سوال
بسم اللہ الرحمن الرحیم
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
مسجد کی حدود کے دونوں طرف برابر میں جگہ باقی ہے(جو مسجد ہی کے اندر ہے) اس میں الگ صف بھی بچھی ہوئی ہے اس سے متعلق معلوم کرنا ہے کہ صف میں کھڑے ہونے کا جو حکم ہے کہ پہلے اگلی صف مکمل کی جائے اور اگلی صف میں جگہ چھوڑ کر پیچھے صف بناکر کھڑا ہونا مکروہ ہے تو کیا حدود والی جگہ کے پُر ہوجانے کے بعد اس سے ملی ہوئی حدود سے باہر والی جگہ پر صف لگائی جائے گی یا اس کو چھوڑ دیا جائے اور حدود کے اندر ہی پیچھے صف بنائی جائیں گی اس کی وضاحت فرما دیں جزاک اللہ خیرا
سائل عبد السلام خالد بلیل پوری
الجواب وباللہ التوفیق
باسمہ سبحانہ وتعالی
مسجد میں بلا وجہ صفوں کے کناروں پر جگہ چھوڑنا درست نہیں ہے البتہ اگر مجبوری ہو تو درست ہے ورنہ دونوں طرف صف کو پورا کرنا ضروری ہے۔
جیسے مسجد میں توسیع کرنے کی وجہ سے مسجد کافی وسیع ہوجائے کہ جس کی وجہ سے باربار صفوں کا اٹھانا اور بچھانا دشوار ہو جس کی بناء پر دونوں کناروں پر جگہ چھوڑی جائے۔
مسجد کی صفوں کے کناروں پر دروازے نہیں ہے اور آگے کی صفوں کے نمازیوں کو بسااوقات ایمرجنسی امور کے لئے نکلنے کی ضرورت میں دشواری کا سامنا ہو جس کی بناء پر دونوں کناروں پر جگہ چھوڑی جائے۔
فرض نماز کے بعد جگہ تبدیل کر کے سنتیں وغیرہ ادا کرنا مستحب ہے اگر مقتدی اس پر عمل کرنا چاہتے ہوں اور وہاں سے ہٹکر کسی اور جگہ نہیں جاسکتے جس کی بناء پر دونوں کناروں پر جگہ چھوڑی جائے۔
ان صورتوں میں انتظامی طور پر اگر صفوں کی ترتیب ایسی رکھی جائے کہ دونوں کناروں میں جگہ خالی رکھی گئی ہو تو ضرورت کی وجہ سے وہ اس حدیث (( ومن قطع صفًّا قطعه الله)) کی خلاف ورزی کرنے والوں میں شامل نہیں ہوگا۔
اس طرح کے سوال کے جواب میں فتاوی قاسمیہ میں حضرات مفتی شبیر احمد مرادآبادی نے جواب تحریر فرمایا ہے۔
سوال [۲۴۸۹] کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ ایک مسجد ہے جس کی توسیع کی گئی ہے، تو کیا اس مسجد کے اندر دائیں بائیں جانب صفوں میں کچھ جگہ چھوڑ دی جائے اور بیچ بیچ میں صفوں کو بچھایا جائے ، کیا ایسا کرنے میں کوئی کراہت وغیرہ تو نہیں ؟
المستفتی: افتخار، ہری دواری
باسمہ سبحانہ وتعالیٰ
الجواب وبالله التوفيق
دائیں بائیں سے حدود مسجد کے اندر صفوں کی جگہ چھوڑ کر کے بیچ و بیچ صفوں کو بچھا دینا اور دائیں بائیں جگہ کو خالی رکھنا مکروہ ہے یہ ایسا ہے جیسا کہ اگلی صف میں جگہ چھوڑ کر پچھلی صف میں کھڑے ہو کر نیت باندھنا؛ ہاں البتہ مسجد بہت بڑی ہے جیسے کہ دلی کی جامع مسجد کا صحن، بھوپال کی تاج المساجد کا صحن، ایسی مسجدوں میں جمعہ کے علاوہ نمازوں میں دائیں بائیں کی صفوں کا پر کرنا بہت مشکل ہے اس لئے ایسی مسجدوں میں اس بات کی گنجائش ہو سکتی ہے کہ بیچ و بیچ صفیں بچھادی جائیں اور نمازیوں کو اس نمازی کے درجے میں قرار دیا جا سکتا ہے، جو نمازی امام کے رکوع کے وقت صفوں میں پہونچ رہا ہے اور اگر وہ صفوں کے دائیں اور بائیں جانب پہنچ کر نیت باندھے گا تو اس کی رکعت چھوٹ جائے گی ، تو اس کے لئے پیچھے کی صف میں کھڑے ہو کر نیت باندھنا بلا کراہت جائز ہے۔ نیز اتنی بڑی مسجد کی صفوں کو پانچوں وقت کے لئے بچھانا اور پھر صفوں کو اٹھانا خدام مسجد کے لئے بہت ہی دشوار کن ہے؛ اس لئے بیچ کے حصہ میں مشقت سے بچنے کے لئے گنجائش ہو سکتی ہے۔
