۃ)


واللہ أعلم بالصواب والیہ المرجع والمآب 

العارض مفتی آصف بن محمد گودھروی