عن زيد بن وهب، قال: خرجت مع عبد الله یعنی ابن مسعود من داره إلى المسجد، فلما توسطنا المسجد ركع الإمام، فكبر عبد الله وركع وركعت معه ، ثم مشينا راكعين، حتى انتهينا إلى الصف حين رفع القوم رؤوسهم. (السنن الكبرى ٤١١/٢ ، رقم: ٢٦٤١)
روي عنه عليه السلام أنه قال يكتب للذي خلف الإمام بحذائه مأة صلاة وللذي في الجانب الأيمن خمسة وسبعون صلاة وللذي في المحارب الايسر خمسون صلاة وللذي في سائر الصفوف خمسة وعشرون صلاة.(البحر الرائق، كتاب الصلوة، باب الإقامة زكريا ٦١٩/١، کراچی (٣٥٤/١)
لا تذروفرجات للشيطان من وصل صفا وصله الله. الحديث (ابو داؤد، کتاب الصلاة، باب تسوية الصفوف النسخة الهندية ۹۷/۱ ، دار السلام رقم : ٦٦٦ ، بحر، كتاب الصلاة، باب الإمامة زكريا ٦١٨/١ ، كوئنة ٣٥٣/١)
وعن جابر بن سمرة، قال: خرج علينا رسول الله صلى الله عليه وسلم في حديث طويل، فقال ألا تصفون كما تصف الملائكة إلى قوله - يتمون الصفوف الأولى ويتراصون في الصف. (مسلم شريف، كتاب الصلاة، باب الأمر بالسكون في الصلاة، النسخة الهندية ۱۸۱/۱، بيت الأفكار رقم: ٤٣٠) فقط والله سبحانه وتعالى اعلم۔ (فتاوی قاسمیہ ۷/۸۳)
اسی طرح فتاوی بنوریہ میں ہے
سوال: مفتی صاحب بعض مساجد میں یہ دیکھا گیا ہے کہ صف کے دونوں کناروں میں راستہ رکھا جاتا ہے، تاکہ جماعت کی نماز ختم ہونے پر اگر کسی نمازی کو جانا ہو، تو وہ کنارے سےگزر جائے، مسبوق کی وجہ سے انتظار نہ کرنا پڑے، اس طرح کناروں میں کچھ راستہ رکھ کر صف بنانا صحیح ہے ؟
جزاک اللہ خیرا و احسن الجزاء
جواب: واضح رہے کہ فرض نماز کے بعد جگہ تبدیل کر کے سنتیں وغیرہ ادا کرنا مستحب ہے، اگر مقتدی اس پر عمل کرنا چاہتے ہوں، یا اسی طرح بعض اوقات کسی مقتدی کو فرض نماز کے فورا بعد جلدی میں کہیں جانا پڑ جاتا ہے اور مسجد کی تعمیر اس طرح ہوئی ہو کہ صفوں کے کناروں پر دروازے نہ ہوں، تو ایسی صورت میں فرض نماز کی ادائیگی کے بعد نمازیوں کو اپنی جگہ سے ہٹنے کی سہولت کے لیے انتظامی طور پر اگر صفوں کی ترتیب ایسی رکھی جائے کہ دونوں کناروں میں گزرگاہ کے طور پر جگہ خالی رکھی گئی ہو تو اس سے نماز کی ادائیگی پر کوئی اثر نہیں پڑتا ہے، البتہ اس بات کا خیال رکھا جائے کہ امام صفوں کے درمیان میں کھڑا ہو اور صفوں کی دونوں جانب برابر ہوں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
سنن أبي داود: (باب مقام الإمام من الصف دار السلام، رقم الحدیث: 681)
عن أبی ہریرۃ ؓ قال: قال رسول الله صلی الله علیہ وسلم: "وسطوا الإمام وسدوا الخلل".
مرقاة المفاتیح: (رقم الحدیث: 953، 757/2، ط: دار الفکر)
وعن عطاء الخراساني، عن المغيرة - رضي الله عنه - قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم " «لا يصلي الإمام في الموضع الذي صلى فيه حتى يتحول» "، رواه أبو داود، وقال: عطاء الخراساني لم يدرك المغيرة.
وقوله: (" حتى يتحول ") ، أي: ينتقل إلى موضع، جاء للتأكيد، فإن قوله: لا يصلي في موضع صلى - فيه أفاد ما أفاده، وقال المظهر: ونهي عن ذلك ليشهد له الموضعان بالطاعة يوم القيامة، ولذلك يستحب تكثير العبادة في مواضع مختلفة.
نیل الاوطار: (235/3، ط: دار الحدیث)
وَالْعِلَّة فِي ذَلِكَ تَكْثِير مَوَاضِع الْعِبَادَة كَمَا قَالَ الْبُخَارِيُّ وَالْبَغَوِيِّ لِأَنَّ مَوَاضِع السُّجُود تَشْهَد لَهُ كَمَا فِي قَوْله تَعَالَى: {يَوْمَئِذٍ تُحَدِّثُ أَخْبَارَهَا} [الزلزلة: 4] أَيْ تُخْبِر بِمَا عُمِلَ عَلَيْهَا. وَوَرَدَ فِي تَفْسِير قَوْله تَعَالَى: {فَمَا بَكَتْ عَلَيْهِمُ السَّمَاءُ وَالأَرْضُ} [الدخان: 29] " إنَّ الْمُؤْمِن إذَا مَاتَ بَكَى عَلَيْهِ مُصَلَّاهُ مِنْ الْأَرْض وَمِصْعَدُ عَمَلِهِ مِنْ السَّمَاءِ " وَهَذِهِ الْعِلَّة تَقْتَضِي أَيْضًا أَنْ يَنْتَقِل إلَى الْفَرْض مِنْ مَوْضِع نَفْلِهِ، وَأَنْ يَنْتَقِل لِكُلِّ صَلَاة يَفْتَتِحهَا مِنْ أَفْرَاد النَّوَافِل، فَإِنْ لَمْ يَنْتَقِل فَيَنْبَغِي أَنْ يَفْصِل بِالْكَلَامِ لِحَدِيثِ النَّهْي عَنْ أَنْ تُوصَل صَلَاة بِصَلَاةٍ حَتَّى يَتَكَلَّم الْمُصَلِّي أَوْ يَخْرُج، أَخْرَجَهُ مُسْلِمٌ وَأَبُو دَاوُد. آن لائن دارالافتاء الاخلاص،کراچی
واللہ أعلم بالصواب والیہ المرجع والمآب
العارض مفتی آصف بن محمد گودھروی